شہرِ لاہور کی خلفائے احمدیت سے فیضیابی (قسط دوم)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد جولائی 1915ء میں پہلی بار لاہور تشریف لائے۔ اس دورہ کے دوران حضورنےجماعت لاہور کو ایک جامع سہ نکاتی تبلیغی و اشاعتی پروگرام دیا۔ 11؍جولائی کو بعد از نمازِ مغرب احاطہ میاں معراج دین میں معرکہ آراء خطاب فرمایا جو بعد میں ’’پیغام مسیح موعودعلیہ السلام‘‘کے نام سے انوار العلوم جلد3میں شائع ہوا۔ اس سفر کے دوران آپؓ نے پہلی بار لاہور میں مستورات کے ایک اجتماع سے تربیتی خطاب فرمایا۔
12؍فروری 1919ء کو 15روز کے لیےبغرضِ علاج لاہور تشریف لائے۔ دورانِ قیام حضورؓ نے دو اہم لیکچرز بھی ارشادفرمائے۔
پہلا لیکچر مورخہ 23؍فروری کو اسلام اور تعلقات بین الاقوام کے موضوع پر بریڈ لاء ہال میں ہوا۔ پہلی تقریر کے دوران اس اجلاس کی صدارت حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے سر انجام دی۔
اسی طرح دوسرا لیکچر اسلام میں اختلافات کا آغاز 26؍ فروری کو اسلامیہ کالج حبیبیہ ہال میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت جناب سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے نے کی۔
اس لیکچر میں حضورؓ نے عبداللہ بن سبا اور اس کے باغی ساتھیوں کی سازشوں اور فتنہ انگیزیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور یہ مضمون جو نہایت ہی مشکل اور پیچیدہ تھا اور جسے مشہور تاریخ دان اصحاب بھی بیان کرنے سے ہچکچاتے تھے حضورؓ نے ایسے عام فہم اور دلکش پیرائےمیں بیان فرمایا کہ حاضرین بھی عش عش کر اُٹھے۔
جناب سید عبد القادر صاحب نے اختتامی تقریر کی جس میں آپ نے فرمایا:
’’حضرات ! میں نے بھی کچھ تاریخی اوراق کی ورق گردانی کی ہے اور آج شام جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں اور میری علمیت کی روشنی اور جناب مرزا صاحب کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس ( میز پر رکھے ہوئے لیمپ کی طرف اشارہ کر کے) کی روشنی کو اس بجلی کے لیمپ ( جو اوپر آویزاں تھا کی طرف انگلی اٹھا کر) کی روشنی سے ہے۔ حضرات! جس فصاحت اور علمیت سے جناب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت ہی مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ ‘‘
حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کے زمانہ امارت میں حضورؓ کئی بار لاہور تشریف لائے ان دورہ جات کی ایک خاص خصوصیت یہ تھی کہ اس عرصے میں اونچے طبقہ کے لوگ حضورؓ سے ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے اور پبلک تقاریر بھی ہوا کرتی تھیں جن سے ہر طبقے کے لوگ فائدہ اٹھاتے تھے۔ چنانچہ جب حضورؓ 13؍فروری 1920ء کو لاہور تشریف لائے اور دس دن تک قیام فرمایا۔ اس دورے کے دوران حضورؓ نے پانچ تقاریر فرمائیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ پہلی تقریر 15؍فروری کو بریڈ لاء ہال میں کی۔ اس تقریر میں حضورؓ نے وزیراعظم انگلستان کے اس ادعاء کو عقلی اور نقلی دلائل سے غلط ثابت کیا کہ آئندہ دنیا کا امن عیسائیت کے ساتھ وابستہ ہے۔ حضورؓ نے علمی و عقلی دلائل سے واضح کیا کہ مستقبل میں دنیا کا امن صرف اسلام سے وابستہ ہے۔
2۔ دوسری تقریر واقعات خلافت علوی کے موضوع پر اسلامیہ کالج حبیبیہ ہال میں کی۔ حضورؓ نےتقریباً 3گھنٹے تک تقریر کی اس میں اسلامی تاریخ کے متعلق معلومات بیان فرمائیں۔
