دیکھو ذرانظامِ خلافت کی برکتیں
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ موجودہ دَور میں وہ ڈھال اور راہ نما خلیفۃ المسیح کی صورت میں ہم میںموجود ہے۔… ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے
تحقیق سے معلوم ہواہے کہ جذبات کا بھر پور اظہار کرنے سے انسانی جسم پر واضح اور قدرے بہتر اثرات مرتّب ہوتے ہیںلیکن یہ ایک ایسے محبوب کی یادیں ہیں جس میں جذبات کا بھر پوراظہار کرنا اور لفظوں کومعنی پہنانا ناممکن نہیں،تو اتنا آسان بھی نہیں ۔یہ پرلطف،خوبصورت اور پاکیزہ روحانی لمحات ہم سب کے لیے متاعِ جان ہیں۔
قارئین! یہ بکھری یادوں کے رنگ ہیں، خوشبوئیں ہیں،چہرے ہیں، آوازیں ہیں۔ یہ وہ خدا تعالیٰ کے پیاروں کی باتیں ہیں جو اِس وقت افراتفری، کھینچا تانی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی مسموم فضا کو پاک و صاف اور معطر کرنے کے لیے عطرفشاں ہیں اورہمارے لیے آبِ حیات کا کام دیتے ہیں۔میری گزارش ہوگی کہ آپ بھی اِنہیں اِنہی کے قدرتی رنگوںمیں دیکھیں، محسوس کریں اور ان کی سرگوشیاں سنیں۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ موجودہ دَور میں وہ ڈھال اور راہ نما خلیفۃ المسیح کی صورت میں ہم میںموجود ہے۔ اسے مامور کرنے والےخدا کاہم پر بے حد فضل واحسان ہے کہ وقت کے تقاضوں اور زمانے کی ضروریات کے مطابق وہ اس کے لیے سامان بھی مہیا کرتا ہے اور راہ نمائی سے بھی نوازتا ہے۔خلافت کے ساتھ وابستگی میں ایک روحانی تسکین ہوتی ہے جو ہم تمام افرادِ جماعت کو متحد رکھتی ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ جماعت پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ اُن دِنوں میں دیکھنے میں آتا ہے جب خلیفۃ المسیح جہاں بھی موجود ہوںتوایسے لگتا ہے کہ
اے شمع دیکھ پھر ترے پَروانے آگئے
بندھن تمام توڑ کے دیوانے آگئے
دیکھو ذرا نظامِ خلافت کی برکتیں
گِردِ امام بکھرے ہوئے دانے آگئے
(مولانا ظفر محمدظفرؔ)
پیارے آقاحضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی بے مثال شفقت
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ بہت سی خوبصورت یادوںمیں سے صرف ایک جھلک آپ سے شیئر کروں گی۔یہ 29؍اگست2004ء کی بات ہےجب خا کسار کی 2 بیٹیوں کی بیت السبوح جرمنی میں قرآن کریم کا اوّل دَور ختم کرنے پر پیارے آقا نے ازراہِ شفقت آمین کروائی ،الحمدللہ۔اگلے دن یعنی 30؍اگست کو ہماری مسجد بیت العزیز کا افتتاح تھا ۔خاکسار اس وقت ریجنل معاونہ واقفاتِ نو اور لوکل امارت ریڈشٹڈ کی طرف سے بطور میزبان خدمت کی توفیق پا رہی تھی ۔اس چہرۂ مبارک کواتنے قریب سے دیکھنا ،گلابوںکی خوشبو کی طرح کئی کئی دن تک معطر رکھتا ہے اوراُسی لمحے بے لوث جماعتی خدمات کا صلہ سود سمیت تمام تر وصول ہو تا محسوس ہوتاہے۔تمام واقفاتِ نو جھنڈیاں ہاتھ میں پکڑے اپنے محبوب آقا کی محبت میں ترانے گارہی تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ازراہِ شفقت واقفاتِ نو میں چاکلیٹ تقسیم فرمائے کہ اچانک پیارے آقا کی نظر میری چھوٹی بیٹی پر پڑی اوراستفسار فرمایا: ’’آپ مجھے پہلے بھی ملی ہو ؟‘‘ عرض کیا جی حضور! کل میری آمین تھی۔فرمایا:’’ٹھیک ہے۔‘‘ سبحان اللہ خاکسار پر تو شادیٔ مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی کہ آپ کا خلوص و محبت افرادِ جماعت کے لیے گہری دلی وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔ہم بھی پورے شرح صدر کے ساتھ اس محبت و اخلاص کا اعلان کرتے ہیں جو ہمیں اپنے محبوب آقا سے حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضبوط اور روحانی تعلق کی مزید برکات سمیٹنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ چندسنہری یادیں
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا، ہمیں ہاں یاد رہے گا
