متفرق مضامین

حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسےہے؟ (قسط سوم)

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

غض بصر سے کیا مراد ہے؟

مَردوں اور عورتوں کو غَضِّ بصر سے کام لینے کا حکم کیوں دیا گیا ؟

گذشتہ قسط میں ہم نے حیا کے بارے میں قدرے وضاحت سے بات کی تھی۔ اس مضمون میں ہم حیا کے اگلے اہم پہلو غض بصر کے بارے میں بات کریں گے جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ۔ (النور:31)

مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فر ماتے ہیں کہ

’’مومن کو نہیں چا ہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بےمحابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلکہ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ (النور: 31)پر عمل کرکے نظر کو نیچی رکھنا چا ہئے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چا ہئے۔ ‘‘

( ملفو ظات جلد اوّل صفحہ 533، ایڈیشن 1988ء)

بے پردگی کی ابتدا نظروں کے بے حجابانہ استعمال سے ہوتی ہے۔ کیوں کہ نظر کا بھٹکنا ہی جنسی بے راہ روی کا پیش خیمہ ہے، چنانچہ پاک دامنی کی پہلی شرط نظر کی حفاظت ہے اور نظر کی حفاظت کے فوراً بعد شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔

غَضِّ بصر کا حکم مومن مَردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے

پھر آپؑ مزید فرماتے ہیں :

’’اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مَردوں کے واسطے لازم کئے ہیں۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے، مَردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غَضِّ بصر کا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، حلال و حرام کا امتیاز، خداتعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی عادات، رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 614، ایڈیشن 1988ء)

انسان میں حیا کا ہونا مرد و زن دونوں کے لیے یکساں ضروری ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی حیا کا لفظ ادا کیا جائے تو اس کو محض عورت سے منسوب کردیا جاتا ہے، جب کہ قرآن میں سورہ نور میں عورتوں سے پہلے مردوں کو غض بصر کا حکم ہے۔ اس کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی پردے اور نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ نگاہ کی حفاظت انسان کو باحیا بناتی ہے۔ کیوں کہ اگر نظر میلی ہوگئی تو دل میں غلط خیالات پیدا ہوں گے۔ آنکھ میں حیا ہوگی تو دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ اﷲ نے انسان کی فطرت میں حیا رکھی ہے۔ ایک بچہ فطرتاََ باحیا پیدا ہوتا ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس پر معاشرے کے رسم و رواج اور ماحول کے اثرات حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور اس کے اندر حیا کی صفت نابود ہوجاتی ہے۔ آج کے دَور میں دیکھا جائے تو نگاہیں نیچی رکھنے والے شرمیلے اور باحیا انسان کو فرسودہ اور دقیانوسی خیال کیا جاتا ہے۔ دوست احباب، خیرخواہی کے پردے میں طنز کے تیر چلا کے اس شخص کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب کہ اسلام اور آپﷺ کی تعلیمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شرمیلا اور باحیا ہونایا غض بصر سے کام لینا باعث ِشرمندگی نہیں بلکہ بذات خود ایک بہت بڑی صفت ہے۔ چنانچہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اس صفت کےبارے میں فرماتے ہیں :

’’سب سے پہلے تو مَردوں کو حکم ہے کہ غَضِّ بصرسے کام لیں۔ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیزکو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے۔ یعنی بلا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں۔ جب بھی نظر اٹھاکر پھریں گے تو پھر تجسس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو۔ اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو۔ یعنی اَدھ کُھلی آنکھوں سے، راستوں پرپوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو۔ بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو۔ لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتاہو کہ جس چیز پرایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جاناہے…علامہ طبری کا جو بیان ہے وہ پیش کرتاہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ غَضِّ بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکناہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ (تفسیرالطبری جلد 18 صفحہ 116۔ 117)

تومَردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور اگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے توبہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہوجاتاہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)

اسی بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں :

’’ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھناچاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بےمحابانظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدّنی زندگی میں غَضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خُلق کے رنگ میں آجائے گی۔ ‘‘

(بحوالہ تفسیر جلد ششم حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم صفحہ 94)

تو دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تو ایسے انسان کو جو اپنی نگاہوں کو کنٹرول نہیں کرسکتا حیوان سے مشابہ قرار دیا ہے۔ صرف مردوں کو ہی نہیں کہا کہ غض بصر سے کام لیں بلکہ مومن عورتوں کے لیے بھی یکساں حکم ہے ۔ اس بات میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی زبانی دیکھتے ہیں کہ آپ اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں :

’’پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ غَضِّ بصرسے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھاکریں۔ اگر عورت اونچی نظر کرکے چلے گی تو ایسے مرد جن کے د لوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر ان عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے۔ توہرعورت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بدنامی سے بچانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے غَضِّ بصر کا، اس پر عمل کریں تاکہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہوں۔ کیونکہ اس قسم کے مرد جن کے دلوں میں کجی ہو، شرارت ہو تو وہ بعض دفعہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور پھر بلاوجہ کے تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے آنحضرتﷺ نے اپنی بیویوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ اگر مخنّث آئے تو اس سے بھی پردہ کرو۔ ہوسکتاہے کہ یہ باہر جا کر دوسرے مَردوں سے باتیں کرے اور اس طرح اشاعتِ فحش کا موجب ہو۔

تو دیکھیں آنحضرتﷺ نے کس حد تک پابندی لگائی ہے۔ کجا یہ کہ جوان مرد جن کے دل میں کیا کچھ ہے ہمیں نہیں پتہ، ان سے نظر میں نظر ڈال کر بات کی جائے یادیکھا جائے۔ بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ایسا لہجہ ہونا چاہئے جس میں تھوڑی سی خفگی ہو، ترشی ہو تاکہ مرد کے دل میں کبھی کوئی برا خیال نہ پیداہو۔ تو اس حد تک سختی کا حکم ہے۔ ‘‘

اسی خطبہ جمعہ میں حضورانور نے غض بصر کے حوالے سےچند احادیث بیان کرتے ہوئےمزید فرمایا:

’’حضرت ابوسعید خُدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :

راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو۔ صحابہؓ نے عرض کی، یا رسول اللہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر رستے کا حق ادا کرو۔ انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غَضِّ بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ61 مطبوعہ بیروت)

دیکھیں کس قدر تاکید ہے کہ اول اگر کام نہیں ہے تو کوئی بلاوجہ راستے میں نہ بیٹھے اور اگر مجبوری کی وجہ سے بیٹھنا ہی پڑے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ بلاوجہ نظریں اٹھا کے نہ بیٹھے رہوبلکہ غَضِّ بصر سے کام لو، اپنی نظروں کو نیچا رکھو، کیونکہ یہ نہیں کہ ایک دفعہ نظر پڑ گئی تو پھر ایک سرے سے دیکھنا شروع کیا اور دیکھتے ہی چلے گئے۔

…حضرت جریرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ’’اچانک نظر پڑ جانے‘‘کے بارہ میں دریافت کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا

’’اِصْرِفْ بَصَرَکَ‘‘

اپنی نگاہ ہٹا لو۔

(ابو داؤد کتاب النکاح باب فی ما یؤمر بہ من غض البصر)

…حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فضل(بن عباس) رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھے تو خَثْعَمْ قبیلہ کی ایک عورت آئی۔ فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی۔ تواس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑدیا۔

(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج و فضلہ)

حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غَضِّ بصر کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے۔

(مسند أحمد مسند باقی الانصار باب حدیث أبی أمامۃ الباھلی الصدی بن عجلان)

تودیکھیں نظریں اس لئے نیچی کرنا کہ شیطان اس پر کہیں قبضہ نہ کرلے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو نیکیوں کی توفیق دیتاہے اور عبادات کی توفیق دیتاہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عورت جسمانی لحاظ سے کمزور ہے۔ دوسرا اس کی فطرت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ جاذب نظر، پرکشش اور اپنے حسن کی نمائش کرنے والی بھی ہے تو ایسے میں وہ مرد کے ہاتھوں جو کہ جسمانی لحاظ سے مضبوط ہے مگر فطرتا ًعورت کے حسن کی جانب مائل ہوتا ہے اور بسااوقات اسے پانے کی خواہش میں جنسی تشدد کا بھی شکار کرتا ہے۔ ایسی گھمبیر صورت حال سے بچانے کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عورت کو پردہ کرنے کا ارشاد فرمایا آپ سورۂ نور کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مَردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ یہ وہ تدبیر ہے کہ جس سے پابندی ٹھوکر سے بچاسکتی ہے۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ341تا342)

حضرت مصلح موعودؓ پردہ کے متعلق فرماتے ہیں :

’’شرعی پردہ جو قرآن کریم سے ثابت ہے یہ ہے کہ عورت کے بال گردن اور چہرہ کانوں کے آگے تک ڈھکا ہوا ہو۔ اس حکم کی تعمیل میں مختلف ممالک میں اپنے حالات اور لباس کے مطابق پردہ کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘

(الفضل 8؍نومبر 1924ء)

مرد اپنی آنکھیں پاکیزہ رکھیں

ماہرین نفسیات کے مطابق جس فعل کا تذکرہ عام ہوجائے، چاہے اچھا ہو یا برا، وہ معاشرہ میں پھیل جاتا ہے۔ اگر ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو، ٹی وی چینلز اورسوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر فحش ہو تو یہ امر لوگوں کے لیے حقیر ہوجاتا ہے کیونکہ ماحول میں ہر طرف وہی کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے اس لیے لوگ اسے معمول کی بات سمجھ کر برائی پہ دلیر ہوجاتے ہیں۔ اگر بدی کی تشہیر کو نہ روکا جائے تو پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں وہ برائی برائی ہی نہیں رہتی۔ بدقسمتی سے یہی حالت اس وقت تمام دنیا کی ہوچکی ہے۔ بے حیائی کے نظارے اب عام معمول زندگی ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مرد کیونکہ گھر کا سربراہ ہے اس لیے اس پہ اہل خانہ کی تربیت کی بھی ذمہ داری عائد کی گئی ہےاور یہی وجہ ہے کہ فحشاء کو دور کرنے کی بھی بڑی ذمہ داری مردوں پہ ڈالی گئی ہےتاکہ معاشرے سےبرائی کا سدباب کیا جاسکے۔ قرآن کریم کے حوالے سے حضور انورایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے اجتماع میں پاکدامنی کے وصف کو اپنانے کے لیے جو اہم نصائح فرمائیں اُن میں فرمایا:

’’سورۃالمؤمنون آیت6میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک اور خوبی کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ(المومنون:6)

اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اپنی عفّت وحیا کو قائم رکھنا صرف ایک عورت ہی کا کام نہیں ہےبلکہ مَردوں پر بھی فرض ہے۔ اپنی عفّت کی حفاظت کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ایک شخص شادی شدہ زندگی سے باہر ناجائز جنسی تعلقات سے بچتا رہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے ہمیں اس کا یہ مطلب سکھایا ہے کہ ایک مومن ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہر اُس چیز سےپاک رکھے جو نامناسب ہے اور اخلاقی طور پر بُری ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے ایک چیز جو انتہائی بیہودہ ہے وہpornographyہے۔ اسے دیکھنا اپنی آنکھوں اور کانوں کی عفّت اور پاکیزگی کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ یہ بات بھی پاکبازی اور حیا سے متعلق اسلامی تعلیمات کے منافی ہےکہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آزادانہ طور پر آپس میں میل جول ہو اور ان میں باہم تعلقات اور نامناسب دوستیاں ہوں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ہم احمدی عورتوں کو کہتے ہیں کہ انہیں پردہ کرنا چاہئے۔ اور مَیں بھی احمدی عورتوں کو یہی کہتا ہوں کہ وہ پردہ کریں اور اپنی عفّت و پاکیزگی کی حفاظت کریں۔ لیکن یہ بات یاد رہےکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو پردہ کرنےکا حکم دینے سے پہلے مومن مَردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غَضِّ بصر سے کام لیتے ہوئے اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے دل ودماغ کو ناپاک خیالات اور برے ارادوں سے پاک رکھیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر سورۃ النور آیت31 میں فرمایا ہےکہ

