حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے متعلق چند دل نشین یادیں
اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ خاکسار کو احمدیت کی نعمت سے نوازا۔میرے دادا محترم محمد الیاس خان صاحب کو چارسدہ کی سنگ لاخ زمین میں1909ءمیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر میرے پیارے بزرگ والدین (عبدالسلام خان صاحب اور بی بی عائشہ) کی نیک تربیت ملی۔
میری پیدائش 1943ء میں ہوئی اور احمدیت میں ہوش سنبھالا۔یہ حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی مصلح موعودؓ کا مبارک دَور خلافت تھا۔خاکسار کو یاد ہے کہ ہم سب کو بے چینی سے جلسہ سالانہ کے دنوں کا انتظار ہوتا، اور بفضلہ تعالیٰ والد صاحب کے ساتھ سارا گھر جلسہ سالانہ کےلیے ربوہ جاتا۔
1947ء کے بعد ربوہ ہمارا نیا مرکز بنا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک اہم حیثیت رکھتا ہے کیونکہ 1947ء میں ہمیں اپنے دائمی مرکز قادیان سے ہجرت کرنی پڑی اور جماعت کے بہت نا مساعد حالات تھے۔
اللہ کے فضل سے جلسہ سالانہ پر باقاعدگی سے جانے اور جلسے کے روحانی ماحول سے مستفیض ہونے کی توفیق ملتی رہی۔ جلسے پر حضورؓ کی تقاریر سننے کا موقع ملتا، جلسے کے دوران حضورؓ سے اجتماعی ملاقاتیں بھی ہوتیں۔اس طرح حضور ؓکو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا آپؓ کے مبارک روحانی چہرہ کا دیدار ہوتا۔خاکسار نے مشاہدہ کیا کے حضور ؓکا چہرہ مبارک اتنا پر نور تھا اور آنکھوں میں ایسی کشش تھی لیکن اس کے باوجود حضورؓ کے ساتھ زیادہ دیر آنکھ نہیں ملا سکتے تھے کیونکہ آپؓ کی آنکھوں میں ایک رعب تھا۔
ہماری جماعت پشاورکی ملاقات کے دوران سرحد کے صوبائی امیر حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ بائیں طرف تشریف فرما ہوتے۔
ایک نہ بھولنے والا واقعہ
میری عمر اغلباً14-15سال کی تھے کہ پشاور جماعت کی ملاقات کے دوران خاکسار بھی لائن میں حضورؓ سے مصافحہ کا شرف حاصل کر رہا تھا۔ حضورؓ نے میرا ہاتھ کافی دیر پکڑا اور مجھ سے فرمایا کہ اپنا تعارف کرواؤ۔خاکسار نے والد صاحب کا نام لیا۔حضورؓ نے فرمایا اور بتاؤ۔پھر میں نے اپنے نانا خواص خان صاحب کا نام لیا۔حضورؓ نے دوبارہ فرمایا اور بتاؤ۔اب کی بار خاکسار نے اپنے دادا مولوی محمد الیاس خان صاحب کا نام لیا۔دادا جان مولوی محمد الیاس خان صاحب جو چارسدہ سے احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے مستونگ بلوچستان ہجرت کرگئے۔دادا جان کو بلوچستان میں احمدیت کی خوب تبلیغ کی توفیق ملی،جن میں حکومت کے وزراء،سرداران اور نواب شامل تھے۔آپ کی وفات 1948ءمیں پشاور میں ہوئی تھی۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا: ’’وہ تو ہمارے آنریری مبلغ تھے اُنہوں نے بلوچستان کے نوابوں کو بھی تبلیغ کی تھی‘‘
اس کے بعد حضورؓ نے میرا ہاتھ چھوڑا۔ ابھی تک جب بھی میں اس واقعہ کے متعلق سوچتا ہوںتو خیال آتا ہےکہ میری کتنی خوش نصیبی تھی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
ویسے تو خاکسار والد صاحب کے ساتھ با قاعدگی سے جلسہ سالانہ پر جاتا ، جلسے کے روحانی ماحول سے لطف اندوز ہوتااور حضورؓ کے ایمان افروز خطابات سننے کا موقع ملتا۔خاکسار کو حضورؓ کی روحانی نوبت خانے والی تقاریر سننا یاد ہے۔ حضورؓکی تقاریر بہت ہی ایمان افروز ہوتیں۔
جابہ میں حضور ؓسے اجتماعی ملاقات
