اللہ تعالیٰ خلیفہ کیسے منتخب فرماتا ہے؟ (قسط اوّل)
(عربی رسالہ ’’التقویٰ‘‘ کے خلافت احمدیہ صدسالہ جوبلی نمبر (2008ء) میں شائع شدہ مضمون کا اردو ترجمہ)
(ترجمہ: محمد اظہر خان منگلا۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)
اسلام میں خلافت کا موضوع بڑا وسیع اور اہمیت کا حامل ہے۔اس کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک پہلو کو اس مضمون میں بیان کروں گا اور وہ یہ ہے کہ’’اللہ تعالیٰ خلیفہ کیسے بناتا ہے‘‘۔اس موضوع پر کچھ کہنے سے قبل میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خلافت کی دو قسمیں ہیں :خلافت ربّانی اور خلافت بشری۔ان دونوں قسموں کی کچھ تفصیلی وضاحت فائدہ مند ہو گی۔
خلافت ربّانی
خلافت ربّانی، خلافت کی وہ قسم ہے جس میں اللہ تعالیٰ خلیفہ کو منتخب کرتا ہے۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔
الف۔بلاواسطہ۔ب۔بالواسطہ۔
٭…الف۔ خلافت ربّانی بلا واسطہ
الف۔خلافت ربّانی بلا واسطہ وہ خلافت ہے جس میں اللہ تعالیٰ خود خلیفہ کو منتخب کرتا ہے اس میں کسی انسان کا دخل نہیں ہوتا۔ قرآن کریم نے اس خلافت کی دو مثالیں بیان کی ہیں۔ پہلی مثال حضرت آدم علیہ السلام کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً (البقرة:31)
اور (یاد رکھ ) جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
اور دوسری مثال حضرت داؤد علیہ السلام کی ہے۔ جیساکہ فرماتا ہے :
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ …۔ (ص:27)
اے دا ؤد! یقیناً ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر…۔
جب اللہ تعالیٰ خلیفہ کوبلا واسطہ منتخب کرتا ہے تو وہ خلیفہ،اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے اور اسے خلیفة اللہ کہا جاتا ہے۔پس ہر نبی اور ہر رسول خلیفة اللہ ہے اور نبوّت در اصل بلا واسطہ خلافت ربّانی ہے۔اللہ تعالیٰ خود خلیفہ کو (یعنی نبی کو) منتخب کرتا ہے اس میں کسی انسان کا دخل نہیں ہوتاجیسا کہ رسول اللہﷺ نے امام مہدی کے متعلق فرمایا کہ
’’خَلِیْفَةُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ‘‘
یعنی امام مہدی خلیفة اللہ ہو گا۔
٭…ب۔خلافت ربّانی بالواسطہ
خلافت ربّانی کی دوسری قسم وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ خلیفہ کو بالواسطہ منتخب کرتا ہے اور اسلام میں اس خلافت کو ’’خلافت راشدہ‘‘کہا جاتا ہے۔اور یہ وہ خلافت ہے جو کسی نبی یا رسول کے بعد ہوتی ہے۔اس لیے اسے اس نبی یا رسول کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اور اس خلیفہ کو خلیفة النبییا خلیفة الرسولیا خلیفة المسیحکہا جاتا ہے۔اور رسول اللہﷺ نے اس خلافت کو ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ ہر نبوت کے بعدضرور خلافت آتی ہے۔ آپ کی ایک اور حدیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بنی اسرائیل میں نبی آتے رہے ہیں جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا تو اس کے بعد نبی ہی خلیفہ ہوتا اور حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
ان دونوں حدیثوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ ’’خلیفہ‘‘کا اطلاق نبی اور غیر نبی دونوں پر ہو سکتا ہے۔ پس نبی کا جانشین ایک ایسا خلیفہ بھی ہو سکتا ہے جو خود بھی نبی ہو۔ یعنی ایسا خلیفہ جسے اللہ تعالیٰ نے بلا واسطہ چُنا ہو۔ جیسا کہ سلیمان علیہ السلام، داؤد علیہ السلام کے بعد خلیفہ ہوئے۔ اور نبی کا جانشین ایسا خلیفہ بھی ہو سکتا ہے جو نبی نہ ہو۔ یعنی ایسا خلیفہ جسے چُنا تو اللہ ہی نے ہو لیکن بالواسطہ چُنا ہو۔
ان معنوں کی رُو سے آنحضرتﷺ کے بعد ایسا خلیفہ نہیں آسکتا جو نبی بھی ہو۔ آپ کے بعد وہی خلافت ہو سکتی ہے جو علیٰ منہاج النبوۃ ہو گی۔
سورہ احزاب آیت نمبر 8میں اللہ تعالیٰ اُن انبیاء کے نام بیان فرماتا ہے جن سے میثاق النبیین لیا گیا۔ جیسا کہ فرماتا ہے
وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا۔ (الاحزاب:8)
