خلفائے احمدیت کی خدمتِ قرآن
قرآن مجید عظیم المرتبت، ابدی اور لا فانی صحیفہ ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو سرفراز فرمایا۔اس از لی قانون کی حفاظت اور عالمگیر اشاعت کی ذمہ داری بھی خود باری تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ۔پس نزول قرآن کی ابتدا سے ہی آنحضورؐ کی نبوت کے 23؍سالہ بابرکت دَور میں ذات باری تعالیٰ نے قرآن کے متن و معانی کی ایسی حفاظت فرمائی کہ کوئی مخالف، کافر،منکربھی اس پر نقطہ اعتراض نہ اٹھا سکا۔
سیدنا نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کو حفاظت قرآن اور اشاعت قرآن کی وہ فضیلت عطا فرمائی جو رہتی دنیا تک ان کے سروں کا تاج بن کر چمکتی رہے گی۔ حضرت عمرؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ہی یہ جذبہ ڈالاکہ وہ حضرت ابو بکرؓسے بہ اصرار یہ درخواست کریں کہ قرآن کو ایک کتاب کی صورت میں محفوظ کر لیا جائے۔پس قرآن کو کتابی صورت میں محفوظ کرنے کی سعادت شیخین کرامؓ کو ملی۔پھر حضرت عمرؓ کی بیٹی اور زوجہ رسولﷺ حضرت حفصہؓ کو یہ سعادت عطا ہوئی کہ وہ اس پہلے صحیفۂ قرآن کی حفاظت کریں۔پھر حضرت عثمانؓ کی جھولی میں خدا تعالیٰ نے یہ برکت ڈال دی کہ وہ اس صحیفہ کی مزید نقول تیار کر کےعالم اسلام میں پھیلائیں۔ حضرت علیؓ کو اللہ تعالیٰ نے ہی یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ قرآن پر اعراب لگانے کا ارشاد فرمائیں تا غیر عرب مسلمانوں کےلیے بھی قرآن پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو جائے۔
وَذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ۔
فیج اعوج کے زمانے کے بعد جب رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اسلا م کا صرف نام باقی رہ گیا اور قرآن کے محض الفاظ باقی رہ گئے (مشکوة کتاب الفتن)تو ایمان کو ثریا ستارے سے واپس لانے اور قرآنی تعلیم سے اقوام عالم کو روشناس کروانے کے لیے سورة الجمعة کی پیشگوئی کے موافق امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود ؑ،حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی بعثت ثانیہ کے طور پرمبعوث ہوئے اور
یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ (سورة الجمعة)
کے مصداق بنے۔
حضرت اقد س مسیح پاک ؑکی بعثت کامقصد اولیٰ دین کا قیام اور قرآن کا احیا اور اس کے بابرکت انوار و فیوض کو عالمگیر سطح پر پھیلانا تھا۔آپؑ فرماتے ہیں :
’’حضرت مسیح علیہ اسلا م جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا مسیح اپنی کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ قرآن شریف کے احیاء کے لئے آیا ہے اور اس تکمیل کے لئے آیا ہے جو تکمیل اشاعت ہدایت کہلاتی ہے ۔
تکمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یاد رکھناچاہئےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اتمام نعمت اور اکمال الدین ہوا تو اس کی دوصورتیں ہیں ۔ اول،تکمیل ہدایت ۔دوسری تکمیل اشاعت ہدایت۔ تکمیل ہدایت من کل وجوہ آپﷺ کی آمد اول سے ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپﷺ کی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورة جمعہ میں جو
اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ (الجمعة : 4)
والی آیت آپﷺ کے فیض اور تعلیم سے ایک اورقوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ایک اور بعثت ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے جو اس وقت ہو رہی ہے پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت کاہے۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ 361 تا 362، ایڈیشن 1988ء)
پھر فرمایا:
’’پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیماتِ حقّہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ596 حاشیہ)
امام الزمان حضرت اقدس ؑپر اللہ تعالیٰ نے موسلادھار بارش کی طرح قرآن کے علوم،معارف و دقائق، اسرار و رموز اور روحانی نکات نازل فرمائے جو آپؑ کی تحریرات اور ملفوظات سے چھلک رہے ہیں۔انہی حقائق و معارف اور روحانی مائدہ سے سیراب ہو کر خلفائےاحمدیت نے اپنے اپنے ذوق اور رنگ میں قرآن کی خدمت کی ہے اور تا قیامت کرتے چلے جائیں گے۔ہر خلیفۃ المسیح نے اپنے دَور میں تکمیل اشاعت ہدایت کی غرض سے قرآن کی بے پناہ خدمت کی ہے۔ ان خدمات کی تفصیل ہزاروں صفحات کی متقاضی ہے۔
گذشتہ 113سال سے خلفائےاحمدیت مختلف جہتوں سے قرآن کے انوار کی عالمگیر اشاعت کر رہے ہیں۔چاہے ترجمۃ القرآن کا میدان ہو یا قرآن کی لطیف اور پُر معارف تفسیر کا بیان ہو۔دنیا بھر میں مختلف تراجم قرآن کی اشاعت کا موقع ہویا افراد جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے دروس قرآن کا سلسلہ جاری کرنا ہو۔حفظ کے ذریعہ کلام الٰہی کی محبت دلوں میں جاگزیں کرنی ہو یا خوش لحن آواز میں تلاوت قرآن سے دلوں کو گرمانا ہو۔مسیح پاکؑ کے مبارک قافلے کے یہ پاسبان ہمیں ہر میدان اور خار زار میں دوسروں سے آگےکھڑے نظر آتے ہیں۔پس جماعت احمدیہ اور خلافت احمدیہ کا اصل مقصد اور مطمح نظر دراصل تکمیل اشاعت ہدایت قرآن ہے اور ان شاءاللہ وہ دن دور نہیں جب یہ منزل حاصل ہو جائے گی۔حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’ہمارا اصل پروگرام وہی ہے جو قرآن کریم میں ہے۔لجنہ اماء اﷲ ہو،مجلس انصار اﷲ ہو خدام الاحمدیہ ہو،نیشنل لیگ ہو، غرض یہ کہ کوئی بھی انجمن ہو۔اس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے۔‘‘
(مشعل راہ جلد1صفحہ103)
ذیل میں خلفائے احمدیت کی خدمات ِقرآن کریم کی مختصر سی جھلک پیش کی جا رہی ہے۔
تلاوتِ قرآن