3۔ تیسری تقریر18؍فروری 1920ء کو حضورؓ نے مذہب اور اس کی ضرورت کے موضوع پر احمدیہ ہوسٹل لاہور میں کی جو کہ در اصل مستشرقین یورپ کے اعتراضات کے جوابات میں تھی۔
4۔ چوتھی تقریر حضورؓ نے19؍فروری 1920ء کو احاطہ میاں چراغ دین صاحب بیرون دہلی دروازہ میں کی۔ یہ ایک قسم کی تبلیغی تقریر تھی اس تقریر کو احمدی اور غیر از جماعت احباب نے تقریباً اڑھائی گھنٹہ تک سنا۔ اس تقریر میں حضورؓ نے صداقت احمدیت ایسے رنگ میں بیان کی جس سے سامعین بےحد متا ثر نظر آئے۔
5۔ مورخہ 24؍فروری کو حضورؓ کی تقریرکی مخاطب خالص جماعت احمدیہ لاہور تھی جس میں آپؓ نے جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں پر ایک اہم تقریر کی۔
4؍مارچ 1921ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ایک مقدمے میں شہادت دینے کے لیے لاہور تشریف لائے۔ اس دورے کے دوران حضورؓ نے دو تقاریر فرمائیں۔ ایک ’’مذہب کی ضرورت‘‘ اور دوسری ’’حقیقی مقصد اور اس کے حصول کے طریق ‘‘پرتھی۔
23؍فروری 1922ء کو حضورؓ ایک ہفتے کے لیے لاہور تشریف لائے اور حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ لاہور کی کوٹھی میں قیام فرمایا۔
اس سفر میں حضورؓ نے ایک شہزادہ پرنس آف ویلز کے استقبال میں شمولیت فرمائی۔ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پرنس آف ویلز کا استقبال ایک تو ارشاد
اِذَااَتَا کُم كَرِيْمُ قومٍ فَأَكْرِمُوْهٗ
کی تعمیل میں تھا۔ دوسرے اس ملاقات کے پیچھے بھی تبلیغی جذبہ کارفرماتھا۔ حضورؓ نے احمدیوں کےچندے سے شہزادہ ویلز کو تبلیغ اسلام و احمدیت کی غرض سے ایک رسالہ تیار فرمایا تھا اور اس کا نام تحفہ شہزادہ ویلز رکھا تھا۔
26؍فروری 1922ء کو حضوؓر مسجد احمدیہ گنج مغل پورہ کی مسجد میں تشریف لائے اور وہاں دو نفل نماز پڑھائی۔ یہ مسجد حضرت میاں موسیٰ صاحب (نیلا گنبد لاہور) نے تعمیر کروائی تھی۔
27؍فروری 1922ء کو حضورؓ نے عہدیداران احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کی درخواست پر ان کے ایک اجلاس میں روح کی نشأۃ ثانیہ کے موضوع پر تقریر فرمائی۔
جب آریوں نے شدھی کی تحریک شروع کی جس سے ملک کا امن برباد ہو گیا ہندو مسلم فسادات روزانہ کا معمول بن گیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ہندوستان کی تمام قوموں کو صلح کا پیغام دیتے ہوئے قومی اور ملکی مشکلات کا صحیح حل اہلِ وطن کے سامنے رکھا۔
اس طرح مورخہ 14؍نومبر 1923ءکو حضورؓ نے پیغام صلح موجودہ مشکلات کا صحیح حل کے موضوع پر بریڈ لاء ہال میں ایک تقریر فرمائی اور ہندو مسلم صلح کے لیے چند سنہری اصول بیان فرمائے۔
اس کے اگلے روز مورخہ 15؍نومبر کو اسلامیہ کالج ہال میں اسلام پر مغربی علماء کی نکتہ چینی پر لیکچر دیا۔ اس تقریب کی صدارت سر فضل حسین صاحب وزیر تعلیم نے کی۔
مسلمان قوم کی راہ نمائی اور چند دیگر امور کی بجا آوری کے لیے حضورؓ 26؍فروری 1927ء کو لاہور تشریف لائے۔ اس دوران آپؓ نے مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں اور اخبارات کے ایڈیٹرز کو شرف ملاقات بخشا۔ 27؍فروری کو پنجاب لیجسلیٹو کے اجلاس میں شرکت فرمائی۔ یکم مارچ کو اسلامیہ کالج کے سالانہ تقسیم انعامات میں شرکت فرمائی۔ 2؍مارچ کو بریڈ لاء ہال میں ہندو مسلم فسادات کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریقہ عمل کے موضوع پر تقریرفرمائی۔ 3؍مارچ کو حبیبیہ ہال اسلامیہ کالج میں مذہب اور سائنس کے موضوع پر تقریر فرمائی۔ اس تقریب کی صدارت ڈاکٹر محمد اقبال نے کی۔ اس تقریر میں حضورؓ نے کئی مثالوں سے ثابت کیا کہ جو باتیں سائنس نے آج دریافت کی ہیں قرآن کریم اور احادیث کی تعلیمات میں چودہ سو سال قبل بیان کی گئی ہیں۔