اور جب ہم نے نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تجھ سے بھی اور نوح سے اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے۔ اور ہم نے ان سے بہت پختہ عہد لیا تھا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ انبیاء ہیں جو کسی امت کے سر پر یعنی آغاز میں آئے یا اُس کے آخر میں۔نوح علیہ السلام اپنی امت کے سر پر تھے اور ابراہیم علیہ السلام اُس کے آخر میں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے متعلق فرماتا ہے :
وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ (الصافات:84)
اور یقیناً اُسی کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھا۔
یعنی نوح کے گروہ میں سے۔ اور مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سر پر تھے اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اُس کے آخر میں تھے۔ اور اسی طرح سیّدنا رسول اللہﷺ امت اسلامیہ کے سرپر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے آخر میں ہیں۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا:
کَیْفَ تَھْلِکُ اُمَّةٌ اَنَا فِیْ اَوَّلِھَا وَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْ آخِرِھَا (کنز العمال، الدر المنثور)
وہ امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کے آغاز میں میں ہوں اور مسیح ابن مریم اُس کے آخر میں۔
یہ تمام انبیاء جو کسی امت کے آغاز میں آئے یااُس کے آخر میں، ان سب کے بعد ضرور خلافت قائم ہوئی۔ یعنی خلافت نبوت یا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ۔
خلافت بشری
خلافت بشری،ملوکیت اور جمہوریت وغیرہ جیسے سیاسی حکومتی نظاموں میں سے ایک نظام ہے۔اسلامی تاریخ میں خلافت راشدہ کے بعد اس خلافت کی بنیاد پڑی۔ یعنی خلافت علیٰ منہاج ا لنبوۃ کے بعد۔اور خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ؓ اور خلیفہ رابع سیدنا علیؓ کی شہادت کے بعد اس کا آغاز ہوا۔
طبعاً یہ خلافت، خلافت ربّانیہ نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس سیاسی نظام میں اللہ تعالیٰ خلیفہ کا انتخاب نہیں کرتا۔ نہ بلا واسطہ اور نہ ہی بالواسطہ۔اس میں حکومت کے نظام کا انحصار لوگوں پر ہوتا ہے کہ جیسے وہ چاہیں خلیفہ یا حاکم کی تعیین کر لیں۔
میرا مضمون خلافت بشری کے متعلق نہیں ہے۔ کیونکہ اس خلافت کا خلافت ربّانیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محض لفظی اشتراک ہے یعنی ’’خلافت‘‘کے لفظ میں۔ لہٰذا میں ہر اس نظام کے متعلق بات نہیں کروں گا جس میں حاکم کے لیے خلیفہ کا لقب استعمال کیا جاتا ہو۔ خواہ یہ خلافت،اموی خلافت ہو یا عباسی۔ فاطمی خلافت ہویا عثمانی۔یا کوئی اور خلافت ہو۔
اسی طرح میں اس خلافت ربّانیہ کے متعلق بھی بات نہیں کروں گا جس میں اللہ تعالیٰ خلیفہ کو بلاواسطہ چُنتا ہے یعنی انبیاء اور رسول۔میں صرف خلافت ربّانیہ کے اُس نظام کے متعلق بات کروں گا جو کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃکہلاتی ہے۔ یعنی جس میں اللہ تعالیٰ خلیفہ کو بالواسطہ منتخب کرتا ہے۔
موضوع کی اہمیت
یہ موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اور ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ، خلیفہ کیسے بناتا ہے۔اور یہ موضوع ہم احمدی مسلمانوں کے لیے اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس مبارک جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی ہے۔اور جبکہ ہم خلیفہ سے ایک عہد کرتے ہیں جو عہد بیعت کہلاتا ہے تو ہمارے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم خلیفہ کے مقام کا صحیح شعور اور معرفت حاصل کریں۔اسی طرح عام مسلمانوں کے لیے بھی یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے نظام میں اللہ تعالیٰ خلیفہ کیسے بناتا ہے۔ یعنی وہ خلافت جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ جب خلافت، موروثی اور جبری حکومت میں بدل جائے گی تو دوبارہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام ہو گا۔ جیسا کہ فرمایا:
’’ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَةٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّةِ‘‘