عصر حاضر میں عالم اسلام میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے جو قرآن کو دیکھ کر اس کی تعظیم تو کر سکتی ہے مگر اس کو پڑھ نہیں سکتی۔قرآن کی محبت کو حقیقی رنگ میں قائم کرنے کے لیےتلاوت قرآن کریم کرنا اور اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔خلفائےاحمدیت نے اس طرف خاص طور پر توجہ مبذول فرمائے رکھی اور اس بات پر بہت زور دیا کہ ہر احمدی کو چاہے وہ خواندہ ہو یا ناخواندہ قرآن پڑھنا آتا ہو۔تمام خلفاء نےہی اس ضمن میں بار ہا جماعت کو نصائح اور تحریکات فرمائیں ۔
قرآن کی تلاوت اور اس پر غور کرنے کی تلقین کرتے ہوئےحضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے فرمایا :
’’ہر مسلمان کو چاہیے کہ قر آن کریم کو پڑھے ۔اگر عربی نہ جانتا ہو تو اردو ترجمہ اور تفسیر ساتھ پڑھے ۔عربی جاننے والوں پر قر آن کریم کے بڑے بڑے مطالب کھلتے ہیں…….جب ایک شخص بار بار قر آن پڑھے گا اور اس پر غور کرے گا تو اس میں قر آن کریم کے سمجھنے کا ملکہ پیداہو جائے گا۔ پس مسلمانوں کی ترقی کا راز قر آن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے جب تک مسلمان اس کے سمجھنے کی کوشش نہ کریں،کامیاب نہ ہو ں گے۔‘‘
(خلفائے احمدیت کی تحریکات صفحہ66)
پھر ایک اور موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:
’’ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کے پڑھنےاور پڑھانے کو اتنا رواج دے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی نہ رہے جسے قرآن نہ آتا ہو‘‘
(الفضل9؍دسمبر1947ءصفحہ5)
ہر احمدی بچے کو قرآن پڑھانے کے متعلق4؍فروری 1966ءکوحضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے فرمایا:
’’ہما ری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ دو تین سال کے اندر ہمارا کوئی بچہ ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم پڑھنانہ آتاہو۔‘‘
(خطبات ناصر جلد1صفحہ125)
پھر ایک موقع پر فرمایا:
’’اپنی انتہائی کوشش کریں کہ جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہ رہے نہ بڑا نہ چھوٹا،نہ مرد نہ عورت، نہ جوان نہ بچہ، کہ جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنانہ آتاہو۔‘‘
(خطبات ناصر جلد1صفحہ298)
حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ نے 4؍جولائی 1997ء کو کینیڈا میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے تلاوت قرآن کریم کے متعلق فرمایا:
’’تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنا اور اس کے معانی پر غور سکھانا یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے اور تربیت کی کنجی ہے جس کے بغیر ہماری تربیت ہونہیں سکتی…ہر گھر والے کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ دے،قرآن کے معانی کی طرف توجہ دے،ایک بھی گھر کا فرد ایسا نہ ہو جو روزانہ قر آن پڑھنے کی عادت نہ رکھتا ہو اور قر آن کریم کو پھر سمجھ کر پڑھے اور جو بھی ترجمہ میسر ہو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے۔….قرآن کریم کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کی طرف ساری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئے۔کوئی بھی ایسا نہ ہو جس کے پاس سوائے اس کے کہ شرعی عذر ہوجو روزانہ قر آن کریم کی تلاوت سے محروم رہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل12؍اگست1997ء)
پھر 1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک منفرد تحریک قر آن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنے کے بارےمیں پیش فرمائی۔آپؒ نے ذیلی تنظیموں کو ہدایت فرمائی کہ وہ آڈیو ویڈیو کے ذریعہ قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا سکھائیں اور اساتذہ تیار کریں۔
(خلفائےاحمدیت کی تحریکات اوران کے شیریں ثمرات صفحہ448)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے16؍ستمبر 2005ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقے میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے، اپنے بچوں کو پڑھائیں،انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں۔‘‘
(الفضل7؍فروری2006ء)
قرآن کو سمجھنے کے لیے ترجمہ سیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف جب آپ پڑھ رہے ہیں تو اس کا ترجمہ بھی سیکھنے کی کوشش کریں۔‘‘
(مشعل راہ جلد5حصہ 2صفحہ179تا180)
خلفائے احمدیت نے تلاوت قرآن اور اس کو سمجھنے پر اس قدر زور دیا کہ آج غالب گمان ہے کہ تمام مسلمان فرقوں میں سےصرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کا کثیر حصہ باقاعدگی سےتلاوت قرآن کرتا ہے۔خلفاء کی تحریکات کا جماعت پر اس قدر اثر ہے کہ متعدد ضعیف لوگوں نے بھی ناخواندہ ہونے کے باوجود خلیفۃ المسیح کی آواز پر لبیک کہتےہوئے اپنی عمر کے آخری حصے میں بھی ناظرہ قرآن پڑھنا سیکھا۔
جماعت احمدیہ میں محبت قرآن اور تعلیم قرآن کی تڑپ کے بارے میں ایک غیر احمدی صحافی جو1913ء میں قادیان آئے،لکھتے ہیں:
’’عام طور پر قادیان کی احمدی جماعت کو دیکھا گیاتو انفرادی طور پر ہر ایک کو تو حید کے نشہ میں سرشار پایا گیا اور قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے قادیان میں دیکھی،کہیں نہیں دیکھی ۔صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی مسجد میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی تو تمام احمدیوں کو میں نے بلا تمیز بوڑھے و بچے اور نوجوان کے لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا۔دونوں احمدی مساجدمیں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا مؤثر نظارہ مجھے عمر بھر یاد رہے گا…غرض احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا۔‘‘
(بدر13؍مارچ1913ءصفحہ6تا9بحوالہ حیات نور 614)
حفظ قرآن
