مسیح ناصری کے اس امت میں آنے کے عقیدہ کے نقصانات
اگر یہودی
ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ
کے مصداق ہوچکے ہیں اور نبوت اس خاندان سے منتقل ہوچکی ہے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ مسیح دوبارہ اسی خاندان سے آوے۔ اگر یہ تسلیم کیا جاوے گا تو اس کا نتیجہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ادنیٰ نبی مانا جاوے اور اس اُمّت کو بھی ادنیٰ اُمّت۔ حالانکہ یہ قرآن شریف کے منشاء کے صریح خلاف ہے کیونکہ قرآن شریف نے تو صاف طورپر فرمایا
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران:111)۔
پھر اس اُمّت کو
خَیْرُ الْاُ مَّت
کی بجائے
شَرّالْاُ مَّت
کہوگے؟ اور اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر حملہ ہوگا۔ مگر یقیناً یہ سب جھوٹ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اعلیٰ درجہ کی تھی اور ہے۔ اس لئے کہ وہ اب تک اپنا اثر دکھا رہی ہے۔ اور تیرہ سو سال گزرنے کے بعد مطہّر اورمقدّس وجود پیدا کرتی ہے۔
اسلام کی برکات اور تاثیرات اب بھی جاری ہیں
اللہ تعالیٰ کا انتقالِ نبوت سے یہی منشاء تھا کہ وہ اپنا فضل وکمال دکھانا چاہتا تھا جو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا تھا۔ اسی کی طرف اشارہ ہے
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحۃ:6)
میں۔ یعنی اے اللہ !ہم پروہ انعام واکرام کر جو پہلے نبیوں اور صدیقوں شہیدوں اور صالحین پر تو نے کئے ہیں ہم پر بھی کر۔ اگر خداتعالیٰ یہ انعام واکرام کر ہی نہیں سکتا تھا اوران کا دروازہ بند ہوچکا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا ضرورت تھی؟ اسرائیلیوں پر تو یہ دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اگر یہاں بھی بند ہوگیا تو پھر کیا فائدہ ہوا؟ اور کس بات میں بنی اسرائیل پر اس اُمّت کو فخر ہوا ؟ جو خود اندھا ہے وہ دوسرے اندھے پر کیا فخر کر سکتا ہے؟
اگر وحی، الہام، خوارق یہودیوں پر بند ہو چکے ہیں تو پھریہ بتائو کہ یہ دروازہ کسی جگہ جا کر کھلا بھی یا نہیں؟ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ نہیں ہم پر بھی یہ دروازہ بند ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے۔ پانچ وقت
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحۃ:6)
کی دعا کرتے ہیں اور اس پر بھی کچھ نہیں ملتا۔ تعجب ! اللہ تعالیٰ کا خود ایسی تعلیم کرنا تو یہ معنے رکھتاہے کہ مَیں تم پر انعام واکرام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جیسے کسی حاکم کے سامنے پانچ امید وار ہوں اور وہ ان میں سے ایک کوکہے کہ تم یہاں حاضر رہو تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ اس کو ضرور کام دیا جاوے گا۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم کی اور پانچ وقت پہ یہ پڑھی جاتی ہے۔ مگرہمارے مخالف کہتے ہیں کہ اس کا کچھ بھی اثر اور نتیجہ نہیں ہوتا۔ کیا یہ قرآن شریف کی ہتک اور اسلام کی ہتک نہیں ؟
میرے اور ان کے درمیان یہی امر دراصل متنازع فیہ ہے۔ مَیں یہ کہتاہوں کہ اسلام کے برکات اور تاثیرات جیسے پہلے تھیں ویسے ہی اب بھی ہیں۔ وہ خدااپنے تصرفات اب بھی دکھاتاہے اور کلام کرتاہے۔ مگر یہ اس کے مقابلہ میں کہتے ہیں کہ اب یہ دروازہ بند ہوچکاہے اور خدا تعالیٰ خاموش ہوگیا۔ وہ کسی سے کلام نہیں کرتا۔ دعائوں میں تاثیر اور قبولیت نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات پیچھے رہ گئی ہیں اب نہیں۔ افسوس ان پر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف اور خداتعالیٰ کی قدر نہیں کی۔
اسلام زندہ مذہب اور ہماری کتاب زندہ کتاب اور ہمارا خدا زندہ خدا اور ہمارا رسول زندہ رسول، پھر اس کے برکات، انوار اورتاثیرات مُردہ کیونکر ہوسکتی ہیں ؟ مَیں اس مخالفت کی کچھ پروا نہیں کرسکتا۔ ان کی مخالفت کے خیال سے مَیں خداتعالیٰ اور اس کے رسول اوراس کی کتاب کوکیسے چھوڑ سکتاہوں۔ …
مختصر یہ کہ اس قسم کی ہتک اسلام اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ لوگ کرتے ہیں۔ پھر مَیں ان کی مخالفت کی کیا پروا کروں ؟ یہ لوگ اسلام کے دوست نہیں، دشمن ہیں۔ اگر بقول ان کے سب بے نصیب ہیں تو پھرکیا فا ئدہ ؟ ہزار اتباع کریں۔ معرفت نہ بڑھے گی تو کوئی احمق اور نادان ہی ہوگا جو اس پر بھی ا تّباع ضروری سمجھے۔ حضرت عیسیٰ کا آنا نہ آنا تو امر ہی الگ ہے۔ اس سوال کو پیچھے چھوڑو۔ پہلے یہ توفیصلہ کروکہ کیا اس اُمّت پر بھی وہ برکات اور فیوض ہوں گے یا نہیں ؟ جب یہ فیصلہ ہولے تو پھر عیسیٰ کی آمد کا سوال جھٹ حل ہوسکتاہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 427-429۔ ایڈیشن 2003ء)