یعنی پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃقائم ہو گی۔ یہ بات بہت ہی افسوسناک ہے کہ بہت سے لوگ جو رسول اللہ کی وفات کے بعد خلافت راشدہ کے دَور میں اسلام میں داخل ہوئےوہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے۔اور اپنی اسی جہالت کی وجہ سے خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا۔اور ان کے بعد خلیفہ رابع سیدنا علیؓ بھی مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃکی نعمت ان سے واپس لے لی۔اور اس طرح خلافت راشدہ کا اختتام ہو ا۔
اگر وہ مقام خلافت کا صحیح فہم حاصل کر لیتے اور اس بات کا ادراک حاصل کر لیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ کو منتخب کرتا ہے تو وہ خلیفہ ثالث اور خلیفہ رابع کو شہید کرنے کی جرأت نہ کرتے اور نہ ہی مسلمانوں کی وحدت کو کوئی نقصان پہنچتا۔
بعض سوال جن کے جواب جاننا بہت ضروری ہے
جبکہ اللہ تعالیٰ خلیفہ کو بالواسطہ چُنتا ہے…یعنی یوں لگتا ہے کہ لوگ اُسے منتخب کرتے ہیں …پس بعض لوگوں کے ذہن میں لازماً بہت سے سوال پیدا ہوںگے مثلاً
اوّل…کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ کو منتخب کرتا ہے،جبکہ بظاہر لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں ؟
دوم …اگر اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ کا انتخاب کرتا ہے تو انبیاء اور رسولوں کی طرح اُسے بھی بلا واسطہ منتخب کیوں نہیں کرتا ؟
سوم…اللہ تعالیٰ کسے بطور خلیفہ منتخب کرتا ہے اور کونسی ایسی صفات ہیں جو اس میں نمایاں ہوتی ہیں ؟
چہارم…انتخاب خلیفہ کے عمل میں تمام احباب جماعت شریک کیوں نہیں ہوتے ؟
پنجم…وہ کون لوگ ہیں جو خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں ؟
ششم…کیا خلیفہ غلطی سے پاک ہے ؟ خلیفہ سے کس قسم کی غلطی ہونا ممکن ہے ؟
یہ تمام سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور کافی شافی جوابات کے محتاج ہیں۔ اب میں ہر سوال کو علیحدہ علیحدہ لے کر ان کے جوابات پیش کرتا ہوں۔
پہلا سوال: کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ کو منتخب کرتا ہے،جبکہ بظاہر لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں ؟
اس سوا ل کا جواب دینے کے دو طریقے ہیں۔پہلا یہ کہ یہ بیان کیا جائے کہ انسان بعض اعمال کرتا ہے لیکن ان اعمال کے نتائج پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔دوسرا یہ کہ یہ بیان کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ بعض کام کرتا ہے لیکن اُن کا ظہور انسان کے ہاتھوں سے ہوتا ہے۔
دلائل از قرآن مجید
پہلی دلیل :
قرآن کریم پہلے طریق کو خوب کھول کر بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ بعض اعمال ایسے ہیں جو کرتا تو انسان ہے لیکن اُن کے نتائج اللہ تعالیٰ مترتّب کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّاتَحۡرُثُوۡنَ۔ءَاَنۡتُمۡ تَزۡرَعُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الزّٰرِعُوۡنَ۔ (الواقعہ:64تا65)
بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو کچھ تم کاشت کرتے ہو۔کیا تم ہی ہو جو اُسے اُگاتے ہو یا ہم اُگانے والے ہیں ؟
کسان آپس میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ اس سال ہم یہ اُگائیں گے اور یہ اُگائیں گے۔ یا یہ کہ…اس سال میں نے جو فصل اُگائی وہ بہت عمدہ تھی وغیرہ وغیرہ۔کسان ہی زمین میں ہل چلاتا ہے، بیج ڈالتا ہے، کھیتی کو پانی لگاتا ہے اور اس کا خوب خیال رکھتا ہے اور تیارہونے پر اُسے کاٹتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نہیں اُگاتے ہم ہی ہیں جو اُگانے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے زراعت کے اس عمل کو جسے بظاہر کرتا تو انسان ہے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے۔ کیونکہ کسان کے لیے زراعت کے اس قانون کی پابندی کرنا ضروری ہے جسے اللہ نے قائم کیا ہے۔اگر کسان اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو کوئی کھیتی نہیں اُگے گی۔پس اصل کسان اللہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ اُسی نے زراعت کا نظام بنایا ہے اور کسان کے لیے اس نظام کے مطابق عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