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ

۔ مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

جبکہ مَردوں کو ظاہری طور پر اس طرح پردہ کا حکم نہیں ہے جس طرح عورتوں کو ہےقرآن مجید واضح طور پر اس بات کاحکم دیتا ہےکہ مرد اپنی آنکھیں پاکیزہ رکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کی طرف شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور اپنے دماغوں کو صاف رکھیں اور ہر ایسی بات سے دور رکھیں جن سے انسان برائی کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔

یہ وہ پردہ ہے جس کا مَردوں کو حکم ہےاور جس سےمعاشرہ برائی و بے حیائی اور خطرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اسلام کی بیان فرمودہ کوئی بھی تعلیم سطحی اور بغیر حکمت کے نہیں۔ بلکہ اسلام کا ہر اصو ل انتہائی پُر حکمت اور مضبوط بنیادوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ مَردوں کےغَضِّ بصر سے کام لینے کے حکم سے اسلام ہمیں دراصل اپنے نفس پر قابو رکھنا سکھاتا ہے۔ کیونکہ عموماً نظر سے ہی مَردوں کے جذبات اور خواہشات ابھرتے ہیں۔ معاشرہ کو نامناسب باتوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے مَردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو مخالف جنس کے سامنے جھکا کر رکھیں، یا ہر ایسی چیز سے اپنی نظروں کو بچا کر رکھیں جن سے ناجائز طور پر شہوانی خیالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ یاد رکھیں ! پاکبازی ایک خادم کالازمی اخلاقی وصف ہے اس لئے آپ کوہر ایسی چیز سے دُور رہنا ہے جو اسلام کی حیا سے متعلق تعلیمات کے منافی ہے۔ اگر آپ اس کام میں کامیاب ہوجائیں تو آپ حقیقت میں روحانی ترقیات حاصل کرسکتےہیں۔ ‘‘

(خطاب برموقع نیشنل اجتماع خدام الاحمدیہ یوکے26؍ستمبر2016

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل2؍جون2017ءصفحہ15)

فروج سے مراد اور اس کی حفاظت

پہلے غض بصر سے کام لینے کا حکم دیا گیا۔ اس کے بعد ساتھ ہی قرآن کریم میں مومنوں کو اپنے فروج کی حفاظت کرنے کی خاص تعلیم دی گئی ہے۔ یہاں پر فروج کا لفظ ہے جس کے معنی سوراخ کے ہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں شرم گاہوں کے علاوہ تمام سوراخ مثلاً آنکھیں، کان وغیرہ آجاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں :

’’قرآن شریف نے جوکہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدِنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتاہے کیا عمدہ مسلک اختیارکیا ہے۔

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ (النور:31)

کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔ فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سُنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے۔ … اس لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 105، ایڈیشن1988ء)

احمدی خواتین کے ایک اَور اجتماع کے موقع پر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئےسیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالے سے گرانقدر نصائح فرمائیں۔ حضورانور نے فرمایا:

’’تو یہ جو فروج کی حفاظت کا حکم ہے اس کے لئے بھی پردہ انتہائی ضروری ہے اس لئے اس خدائی حکم کو بھی کوئی معمولی حکم نہ سمجھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ پردے کے خلاف جو لوگ بولتے ہیں وہ پہلے مَردوں کی اصلاح تو کر لیں پھر اس بات کو چھیڑیں کہ آیا پردہ ضروری ہے یا نہیں۔ ‘‘

(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ 21؍اگست 2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button