حضور ؓگرمی کے دنوں میں جابہ تشریف لےجاتے اور آپؓ کا عملہ اور افراد خاندان بھی ساتھ ہوتے۔میری اہلیہ صاحبزادی امۃ الحئ مرحومہ نے مجھے بتایا کہ وہ بھی حضورؓ کے ساتھ کئی بار جابہ گئی تھی۔اور حضورؓ نے تفسیر صغیر کا کام جابہ میں مکمل کیا۔پشاور کی جماعت ایک کوچ میں حضور ؓکی ملاقات کےلیے جابہ گئی۔اس میں خاکسار بھی والد صاحب کے ساتھ گیا تھا اور حضور ؓکو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
میرے والد محترم ہمیشہ حضور ؓکو دعا کےلیے لکھتے اور ہم سب بہن بھائیوں کو بھی نصیحت کرتے کہ حضور ؓکو دعا کےلیے لکھیں۔خاکسار بفضلہ تعالیٰ باقاعدگی سے حضور ؓکو دعا کےلیے لکھتا اور مجھے یاد ہےکہ حضور ؓکی طرف سے ایک پوسٹ کارڈ پر جواب آتا جس پر حضورؓ کے نام کی stamp ہوتی۔
یہ 1959ءکا واقعہ ہے،جب خاکسار میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا تو میری نانی جان مرحومہ خدیجہ بیگم اہلیہ خان خواص خان صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود ؑکے صحابی حضرت میاں محمد یوسف صاحب ؓآف مردان جن کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں آتا ہے نےمنشی محمد یوسف صاحب مدؔ والے، کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسے ملاقات کا انتظام کروائیں گے۔
نانی صاحبہ نے مجھے کہا کہ چونکہ میں امتحان کے بعد فارغ ہوں اس لیے ان کی خواہش ہے کہ میں میاں جی صاحب کو حضور ؓکی ملاقات کےلیے ربوہ لےجاؤں۔
حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ میاں جی صاحب کے نام سے مشہور تھےاور مردان کے امیر بھی رہ چکے تھے۔آپؓ بہت لوگوں کو احمدیت کی آغوش میں لانے کا باعث ہوئے۔ آپ کی عمر اس وقت 100سال سے زیادہ تھی۔آپ کافی کمزور تھے اور سہارے سے چلتے تھے۔
نانی جان نے خاکسار کا اور حضرت میاں صاحبؓ کے سفر کا خرچ خود ادا کیا۔اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سعادت میرے حصہ میں آئی۔خاکسار میاں جی صاحبؓ کو بذریعہ چناب ایکسپریس پشاور سے ربوہ لے گیا۔حضورؓ کے ساتھ ملاقات کا وقت لیا اور چونکہ میاں جی صاحبؓ سہارے سے چلتے تھے، اس لیے ایک طرف خاکسار اور دوسری طرف سے ہمارے رشتہ دار محمد حسن خان درّانی صاحب نے سہارا دیا اور ملاقات کےلیےلےگئے۔
مجھے یاد ہے کہ اس وقت حضورؓ بستر پر آرام فرما تھے اور اخبار کا مطالعہ کررہے تھے۔حضورؓ نے حضرت میاں جی صاحبؓ سے ان کا حال اور صحت کے بارے پوچھا۔حضورؓ نے حضرت میاں جی صاحبؓ سے فرمایا کے سنا ہے آپ ابھی تک ماشاءاللہ نماز کےلیے مسجد جاتے ہیں۔حضرت میاں جی صاحبؓ نے اثبات میں جواب دیا۔مجھے یاد ہے کہ حضرت میاں جی صاحبؓ نے حضور ؓکی خدمت میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن پاک تحفۃً پیش کیا۔یہ چھوٹے سائز کا تھا۔ میرے لیےیہ ایک اہم تاریخی ملاقات تھی اور حضورؓ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا۔
حضورؓ کے نماز جنازہ میں شمولیت
آخری چند سالوں میں حضور ؓکی طبیعت کمزور تھی اور مختلف عوارض بھی تھے۔1965ءمیں خاکسار میڈیکل کالج کے چوتھے سال میں پڑھتا تھا۔مجھ یاد ہے کہ میں اپنے ایک دوست ظاہر اللہ بابر کے ساتھ اس کے گھر جو ہسپتال کے قریب تھا کھانے پر مدعو تھا۔ایک بجے ریڈیو کی خبروں میں یہ افسوسناک خبر سنی کہ امام جماعت احمدیہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ وفات پا گئے ہیں۔یہ خبر سن کر میں بہت پریشان ہوا اور اپنے دوست ظاہر اللہ سے معذرت کی اور کھانا آدھے میں چھوڑ کر گھر آگیا۔
