خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا کی بہاریں/یادیں
آج میں سترسال کا ہونے والا ہوں۔ اور مَیں نے لمحہ لمحہ اپنی زندگی میں اس دعا کا حظ اٹھایا ہے
خدا تعالیٰ کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اربوں ارب مخلوق میں سے جماعت احمدیہ کو جو خدائی انعام میسّر ہے وہ خلافت احمدیہ کے صدابہار قبولیت دعا کے معجزے ہیں۔
خاکسار کے تایا زاد بھائی مکرم چودھری محمد اعظم صاحب مرحوم سابق کارکن نصرت جہاں اور وقفِ جدید انجمن احمدیہ خلافت ثالثہ کے دَور میں ایک دن ملاقات کے لیے پیارے آقا کے حضور حاضر ہوئے تو اَور باتوں کے علاوہ عرض کیا کہ حضور ہمارے خاندان میں مجھ تک ایک ہی بیٹا ہوتا آرہا ہے۔یعنی خاکسار ایک، میرا ایک بیٹا، میرا ایک ماموں، میرے نانا اکیلے، میرے پڑنانا بھی اکیلے یعنی پانچ نسلوں سے ایک ایک ہی آرہا ہے۔ پیارے آقا نے ایک لمحہ توقف فرمایا اور فرمانے لگے : اچھا ، ساتھ ہی تین انگلیاں کھڑی کر دیں۔
الحمد للہ علیٰ ذالک اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس بھائی کو تین بیٹے عطا کیے۔ بڑا بیٹا عزیزم فاروق اعظم جرمنی، درمیانہ نویدالسلام اٹلی اور تنویرالاسلام صاحب جرمنی میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتی خدمات کی توفیق حاصل کررہے ہیں۔
خاکسار کو والدہ صاحبہ نے بتایا کہ ایک بار غالباً 1954ء یا 1955ء کی بات ہے کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں خاکسار اپنی والدہ محترمہ ہدایت بی بی صاحبہ کے ہم راہ ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سفید براق لباس میں ملبوس دائیں پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ خاکسار کے چچا جان مکرم و محترم چودھری عبدالسلام صاحب مرحوم نائب افسر حفاظت خاص نے تعارف کروایا کہ حضور یہ میرے بھائی کا ایک بیٹا ہے۔اس سے قبل اس کے تین بھائی وفات پاچکے ہیں۔پیارے آقا نے جو مجھے، میری والدہ محترمہ اور چچا جان نے بتایا کہ حضور نے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور فرمانے لگے ’’اچھا اللہ تعالیٰ عمر دراز کرے۔‘‘ آج میں سترسال کا ہونے والا ہوں۔ اور مَیں نے لمحہ لمحہ اپنی زندگی میں اس دعا کا حظ اٹھایا ہے۔
پھر خاکسار کو یاد ہے کہ جب حضرت مصلح موعود ؓکی وفات کا اعلان مسجدمبارک میں ہوا تو ہم محلے میں صَلِّ علیٰکر کے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے تھے۔پیارے آقا کا لمبی لائنوں میں دیدار بھی یاد ہے۔
اسی طرح جب حضور ؓکبھی ربوہ سے باہر جابہ یا کوہِ مری کو جاتے تو سکول سے چھٹی ہوجاتی اور مسجد مبارک کے سامنے والی دو رویہ سڑک کے مغربی طرف دارالضیافت اور مسجد مبارک والی سائیڈ پر کھڑے ہو کر پیارے آقا کا استقبال کرتے یا الوداع کرتے۔ پھر حضور ؓکے پیچھے نمازیں اور جمعة المبارک وغیرہ پڑھنے کا بھی یاد ہے۔
حضورؓ کا جنازہ اور تدفین بھی یاد ہے۔ بہشتی مقبرہ کا میدان افراد جماعت سے بھرا ہوا تھا۔
پھر خلافت ثالثہ کا انتخاب اور پہلی بیعت اور حضورؒسے ملاقاتیں یاد آتی ہیں۔
ایک ملاقات کا یاد ہے کہ سکول کی یونی فارم سفید قمیص اور خاکی شلوار میں ہی چلے گئے۔ شومیٔ قسمت کہ میں نے سامنے والی جیب میں ایگل کا پین بلیک کلر کا لگایا ہوا تھا اور اس میں نیلی سیاہی تھی۔ پین کی سیاہی لیک ہو کر چھوٹا سا نشان جیب پر پڑچکا تھا۔ پیارے آقا نے محبت بھرے انداز سے فرمایا کہ یہ ضیاع ہے۔ تمہارے گھر والوں کا وقت اورپیسہ اس کی صفائی پر ضائع ہوگا یہ نہیں ہونا چاہیے۔ بالکل چھوٹا سا نشان تھا۔
پھر جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے۔جلسہ سالانہ اور اجتماعات میں نماز جمعہ اور عیدین کے خطابات یاد آتے ہیں ۔ کیا دن تھے اور ربوہ کی کیا رونق ہوتی تھی۔ ایک بار حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کراچی سے چناب ایکسپریس میں ربوہ تشریف لائے تو مجھے بھی پیارے آقا کی ریزرو بوگی میں لائل پور سے ربوہ تک سفر کرنے کی سعادت ملی۔ یاد رہے کہ خاکسار نے لائل پور سے ربوہ کا ٹکٹ خریدا ہوا تھا۔
پھر ایک بار سن تو یاد نہیں کہ میں آرمی میں اپنی ڈیوٹی پر تھا کہ حضورؒکا قافلہ گڑھی شاہو سے فورٹریس سٹیڈیم کی طرف گزرا تو خاکسار نے قافلہ کو دیکھتے ہی بے ساختہ فوجی سیلوٹ کردیا۔ مکرم محمود احمد بنگالی صاحب اس وقت صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ ہوتے تھے۔ جب شام کو مغرب کی نماز کے لیے چودھری حمید نصر اللہ صاحب کی کوٹھی 93 خورشید عالم روڈ آر اے بازار گیا تو بنگالی صاحب اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے ’’او فوجی تمہارا سیلوٹ دیکھی تھی میں نے۔‘‘
خلافت ثالثہ کے آخری تین جلسہ ہائے سالانہ میں خاکسار کو محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے دفتر حفاظتِ خاص میں ڈیوٹی دینے کی بھی توفیق ملتی رہی۔ چودھویں صدی کے سنگم پر جو جلسہ سالانہ ہوا اس کی تمام ڈیوٹی دینے والے احباب کے اسمائے گرامی کتابی صورت میں شائع ہوئے جس میں خاکسار کا نام بھی انچارج دفتر حفاظت خاص میں درج ہے۔ کچھ تصاویر بھی جلسہ کے سٹیج کی میرے پاس یادگار ہیں۔
خلافت ثالثہ میں غالباً دو بار حضورؒکے بیرونی دورہ جات سے واپسی پر بڑی دعوت طعام عقب لائبریری گراؤنڈ اور جامعہ احمدیہ کے گراؤنڈ میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
پھر خلافت رابعہ میں پہلی عام بیعت، جنازہ بہشتی مقبرہ اور حضور ؒ کا پہلا خطاب، جمعة المبار ک مسجد اقصیٰ میں حضورؒ کی اقتدا میں ادا کرنے کی توفیق ملی۔
اسی طرح جلسہ سالانہ جو خلافت رابعہ کے دورمیں ربوہ میں ہوئے ان میں بھی ڈیوٹی کی بھرپور توفیق ملتی رہی۔ الحمد للہ۔