پس جب انسان الٰہی نظام کی پیروی کرتا ہے تو اس کے نتائج اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی کے موافق مترتّب ہوتے ہیں۔اسی طرح اللہ نے انتخاب خلیفہ کے لیے ایک نظام بنایا ہے جس کی پیروی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی چارہ نہیں۔اور یہ نظام بعض مخصوص امور کا تقاضا کرتا ہے۔پہلا اور سب سے اہم امر یہ ہے کہ کوئی نبی اللہ کی طرف سے مبعوث ہو۔کیونکہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃکا قیام کسی نبی کی بعثت کے بعد ہی ممکن ہے۔یہ نبی اپنے پیچھے مومنوں کی ایسی جماعت چھوڑ جاتا ہے جو حقیقی تقویٰ اور عمل صالح پر قائم ہوتی ہے۔ دوسرا امر یہ ہے کہ انتخاب خلیفہ میں یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص خود اپنا نام پیش کردے۔ کیونکہ جو خود اپنے آپ کو پیش کرتا ہے وہ خود کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے۔ اور قرآن کریم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا
فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (النجم:33)
پس اپنے آپ کو (یونہی) پاک نہ ٹھہرایا کرو۔ وہی ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے کہ متّقی کون ہے۔
اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ رسول پاکﷺ نے عبدالرحمٰن بن سمرہ سے فرمایا کہ ’’امارت (یعنی عہدہ) نہ مانگو۔اگر تمہارے سوال کرنے پر تمہیں عہدہ دیا گیا تو تم سے اس کی باز پُرس میں سختی کی جائے گی اور اگر بن مانگے دیا گیا تو تمہاری مدد کی جائے گی۔
(بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب من سأل الامارة وکل الیھا)
پس چاہیے کہ اس منصب کے حصول کے لیے کوئی، دوسرے سے مقابلہ نہ کرے۔ کیونکہ جو بھی دوسرے سے اس معاملہ میں مقابلہ کرتا ہے وہ گویا بزبان حال یہ کہتا ہے کہ ’’مجھے منتخب کر لو اور کسی اَور کو منتخب نہ کرو۔ کیونکہ میں اس سے بہتر ہوں ‘‘تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کی جائے کہ وہ خود انتخاب خلیفہ کے عمل کا والی ہو جائے اور اس کی نگرانی فرمائے۔ اللہ تعالیٰ دعا کے متعلق فرماتا ہے :
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ۔ (البقرة:187)
اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔
اسی طرح فرمایا:
قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ (الفرقان:78)
تُو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا ربّ تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا۔
پس جب انسان تمام ضروری کام کر لے گا اور وہ تمام مطالبات پورے کرلے گا تو اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتے ہوئے انتخاب خلیفہ کے عمل کو سرانجام دے گا۔ لیکن اگر انسان اس نظام کی جسے اللہ نے بنایا ہے کما حقہٗ پیری نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی انتخاب خلیفہ کے عمل میں دخل نہیں دے گا اور اپنا ہاتھ اس پر سے اٹھا لے گا۔
دوسری دلیل:
دوسری دلیل اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بتائی ہے کہ بعض اعمال ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے لیکن ان کا ظہور انسانی ہاتھوں سے ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ انسانی کام ہے مگر در حقیقت اس کے کرنے والی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ (التوبة:14)
ان سے لڑائی کرو۔ اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔
یہ آیت ابتدائی مسلمانوں کے لیے نازل ہوئی جو حد سے تجاوز کرنے والے مشرکوں سے قتال کر رہے تھے۔پس اُن مشرکوں کی اس زیادتی نے اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دائمی سنت ہے کہ جب بھی منکرین انبیاء اپنی بغاوت میں حد سے تجاور کرجاتے ہیں تو اُن پر عذاب نازل ہوتا ہے اور اللہ کا غضب اُن کو آلیتا ہے۔پس جب مشرکین مکہ کی سرکشی اور زیادتی حد سے بڑھ گئی تو الٰہی عذاب ان کے لیے مقدر کر دیا گیا۔مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تسلی دیتا ہے کہ عنقریب اُن کے دشمنوں پر عذاب نازل ہونے والا ہے۔مگر بجائے اس کے کہ اُن پر بلاواسطہ عذاب نازل کرے جیسا کہ گذشتہ انبیاء یعنی نوح، لوط اور موسیٰ علیہم السلام کے دشمنوں کے ساتھ کیا، اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ پر مومنوں کے ہاتھوں سے عذاب نازل کرے گا۔پس مومنوں کے لیے ضروری ہوا کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والے مشرکین سے قتال کریں تا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ہاتھوں سے اُن کو عذاب دے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کام ہے تو اللہ تعالیٰ کا لیکن اس الٰہی فعل کا ظہور مومنوں کے ہاتھوں سے ہو گا۔
اس سے یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ بعض کام اللہ کے تصرف سے ہوتے ہیں لیکن وہ انہیں اپنے فرمانبردار مومنوں کے ہاتھوں سے ظاہر کرتا ہے۔ان مومنوں کے ہاتھوں سے جو اس کے احکام کی پیری کرتے ہیں اور اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال:18)
پس تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ ہے جس نے انہیں قتل کیا ہےاور (اے محمد!) جب تُو نے (ان کی طرف کنکر) پھینکے تو تُو نے نہیں پھینکے بلکہ اللہ ہی ہے جس نے پھینکے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مومنوں نے مشرکین کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نےاس فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اللہ نے اسے اپنی طرف کیوں منسوب کیا ہے؟ کیونکہ مسلمانوں نے یہ کام اللہ ہی کے حکم کے موافق کیا تھا اور اس کے نتائج بھی اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیے۔ مسلمان تو منشائے الٰہی کو عملی رنگ میں لانے کے لیے بطور آلہ کے تھے۔
قرآن کریم میں کثرت سے ایسے دلائل موجود ہیں جن سے ہمیں واضح ثبوت ملتا ہے کہ انسان جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی کام کرتا ہے تو یہ کام جو بظاہر انسانی کام لگتا ہے،اللہ کا کام ہو جاتا ہے اور انسان کی حقیقت صرف ایک وسیلہ کی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ کی تکمیل کے لیے اپناتا ہے۔ اور یہی وہ وسیلہ ہے جسے اللہ تعالیٰ انتخاب خلیفہ کے لیے اختیار کرتا ہے اور اس وسیلے کے ذریعہ اپنے ارادہ اور منشاء کا اظہار کرتا ہے۔
دوسرا سوال : اگر اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ کا انتخاب کرتا ہے تو انبیاء کی طرح اُسے بلاواسطہ منتخب کیوں نہیں کرتا ؟ انبیاء کو تو کوئی منتخب نہیں کرتا اور نہ ہی نبی کے انتخاب کے لیے اللہ تعالیٰ انسان کو وسیلہ بناتا ہے۔اللہ تعالیٰ خلیفہ کا انتخاب اس طرح کیوں نہیں کرتا ؟
رحمانیت اور رحیمیت
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اللہ کی دو صفات کو سمجھ لینا ضروری ہے۔یعنی صفت ’’الرحمن‘‘اور ’’الرحیم‘‘ کو۔
صفت ’’رحمانیت‘‘کا تعلق تمام مخلوق کے ساتھ ہے۔اس صفت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنی برکات و انعامات کا اظہار بغیر کسی انسانی عمل کے کرتا ہے۔ خواہ انسان مومن ہو یا کافر۔اللہ کی عبادت کرتا ہو یا اس کے وجود ہی کا منکر ہو۔اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اُسے نعمتوں کا حقدار ٹھہراتا ہے۔
زندگی، روشنی، ہوا وغیرہ اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے مہیا کی ہیں اس میں مومن اور کافر،فرمانبردار اور نافرمان دونوں برابر ہیں۔انسان نے ہوا کو پیدا نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایسا کام کیا جس سے اس نعمت کا مستحق ہو سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت سے انسان کے وجود سے بھی پہلے اس کے لیے ہوا کو پیدا کیا۔پس اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمانیت کی وجہ سے بلا استحقاق تمام بنی نوع انسان پر اپنی نعمتیں اور فضل نازل کرتا ہے۔