وہاں سب بہت افسردہ تھے۔پشاور سے چناب ایکسپرس شام کو ربوہ جاتی تھی۔ خاکسار بھی اپنے والد صاحب اور جماعت کے دیگر احباب کے ساتھ ربوہ کےلیے روانہ ہوا۔
راستے میں مجھے یاد ہے سرگودھا سٹیشن پر ایک دوست نے اخبار خریدا جس میں یہ خبر تھی کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو امام جماعت احمدیہ منتخب کیا گیا ہے۔ اس پر ہماری جماعت کے ایک بزرگ ( مجھے نام یاد نہیں) نے فوراً اخبار لے لیا کہ ہم نے اخبار کی بات پر یقین نہیں کرنا اور ربوہ پہنچ کر خود تصدیق ہو جائےگی۔ربوہ ہماری ٹرین صبح پہنچی اور اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفۃ المسیح الثالث منتخب کیا گیا ہے۔
بیعت میں شمولیت
حضور ؓکے جنازے میں شمولیت کےلیے کثرت سے احباب جماعت آئے تھے۔
حضورؓ کے جسم عنصری کو قصرخلافت میں رکھا گیا تھا۔ چہرہ مبارک کے دیدار کےلیے لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور خدام احسن طریق سے ڈیوٹی دے رہے تھے۔
حضور ؓکا جنازہ ایک چارپائی پر رکھا گیا تھا جس کے ساتھ بانس کےلمبے لمبے ڈنڈےلگے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ صرف مخصوص لوگوں کو جس میں خاندان کے افراد،ناظران کرام، اُمراء جماعت، قائدین کو کندھا دینے کا موقع مل رہا تھا۔مجھے یاد ہے کہ خاکسار گول بازار کے قریب کھڑا تھا اور لوگوں کا بہت بڑا ہجوم تھا اور سب بہت افسردہ تھے۔
خاکسار اس وقت پشاور احمدیہ انٹر کالجیٹ کا صدر تھا، خاکسار نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور انٹر کالجیٹ کے صدر کے طور پر کندھا دینے کےلیے آگے ہوا۔
جب میں کندھا دینے کےلیے بڑھا اور تو مجھے دائیں طرف کندھا دینے کاموقع ملا،میرے پیچھے محترم پیر انوار الدین صاحب مرحوم تھے جو مجھے میری بہن طیبہ بنگش کی وجہ سے جانتے تھے کندھا دے رہے تھے۔
جب کچھ دیر بعد خاکسار دوسروں کو موقع دینے کےلیے جانے لگاتوپیر صاحب نے مجھے آواز دی کہ ہٹنا نہیںاور اس طرح خاکسار کو بہشتی مقبرہ تک کندھا دینے کا اعزاز ملا۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
نماز جنازہ بہشتی مقبرہ میں ادا کی گئی اور بڑے احاطہ کے اندر اور باہر لوگ ہی لوگ تھے۔
جب ہم پشاور کی جماعت کے ساتھ جلسہ سالانہ پر جاتے تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی تقاریر سننے کا موقعہ ملتا، حضور کی تقاریر بہت مدلل اور اعلیٰ ہوتی تھیں
پھر 1965ءمیںحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی وفات پر ربوہ جانے کا موقعہ ملا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بیعت میں بھی شامل ہوا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی پشاور آمد اور یونیورسٹی میں لیکچر کا انتظام
خاکسار پشاور یونیورسٹی میں میڈیکل کالج کا طالبعلم تھا۔ اس دوران خاکسار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیہ انٹر کالیجیٹ پشاور کا صدر رہنے کی بھی توفیق ملی۔ 1964ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جو اُس وقت صدر انصاراللہ مرکز یہ اور تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل بھی تھےاور تعلیمی حلقوں میں بھی مشہور تھے، انصاراللہ کے اجتماع پر پشاور تشریف لائے۔ ہم نے سوچا کہ یونیورسٹی میں حضور کا لیکچر کرایا جائے جس میں یونیورسٹی کے لیکچرار اور زیر تبلیغ دوستوں کو مدعو کیا جائے۔ خاکسار نے امیر جماعت پشاور خان شمس الدین خانصاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا۔ امیر صاحب کے پوچھنے پر حضور نے بخوشی ہماری دعوت قبول فرمائی۔ الحمدللہ