کسی بھی کتاب کے کثرت مطالعہ کے ساتھ اگر اس کو حفظ کرنےکا سلسلہ بھی جاری ہو جائے تو اس کو لوگوں کے دلوں سے مٹانا ناممکن ہو جاتا ہے۔تمام الہامی کتب میں سے یہ فضیلت اللہ نے صرف قرآن کو دی کہ اس کا حفظ کرنا بہت ہی سہل امر ہے۔جماعت احمدیہ کی یہ سعادت ہےکہ قدرت ثانیہ کے پانچ مظاہر میں سے اللہ تعالیٰ نےدو کو حافظ قرآن ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ حافظ قرآن تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو بھی قرآن حفظ کرنے کی توفیق ملی۔
سلسلہ احمدیہ کے آغاز سے ہی حضرت اقدس ؑاور احمدی احباب میں یہ خواہش موجود تھی کہ جماعت میں قرآن حفظ کرنے کا ایک ادارہ ہو۔چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کی کہ میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک حافظ قرآن مقرر کیا جائے ۔جو قرآن مجید حفظ کروائے۔آپؑ نے فرمایا :
’’میرا بھی دل چاہتا ہے۔اللہ تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ168)
خلفائےکرام نے مختلف مواقع پر احباب جماعت کو قرآن حفظ کرنے کی تلقین فرمائی ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے ایک مرتبہ 12دوستو ں کو تحریک فرمائی کہ اڑھائی اڑھائی پار ے حفظ کریں اور مل کر حافظ قرآن بن جائیں۔
(تشحیذ الاذہان مارچ1912ءجلد 7صفحہ101بحوالہ خلفائے سلسلہ کی تحریکات )
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی حفظ قر آن پر بہت زور دیا۔آپؓ نے 7؍دسمبر 1917ء کوفرمایا:
’’جو لوگ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ پہلے قر آن کریم حفظ کرائیں۔کیونکہ مبلغ کے لئے حافظ قر آن ہو نا ضروی ہے‘‘۔
(خطبات محمود جلد5 صفحہ 612)
پھر آپؓ نے 1922ءمیں دوبارہ یہ تحریک فرمائی کہ کم از کم 30 افراد جماعت قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں۔24؍اپریل1944ء میں جب آپؓ نے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ فرمایااس موقع پر بھی آپ نےقرآن کریم حفظ کرنے کی تحریک کا اعادہ فرمایا۔
(الفضل26؍جولائی1944ءصفحہ3)
12؍دسمبر1969ءکوحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خاص طور پر سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک فرمائی۔
(خطبات ناصر جلد 2صفحہ851)
حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ نے مکمل قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ احمدیوں کو قرآن کی مختلف چھوٹی چھوٹی سورتوں اورمنتخب آیات کے حفظ کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی تاکہ نماز کے دوران قرآن کے مختلف حصوں کی تلاوت کی جاسکے۔حضورؒ خود بھی اس بات کا اعادہ فرماتے رہتے تھے۔
(الفضل انٹرنیشنل7؍جون 1996ء)
مدرسة الحفظ
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی خصوصی توجہ کی بدولت حفظِ قر آن کلاس کا اجرا قادیان میں 1920ء سے ہی ہو چکا تھا۔قیام پاکستان کے بعد یہ کلاس پاکستان منتقل ہو گئی۔یہ کلاس جون1969ء میں جامعہ احمدیہ میں ایک کوارٹر، بعد ازاں مسجد حسن اقبال میں جاری رہی۔1976ء سے باقاعد ہ طور پر مدرسةالحفظ قائم کیا گیا۔سال 2000ءسے مدرسہ الحفظ کو الگ عمارت میں منتقل کر دیا گیا جہاں سے اب تک سینکڑوں طلباء قر آن کریم حفظ کر چکے ہیں۔17؍مارچ1993ء سے عائشہ دینیات اکیڈمی قائم ہے جہاں سے سینکڑوں بچیاں قر آن حفظ کرچکی ہیں ۔
بیرون پاکستان بھی متعدد ممالک میں حفظ قرآن کے ادارے قائم ہیں۔سال 2000ء میں برطانیہ میں حفظ قرآن کلاسز کا آغاز ہوا جس میں ٹیلی فون اور جز وقتی کلاسز کے ذریعہ قرآن حفظ کروایا جانے لگا ۔حال ہی میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر انگلستان میں انٹرنیشنل تعلیم القرآن اکیڈمی کا اجرا ہوا ہے۔
اسی طرح اور بھی بہت سے ممالک میں مدرسۃ الحفظ قائم ہے جن میں قادیان،گھانا، نائیجیریا، تنزانیہ، سیرالیون، کینیڈاو غیرہ بھی شامل ہیں۔بیرون پاکستان میں اب تک صرف گھانا کے مدرسۃ الحفظ سے ہی 66 طلباء قرآن حفظ کر چکے ہیں۔الحمدللہ۔
تراجم قرآن
تراجم قرآن کے میدان میں جماعت احمدیہ کی خدمات کی ایک دنیا قدر دان ہے۔حضر ت اقدس مسیح موعود ؑسے قبل برصغیر میں قرآن کریم کے ترجمہ کو معیوب خیال کیا جاتا تھا اور صرف عربی متن پڑھنے پر ہی زور دیا جاتا تھا۔یہ ایک طرف قرآن کے عربی متن سے محبت کا اظہار تو تھا لیکن عوام الناس جو عربی زبان سے نابلد تھے قرآن کے معانی سے ناآشنا رہتے۔ قرآن کریم کا پہلا اردو ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلو یؒ(پسر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ) نے کیاجو 1838-1839ءمیں شائع ہوا۔حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے اپنی بعثت کےبعد قرآن کے معانی، تفسیر، انوار وبرکات اور فیوض روحانی کا ایک بحربےکراں جاری فرمایا۔ آپؑ ہی کے بیان فرمودہ قرآن کے معارف اور انوار کی عالمگیر اشاعت کی سعادت خلافت احمدیہ کو ملی ۔
خلافت اولیٰ میں جماعت نے اپنے خرچ پر قرآن کریم کا انگریز ی زبان میں ترجمہ کروانا شروع کیا ۔اس کام پر مکرم مولوی محمد علی صاحب کو مقرر کیا گیا۔1914ء میں خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقع پر مولو ی محمد علی صاحب خلافت کی بیعت سے الگ ہو گئے اور قرآن کا ترجمہ بھی اپنے ساتھ لے گئے بعد ازاں اس کو اپنے نام سے شائع بھی کروا دیا۔ لیکن تراجم قرآن کی اشاعت کی جو توفیق خد ا تعالیٰ نے جماعت کی تقدیر میں لکھ دی تھی اس کو وقوع پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکا۔چنانچہ خلافت ثانیہ میں ہی دوبارہ سے قرآن کریم کے تراجم کا دوبارہ آغاز کیا گیا۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نےمختلف مواقع پر اور خاص طور پر 1944ء میں دنیا کی مشہور زبانوں میں ترجمۃ القرآن کی خاص تحریک فرمائی۔(الفضل 27؍اکتوبر1944ءصفحہ4) اور اس کے ساتھ ساتھ ان تراجم پر ہونے والے خرچ کے متعلق بھی تحریکات فرمائیں۔