صفت ’’رحیمیت‘‘سب کے لیے عام نہیں ہے۔یہ انسان سے بعض اعمال کا تقاضا کرتی ہے جس کے نتیجے میں پھراللہ تعالیٰ اس پر انعام کرتا ہے۔اور بھی بہت سی صفات، صفت رحیمیت میں ان معنوں میں شریک ہو جاتی ہیں کہ انسان کے کسی کام کے نتیجہ میں اس پر اس صفت کا ظہور ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفت ’’الرزاق ‘‘کاتعلق رحیمیت سے ہے،جو انسان سے تقاضا کرتی ہے کہ حصول رزق کے لیے کوشش کرے پھر اس پرصفت ’’الرزاق ‘‘کا ظہور ہو گا۔ اسی طرح ’’الغفور‘‘رحیمیت ہی کی ایک قسم ہے،یہ انسان سے تقاضا کرتی ہے کہ انسان گناہ سے باز آئے اور اس پر شرمندہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے،پھر اس پر صفت ’’الغفور‘‘ کا ظہور ہو گا۔ ہاں! اللہ تعالیٰ مالک یوم الدین ہے۔ وہ جسے چاہے بخش سکتا ہے خواہ اُس نے مغفرت طلب ہی نہ کی ہو۔ لیکن اس حالت میں صفت ’’الغفور‘‘کا تعلق رحمانیت سے ہو گا نہ کہ رحیمیت سے۔ بعض ایسے امور ہیں جن کو اللہ تعالیٰ محض مومنوں کے لیے ظاہر کرتا ہے۔یہ امور صفتِ رحیمیت سے ظاہر ہوتے ہیں۔اس صفت کا مورد بننے کے لیے اول تو انسان کا مومن ہونا لازمی ہے۔غیر مومن پر ان کا ظہور نہیں ہوتا۔اور اگر انسان مومن ہو کر وہ کام نہ کرے جو کسی خاص صفت کے ظہور کے لیے لازمی ہیں تو رحیمیت کے تحت اُس پر اِس صفت کا ظہور نہیں ہو گا۔
پس اللہ تعالیٰ جب کسی کو نبی بناتا ہے تو صفت رحمانیت کے تحت بناتا ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کب بناتا ہے ؟اللہ تعالیٰ نبی تب بناتا ہے جب اُس کے وجود کی ضرورت ہوتی ہے۔اور یہ ضرورت تب پیدا ہوتی ہے جب زمین ظلم و فساد سے بھر جاتی ہے۔تب اللہ تعالیٰ نبی بھیجتا ہے تا زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے۔جب زمین میں فساد اور گمراہی پھیل جاتی ہے تو کوئی بھی اس بات کا مستحق نہیں ہوتا کہ اُسے اللہ کی نعماء اور افضال عطا ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے، بغیر کسی انسان کے استحقاق کے صفت رحمانیت کا جلوہ دکھاتا ہے اور لوگوں کی ہدایت کے لیے کسی کو نبی بنا کر بھیجتا ہے۔ پس نبی کو اللہ تعالیٰ صفت رحمانیت کے تحت بلا واسطہ منتخب کرتا ہے۔
لیکن بعد اس کے کہ نبی اپنا کام مکمل کر چکتا ہے اور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا کر مومنوں کی ایک ایسی جماعت قائم کر لیتا ہے جو صراط مستقیم پر گامزن ہوتی ہے،تو اللہ تعالیٰ ان مومنوں کو اپنی صفت رحیمیت کاجلوہ دکھاتا ہے اور ان کے لیے خلیفہ منتخب کرتا ہے۔ یعنی اُن مومنوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اور عمل صالح بجا لاتے ہیں۔خلافت ربّانیہ کے قیام کے لیے ان دو شرطوں کا پورا ہونا لازمی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ (النور:56)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا۔
یعنی یہ وعدہ عام نہیں ہے بلکہ پہلے دو شرطوں کا پورا ہونا لازمی ہے۔پھر اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرے گا اور خلیفہ بنائے گا۔اگر یہ دونوں شرطیں یا ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کا خلیفہ بنانے کا وعدہ پورا نہیں ہو گا۔اور یہ دو شرطیں (1)ایمان اور (2)عمل صالح ہیں۔ صرف ایمان کافی نہیں ہے اور نہ ہی عمل صالح کی ایمان کے بغیر کوئی حیثیت ہے۔
جہاں تک ایمان کا تعلق ہے تو اس سے مراد اللہ پر ایمان اور فرشتوں پر ایمان اور اس کی کتابوں پر ایمان اور (تمام) رسولوں پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان اور تقدیر خیر و شر پر ایمان لانا ہے۔لیکن …عمل صالح سے کیا مراد ہے جس کا ہونا ضروری ہے تا کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ منتخب کرے ؟ اس سوال کا جواب انہی آیات میں موجود ہے جو آیت استخلاف کے سیاق و سباق میں آئی ہیں۔
وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سے کیا مراد ہے ؟
اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے :
اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَخۡشَ اللّٰہَ وَ یَتَّقۡہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ۔ وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ اَمَرۡتَہُمۡ لَیَخۡرُجُنَّ ؕ قُلۡ لَّا تُقۡسِمُوۡا ۚ طَاعَۃٌ مَّعۡرُوۡفَۃٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔ قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔ (النور:52تا57)
