احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
درمکنون ایک تعارف(حصہ دوم)
درِّمکنون المعروف بہ کلامِ احمد
یہ کلام زیادہ ترفارسی میں ہے البتہ چندایک اردو، ایک عربی رباعی بھی ہے۔ درمکنون کامطالعہ کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ بعض اشعارناقص چھوڑ دیے گئے ہیں۔ کسی جگہ پہلا مصرعہ موزوں ہو گیا ہے۔ مگر دوسرا مصرعہ رہ گیا ہے۔ اور کہیں دوسرا مصرعہ لکھا ہے۔ پہلا نہیں ہے جودلیل ہے اس امرکی کہ بے ساختہ جب دل آمادہ ہوا، قلم رواں ہوا توبے تکلفانہ اندازمیں قلب وروح کے جذبات کوشعروں میں ڈھال دیا اور پھریہ ضرورت کبھی نہیں سمجھی کہ ان اشعار کوتلاشاجائے اور تراشاجائے یاشاعروں کی طرح گھنٹوں دوسرے مصرعے کے لیے بے چین وبے قراررہیں۔ اوردورکی کوڑیاں تلاش کرتے پھریں۔ اوریہی وہ ایک بنیادی چیزہے کہ جوآپ کوشعراء سے ممتاز کرتی ہے اور ایک ایسامنفردمقام عطاکرتی ہے کہ جسے عرش کے خدانے بیان فرماکرواضح کردیا کہ
درکلام تو چیزیست کہ شعراء را دخل نیست
بہرحال درمکنون میں 219عناوین پرمشتمل منظومات ہیں۔ جن میں حمد، نعت، تردید شرک، جذبۂ قرآن، رضائےالٰہی، حال اولیاء اللہ وانبیاء کرام، مناظرہ باہندو، نفس امارہ، مرتبہ سلوک، اصلاح نفس، دربیان بت پرستی، مقام فنا، ردالوہیت ثانی، دربیانِ فقراء، درمذمتِ کبر، دربیان حسنِ الٰہی بخطاب موسی، دربیان دعا، معنیٔ ایمان، درتعریف صحابہؓ، احوال مراقبہ، فضل باری تعالیٰ، حال قیامت، حالِ عوام بدعتی، رہبانیت، مذمت گورپرستی، فرخ درصحبت درویشاں، آمدِ مجدد برہرصدی، درمذمت حرص، عشق الٰہی، دیداریار، ترک جزع، مدح اسلام، حالِ کافران، ذکرغیرمذاہب، مذمت کبر، سوزعشق، فرقت یار، عشق دلستاں، تعریف معشوق، قناعت، بے ثباتئ دنیا، مظالم کفار براصحاب کبار، نامہ پیغمبرخدابہ شاہ ایران، اہل اسلام، کفارہ، امام حسین، خداتعالیٰ باخراج نبوت ازیہود، جستجوئے یار، نالۂ دلِ زار، وفائے فرخ، کیفیت تصنیف کتاب وباعثِ آں، وعظ ونصائح پرکچھ نظمیں ہیں، غزل کے عنوان سے پرمعارف کلام ہے، اور دوعربی زبان میں قطعات ہیں۔
اردومیں جومنظوم کلام ہے وہ یہ ہے :
غزل
جب سے اے یار تجھے یار بنایاہم نے
ہرنئے روز نیا نام رکھایا ہم نے
کیوں کوئی خلق کے طعنوں کی ہمیں دھمکی دے
یہ تو سب نقش دل اپنے سے مٹایا ہم نے
غزل
کچھ تو سمجھو میرے اس دل کو دکھانیوالو
تم کہاں چھپ گئے آرام کے دینے والو
حق کے پیغام سنانے میں بڑےفتنے ہیں
سوچ کر دیکھو مجھے دکھ کے پہنچانے والو
کچھ تو تدبیر کرو تا وہ مسیحا اترے
گالیاں مجھ کو اسی روسے سنانے والو
غزل
وہ وہ تیری قدرتیں پیارے
قدرت کے ہیں تیرے کام سارے
جس طرف تو پھیرے پھرتے ہیں ہم
دل ہیں تیرے ہاتھ میں ہمارے
وہ تو ہے جو ایک لفظ کن سے
بگڑی ہوئی بات کو سنوارے
ہوتا ہے وہی جو تو نے چاہا
تقدیر کے آگے ہم تو ہارے
کس کا گلہ اور کس کی تعریف