یونیورسٹی میں مخالفت کے باعث ہم نے لیکچر کا انتظام احمدی پروفیسر ڈاکٹر غلام اللہ صاحب کے گھر پر کیا، اس لیکچر میں یونیورسٹی کے VC خضر حیات ملک صاحب کے علاوہ کافی تعداد میں یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلبہ شامل ہوئے۔ حضور کا خطاب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر تھا جو بہت مقبول ہوا۔ اللہ کے فضل سے یہ تقریب بہت کامیاب رہی۔الحمدللہ علیٰ ذالک
مجھے یاد ہے اس میں حضور نے شہد کی مکھی کی مثال دی تھی۔ میٹنگ کے بعد سارے طلباء کی حضور سے ملاقات ہوئی۔مجھے یاد ہے جب خاکسار اپنا تعارف کروانے لگا تو حضور نے فرمایا آپ بتائیں آپ کا خلیل احمد خان صاحب سے کیا رشتہ ہے۔ خلیل احمد خانصاحب مرحوم خاکسار کے ماموں تھے اور قادیان تعلیم کے دوران حضور کے شاگرد رہ چکے تھے، اس پر حضور نے face reading پر بہت پیارے انداز میں بتایا۔
خاکسار 1967ء میں لندن آگیا۔ حضور 1968ء میں یورپ کے دورہ پر تشریف لائے، خاکسار اُن دنوں گلاسگو سکاٹ لینڈ میں تھا۔ حضور اپنے دورہ کے دوران گلاسگو بھی تشریف لائے۔ حضور کے اعزاز میں جماعت نے ایک بڑے ہوٹل میں استقبالیہ اور پریس کانفرنس کا انتظام بھی کیا تھا۔ اس وقت سکاٹ لینڈ میں محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب مرحوم مشنری انچارج تھے۔حضورؒ کے ساتھ محترم بشیر احمد خان رفیق صاحب مرحوم بھی تھے جو امام مسجد لندن تھے۔ خاکسار کو بھی حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔الحمدللہ
خاندان مسیح موعودؑ میں شادی
خاکسار 1972ء میں شادی کے سلسلہ میں پاکستان آیا۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے خاکسار کی شادی صاحبزادی امۃ الحئ در ثمین صاحبہ مرحومہ بنت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب مرحوم سے قرار پائی۔ میری بیگم حضرت مصلح موعودؓکی پوتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پڑ پوتی تھیں۔ ان کا وجود ہمارے سارے خاندان پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعاموں میں سے ایک خاص انعام تھا۔ اس پر ہم جتنا بھی اپنے مولا کریم کا شکر کریں کم ہے، ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاءُ۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے 6؍ اکتوبر کومسجد اقصیٰ میں ہمارا نکاح پڑھایا۔ حضورِ انور نے شادی میں بھی بنفس نفیس شرکت فرمائی اور دعا بھی کروائی۔ اس تقریب میں افراد خاندان مسیح موعودؑ، صحابہ کرامؓ اور دیگر بزرگان سلسلہ نے بھی شرکت کی۔
ہومیو پیتھک طریقہ علاج سیکھنے کی ترغیب
شادی سے پہلے جب خاکسار حضور سے ملاقات کرنے ربوہ گیا، تو وہاں اُلٹیوں اور پیٹ درد کی شکایت شروع ہو گئی اور جب دوسرے علاج ناکام ہوئے تو حضور نے ہومیوپیتھک دوابھیجی اور دعا بھی کی جس سے اللہ کے فضل سے معجزانہ رنگ میں صحتیاب ہوا۔ بعد میں ملاقات کے دوران حضورؒ نے مجھے لندن جا کر ہومیوپیتھک سیکھنے کی تاکید فرمائی۔ حضورؒ کے حکم کی تعمیل میں لندن آنے پر خاکسار نے Royal London Homeopathic Hospital London سے ہومیو پیتھک کی ڈگری لی، اس کے بعد چالیس سال سے زیادہ عرصہ دوسرے علاج کے ساتھ ہومیوپیتھک علاج بھی کامیابی سے کرتا رہا۔ الحمدللہ۔