(ابنِ انشا)
پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی نہیں مرجھاتی۔ وہ اپنے پھول کی یاد بن کر یادوں کے گلدانوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ وہ ان محبوب ہستیوں کی محبت کی شمعوں کو ہمارے دل میں روشن رکھتا ہے۔ناصر باغ جرمنی میں جب جلسے ہوا کرتے تھے تو اس وقت بہت کم لوگ تھے ۔ایک ہی دن میں کئی بارآپس میں ملاقات ہو جاتی تھی۔جلسہ کے دنوں میںاپنے فرائض خوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل تک پہنچانا اور پھر اس کا انعام بھی کسی ڈیجیٹل فوٹو کی طرح فوراً مل جانا کسی مال ِغنیمت سے کم نہ تھا۔جلسہ سالانہ کے آخری دن ڈیوٹی دینے والی کارکنات دو قطاروں میں آمنے سامنے کھڑی ہو جاتیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ پا س سے گزر جاتے۔ایسے ہی ایک جلسہ کے بعدمَیں بھی ان خوش نصیبوں میں ایک بیٹی کو اُٹھائے اور ایک کو انگلی سے لگائےکھڑی تھی جب حضور رحمہ اللہ سامنے سے گزرگئےتویک دم بڑی بیٹی نے آواز دی۔حضور! (میرا تو ڈر سے دل ہی بند ہو چلا تھاکہ ہمیں تو حضور کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے کی ہمت اور مجال نہیں ہوتی۔یہ کیا کہنے لگی ہےپر پوچھنے کی ،منع کرنے کی اتنی مہلت ہی کہاں تھی)حضور رحمہ اللہ تعالیٰ جوکہ آگے جا چکے تھے یک دم آواز پہ پلٹے اور فرمایا: ’’جی‘‘ بیٹی کہنے لگی کہ آپ نے ہمیں پیار ہی نہیں کیا۔ تو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بالکل اُسی کے انداز میں ہنستے ہوئے فرمایا: ’’اوہ میں نے پیار نہیں کیا۔‘‘ اور ساتھ ہی چہرے پر پیار فرمایا۔یہ واقعہ جہاں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے منصبِ عظیم پر فائز ہونے کے باوجود ان کی عاجزی و انکساری کی اعلیٰ ترین مثال ہے وہاں اپنی جماعت کے ہر فرد سے بے پناہ محبت کا بھی ثبوت ہے۔
سب جانتے ہیں کہ خلیفۃ المسیح کے شب و روز کس قدر مصروف اور معمولات کس قدر بھرپور ہیں۔ اس لیے جماعت کی طرف سے ہدایت تھی کہ خلیفۃ المسیح سے ملاقات کے لیےچارسال بعد درخواست دی جائے لیکن چارسال بعد ملاقات کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔الحمد للہ کسی نہ کسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے بھی ملاقات ہوتی رہی۔ایک بار کا ذکر ہے کہ اس وقت ہم اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو کمرے میں اندر جاتے ہی حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کےدفتر کی پچھلی دیوار پر آویزاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بڑی سی تصویر دیکھ کربڑی بیٹی کہنے لگی کہ حضور!ایسی تصویر ہمارے گھر بھی ہے ۔حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے کمال شفقت سےچھوٹی بچی کے سوال کو نظر انداز کیے بغیر جواب دیا :’’اچھا! ایسی تصویر آپ کے گھر بھی ہے۔‘‘ جب ملاقات کے بعد باہر نکلنے لگے تو پھر بڑی بیٹی یک دم واپس گئی اور کہنے لگی ۔ اچھا حضور خدا حافظ ہم کل پھر آئیں گے اورحضور رحمہ اللہ تعالیٰ یک دم ہنسے اس کے بعد ہم باہر آگئے۔
آپ رحمہ اللہ کی یادیں آج بھی زندہ ہیں اور ان کا نیک تذکرہ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا ۔یہ یادیں یقیناًعشق و محبت کی غماز ہیں،یہی بات کیا فخر کرنے اور دل کی تسلی کے لیے کافی نہیں کہ ہم وہ خوش نصیب ہیں جو خلافت احمدیہ کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو صحت و سلامتی والی لمبی عمرعطافرمائے۔ ہمیشہ ہر جگہ اپنی حفاظت میں رکھے، ہم سب کواور ہماری آئندہ نسلوں در نسلوں کو خلافت سے ہمیشہ وابستہ رکھےاورہم اس حبل اللہ کومضبوطی سے تھامے رکھیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت احمدیہ سے کامِل وفا اور وابستگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
٭…٭…٭