نفس امّارہ
نفس امّارہ تو بد لیک بغیر اس کے بشر
وہ مدارج جو ملے اس کو وہ کیونکر پاتا
ہم تو قرباں اسکی بد کے ہیں کہ جس نے ہم کو
اس امانت کیلئے زور کہاں سے لاتا
کیوں دیویں دل غیروں کو ہم یہ اپنی ہرگز خو نہیں
میرادلستاں وہی ایک ہے دل ایک بر میں ہے دونہیں
ہیں خیرہ آنکھیں سربسرشرم وحیا کی تو بو نہیں
…………………
ایک پنجابی غزل بھی ہے۔
پنجابی غزل
عشق الٰہی وسے منہ پر ولیاں ایہ نشانی
لاثانی دا جو ہے عاشق اسدا کوئی نہ ثانی
بکری بھیڈ خدا دی راہ وچہ کُہنا ہےَ کی مشکل
جو ہن کُہندے نفس دنی نوں ایہ سچی قربانی
یاد الٰہی غافلو دل نوں پاک بناوے
جو کوئی اسدی یادنہ کردااوہ کافر ہو جاوے
عشق الٰہی وسے منہ پر ولیاں ایہ نشانی
جو کوئی اسدا ہو گیا اوہ اسدا مترجانی
…………………
صفحہ 180 پر قطعہ عربی بھی ہے :
کفانی خالقی ربی معینی
ایا رب اجعل التوحید دینی
فداءک ایھا المحبوب روحی
فادرکنی و زدنی فی یقینی
علٰی نفسی ظلمت و قلتُ قولًا
فادرکنی و زدنی فی یقینی
مفہوم وترجمہ ان اشعارکایہ ہے کہ میراخالق جومیرارب ہے اور میرامعین و مددگارہے وہ میرےلئے کافی ہے۔ اے میرے رب! توحیدکومیرادین بنا دے۔ اے میرے محبوب! میری روح تجھ پرقربان وفداہے۔ پس تومجھے اپنے ہاتھوں سے تھام لے اور میرے یقین میں مجھے بڑھادے۔ میں نے اپنے نفس پرظلم کیااور میں نے یہی کہا کہ تومجھے تھام لے اور میرے یقین ومعرفت میں مجھے بڑھادے۔
اور آخرپرخاتمہ کتاب کے نام سے کچھ اشعارہیں۔ اور ان سے معاً پہلے بدظنی پرایک اردونظم ہے۔ جس کاپہلاشعرہے
اگردل میں تمہارے شر نہیں ہے
توپھرکیوں ظن ِ بدسے ڈرنہیں ہے
(در مکنون صفحہ د)
جیساکہ بیان ہوچکا کہ درمکنون1916ء میں شائع ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد اس کادوسراحصہ بھی شائع ہوا۔ جس کانام درعدن تھا۔ ٹائٹل پرعنوان یوں درج ہے
’’ رسالہ ہٰذا مشتمل برپیشگوئی جنگ مسمّے بہ درعدن حصۂ دوم درمکنون یعنی حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت مرزاغلام احمدصاحب مسیح موعودؑ کا وہ اردو اورفارسی کلام جوپہلے کسی کتاب میں شائع نہیں ہوا‘‘
محمدفخرالدین ملتانی صاحب نے اس کوبعہدخلافت ثانیہ 4اپریل 1917ء میں شائع کیا۔
جونسخہ خاکسارکےپاس ہے(فوٹوکاپی) اس میں صرف ایک طویل نظم ہے۔ اس کے ایک صفحہ پرحضرت اقدسؑ کے دست مبارک کی تحریرمعلوم ہوتی ہے۔
صحبت صالحین اور روزوں کاعظیم مجاہدہ
حضرت اقدس علیہ السلام کی سوانح کے بیان میں جب آپؑ کی عبادت اور زہدو ریاضت کاذکرآئے گا تو آپؑ کے یہ معمولات عام صوفیاء اور فقراء کی ڈگرسے یکسر مختلف، قرآن کریم اور کان خلقہ القرآن کے مصداق آنحضرتﷺ کے اسوہ وشمائل کے رنگ میں رنگین نظرآئیں گے۔ آپؑ کی زندگی کاایک ایک پل اپنے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے شمائل کے مطابق گزرتا۔ آپؑ کااٹھنا بیٹھنا، سوناجاگنا، کھاناپینا، رہن سہن، عبادت وریاضت، ہر پہلو اپنے محبوب آقاﷺ کی اطاعت ومتابعت میں ہوتا۔ ہم نے کئی بار یہ واقعہ پڑھااور سنا ہے کہ ایک بار جب غالباً سیالکوٹ میں مہمان بن کرتشریف لے گئے اور چھت پرسونے کے لیے چارپائیاں بچھائی گئیں۔ اس چھت پرمنڈیرنہ تھی۔ تو آپؑ جب وہاں تشریف لے گئے تووہاں سونے سے یہ کہہ کرانکارفرمادیا کہ میرے آقا نے بغیر منڈیرکی چھت پرسونے سے منع فرمایا ہے لہٰذا میں باوجودگرمی کے چھت پرنہیں سوسکتا اور یہ کہہ کرنیچے تشریف لے آئے۔
قارئین کرام! اس واقعہ کی عظمت اور شان اس تناظر میں اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب ہم آپؑ کی سوانح اورسیرت میں یہ پہلودیکھتے ہیں کہ آپؑ اپنے میزبان کے جذبات کابھی کس قدرخیال رکھتے تھے۔ کسی کی دلداری کابھی ازحدخیال ہوتا۔ اور خودتکلیف برداشت کر لیتے لیکن دوسرے کواحساس بھی نہ ہونے دیتے۔ لیکن یہاں جب بات تھی نبی اکرمﷺ کے ایک فرمان کی کہ جس کوایک معمولی بات سمجھ کر اکثر نظرانداز کر دیا جاتاہے۔ لیکن آپؑ چھوٹی سے چھوٹی بات کوبھی اتناہی بڑااوراہم سمجھتے کہ جیسانبی اکرمﷺ کے فرمان کی شان اور اہمیت اورعظمت کاحق ہے۔
آپؑ کایہی وصف آپؑ کی زندگی کے ہرشعبہ پرحاوی اور نمایاں نظر آتا ہے۔ آپؑ کی زندگی کایہ عہدمبارک وہ ہے کہ جس کوعموماً سیرت نگار اور سوانح نویس گمنامی کا دورقراردیتے ہیں۔ آپؑ زاویۃ الخمول میں بیٹھےہوئے نظرآتےہیں۔ لیکن یہ گمنامی بھی ایک نام رکھے ہوئے تھی اور یہ خلوت بھی جلوت کے رنگ میں رنگین تھی۔ غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کے دل ودماغ میں ایک نام تھا۔ اوروہ آپؑ کاہی نام تھا۔ ان سب کوجب بھی ضرورت پڑتی، جب بھی کوئی مشکل وقت آتا تو ایک ہی چوکھٹ تھی جس پریہ آتے اوران سب کے لیے یہ دروازہ کھلارہتا اور یہ غریبوں اور یتیموں کی آس وامیدتھی جوایک ’’یوروپین سپاہی‘‘ کی طرح مستعداور چاک وچوبند ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ دسترخوان پریتیموں کی مجلس لگی ہوتی اور کونوا مع الصادقین کی تعمیل میں اولیاء اللہ وصلحائے امت کی صحبت کے لیے قادیان سے باہردوسرے شہروں میں بھی تشریف لے جاتے۔
سیالکوٹ میں جب آپؑ کاقیام تھا تووہاں آپ کا ایک بزرگ مولوی محبوب عالم صاحب مرحوم سے ملاقات کاعلم ہوتاہے۔ گورداسپورضلع میں واقع طالب پور کے متصل ایک مقام سم شریف کہلاتاہے۔ وہاں پانی کاایک چشمہ ہے۔ جہاں شرف الدین صاحب نام کے بزرگ رہتے تھے۔ کونوامع الصادقین کی تعمیل میں حضرت اقدسؑ ان کے پاس بھی چندمرتبہ تشریف لے گئے۔
(ماخوذ ازحیات احمدؑ جلداول صفحہ130۔ 131)
تاریخ سے آپ کے یہاں بعض لوگوں کا آنا بھی ثابت ہے۔ مثلاً ایک صاحب مکے شاہ نام ساکن لیل متصل دھاری وال قادیان آتے اور آپ ہی کے پاس قیام کرتے تھے۔
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 132)
٭…٭…٭