مومنوں کا قول، جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، محض یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔اور یہی ہیں جو مراد پاجانے والے ہیں۔اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تُو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق اطاعت (کرو)۔ یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ کہہ دے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم پھر جاؤ تو اس پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے جو اس پر ڈالی گئی ہے اور تم پر بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم پر ڈالی گئی ہے۔ اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے۔ اور رسول پر کھول کھول کر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ ذمہ داری نہیں۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
سورہ نور آیت نمبر 56میں خلیفہ بنانے کا وعدہ ہے۔ اس سے پہلی اور بعد والی آیات میں سات مرتبہ اطاعت کا ذکر آیا ہے:
اَطَعْنَا۔یُطِعْ۔طَاعَةٌ۔اَطِیْعُوْا۔اَطِیْعُوْا۔تُطِیْعُوْہُ ۔ اَطِیْعُوْا۔
قرآن کریم میں اس مقام کہ علاوہ کسی اَور جگہ چھ مسلسل آیات میں سات بار اطاعت کا ذکر نہیں آیا۔ اور یہ اس لیے ہے کہ اس مقام میں آیت استخلاف کا بیان ہے۔اس بات سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اگر چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ خلافت راشدہ قائم کرے تو ایمان اور عمل صالح کی شرط پورا ہونا لازمی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے تاکیداً بتا دیا کہ اعمال صالحہ سے مراد اطاعت ہے۔ اللہ کی اطاعت اور اُس کے رسول کی اطاعت اور اُس خلیفہ کی اطاعت جسے اللہ تعالیٰ چُن لیتا ہے۔
اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت تو
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ
(تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ) میں آجاتی ہے۔ اور اعمال صالحہ سے مراد اُس خلیفہ کی اطاعت ہے جسے اللہ تعالیٰ چُن لیتا ہے۔ اس اطاعت کے بغیر اعمال صالحہ نہیں کیے جاسکتے اور اعمال صالحہ نہیں ہوںگے تو اللہ تعالیٰ خلافت کو قائم نہیں کرے گا۔
ہم اسلام میں خلافت اولیٰ میں اس کا نمونہ دیکھ چکے ہیں کہ جب خلیفہ کی اطاعت نہ کی گئی تو کس طرح مسلمان خلافت ربّانیہ کے وجود سے محروم ہو گئے۔اس وقت لوگ مومن تھے اللہ پر اور اُس کے رسول پر ایمان لاتے تھے لیکن اعمال صالحہ نہیں تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلیفہ ثالث اور خلیفہ رابع کی شہادت کے بعد اللہ نے اُن سے خلافت کی نعمت کو واپس لے لیا۔ اور اس طرح خلافت راشدہ یعنی خلافت علیٰ منہاج النبوۃکا اختتام ہوا۔
پس یقیناً اللہ تعالیٰ کا کسی کو خلیفہ کے طورپر منتخب کرنا ایک نعمت عظمیٰ ہے۔اور یہ نعمت انہی لوگوں پر نازل ہوتی ہے جو ایمان لائیں اور عمل صالح بجا لائیں۔اگر مومن اپنے تقاضے پورے نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یہ نعمت اُن کو عطانہیں کرے گا۔
تیسرا سوال:اللہ تعالیٰ کسے بطور خلیفہ منتخب کرتا ہے اور کونسی ایسی صفات ہیں جو اس میں نمایاں ہوتی ہیں ؟
اس سوال کا جواب بھی قرآن کریم میں مذکور ہے اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اُس سے دعا مانگیں کہ ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور
وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان:75)
اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے لیے متقیوں میں سے امام بنا …یا …ہم میں سے متقیوں کے لیے امام بنا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ یہ دعا نہیں سنتا یا کیا اسے قبول نہیں کرتا ؟ یقینا ًوہ سنتا بھی ہے اور قبول بھی کرتا ہے لیکن اس شرط پر کہ دعا کرنے والے مومنوں میں سے ہوں اور خلافت کی اطاعت کرنے والے ہوں۔