ان تحریکات کا ثمریہ ملا کہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے عہد خلافت میں 15 زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ کا کام شروع ہواجن میں انگریزی،ڈچ،جرمن،سواحیلی،لوگنڈا، فرنچ، سپینش،اطالوی،رشین، انڈونیشین وغیرہ شامل ہیں۔
(سوانح فضل عمر جلد3 صفحہ173)
ان کے علاوہ تفسیر صغیر اورتفسیر کبیر شائع ہوئیں۔
خلافت ثالثہ میں 4زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ انگریزی تفسیر القرآن کا نیا ایڈیشن اور انگریزی زبان میں ہی تفسیر القرآن کاایک خلاصہ شائع ہوا (حیات ناصر صفحہ 493) اور تفسیر حضرت مسیح موعود کے کچھ حصے شائع ہوئے۔
خلافت رابعہ میں شائع شدہ تراجم قرآن کی تعداد 57ہو گئی اور 117سے زبانوں میں منتخب آیات کا ترجمہ شائع ہوا۔(سیدنا طاہر سونیئرصفحہ23) خلافت خامسہ میں اب تک جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع شدہ تراجم قرآن کی تعداد 76؍ہو گئی ہے۔خلافت احمدیہ کے زیرِسایہ قرآن کی یہ ایسی خدمت ہے جو آج تک کوئی دوسرا مسلمان فرقہ،جماعت،ملک یا قوم بجا نہیں لا سکی ۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک۔
خلفائے کرام کے تراجم قرآن
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دو خلفائے کرام کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ مکمل قرآن کا ترجمہ پیش فرما سکیں۔ان کا مختصر تعارف پیش ہے۔
تفسیر صغیر از حضرت خلیفہ المسیح الثانی
1954ءمیں حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ پر قاتلانہ حملہ ہوامگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزانہ طور پر بچا لیا۔بغرض علاج آپؓ نے 1955ء میں یورپ کا سفر فرمایا ۔ سفر سے قبل جماعت کے نام پیغام میں فرمایا:
’’میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے خدا! ابھی تک دنیا تک تیرا قرآن صحیح طورپر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمانوں کی زندگی۔تو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ میں قرآن کے بقیہ حصہ کی تفسیر کر جاؤں اور دنیا پھر ایک لمبے عرصہ کے لئےقرآن شریف سے واقف ہو جائے۔‘‘
(الفضل 10؍اپریل 1955ءصفحہ1)
اللہ تعالیٰ نے آپ کی عاجزانہ اور پُرسوز دعا کو سنا اور آپؓ کوایسی توفیق عطا فرمائی کہ باوجود بڑی عمر، پیچیدہ بیماری، بےشمار جماعتی مصروفیات کے آپ نے قرآن کا ایک ایسا ترجمہ کیا جو اردو زبان کے اعتبار سے اکملیت کا درجہ رکھتا ہے۔
آپؓ نے قرآنی متن اور اس کی روح کو حیرت انگیز طور پربامحاورہ اردو زبان میں منتقل کیا اور ایسے موزوں، شستہ اور فصیح الفاظ استعما ل فرمائے کہ ایک عالم کا عالم اس کو پڑھ کر ششدر رہ گیا۔اس کی ایک مثال سورة یوسف آیت نمبر25 اور آیت نمبر111 کا ترجمہ ہے۔ کمال درجہ کا یہ ترجمہ اپنے اندر ایک خوبصورت تفسیری رنگ بھی رکھتا ہے۔پس ایک پہلو سے یہ ترجمۃ القرآن بھی ہے اور دوسرے پہلو سے قرآن کی خوبصورت مختصر تفسیر بھی۔اس کے ساتھ ساتھ آپؓ کے بیان فرمودہ تفسیر حواشی بے شمار علوم و معارف اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔آپ کا یہ ترجمہ موسوم بہ ’’تفسیر صغیر‘‘1957ءمیں شائع ہوا۔
ترجمة القرآن حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابعؒ کا ترجمہ القرآن آپ کی سال ہا سال کی بے انتہا محنت،وسیع مطالعہ اور طویل غور وفکر کا نتیجہ تھا جواپنے اندر بے پناہ خوبیوں کو جمع کیے ہوئے ہے۔یہ ترجمہ آسان،سلیس اور عام فہم اردو زبان میں ہونے کے ساتھ یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ قرآن کے عربی متن کے عین مطابق اردوزبان میں ہے۔نیز اردو زبان کے رائج الوقت محاورے کے عین مطابق ہے۔حضورؒ نے خود کئی مواقع پر یہ ارشاد فرمایا کہ میں نے متعدد مشکل مقامات کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ سےراہ نمائی چاہی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ مقامات حضورؒپر کھول دیےاو ر حضورؒکو نئے معانی سکھائے۔ایک اور بہت اہم خصوصیت اس ترجمہ القرآن کی یہ ہے کہ یہ علوم جدید ہ سےمکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور جو نئی سائنسی ایجادات اور تحقیقات ہو رہی ہیں ان کی روشنی میں آپؒ نے قرآن کی صداقت کو ثابت فرمایا۔یہ ترجمہ حضورؒنےMTAپر 305 کلاسز کے ذریعہ ریکارڈ بھی کروایا ۔جن میں ترجمہ اور تفسیری نکات دونوں موجود ہیں۔
قرآن کریم کے منفرد ترجمہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو ایک خاص ملکہ حاصل تھا ۔آپؓ اپنے دروس القرآن میں اچھوتے انداز میں قرآن کا ترجمہ فرماتے تھے۔حضرت میر محمد سعید قادری صاحبؓ صحابی مسیح موعودؑ نے آپؓ کے دروس قرآن سےاکتساب فیض کر کےایک ترجمہ قرآن بھی تیار کیا تھا جو تفسیر احمدی کے نام سے موسوم ہے۔اس کا پہلا حصہ ترجمہ اور دوسرا حصہ تفسیری نکات پر مشتمل ہے۔(الفضل انٹرنیشنل 30؍نومبر2001ء)اس کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا بیان فرمودہ ترجمہ وتفسیر قرآن کا ایک بڑا حصہ’’حقائق الفرقان‘‘کی صورت میں بھی محفوظ ہو گیا۔
ان تراجم قرآن کے علاوہ دیگر خلفاء نے بھی حسب ضرورت اپنی تقاریر و تحریرات کے ذریعہ قرآنِ کریم کے گراں قدر نکات بیان فرمائے۔
تفسیر قرآن کا میدان
حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے علم الکلام،دقائق و معارف اور روحانی علوم سے فیض یاب ہو کر خلفائےاحمدیت قرآن کریم کی تفسیر کے میدان میں بھی ایسی خدمات بجا لائے جن کاتفصیلی احاطہ سینکڑوں صفحات کا متقاضی ہے۔قرآن کی تفسیر کی ضمن میں کی جانے والی خدمات کا کچھ ذکر ذیل میں ہے۔
خلافت ثالثہ میں تفسیر حضرت مسیح موعودؑ کی تدوین واشاعت