1975ء میں حضور دورہ یورپ کے دوران یارکشائر بھی تشریف لائے۔ حضور کا قیام Lake District میں تھا۔ حضور ہمارے گھر واقع Mirfieldبھی رونق افروز ہوئے۔ بلا شبہ وہ دن ہمارے لیے عید سے کم نہ تھا۔ میری بیگم حضور کی بھتیجی تھیں اور حضور کو ان سے پیار بھی بہت تھا۔حضور انور نے جمعہ کی نماز ہمارے گھر پر ادا کی جس میں کل 8-10 لوگ شامل ہوئے اور ہمارے لاؤنج میں جمعہ کی نماز ہوئی۔ حضور نے مختصر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات کی تفسیر بیان کی۔
احترام امام کا نمونہ
ایک واقعہ یاد آیا، ا ن دنوں صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ بھی ہمارے ہاں گرمیوں میں آئے ہوئے تھے۔ حضور کا Lake District سے فون آیا جب خاکسار نے اُٹھایا تو آگے سے بتایا“میں ناصر بول رہا ہوں”میں کچھ دیر کے لیے حیران ہوا اور سوچ رہا تھا کہ ناصر کون ہو سکتا ہے لیکن جلد ہی سمجھ آگئی۔ حضور میرے سسرڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب سے بات کرنا چاہتے تھے۔ خاکسار نے فون اُن کو دیا، وہ بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب علم ہوا کہ حضور کا فون ہے تو احتراماً کھڑے ہو گئے، اور کھڑے ہو کر ہی فون سنا۔
ہم 1976ء میں اپنے گھر Batley منتقل ہو گئے، یہ گھر اللہ کے فضل سے کشادہ تھا۔
حضورِ انور کی بابرکت آمد
حضور اپنے دورۂ افریقہ سے واپسی پر بمع بیگم صاحبہ 1978ء میں ہمارے گھر Batley تشریف لائے اور پانچ دن ہمارے ہاں قیام رہا، الحمدللہ علیٰ ذالک۔ ہمیں اللہ کے فضل سے خدمت کا موقعہ ملا۔ میری بیگم مرحومہ نےاپنی قابلیت سے سارا کام خود کیا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے آمین۔
تیسری بار 1980ء میں حضور دورۂ سپین سے واپسی پرجب برطانیہ رونق افروز ہوئے تو ہمارے غریب خانے کو بھی برکت بخشی اور ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ نے خدمت کا موقع دیا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ میری بیگم مرحومہ نے حسب سابق پوری خدمت کی اور دعائیں لیں۔
ایک ایمان افروز واقعہ
جن دنوں حضور ہمارے ہاں قیام پذیر تھے، ان دنوں mobile phone نہیں ہوتے تھے۔ حضور اور بیگم صاحبہ کا قیام اس بار ہمارےگھر تھا اور حضور کے عملہ کا انتظام ہڈرزفیلڈ مشن ہاؤس میں تھا۔ رات کو بارہ بجے حضور اپنے کمرے سے نیچے تشریف لائے اور بے چین لگ رہے تھے۔حضور نے آتے ہی اپنے قافلہ کے افراد کے بارے پوچھا، کہ ان کا کیا حال ہے۔ خاکسار نے بتایا کہ ان کا انتظام ہڈرزفیلڈ کے مشن ہاؤس میں ہے۔ خاکسار اُسی وقت کار میں ہڈرزفیلڈ مشن ہاؤس گیا تو دیکھ کر پریشان ہوا کہ بستر ناکافی تھے اور بعض مہمان sofa پر ہی آرام کر رہے تھے۔ حضور کو بذریعہ فون اطلاع دی۔ حضور بہت ناراض ہوئے اور مہمانوں کو گھر لانے کی ہدایت فرمائی۔ خاکسار نے حکم کی تعمیل کی۔ ایسا لگتا تھا کہ حضور کو اللہ تعالیٰ نے اپنے سارے قافلہ کا منظر دکھایا تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے مشن ہاؤس سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی اور میرے خیال میںوہاںسارا انتظام ٹھیک تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور کو اپنے عملہ کو کتنا خیال تھا۔
خاکسار پر حضور کے بے شمار احسانات اور شفقت کا سلوک رہا،الحمدللہ اللہ تعالیٰ حضور انور کو اپنے قرب میں جگہ دے اور درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین