خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍مئی 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمرؓ نے غزوۂ احد کے بعد مدینہ واپسی پر رسول اللہﷺ سے منافقین کےقتل کی اجازت چاہی لیکن آپؐ نے فرمایا کہ مجھے کلمہ گو کے قتل سے منع کیا گیا ہے

مظلوم فلسطینیوں کے لیے خصوصی دعا کی تحریک

بارہ مرحومین : مکرم قریشی محمد فضل اللہ صاحب نائب ناظر اشاعت قادیان ، مکرم سیّد بشیرالدین احمد صاحب مبلغ سلسلہ قادیان ، مکرم بشارت احمد صاحب حیدر واقفِ زندگی قادیان ابن فیض احمد صاحب شانہ، مکرم ڈاکٹر محمد علی خان صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع پشاور، مکرم رفیع خان شہزادہ صاحب سابق صدر محلہ دارالرحمت شرقی راجیکی ربوہ ، مکرم ایاز یونس صاحب آسٹریلیا ، مکرم میاں طاہر احمد صاحب ابن میاں قربان حسین صاحب سابق کارکن وکالت مال ثالث ربوہ، مکرم رفیق آفتاب صاحب یوکے،مکرمہ زرینہ اختر صاحبہ اہلیہ مرزا نصیر احمد صاحب چٹھی مسیح استاد جامعہ احمدیہ یوکے، مکرم حافظ محمد اکرم صاحب،مکرم چوہدری نور احمد ناصر صاحب، مکرم محمود احمد منہاس صاحب ابن حکیم عبیداللہ منہاس صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍مئی 2021ء بمطابق 21؍ہجرت1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 21؍ مئی 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمدصاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عمرؓ کاذکرچل رہا تھا،آپؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات اور متعدد سرایہ میں شریک ہوئے۔ غزوۂ بدر میں حضرت عمرؓ ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت ابوبکرؓ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ جنگِ بدر کے موقعے پر رسول اللہﷺ قریش کے تجارتی قافلے کی روک تھام کے لیے نکلے تو راستے میں خبر ملی کہ قریش کا ایک انتہائی تیز رفتار لشکر تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے نکل پڑا ہے۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ کرام کو یہ خبر دی اور مشورہ طلب کیاتو ایک گروہ نے لشکر کو چھوڑنے اور تجارتی قافلے کا قصد کرنے کے حق میں رائے دی۔ یہ مشورہ سن کرحضورﷺ کے چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا۔ ایسے وقت میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت مقدادؓ نے انتہائی پُراثر تقاریر کیں اور ہرحال میں آنحضرتﷺ کا ساتھ دینے کا یقین دلایا۔

حضورِانور نے غزوۂ بدر کے قیدیوں سے متعلق صحیح مسلم میں منقول حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک روایت پیش کی اور اسے مبہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ کا ایک غیرمطبوعہ تفسیری نوٹ ملاہے جو ان روایات کی تردید کرتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب میں رواج تھا اور دنیا کےبعض حصوں میں اب تک چلا آتا ہےکہ اگر جنگ اور لڑائی نہ بھی ہو تب بھی قیدی پکڑ کرانہیں غلام بنالیتے تھے، یہ آیت (سورۂ انفال :68) اس قبیح رسم کو منسوخ کرتی ہے۔ کہتے ہیں جنگِ بدر کے موقعے پر مسلمانوں نے کچھ قیدی پکڑ لیے تو آنحضرتﷺ نے صحابہ سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ ان کو قتل کردینا چاہیے جبکہ حضرت ابوبکرؓ نے رائے دی کہ انہیں فدیہ لےکر چھوڑ دیا جائے۔آنحضرتﷺنے ابوبکرؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو طبری کی تفسیرکے مطابق گویا خدانے آنحضرتﷺ کےفعل کو ناپسند فرمایامگر یہ تفسیر غلط ہے۔ اوّل تو اُس وقت تک خدانے ایسا کوئی حکم نازل نہیں کیا تھا۔دوم اس سے پہلے نخلہ کےمقام پر آنحضرتﷺ دو آدمیوں سے فدیہ لےکر انہیں چھوڑ چکے تھے۔سوم یہ کہ صرف دو آیتوں بعد خدا مسلمانوں کو اجازت دیتا ہے کہ مالِ غنیمت سے جو کچھ تمہیں ملے اس کو کھاؤ وہ حلال اور طیّب ہے۔ پس یہ تفسیر ہی غلط ہے اور صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس آیت میں ایک عام اصول مقرر فرمادیا ہے کہ قیدی اسی صورت میں پکڑے جاسکتے ہیں جب باقاعدہ جنگ ہو۔

حضرت عمرؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ کے خاوند جنگِ بدر میں شریک ہوئے اور بدر کے بعد بیمار ہوکر وفات پاگئے۔ اس وقت حضرت حفصہؓ کی عمر بیس سال سے زائد تھی چنانچہ حضرت عمرؓ نے حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت ابوبکرؓ سے حضرت حفصہؓ سے نکاح کرلینے کےمتعلق بات کی۔ جب دونوں کی طرف سے اس معاملے پر خاموشی اور مثبت جواب نہ ملا تو عمرؓ کو بہت ملال ہوا۔ آپؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عمرؓ فکر نہ کرو خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کو عثمانؓ و ابوبکرؓ سے بہتر خاوند اور عثمانؓ کو حفصہؓ سے بہتر بیوی ملے گی۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ یہ آپؐ نے اس لیے فرمایا کہ آپؐ حفصہؓ سے شادی کرلینے اور اپنی لڑکی ام کلثومؓ کو حضرت عثمانؓ سے بیاہ دینے کا ارادہ کرچکے تھے جس سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ دونوں کو اطلاع تھی اور اسی لیے انہوں نے حضرت عمرؓ کی تجویز کو ٹال دیا تھا۔جب آنحضرتﷺ نے خود اپنی طرف سے حضرت حفصہؓ کےلیے پیغام بھیجا تو حضرت عمرؓ نے نہایت خوشی سے رشتہ قبول کیا اور شعبان 3؍ ہجری میں حضرت حفصہؓ آنحضرتﷺ کے نکاح میں آکر حرمِ نبویؐ میں داخل ہوگئیں۔

غزوۂ احد کے موقعے پر جب قریش نے تقریباً چاروں طرف سے شدید حملہ کیا اور مسلمانوں کے عَلَم بردار حضرت مصعب بن عمیرؓ شہید ہوئے تو چونکہ اُن کا ڈیل ڈول آنحضرتﷺ سے ملتا تھا لہٰذا یہ شور مچ گیا کہ آنحضرتﷺ شہید ہوگئے ہیں۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان خطا ہوگئےاور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہوگئی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت مسلمان تین حصّوں میں منقسم تھے۔ ایک گروہ جو آنحضرتﷺ کی شہادت کی خبر سن کر بھاگ گیا تھا مگریہ سب سے تھوڑا تھا۔ دوسرے وہ جو اس خبر کوسن کر ہمت ہار بیٹھے تھے اور اب لڑنے کو بےکار سمجھتے تھے۔تیسرا گروہ وہ تھا جو برابر لڑ رہا تھا۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک سخت ابتلا اور امتحان کا وقت تھا چنانچہ حضرت عمرؓ بھی انہی لوگوں میں سے تھے جو مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ گئے۔ ان لوگوں کو جوں جوں آنحضرتﷺ کے زندہ موجود ہونے کا پتہ لگتا یہ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپؐ کے ارد گرد جمع ہوتے جاتے تھے۔جب آنحضرتﷺ اپنےچند صحابہ کے ساتھ پہاڑ کی گھاٹی پر پہنچے تو کفار کے ایک گروہ نے گھاٹی پر حملہ کردیا۔ حضورﷺ نے اس وقت دعا کی کہ اے اللہ! یہ لوگ ہمارے پاس نہ پہنچ سکیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے چند مہاجرین کے ساتھ ان مشرکین کا مقابلہ کیا اور مارتے مارتے ان کو بھگا دیا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ابوسفیان اپنے چند ساتھیوں کےساتھ اس درّےکی طرف بڑھا جہاں مسلمان جمع تھےاور پکار کر بولا مسلمانوں کیا تم میں محمد ہے؟ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی جواب نہ دے۔ پھر اس نے ابوبکرؓو عمرؓ کا پوچھا مگر اس پر بھی آپؐ کے ارشاد کےماتحت کسی نے جواب نہ دیا۔ جس پر ابوسفیان نے بلند آواز سے فخر کے لہجے میں کہا کہ یہ سب لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ اس پر حضرت عمرؓ سے رہا نہ گیا اور وہ بےاختیار ہوکر بولے اے عدواللہ! تُو جھوٹ کہتا ہے ہم سب زندہ ہیں اور خدا ہمارے ہاتھوں سے تمہیں ذلیل کرے گا۔جب ابوسفیان نےاُعْل ھبل یعنی اے ہبل! تیری شان بلند ہوکا نعرہ لگایا تو آنحضرتﷺ جو اپنے نام پر خاموش رہنے کا حکم دے چکے تھے اب خداتعالیٰ کے مقابلے میں بت کا نام آتے ہی بےتاب ہوگئے اور فرمایا تم جواب کیوں نہیں دیتے؟ کہو اللّٰہ اَعْلٰی وَ اَجَل یعنی بلندی اور بزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ ابوسفیان نے کہا لنا العزیٰ ولا عزی لکم ہمارے ساتھ عزیٰ ہے اور تمہارے ساتھ عزیٰ نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ سےفرمایا کہو اللّٰہ مولٰنا ولا مولٰی لکم، عزیٰ کیا چیز ہے۔ ہمارے ساتھ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔

جب رسول اللہﷺ غزوۂ احدکےبعد مدینہ پہنچے تو منافقین اور یہود خوشیاں منانے لگے کہ محمدﷺ بادشاہت کے طلب گار ہیں اور آج تک کسی نبی نے اتنا نقصان نہیں اٹھایا جتنا انہوں نے اٹھایا۔حضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے ان منافقین کےقتل کی اجازت چاہی لیکن آپؐ نے فرمایا کہ مجھے کلمہ گو کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔

حضرت عمرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعدحضورِانورنے مظلوم فلسطینی عوام کے لیے ایک بار پھر دعا کی تحریک کی۔ فرمایا گو جنگ بندی ہوگئی ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی بہانے سے دشمن ان مظلوم فلسطینیوں کو ظلم کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور فلسطینیوں کوبھی حقیقی آزادی میسر آئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ایسے لیڈر عطا فرمائے جن میں عقل و فراست ہو۔

اسی طرح احمدیوں کےلیے ،جو ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں خاص طور پر پاکستان میں ان کےلیےبہت دعاکریں۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔

اس کےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل مرحومین کاذکرِخیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:

1۔ مکرم قریشی محمد فضل اللہ صاحب نائب ناظر اشاعت قادیان جو 27؍اپریل کو وفات پاگئے تھے۔ اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

2۔ مکرم سیّد بشیرالدین احمد صاحب مبلغ سلسلہ قادیان جو تراسی برس کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

3۔ مکرم بشارت احمد صاحب حیدر واقفِ زندگی قادیان ابن فیض احمد صاحب شانہ۔ ان کی 71برس کی عمر میں گذشتہ دنوں وفات ہوگئی۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

4۔ مکرم ڈاکٹر محمد علی خان صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع پشاورجو67برس کی عمر میں وفات پاگئے۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

5۔ مکرم رفیع خان شہزادہ صاحب سابق صدر محلہ دارالرحمت شرقی راجیکی ربوہ جو 30؍ مارچ کو 82برس کی عمر میں وفات پاگئے۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

6۔ مکرم ایاز یونس صاحب آسٹریلیا ۔ یہ 24مارچ کو سیلابی پانی میں ڈوب جانے کی وجہ سے وفات پاگئےتھے۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

7۔ مکرم میاں طاہر احمد صاحب ابن میاں قربان حسین صاحب سابق کارکن وکالت مال ثالث ربوہ جو 67برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

8۔ مکرم رفیق آفتاب صاحب یوکے جو گذشتہ ماہ 63 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

9۔ مکرمہ زرینہ اختر صاحبہ اہلیہ مرزا نصیر احمد صاحب چٹھی مسیح استاد جامعہ احمدیہ یوکے۔ مرحومہ گذشتہ ماہ وفات پاگئی تھیں اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

10۔ مکرم حافظ محمد اکرم صاحب جو اسّی سال کی عمر میں وفات پاگئے۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

11۔ مکرم چوہدری نور احمد ناصر صاحب جو بیاسی سال کی عمرمیں وفات پاگئے تھے۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

12۔ مکرم محمود احمد منہاس صاحب ابن حکیم عبیداللہ منہاس صاحب جو 75سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button