حضورؓ کے لاہور کے دوروں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس دوران تقریباً روزانہ ہی شہر کے مختلف احباب سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔
12؍جنوری 1929ء کو جب حضورؓ لاہور تشریف لائے تو اس دوران آپؓ نےپہلے دن اپنے برادرنسبتی ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب کے ہاں قیام فرمایا۔ اگلے دن 13؍جنوری کو احمدی اور غیر احمدی کالجوں کے طلباء کے علاوہ دوسرے اصحاب کو شرفِ ملاقات عطا فرمایا۔ 14؍جنوری کو حضورؓ نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور اسی دن مسجد دہلی دروازہ میں تشریف لا کر آیت
لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ
کی تفسیر فرمائی۔
1931ء میں حضورؓ نے کشمیریوں کی مظلومیت کے تدارک کے لیےہندوستان کے مسلم زعماء کا ایک اجلاس بلایا تاکہ مسئلہ کشمیر پر غور کرے۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس کا نام آل انڈیا کشمیر کمیٹی رکھا گیا۔ اور تمام شاملین نے متفقہ طورپرآ پ کواس کمیٹی کا صدر منتخب کیا۔
آپؓ اس کمیٹی کے اجلاسات میں شمولیت کے لیے 1931ءتا 1934ءتک کئی بار لاہور تشریف لائے۔
31؍مئی 1934ء کو حضورؓ لاہور تشریف لائے اور وائی ایم سی ہال مال روڈ پر ’عربی زبان کا مقام السنہ میں‘ کے عنوان پر لیکچر دیا۔ اسی طرح 2؍جون 1934ء کو اُسی جگہ ’کیا انسان مذہب کا محتاج نہیں‘ کے موضوع پر لیکچر ارشاد فرمایا۔
1943ء کے آخری ماہ اور 1944ء کے آغاز میں جماعت احمدیہ لاہور کو ایک بار پھر خلافتِ احمدیت کی خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ اور اس دورے کے دوران اہم واقعات تاریخ احمدیت میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ پہلے نمبر پر حضرت سیدہ اُم طاہر رضی اللہ عنہا کے علاج کی غرض سے لاہور آمد۔ مورخہ 17؍دسمبر 1943ء کو لیڈی ولنگٹن ہسپتال میں علاج کروانے کی غرض سے لاہور تشریف لائے بعد ازاں 26؍فروری 1944ء کو سیدہ اُم طاہؓرکو سر گنگا رام ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ اس دوران حضورؓ شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کے گھر 13 ٹیمپل روڈ میں رہائش پذیر رہے۔
دوسرے نمبر پر 5، 6؍جنوری 1944ء کی درمیانی شب حضورؓ کومصلح موعود کے مصداق ہونے کی اطلاع بذریعہ رؤیا دکھائی گئی۔ آپؓ اس وقت 13ٹیمپل روڈ لاہور شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔
یہ امر خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ جس رات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو اپنے مصلح موعود ہونے کی اطلاع دی گئی اس سے اگلے روز یعنی 6؍جنوری 1944ء کو لاہورمیں موجود تمام اصحاب مسیح موعودؑ کا حضورؓ کے ساتھ گروپ فوٹو بھی لیا گیا۔
11؍فروری 1944ء کے خطبہ جمعہ میں آپؓ نے اس نشان کو لاہور میں ظاہر ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ تازہ نشان خدا نے لاہور میں ظاہر کیا ہے۔ پس جس طرح مکہ اور مدینہ کے رہنے والوں پر اسلام کی طرف سے خاص ذمہ داریاں عائد کی گئی تھیں اسی طرح میں سمجھتا ہوں اس انکشاف کے بعد جو لاہور میں مجھ پر ہوا یہاں کی جماعت کی ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ‘‘
(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 526)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کےا علان کے بعد کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں حضورؓ نے مختلف شہروں میں عظیم الشان جلسوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ اسی سلسلے میں پٹیالہ گراؤنڈ لاہور میں ایک جلسہ یوم مصلح موعود کا انعقاد ہوا۔ اس جلسہ کے اختتام پر آپؓ شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی کوٹھی میں تشریف لے گئے اور بعض احباب کو وہ چارپائی دکھائی جس پر آپ رؤیا کے وقت آرام فرما رہے تھے۔
آپؓ نے فرمایا:
’’آج میں اس جلسہ میں اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس کا افترا کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا۔ کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں 13ٹیمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیاکے کناروں تک پہنچےگا اور توحید دنیا میں قائم ہو گی۔ ‘‘
(الفضل 14؍فروری 1944ء)
فروری 1945ء میں حضورؓ لاہور تشریف لائے اور 25تاریخ کو احمدیہ ہاسٹل لاہور واقع 32ڈیوس روڈ کے احاطہ میں اسلام کا اقتصادی نظام کے موضوع پر ایک تقریر فرمائی۔
تقسیم ہند کے بعد ملکی حالات کا جائزہ لینے اور اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کے بعد حضورؓ نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ چنانچہ 31؍اگست 1947ء کو حضورؓ لاہور تشریف لائے اور میو ہسپتال کے قریب رتن باغ میں حضورؓ اور خاندان کو رہائش کی جگہ ملی۔
حضرت مصلح موعودؓ نےیکم ستمبر1947ءکو یعنی ہجرت کے دوسرے ہی دن جودھامل بلڈنگ کے صحن میں ایک میٹنگ منعقد فرمائی جس میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اور عہدیداران اور ممبران مقرر فرمائے۔
کوٹھی رتن باغ کا ایک بیرونی کمرہ قبلہ رُخ تھا جسے پہلے روز سے پنجوقتہ نمازوں، ملاقاتوں اور مرکزی اجلاسات کے لیے مختص کر دیا گیا تھا۔ حضورؓ نے ہجرت کے ابتدائی 7 خطبات جمعہ دہلی دروازہ کی احمدیہ مسجد میں ارشاد فرمائے لیکن 17؍اکتوبر1947ء کو حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ یہ جگہ تنگ ہے اور لوگ زیادہ آئے ہیں اس لیے آئندہ کے لیے کسی اور جگہ انتظام کیا جائے۔ چنانچہ 24؍اکتوبر 1947ء سے رتن باغ کے احاطہ میں اس کا انتظام کیا گیا جو کہ یکم اکتوبر 1948ء تک باقاعدگی سے جاری رہا۔
(تاریخ احمدیت جلد دہم صفحہ 20)
حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر 15؍ستمبر1947ء کو ہجرت کے بعد پہلی بار لاہور سے الفضل اخبار کا اجرا ہوا۔ قبل ازیں مرکزی اطلاعات خصوصاً حضورؓ کے حالات سے بےخبری میں جو عارضی وقفہ پڑ گیا تھا وہ اللہ کے فضل سے ختم ہو گیا۔ اور دنیا بھر کی جماعتوں کو اپنے آقا کے تازہ کلمات پڑھنے کا موقع میسر آنا شروع ہو گیا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’پس اول تو یہی کتنا بڑا نشان ہے کہ ہزاروں افراد کی جماعت قادیان سے نکلی اور سلامتی کے ساتھ یہاں پہنچ گئی۔ کوئی ایک مثال بھی تو پیش نہیں کی جا سکتی جس پر اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک اور مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہو۔ پھر چاہے ٹھوکریں لگیں مگر یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ ہماری انجمن کا اتنا بڑا محکمہ قادیان سے اُٹھ کر لاہور آ گیا اور یہاں آتے ہی چالو ہو گیا…اسی طرح یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا کہ قادیان سے احمدیت اُ ٹھی اور لاہور میں آ کر قائم ہو گئی اور قائم بھی ایسی شان سے ہوئی کہ آج دنیا میں احمدیت کا نام جس قدر بلند ہے اور جس قدر عظمت اسے حاصل ہے یہ بلندی اور عظمت اس سے بہت زیادہ ہے جو اُسے قادیان میں حاصل تھی۔ ‘‘
(تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 77)
لیکچرز استحکامِ پاکستان اور حضرت مصلح موعودؓ
حضرت مصلح موعودؓ جب قادیان سے پاکستان میں پہنچے تو باوجود مالی مشکلات کے حضورؓ نے منتشر جماعت کو اکٹھا کرنے اورانہیں موزوں جگہوں پر آباد کرانے کی کوششیں شروع کر دیں مگر حضورؓ کی نظر صرف اپنی جماعت کی بہتری اور بہبود ی تک محدود نہیں تھی بلکہ حضورؓ کو پاکستان کی مضبوطی اور استحکام کی بھی از حد فکر تھی۔ چنانچہ حضورؓ نے یونیورسٹی ہال لاہور میں متواتر 6 لیکچرز دیے جن میں ان سکیموں اور تجاویز کا ذکر فرمایا جن پر عمل کر نے سے پاکستان محفوظ اور طاقتور ملک بن سکتا تھا۔ ان لیکچرز کو سننے کے لیے سول اور ملٹری کے بڑے بڑے افسر بلکہ اکثر وزراء بھی شامل ہوا کرتے تھے۔
لیکچرز کے موضوع درج ذیل تھے:
1۔ پاکستان کا مستقبل دفاع، زراعت اور صنعت کے لحاظ سے
2۔ پاکستان کا مستقبل نباتاتی، زرعی، حیوانی اور معنوی دولت کے لحاظ سے
3۔ پاکستان کا مستقبل معنوی دولت کے لحاظ سے
4۔ پاکستان کا مستقبل اس کی بری، فضائی اور بحری دفاعی طاقت کے لحاظ سے
5۔ بحری طاقت اور سیاست کے لحاظ سے پاکستان کا دفاع
6۔ پاکستان کا آئین
حضورؓ نے فرمایا:
’’بیرونی سلطنتوں خصوصاً امریکہ سے قرضہ لینا ہماری آزادی کے لئے زبردست خطرے کا باعث ہو گا۔ لہٰذا اس کا علاج صرف یہ ہے کہ بیرونی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی مشروط اجازت دی جائے ان فرموں کو چالیس فیصد حصے دیئےجائیں اور چالیس فیصد حکومتِ پاکستان دے۔ باقی بیس فیصد حصوں کے مالک پاکستان کے عوام ہوں۔ اس سلسلے میں فرموں سے یہ شرط بھی کی جائے کہ وہ ہمارے حصہ دار کو ساتھ ساتھ ٹریننگ دیں گے۔ ‘‘
(الفضل 9؍دسمبر 1947ء)
آپؓ نے ایک اور لیکچر میں فرمایا :
’’کسی ملک کی معنوی دولت ہی اس کی اصل قوت ہوا کرتی ہے۔ باقی سب چیزیں اس کے مقابل پر ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر پاکستان کا ہر نوجوان عقل سے کام لے دماغ پر زور دے اور یہ اقرار کرے کہ میں نے اپنی تمام قوتیں ملک و ملت کے لئے وقف کر دینی ہیں تو یقیناً ہماری ساری ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ اور ہم ملک کا اتنا اچھا دفاع کر سکتے ہیں کہ توپیں اور ہوائی جہاز اُس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے۔ ‘‘
(الفضل 14؍دسمبر1947ء)
فرقان فورس کا قیام
ایک اور کام جو حضورؓ نے پاکستان کے استحکام کی خاطر کیا تھا کہ آزاد کشمیر گورنمنٹ کے قیام پر دوسرے مسلمانوں کی طرح حضورؓ نے بھی آزاد گورنمنٹ کی ہر ممکن امداد کی۔ گورنمنٹ کو والنٹری فورس کی ضرورت پیش آئی تو فرقان فورس کے ذریعے امداد کی۔
جلسہ سالانہ 1947ء
جماعت احمدیہ لاہور کو یہ شرف حاصل ہے کہ قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کے مطابق 1947ء میں جماعت احمدیہ عالمگیر کا جلسہ سالانہ 27، 28؍دسمبر کو لاہور پٹیالہ گراؤنڈ میں منعقد ہوا اور 26؍تاریخ کو مجلسِ شوریٰ منعقد ہوئی۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’جب سعودی، عراقی، شامی اور لبنانی، ترک، مصری اور یمنی سو رہے ہوتے ہیں۔ میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعائیں قبول ہوں گی۔ خدا تعالیٰ پھر ان کو ضائع شدہ عروج بخشے گا اور پھر محمد رسول اللہﷺ کی قوم ہمارے لئے فخر و مباہات کی موجب بن جائے گی…ایک تپش ہے جو مجھے آٹھوں پہر بے قرار رکھتی ہے۔ میں مسلمانوں کو اُن کی ذلت کے مقام سے اُٹھا کر عزت کے مقام پر پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں پھر محمد رسول اللہﷺ کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا چاہتا ہوں۔ میں پھر قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
(تقریر جلسہ سالانہ 1947ء)
26؍دسمبر کو پاکستا ن ہجرت کے بعد پہلی مجلسِ شوریٰ کا انعقاد بھی لاہور ہی میں ہوا۔
مجلس مشاورت کا اجلاس رتن باغ کے ہال میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مستقبل کے متعلق اہم امور کے بارے میں مشاورت ہوئی۔
اس اجلاس میں حضورؓ نے اس اصول کو تاکید کے ساتھ بیان فرمایا کہ جہاں پاکستان کے احمدیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان کے وفادار رہیں اور اس کی مضبوطی اور ترقی کے لئے کوششیں کریں۔ وہاں انڈین یونین میں رہنے والے احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ انڈین یونین کے وفادار رہیں۔
(تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 446)
جلسہ سالانہ اور مجلس شوریٰ مارچ 1948ء
مجلس مشاورت 1948ء کے لیے حضورؓ نے 26، 27؍ مارچ کی تاریخیں مقرر فرمائی تھیں اور 28؍مارچ کو جلسہ سالانہ 1947ء کی کمی جس میں عورتوں کے شامل ہونے کی پابندی تھی جلسہ کے لیے مقرر فرمایا۔ یہ دونوں اجتماعات اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب رہے۔
تعلیم الاسلام کالج لاہور میں تشریف آوری
حضورؓ نے2؍اپریل 1948ء کو تعلیم الاسلام کالج کے جلسہ تقسیم انعامات میں شرکت فرمائی اور فارغ التحصیل طلباء میں اسناد تقسیم کیں۔ اس وقت پرنسپل تعلیم الاسلام کالج حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں طلباء کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
آپؓ نے فرمایا:
’’پس اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نوجوانو! اسلام کے بہادر سپاہیو، ملک کی امید کے مرکزو!قوم کے سپوتو! آگے بڑھو کہ تمہارا خدا، تمہارا دین، تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘
دارالذکر کا سنگ بنیاد
15؍اکتوبر 1948ءکو خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے جماعت لاہور کو ایک وسیع مسجد تعمیر کرنے کی تحریک فرمائی۔ اس مسجد کی تحریک کرتے ہوئے حضورؓ نے ایک بار پھر 15؍جنوری 1954ء کو خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے فرمایا کہ یہ نئی مسجد بھی تمہارے لیے تنگ ہو جائے گی…تمہیں کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ یہاں احمدیت کو کتنی ترقی دینا چاہتا ہے۔
(تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 415)
سنگِ بنیاد کے لیے حضورؓ نے 22؍فروری 1954ءکا دن مقرر فرمایا۔ مجلس خدام الاحمدیہ نے سنگ بنیاد کے لیےکھودائی کی اور حضورؓ رتن باغ سے صبح 10بجےتشریف لائے اور سنگِ بنیاد رکھا اور دعا کروائی۔
آپؓ نے اپنے 52سالہ دَور خلافت میں عظیم الشان کارہائے نمایاں سر انجام دیے جن میں سے چند ایک میں جماعت لاہور کو بھی توفیق ملی کہ وہ بھی شانہ بشانہ آپؓ کے ساتھ تھی۔ 8؍نومبر 1965ء کو حضرت مصلح موعودؓ ربوہ میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
(جاری ہے)