دَور خلافت ثالثہ کا ایک بڑا کارنامہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ کی تدوین ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے 1969ءمیں اپنی نگرانی میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر اور ارشادات کو قرآن کریم کی ترتیب کےمطابق یکجا کروانے اور شائع کروانے کا انتظام فرمایا۔خلافت ثالثہ میں سورة فاتحہ سے کہف تک کی تفسیر شائع ہوئی اور باقی سورتوں کی تفسیر پر کام جاری رہاجو بعد ازاں شائع ہوئیں۔
(حیات ناصر،صفحہ460)
حقائق الفرقان
حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بہت بڑے عاشق قرآن تھے۔قرآن گویا آپ کی روح کی غذا تھا۔ آپ کو قرآن سے اس قدر محبت تھی کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر جنت میں بھی مجھے کچھ مانگنے کا اختیار ہو تو میں قرآن مانگوں گا۔(تذکرة المہدی جلد1صفحہ246) حضر ت اقدس ؑکی صحبت نے آپ پر ایک نیا رنگ چڑھا دیا تھا۔آپؓ اکثر قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے درس قرآن کی مدد سے بہت سے نئےمعارف قرآن بیان فرمائے۔آپ کی تصانیف، دروس، تقاریر میں بیان فرمودہ حقائق و معارف کو یکجا طور پر جمع کر کے حقائق الفرقان کے نام سے ایک معرکہ آراء تصنیف شائع کی گئی ہےجو اپنی شستگی اور لطافت میں کمال کا درجہ رکھتی ہے۔حقائق الفرقان کی چار جلدیں ہیں۔
تفسیر کبیر
ہزاروں صفحا ت پر مشتمل قرآن کی بے مثال تفسیر قرآن حضرت خلیفہ المسیح الثانی ؓ کے ماتھے کا ایسا جھومر ہے جس نے خلافت اور فرزند امام الزمان کے مقام کو دنیا کےسامنے سورج کی طرح روشن کر کے دکھا دیا۔اللہ تعالیٰ نے الہاماًمسیح موعودؑکو فرمایا کہ آنے والا موعود بیٹا’’علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا ‘‘ نیز یہ بھی خوشخبری دی کہ اس کے آنے کا مقصد ہےکہ’’تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔‘‘ تفسیر کبیر اس الہامی صداقت کی بیّن دلیل ہے۔تفسیر کبیر کے پڑھنے کے بعد جماعت کے بڑے سے بڑے معاند بھی یہ کہنے پر مجبو ر ہو گئے کہ ’’تمارے پاس کیا ہے ؟ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے‘‘۔
ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ۔
تفسیر کبیر دراصل حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے مختلف مواقع پر بیان فرمائے گئے دروس القرآن کا مجموعہ ہے۔دس جلدوں پر محیط ہونے کے باوجود یہ مکمل قرآن کی تفسیر نہیں ہے۔آپؓ فرماتے ہیں :
’’عہدہ خلافت سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت سے کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور ان سے فائدہ اٹھائے۔‘‘
(خلافت راشدہ صفحہ254)
آپؓ نے تفسیر قرآن کے میدان میں بار بار مخالفین کو تفسیر نویسی کے چیلنج دیے بلکہ ہر موقع پر نئےسے نئے نکات کا بھی اضافہ فرمایا۔
تفسیر کبیر کی ممتاز خصوصیات میں چند ایک یہ ہیں کہ (1)اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانے کی ضروریات کو حضورؓ پر کھولا اور ان کے حسب حال آپ نے قرآنی علوم و معارف پیش فرمائے۔(2)قرآن کی سورتوں اور آیات کی باہم ترتیب کے حسن اور ان میں چھپے معارف کو ظاہر کیا۔(3) قرآن کی محکم آیات کو سامنے رکھتے ہوئے مشکل مقامات کی تفسیرفرمائی(4)تفسیر قرآن اور سیرت رسولﷺ کے ضمن میں ابتدائی مفسرین اور مورخین کی طرف سے کی گئی نادانستہ غلطیوں کی اصلاح نیز رسول اللہﷺ اور قرآن کی عظمت کا بیان۔(5)مستشرقین کی طرف سے کیے گئے اعتراضات کے تفصیلی جوابات۔(6) قرآن کی متعدد مقامات کی تفسیر کو خود اللہ تعالیٰ نے آپ پر کھولا اور نئے مضامین سمجھائے۔ (سورةالفاتحہ کے مضامین کے متعلق فرشتہ کی طرف سے تعلیم دیے جانے والا خواب)(7)قرآنی الفاظ کی مختلف لغات کی رو سے وضاحت اور ان پر بِنا کرتے ہوئے مفصّل تفسیر۔(8)قرآن میں مذکور پیشگوئیاں جو موجودہ زمانے میں پوری ہوئیں کا ذکر۔(9)علوم جدیدہ کی روشنی میں اسلام اور قرآن کی صداقت کا بیان۔یہ خصوصیات تفسیر کبیرکے بے پناہ خوبیوں کے سمندر میں سے چند ایک قطرے ہیں ۔اس کی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔جن میں حضرت آدمؑ کی تخلیق کے متعلق آیات کی تفصیل، حضرت لوط ؑپر آپ کی بیٹیوں کے حوالے سے الزامات کا ردّ، سورة مریم میں کھیعصسے عیسائیت کی بیخ کنی، والفجر و لیا ل عشر سے ایک نئے اور منفرد مضمون کا بیان سمیت بہت سی آیات و مقامات کی تفصیل مطالعہ کی جا سکتی ہے۔
پس تفسیر کبیر دراصل آپؓ کی تبحر علمی،وسعت نظر، علمی فکر و دانش اور ربانی قوّت کامنہ بولتا ثبوت ہے۔بہت سارے غیراحمدی محققین اور علماء تفسیر کبیر کی خوبیوں اور کمالات کے رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ تفسیر کبیر کے علاوہ دیباچہ تفسیر القرآن اور ہزاروں صفحات پر مشمل آپ کے کم بیش 2 ہزار کے قریب خطابات، تقاریر، خطبات جمعہ اور دروس میں قرآنی علوم کی عظمت اور شوکت کا اظہار آپؓ کی خدمت قرآن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
Five Volume Commentary of Holy Quran
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی دیرینہ خواہش تھی کہ آپ قرآن کریم کی مکمل تفسیر جماعت کے سامنے پیش کریں۔اگرچہ آپ نے مختلف مواقع پر دروس و خطابات کے ذریعہ قرآن کی تفسیر فرمائی مگر آپ کی بے پناہ مصروفیات کی بنا پر یہ سلسلہ مکمل نہ ہو سکا۔اس پر حضور ؓکے حکم سے آپ کے بیان فرمودہ دروس اور خطابات (جو حصہ تفسیر کبیر میں آ گیا ہے) کو خلاصة انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور باقی سورتوں کی تفسیر کے لیے حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے تیار کردہ نوٹس سے مدد لی گئی اور یہ تفسیر مکمل کی گئی۔پس یہ بھی دراصل حضرت خلیفہ المسیح الثانی ؓ کے علم القرآن کی بہتی نہریں ہیں جو انگریزی زبان میں ہمارے لیے موجود ہیں۔یہ تفسیر 5 جلدوں پر مشتمل ہے ۔
