فضائل القرآن (2) (قسط 13)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
فطرت انسانی کی روحانی طاقتوں کا اظہار کلامِ الٰہی کے بغیر نہیں ہو سکتا
اب ایک اورسوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر روح کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے تو وہ قرآن کریم کی تعلیم کو کس طرح سمجھ سکتی ہے۔ یہ بات ایک اور آیت سے حل ہو جاتی ہے جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روحانی طاقتوں کو فطرت انسانی سے بھی وابستہ قرار دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ روح میں بھی کلام الہی موجود ہوتا ہے مگر مخفی طور پر۔ اور وہ اپنے ظہور کیلئے بیرونی کلام الہی کا محتاج ہوتا ہے۔ پس تھوڑا علم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ فطرت انسانی کو روحانی طاقتوں سے لگائو نہیں۔ لگائو ہے مگر ان طاقتوں کا ظہور سوائے کلام الہی کے نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ۔ فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ (الواقعہ:78۔79)
یعنی قرآن کریم میں جو تعلیمات ہیں وہ فطرت انسانی میں جو مظہرروح ہے موجود ہیں۔ کیونکہ انسان اسی شئے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس کے اندر بھی موجود ہو۔ غیر جنس اسے نفع نہیں دے سکتی۔ جیسے اگر کان نہ ہوں تو سننا ناممکن ہے اور آنکھیں نہ ہوں تو دیکھنا ناممکن ہے۔ یا اس کی مثال پانی کی سی ہے کہ جب اوپر سے پانی برستا ہے تو چشمے بھی جاری ہو جاتے ہیں اور اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو چشمے بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی وحی کا پانی نازل ہوتا ہے تو روح انسانی سے بھی روحانی پانی ابلنے لگتا ہے۔ کیونکہ الٰہی کلام اور انسانی فطرت ایک دوسرے کیلئے بطور جوڑے کے ہیں۔ ایک لفظوں میں کتابِ الٰہی ہوتی ہے اور دوسری فطرت میں مرکوز ہوتی ہے۔ اور وہی کتاب الہامی ہو سکتی ہے۔ جو انسانی فطرت کے مطابق ہو پس انسانی فطرت میں بھی کلامِ الٰہی ہوتا ہے۔ مگر اسے ابھارنے کیلئے الہام کی ضرورت ہوتی ہے خداتعالیٰ نے ایک طرف تو اپنے کلام کا ایک حصہ انسان کے دماغ میں رکھ دیا اور دوسرا حصہ اس نے اپنے نبی کو دے کر بھیج دیا۔ جب یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں تو اسے خداکی طرف سے سمجھ لیا جاتا ہے۔
سفرِ ولایت کے ایام کا ایک واقعہ
اس موقع پر میں ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ جب میں ولایت سے واپس آیا تو جس جہاز پر ہم سوار ہوئے اس کا چیف انجینئر ایک دن جہاز کی مشینری دکھانے کیلئے مجھے لے گیا۔ اور دکھانے کے بعد کہنے لگا کہ آپ اپنے سیکرٹریوں کو واپس بھیج دیں۔ میں آپ کے ساتھ ایک خاص بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ میں نے ساتھیوں کو بھیج دیا۔ جب وہ چلے گئے تو کہنے لگا۔ آپ کے پاس مختلف ممالک کے خطوط آتے ہونگے۔ اگر آپ مجھے ان خطوط کے ٹکٹ بھجوا دیا کریں تو میں بہت ممنون ہونگا۔ میں نے کہا اچھا اگر کوئی غیر معمولی ٹکٹ ملا تو بھیج دیا کروں گا۔ کہنے لگا میں بھی آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ مجھ پر اعتبار کریں اور مجھ سے کام لیں۔ پھر کہنے لگا۔ آپ جس غرض کیلئے ولایت گئے تھے وہ مجھے معلوم ہے اور وہ یہی ہے کہ آپ نے حکومت کے خلاف وہاں مشنری رکھے ہوئے ہیں انہیں آپ مخفی ہدایات دینے گئے تھے۔ اب آپ جو مخفی تحریریں بھیجنا چاہیں وہ میں لے جایا کروں گا۔ آپ اس طرح کریں کہ کارڈ کا ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنریوں کو دیں اور دوسرے میرے ذریعہ بھیجیں۔ جب دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کے ساتھ فِٹ (FIT) ہو جایا کریں گے تو آپ کے مشنری سمجھ لیں گے کہ آپ نے جو ہدایات ان کو بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں۔ اس طرح وہ آپ کی ہدایت پہچان لیا کریں گے۔ اس کا یہ قیاس تو غلط تھا اور میں نے اس کی تردید بھی کی اور کہا کہ ہم اپنی حکومت کے وفادار ہیں۔ مگر جس طرح اس نے کہا تھا کہ ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنری کو دے دیں اور دوسرا ٹکڑا مجھے بھجوا دیں جب وہ دونوں ٹکڑے مل جائیں گے تو مشنری سمجھ لے گا کہ آپ نے جو ہدایات بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں۔ یہی حالت انسان کی روحانیت کے متعلق ہوتی ہے۔ ایک ٹکڑا کلام الہی کا انسان کے دماغ میں ہوتا ہے اور دوسرا ٹکڑا نبی کے پاس ہوتا ہے جب وہ دونوں فِٹ ہو جاتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر فِٹ نہ ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسا کلام پیش کرنے والا دھوکا باز ہے۔
کتابِ مبین اور کتابِ مکنون کا اتحاد
غرض روحانی ترقیات کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہی تعلیم نازل ہو جو روحانی قابلیتوں کے مشابہ ہو۔ پس اس طرح ایک رنگ میں کلامِ الٰہی انسانی دماغ میں بھی موجود ہوتا ہے۔ لیکن وہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا ابھارنا ایک کتاب واضح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کا نام اسی جہت سے کتاب مبین آیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔
قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ(المائدہ:16)
اے لوگو! تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور واضح کتاب آ چکی ہے اس سے فائدہ اٹھائو۔
پس روحانی قابلیتیں بمنزلہ زمین کے پانی کے ہیں جو آسمانی پانی کے قرب کے ساتھ اونچا ہوتا ہے۔ اور جس طرح بارش نہ ہونے پر کنووں کے پانی سوکھنے لگتے ہیں اسی طرح الہام کے نازل نہ ہونے پر فطرت کا سرچشمہ خشک ہونے لگتا ہے۔ پس باوجود اس کے کہ فطرت میں کلام مخفی طور پر موجود ہے وہ آسمانی پانی کی عدم موجودگی میں گدلا اور خراب ہو جاتا ہے اور اس پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب آسمانی پانی نازل ہو تو دونوں ایک دوسرے پر گواہ ہوتے ہیں۔ آسمانی پانی فطرت کے پانی کی صفائی کی گواہی دیتا ہے اور فطرت کا پانی آسمانی پانی کی صفائی پر گواہی دیتا ہے۔ گویا وہ ایک چیز کے دو ٹکڑے ہیں کہ دونوں مل کر ایک وجود پورا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں اس لئے رکھا ہے کہ جب آسمانی پانی نازل ہو تو فطرتِ صحیحہ اس کے لئے بطور شاہد ہو۔ پس کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد کتاب مبین اور کتاب مکنون دونوں کی سچائی پر شاہد ہوتا ہے۔ اور دھوکے بازوں کے دھوکا سے بچاتا ہے اور ان میں آپس میں ایسا ربط ہے کہ جب ایک قریب ہو تو دوسری خود بخود قریب ہونے لگتی ہے۔ الہام ہو تو فطرت ابھرنے لگتی ہے جیسا کہ سورۃ انعام میں بطور کلامِ الٰہی کی تمثیل کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیۡءٍ(الانعام:100)
یعنی الہی کلام کی مثال پانی کی طرح ہے۔ جس طرح پانی نازل ہونے سے سبزیاں اگنے لگتی ہیں اسی طرح کلام الہی کے نازل ہونے سے ہر قسم کی قابلیتوں میں ابھار شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اپنے جوہر کو ظاہر کرنے لگتی ہیں۔ اسی طرح فطرت کے ابھرنے سے بھی کلام الٰہیہ کھچ آتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے
مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ
اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں لیمپ ہو اور لیمپ چمکدار گلوب میں ہو جو ستارہ کی طرح چمکے۔ جس کی وجہ سے اس کی روشنی کا فوکس فائدہ اٹھانے والوں پر پڑ رہا ہو۔
یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ
اور اس میں اعلیٰ درجہ کا مصفّٰی تیل زیتون کے مبارک شجر کا ہو۔
لَا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ
اور وہ شجر ایسا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی۔
یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ۔
ایسا تیل اپنی اعلیٰ درجہ کی صفائی کی وجہ سے قریب ہو کہ بغیر آگ کے آپ ہی آپ روشن ہو جائے۔
نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ
اس لئے کہ جب اس تیل یعنی فطرتِ صحیحہمیں ایسی جلا پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کا نور جو اس فطرتی نور کو روشن کر دینے کی وجہ سے نار سے مشابہ بھی ہے نازل ہو جاتا ہے اور آسمانی نور زمینی نور سے آکر مل جاتاہے۔
اب دیکھو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ فطرت کا نور جب کامل جلا پا جائے اور ایسا مصفیٰ ہو جائے کہ گویا خود ہی جل اٹھنے والا ہو تو اس وقت وہ آسمانی نور کو جذب کر لیتا ہے یعنی مورد الہام ہو جاتا ہے۔ پس یہ کہنا کہ کامل اور مصفّٰی دماغ آپ ہی تعلیم کو معلوم کرے گا درست نہیں۔ اگر وہ کامل ہے تو الہام خود بخود اس پر نازل ہوگا۔ اور اگر وہ ناقص ہے تو پھر تعلیم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔
غرض اس آیت میں روحانی طاقتوں اور ان کے ارتقاء کے مسئلہ پر سیر کن بحث کی گئی ہے۔ جس پر عقل اور مشاہدہ دونوں شاہد ہیں۔ اور یہ بحث دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں مل سکتی۔
آگے بتایا کہ یہ نور کہاں ہے؟ فرماتا ہے۔
فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ (النور:37)
یہ نور ایسے گھروں میں ہے جن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے گا اور حکومت دی جائے گی۔ گویا نور سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں دنیا کا بادشاہ بنا دیا جائے گا۔
پس بے شک انسانی فطرت میں بھی نور ہے اور وہ خدا کے نور کے مشابہ ہے مگر قاعدہ یہ ہے کہ جب ایک فطرت جلا پا جائے یعنی اس قدر مکمل ہو جائے کہ الہام پانے کی طاقت اس میں پیدا ہو جائے تو آسمان سے الہام اس پر نازل ہوتا ہے گویا انسانی فطرت صحیحہ الہام کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ جب فطرت کامل ہو جائے تو ضرور ہے کہ الہام نازل ہو۔ لیکن اگر الہام نازل نہیں ہوتا تو فطرت کامل نہیں ہوگی۔ پس بغیر الہام الہی کے کام نہیں کیا جا سکتا۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