خلیفہ کی وفات کے بعد مومنین کی جماعت کو بہت بڑا صدمہ پہنچتا ہے اور خوف ان کے دامنگیر ہوتا ہے۔جیسے کسی خاندان کے باپ کی وفات کے بعد انہیں بہت بڑا غم پہنچتا ہے اسی طرح مومنین کی جماعت کے روحانی باپ کی وفات سے بہت زیادہ غم اورتکلیف پہنچتی ہے۔ہر ایک کو خوف اور بےچینی لاحق ہوتی ہے اور ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ انتخاب خلیفہ کے ذریعہ اُن پر اپنا فضل جاری رکھے گا؟یہ غم اور پریشانی انہیں مارے جاتی ہے اور وہ اپنے نفسوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ اُس خلیفہ کی اطاعت کرتے تھے جو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے یا اُس کی نافرمانی کرتے اور حکم عدولی کرتے تھے ؟ وہ سب اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور سوز و گداز سے اور زخمی دل اور دُکھی روح کے ساتھ اُس سے دعا کرتے ہیں اور اپنی تمام نافرمانیوں اور گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور اُس سے اپنی تمام غلطیوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ ’’ہمارے لیے اُسے خلیفہ بنا دے جسے تو پسند کرتا ہے۔‘‘
پس اس طرح خلافت کا قائم ہونا انسانی فعل سے نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔اور انسان کی حیثیت محض وسیلےکی ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنی منشا کا اظہار کرتا ہے۔انسان کا کام تو محض کسا ن کی طرح مٹی میں بیج ڈالنا ہے لیکن اُگانے والی اللہ ہی کی ذات ہے۔بالکل اسی طرح جیسے مشرکین مکہ سے قتال تو مسلمانوں نے کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ ہی تھا جو ان مشرکوں کو مومنوں کے ہاتھوں سے عذاب دے رہا تھا۔
مذہب کی غرض
مومن اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ اُن لوگوں کو جو انتخاب کے عمل میں شامل ہوںگے، اس بات کی توفیق عطا کر کہ وہ اُسی شخص کے حق میں ووٹ دیں جسے اللہ تعالیٰ اُن کے لیے خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کی غرض کیا ہے ؟ مذہب کی غرض یہ نہیں ہے کہ انسان دولت مند ہو اور اچھی زندگی گزارے اور اچھے معاشرے میں رہے اور بس۔بلکہ مذہب کی بنیادی غرض یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق قائم کرے۔اگر کوئی مذہب اس غرض کو پورا نہیں کرتا تو انسان کو اس مذہب کی کوئی ضرورت نہیں۔ یقیناً ایسا دین جو اللہ اور مخلوق کے درمیان تعلق قائم نہ کرے وہ مردہ اور بے حیثیت ہے۔جبکہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور یہ محض اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس کے ذریعہ انسان اپنے خالق سے ایک تعلق قائم کر سکتا ہے۔اور یہ تعلق تقاضا کرتا ہے کہ انسان جب غم و الم اور بے چینی میں مبتلا ہو، جب انسان کو کوئی بہت بڑی مصیبت پہنچے، جب انسان ہدایت کا محتاج ہو تو وہ اُس سے دعا کرے اور اللہ اُس کی دعا کو سنے اور اُسے ہدایت دے۔ جیسے کہتے ہیں کہ ’’دوست وہ جو مشکل میں کام آئے ‘‘۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (البقرة:285)
اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے۔
مومنوں کے لیے خلیفہ یعنی متقیوں کے امام کی وفات سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کوئی نہیں۔جب سب سے زیادہ متقی اور راست باز شخص مومنوں کی جماعت میں نہ رہے اور جماعت ایک ایسے جسم کی طرح ہو جائے جس کا سر نہ ہو۔ تو مومن کیا کرتے ہیں ؟ وہ آستانہٴ رب العزت پر گر جاتے ہیں اور اُس سے فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہماری مدد فرما، ہماری فریاد رسی فرما، اور ووٹ دینے والوں کو اس شخص کی طرف ہدایت دے جسے تو خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ صفت رحیمیت کا جلوہ دکھاتا ہے اور ایک بار پھر اُس خلافت کو قائم کر دیتا ہے جس کا اُس نے وعدہ فرمایا ہے۔وہ مومنوں کو ہدایت دیتا ہے اور اُس شخص کے متعلق آگاہ فرماتا ہے جسے وہ کھڑا کرنا چاہتا ہے۔مومنوں کا کام تو محض اُس شخص کو ووٹ دینا ہے جسے اللہ خلیفہ بنانا چاہتا ہے،اُس کا انتخاب تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