حضرت مسیح موعود ؑاور خلفائےسلسلہ کے انوار و برکات سے فیض یاب ہو کر بہت سےصحابہ کرامؓاور احمدی علماء نے قرآن کا مکمل یا مختلف حصوں کا ترجمہ اور تفاسیر بیان کی ہے۔مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے بیس صحابہ مسیح موعودؑ اور احمدی علماء کا ذکر فرمایا ہے جو اس میدان میں خدمت بجا لائے ہیں۔
(الفضل انٹرنیشنل 23؍نومبر2001ءاور30؍نومبر2001ء)
عالمگیراشاعت قرآن
اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ کو قرآن کے نسخوں اور مختلف تراجم کی عالمگیر اشاعت کی خاص توفیق مل رہی ہے۔ خلافت اولیٰ سے ہی مختلف تحریکات اور مالی سکیموں سے قرآن کی اشاعت کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 1913ءمیں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے قرآن مجید کے مستند اردو ترجمہ اور چند کتب کی اشاعت کی تحریک کی اور حضرت خلیفہ اولؓ سے درخواست کی کہ آپ مجھے ترجمہ اور نوٹس عنایت فرماویں نیز کچھ روپیہ بھی بخشیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے اس تحریک پر خوشنودی کا اظہار فرمایااور اعانت کا وعدہ فرمایااور کہا
’’مبار ک تحریک ہے اﷲ تعالیٰ اس کو مثمر ثمرات برکات کرے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ467)
دَور خلافت ثانیہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے جب قر آن کریم کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے تحریک فرمائی کہ اس کی ایک ہزار کاپیوں کی قیمت احباب پیش کریں تاکہ جماعت یہ ترجمہ دنیا کے بڑے لیڈروں، سربراہوں اورسیاستدانوںکو دے سکے نیز دنیا کی مشہور لائبریریوں میں رکھا جا سکے۔
( الفضل 26؍فروری1947ء صفحہ 3)
حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کو اشاعت قرآن سے ایک خاص عشق تھا۔قرآن کے متن کی عالمگیر اشاعت کے لیے آپ نے جماعت کا اپنا پریس لانے کا منصوبہ پیش فرمایا تاکہ جلد از جلد قرآن شائع ہو۔آپؒ نے 22؍ستمبر1970ءکو فرمایا:
’’اگر اپنا پریس ہو گا تو قرآن کریم سادہ یعنی قرآن کریم کا متن بھی ہم شائع کر لیاکریں گے ۔اس کی اشاعت کا بھی تو ہمیں بڑا شوق اورجنون ہے۔یہ بات کرتے ہوئے بھی میں اپنے آپ کو جذباتی محسوس کر رہا ہوں ۔ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے ہر گھر میں قرآن کریم کا متن پہنچا دیں۔‘‘
(خطبات ناصر جلد3صفحہ24تا25)
چنانچہ اس مقصد کے لیے 18؍فروری 1973ء کو ربوہ میں ایک جدید پریس کی بنیاد رکھی گئی۔بعد ازاں اس کا نام نصرت پرنٹرز اینڈ پبلشرز کر دیا گیا ۔ حکومتی پابندیوں کی وجہ سے یہ پریس کام شروع نہ کر سکا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے نئے اسباب پیدا فرما دیے جن سے قرآن کی اشاعت میں کوئی روک پیدا نہ ہوئی۔ حضورؒ نے بعد ازاں جماعت کو مختلف ممالک میں پریس قائم کرنے کی تحریک بھی فرمائی۔ اسی کا ثمر ہے کہ آج کئی ممالک میں جماعت کےاپنے جدید ترین سہولتوں سے آراستہ پریس ہیں جن میں بھارت، برطانیہ،گھانا وغیرہ شامل ہیں۔
آ پؒ کے دَور میں قرآن کی اشاعت پر بہت کام ہوا۔ایک دفعہ آپؒ نے فرمایا:
’’ایک دن مجھے بتایا گیا کہ تیرے دور خلافت میں پچھلی دونوں خلافتوں سے زیادہ اشاعت قرآن کا کام ہوا۔چنانچہ اب تک میرے زمانے میں پچھلی دو خلافتوں کے زمانوں سے قرآن مجید کی دو گنا اشاعت ہو چکی ہے۔دنیا کی کئی زبانوں میں اب تک قرآن مجید کے کئی لاکھ نسخے طبع کروا کر تقسیم کئے جا چکے ہیں۔‘‘
(الفضل15؍جولائی1980ءصفحہ2)
1973ء میں قرآن کریم کے 827نسخے غانا کو مختلف ہوٹلوں میں رکھنے کےلیے دیے۔قرآن کریم کے300نسخے کراچی کے مختلف ہوٹلوں میں رکھوائے گئے۔1973ءکے سال میں صرف افریقہ میں 2867نسخے رکھوائے گئے۔
(حیات ناصر صفحہ500)
خلافت ثالثہ کے بعد سے جماعت کثرت سے قرآن اور اس کے تراجم طبع کروا کر دنیا میں پھیلا رہی ہے۔
قرآن کی نمائشوں کا اہتمام
خلافت خامسہ میں اشاعت قرآن کا ایک نیا سلسلہ قرآنی نمائشوں کا انعقاد ہے۔اشاعت قرآن کے ضمن میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مواقع پر قرآن کریم کی نمائش لگانے کی تحریکات فرمائی ہیں۔2011ءمیں مغربی دنیا میں اسلام اور قرآن پر حملے دیکھ کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو قرآن کریم کی نمائش لگانے کا ارشا د فرمایاتاکہ دنیا کے سامنے قرآن کی خوبصورت تعلیم کو پیش کیا جا سکے۔
(خطبات مسرور جلد9صفحہ606)
جماعت احمدیہ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ان بابرکت تحریکات پر بھرپور انداز میں لبیک کہا۔ الحمدللہ دنیا کے بہت سے ممالک میں احمدی احباب نے قرآن کی نمائش لگائی اور حضور انور نے ان پر خوشنودی کا اظہار بھی فرمایا۔ ہر سال جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر مختلف ممالک میں اسی مقصد کے لیے قرآن کی نمائش کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
دروس القرآن و خطابات کے ذریعے روحانی فیوض کی تقسیم
درس قرآن کریم جماعت احمدیہ کا امتیازی نشان ہے۔ یہ سلسلہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دَور سے جاری ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلفائےاحمدیت کے زیرِ سایہ آج تک جاری و ساری ہے۔ قرآنی انوار کی تفہیم کے لیےاللہ تعالیٰ سے راہ نمائی پا کر خلفاء خود بھی مختلف مواقع پر درس القرآن ارشاد فرماتے رہے ہیں۔انہی دروس سے اکتساب فیض کرتے ہوئےمبلغین ایک تسلسل کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ حضرت مسیح موعود ؑکے بابرکت دَور میں بھی درس قرآن ارشاد فرمایا کرتے تھے۔یہ درس اتنا مفید اور روحانی امور سے مالامال تھا کہ خود حضرت مسیح موعودؑ دیگر اصحاب کو درس سے مستفیض ہونے کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ آپؓ کے درس القرآن کے بارے میں حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ فرماتے ہیں:
’’حضرت اقدس علیہ السلام بار بارمجھےفرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نورالدینؓ صاحب کی تفسیرقرآن تو آسمانی تفسیر ہے۔ صاحبزادہ صاحب! ان سے قرآن پڑھا کرو۔ان کے درس القرآن میں بہت بیٹھا کرواور سنا کرو۔اگر تم نے دو تین سیپارہ بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کرنے کا ملکہ ہو جائے گا۔‘‘
(تذکرة المہدی جلدنمبر 1صفحہ244)
انتخاب خلافت اولیٰ کے بعد بھی منصب ِخلافت کی بےپناہ مصروفیات کے باوجود حضرت مولوی نور الدینؓ صاحب بکثرت درس قرآن ارشاد فرمایا کرتے تھے تاکہ جس قدر ممکن ہو اشاعت حق کی جا سکے۔الحکم 1913ء سے معلوم ہوتاہے حضور روزانہ 5درس القرآن دیا کرتے تھے۔(الحکم مارچ 1913ء)حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکو قرآن کی تعلیم اور تدریس کا اس قدر جوش اور جذبہ تھا کہ آپ چاہتے تھےکہ ایک دارالقرآن قائم کیا جائے جس میں خصوصیت سے قرآن کا درس دیا جائے۔اس سلسلہ میں ایڈیٹر الحکم نے لکھا:
’’حضرت خلیفة المسیح کی دیرینہ خواہش ہے کہ قرآن مجید کے نہایت اعلیٰ معلِّم موصل وغیرہ سے منگوائے جائیں ۔اس وقت تک ہر چند یہاں قرآن مجید کی تعلیم و تدریس کی طرف توجہ ہے لیکن پھر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے …حضرت خلیفة المسیح نے حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ کو یہ خدمت سپرد کی ہے کہ وہ اس دارالقرآن کی تعمیر کا کام شروع کر دیں۔‘‘
(الحکم 21؍فروری 1913ء صفحہ3)
بعد ازاں حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ کی ہدایت پر مسجد اقصیٰ میں ہی ایک بڑا کمرا تیار کروا لیا گیا جو درس کے کام بھی آئے اور نمازی اس میں نماز بھی ادا کر سکیں۔
(حیات نور صفحہ605)
آپؓ کو درس قرآن کا اس قدر شوق و ذوق تھا کہ جب 4؍مارچ 1914ء کو آپؓ نے اپنی وصیت لکھوائی تو اس میں یہ بھی لکھوایا’’قرآن حدیث کا درس جاری رہے۔‘‘
(الحکم 7؍مارچ1914ء صفحہ5)
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ؓ کی خاص علامت تھی کہ کلام اللہ کا مرتبہ ان سےظاہر ہو گا۔آپؓ نے 1910ء سے ہی درس قرآن پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی غیر موجودگی میں بھی آپؓ ہی درس القر آن دیا کرتے تھے۔اپنے باون سالہ دَو ر خلافت میں آپ نے تعلیم القر آن کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔آپؓ نے اپنے ہر خطاب،تقریر اور درس میں قرآن کریم کی پر معارف تفسیر اور جدید نکات پیش فرمائے۔1928ءمیں آپ ؓنے قرآن کے درس کا ایک خاص سلسلہ شروع فرمایا جس میں شامل ہونے کے لیے بار بار احباب جماعت کو تلقین فرمائی۔
احباب جماعت میں بھی آپؓ نے درس القرآن شروع کرنے کی بار بار نصیحت فرمائی۔27؍دسمبر1927ء کو جلسہ سالانہ پر خطاب میں فرمایا:
’’ضروری ہے کہ ہر جگہ قر آن کریم کا درس جاری کیا جائے اگر روزانہ درس میں لوگ شامل نہ ہوسکیں تو ہفتہ میں تین دن سہی ۔اگر تین دن بھی نہ آسکیں تو دو دن ہی سہی اگر دو دن بھی نہ آسکیں تو ایک ہی دن سہی مگر درس ضرور جاری ہونا چاہئے تاکہ قر آن کریم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔‘‘
(انوار العلوم جلد10صفحہ92)
خلافت ثالثہ کا دَور بھی درس و تدریس کے ذریعہ قرآنی علوم کی اشاعت سے بھرا نظر آتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے24؍جون تا16؍ستمبر1966ء قرآن کی برکات،فیوض اور روحانی تاثیرات پر مشتمل خطبات جمعہ کا ایک سلسلہ شروع فرمایا۔یہ خطبات بعد ازاں کتابی صورت میں’’قرآنی انوار‘‘ کے نام سے چھپ چکے ہیں۔
دَور خلافت رابعہ میں دروس القرآن کے دو سلسلے ہمیں نظر آتےہیں۔حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ کا ایک عظیم الشان کارنامہ 305ترجمۃ القرآن کلاسز ہیں جس میں آپ نے مکمل قرآن کا ترجمہ سکھایا۔اسی ضمن میں آپؒ نے 19؍جون 1998ء میں ترجمہ القر آن کلاسز سننے کی تحریک بھی فرمائی ۔
(الفضل 14؍ اگست1998)
تفسیر قرآن کے میدان میں حضرت خلیفہ المسیح الربعؒ کا منفرد اور پر معارف انداز اپنی مثال آپ ہے۔ ابتدائے عہد خلافت سے ہی مختلف مواقع پر آپ دروس القرآن پیش فرمایا کرتے تھے۔ پھر ایم ٹی اے کے اجرا کے ساتھ 1994ء سے آپ نے رمضان میں درس القرآن کا ایک نیا سلسلہ شروع فرمایا جس میں آپ نے خصوصیت سے قرآن کریم کے ان حصوں کی تفسیر فرمائی جو تفسیر کبیر میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے تشنہ تھے۔
دَور خلافت خامسہ میں بھی جماعتی روایات کے مطابق ہر ملک اورتقریباًہر جماعت میں مقامی سہولت اور دستیاب وسائل کے ساتھ مقامی سطح پر درس قرآن کاسلسلہ جاری و ساری ہے۔
سیّدنا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ رمضان المبار ک کے آخری ایام میں پرمعارف درس قرآن پیش فرماتے ہیں ۔بعد ازاں تمام احمدی عالمی سطح پر حضور انور سے ساتھ دعا میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
تعلیم القرآن کلاسز اور جماعت کا مرکزی نظام
احمدی بچوں کے لیے خلفاء کرام کی ہدایات کےپیش نظر جماعت میں مختلف مواقع پر تعلیم القرآن کلاسز بھی منعقد کی جاتی رہی ہیں ۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی تحریک پر 1945ء میں خدام الاحمدیہ کے لیے تعلیم القرآن کلاس شروع ہوئی۔1964ء میں نظارت اصلاح و ارشاد کے تحت فضل عمر تعلیم القرآن کلاسز کا باقاعدہ انعقاد شروع ہوا۔مجلس خدام الاحمدیہ کے تحت تربیتی کلاس بھی اسی مقصد کے لیے منعقد کی جاتی رہی ہے۔دَور خلافت ثالثہ میں ہفتہ قرآن مجید کا بھی ایک سلسلہ شروع کیا گیا جو کامیابی سے جاری و ساری ہے۔
عہد خلافت ثالثہ کے آغاز میں حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ نے جماعت میں تعلیم القرآن عام کی غرض سے مرکزی نظام میں اضافہ فرمایااور ایڈیشنل نظارت اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن ووقف عارضی قائم فرمائی اورتمام ذیلی تنظیموں کو اس نظارت کی ہدایات کی روشنی میں اپنے ممبروں کو قرآن ناظرہ پڑھانے اور ترجمہ سیکھانے کا کام کرنے کا ارشاد فرمایا۔پھرآپؒ نے مجالس موصیان قائم فرمائی اور اِن کےلیے قرآنی انوارکا سیکھنا اور سکھانا لازمی قرار دیا گیا۔موصیان کےلیے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں تعلیم القرآن کا انتظام کریں اور نگرانی کریں کہ کوئی فردایسانہ ہو جو قرآن کریم نہ جانتا ہو۔(خطبات ناصر جلد 2صفحہ 563)پھر جب آپ نے وقف عارضی کی سکیم شروع فرمائی تو واقفین عارضی کے ذمہ سب سے اہم کام قرآن کریم ناظرہ اور با ترجمہ پڑھانے کا لگایا تاکہ افرادِ جماعت قرآنی انوار سے آگاہ ہوسکیں۔
(الفضل 14؍مئی 1969ء)
جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی سے 10 سال قبل آپ نے تعلیم القرآن کی دس سالہ تحریک کا اعلان فرمایا۔آپؒ فرماتے ہیں:
’’بلا استثناء ہر احمدی بچہ قاعدہ یسرنا القرآن پڑھے۔جو احباب قرآن کریم ناظرہ جانتے ہوں وہ ترجمہ سیکھیں اور جو ترجمہ جانتے ہیں وہ نبی کریمﷺ کی بیان فرمودہ تفسیر سیکھیں جو خود اللہ تعالیٰ نے نبی پاکﷺکو سکھائی اور وہ تفسیر بھی سیکھیں جو نبی اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور اور بصیرت و معرفت کے زیر سایہ خود کی۔‘‘
(الفضل29؍اکتوبر1979ء)
قرآن کا عملی نمونہ بن جاؤ
خلفائے سلسلہ نے قرآن کے پڑھنے اور پڑھانے کی ہی طرف توجہ نہیں دی بلکہ جماعت کو قرآن کا عملی نمونہ بننے کی بھی بار ہا نصائح فرمائیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:
’’آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پُرکلام کو جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے، اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کریں۔ اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریں اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں ۔‘‘
( الفضل 11 نومبر 2005)
قرآن پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات
خدمت قرآن کا ایک اور پہلو قرآن پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دینا ہے۔خلافت احمدیہ کی یہ ممتاز خوبی ہے کہ جب بھی اسلام، قرآن کریم اوررسول اللہﷺ کی ذات بابرکات پر کسی دشمن یا معاند نے حملہ کیا تو مسیح موعودؑ کے قافلے کے سپہ سالار آہنی دیوار بن کر اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دشمن کو دندان شکن جواب دیا۔ چاہے وہ آریہ سماج کے حملے ہوں یا مستشرقین کے اعتراضات ہوں۔ کسی نے سائنس کی آڑ لے کر قرآن پر بغض کی راہ نکالی ہو یا انسانی حقوق کے پردے میں چھپ کر اسلام کے خلاف منظم مہم جو ئی کا حصہ ہو۔ہر خلیفہ نے ہر زمانے میں ان اعتراضات کے بھرپور جوابات دیے اور مخالفین کو ساکت کر دیا۔ حقائق الفرقان، تفسیر کبیر، دیباچہ تفسیرالقرآن، خلفائے احمدیت کے ہزاروں کی تعداد میں خطبات جمعہ اور دیگر خطابات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ کی تصانیف قرآن پر آریوں اور عیسائیوں کے حملوں کے مسکّت اور مدلل جوابات سے بھری پڑی ہیں۔حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے پادری ویری اور نولڈکی وغیرہ کی طرف سے قرآن اور رسول اللہﷺ پر ہونے والے بہت سے حملوں کے جواب تفسیر کبیر میں پیش فرمائے ہیں۔
عصر حاضر میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے خلاف مہم پر 29؍فروری 2008ء کے خطبہ جمعہ میں اسلام اورقرآن کے خلا ف مغرب کی منظم مہم جوئی کا جواب دیا۔
( خطبات مسرور جلد6صفحہ86)
2011ءمیں جب ایک بد بخت امریکی پادری نے قرآن کریم جلانے کی کوشش کی تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا جا سکے تو حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ نے اس مکروہ فعل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قول و فعل سے قرآن کی ایسی خوبصورت تصویر پیش کریں کہ دنیا ان مکروہ حرکات کرنے والوں کو ہی لعن طعن کرنے لگ جائے وگرنہ مسلمان جلوس نکال کر یا اپنے ملک کو آگ لگا کر دشمن کے ہاتھ ہی مضبوط کر رہے ہوں گے ۔
(خطبات مسرور جلد9صفحہ140)
پھر18؍جولائی2014ءکے خطبہ جمعہ میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ڈنمارک کی ایک خاتون کے قرآن کے خلاف مضمون کا مدلل جواب پیش فرمایا۔
(خطبات مسرور جلد12صفحہ440)
الغرض قرآن کریم کی خدمت کی جو داستانیں خلفائے راشدین نے رقم کیں اور ہر ممکن کوشش کر کے کتاب اللہ کی خدمت کی ۔اس کی نظیر ہمیں صرف اور صرف رسول اللہﷺ کے غلام صادق اور اس کے خلفاء کے دَور میں ہی ملتی ہے۔ہر خلیفہ نےاپنے اپنےذوق اوررنگ میں اپنی کوششوں کو کمال تک پہنچاتے ہوئےتکمیل اشاعت ہدایتِ قرآن کے لیے اپنی زندگی کا ہر دن صرف کیا۔اللہ تعالیٰ سیدنا محمدﷺ، آپﷺ کے صحابہ کرام اور آل پر، آپﷺ کے غلام صادق اور اس کے خلفاء پر ہزار ہا سلامتی اور درود بھیجتا رہے تا وہ دن جلد از جلد آئے جب محمد عربی محمد مصطفیٰﷺ کا عرش دنیا کے ہر خطے میں عظمت سے متمکن ہو اور زمین قرآن پرحکمرانی اور شوکت قائم ہو جائے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین ثم آمین۔
حضرت اقدس مسیح پاکؑ فرماتے ہیں
’’سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سَو (700)حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دردازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تد بر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نےمجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔
تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔‘‘
(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد19صفحہ26تا27)
٭…٭…٭