خدا نے چودھویں صدی اور الف آخر کے سر پر مسلمانوں کو غفلت میں پاکر پھر اپنے عہد کو یاد کیا اور دین اسلام کی تجدید فرمائی
دنیا کے مذاہب پر اگر نظر کی جاوے تو معلوم ہوگا کہ بجز اسلام ہر ایک مذہب اپنے اندر کوئی نہ کوئی غلطی رکھتا ہے ۔ اور یہ اس لئے نہیں کہ درحقیقت وہ تمام مذاہب ابتدا سے جھوٹے ہیں بلکہ اس لئے کہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان مذاہب کی تائید چھوڑ دی اور وہ ایسے باغ کی طرح ہوگئے جس کا کوئی باغبان نہیں ۔ اور جس کی آبپاشی اور صفائی کیلئے کوئی انتظام نہیں ۔ اس لئے رفتہ رفتہ اُن میں خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ تمام پھل دار درخت خشک ہوگئے اور اُن کی جگہ کانٹے اور خراب بوٹیاں پھیل گئیں۔ اور روحانیت جو مذہب کی جڑ ہوتی ہے وہ بالکل جاتی رہی اور صرف خشک الفاظ ہاتھ میں رہ گئے ۔ مگر خدا نے اسلام کے ساتھ ایسا نہ کیا ۔ اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ باغ ہمیشہ سرسبز رہے اس لئے اُس نے ہر یک صدی پر اس باغ کی نئے سرے آبپاشی کی اور اُس کو خشک ہونے سے بچایا۔اگرچہ ہر صدی کے سر پر جب کبھی کوئی بندہ ٔ خدا اصلاح کیلئے قائم ہوا جاہل لوگ اُس کا مقابلہ کرتے رہے اور ان کو سخت ناگوار گزرا کہ کسی ایسی غلطی کی اصلاح ہو جو اُن کی رسم اور عادت میں داخل ہو چکی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی سنّت کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ آخری زمانہ میں جو ہدایت اور ضلالت کا آخری جنگ ہے خدا نے چودھویں صدی اور الف آخر کے سر پر مسلمانوں کو غفلت میں پاکر پھر اپنے عہد کو یاد کیا اور دین اسلام کی تجدید فرمائی۔ مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تجدید کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ سب مذہب مرگئے ۔ ان میں روحانیت باقی نہ رہی اور بہت سی غلطیاں اُن میں ایسی جم گئیں کہ جیسے بہت مستعمل کپڑے پر جو کبھی دھویا نہ جائے میل جم جاتی ہے ۔ اور ایسے انسانوں نے جن کو روحانیت سے کچھ بہرہ نہ تھا اور جن کے نفسِ امارّہ سفلی زندگی کی آلائشوں سے پاک نہ تھے اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق ان مذاہب کے اندر بے جا دخل دے کر ایسی صورت اُن کی بگاڑ دی کہ اب وہ کچھ اَور ہی چیز ہیں۔
مثلاً عیسائیت کے مذہب کو دیکھو کہ وہ ابتدا میں کیسے پاک اصول پر مبنی تھا ۔ اور جس تعلیم کو حضرت مسیح علیہ السلام نے پیش کیا تھا اگرچہ وہ تعلیم قرآنی تعلیم کے مقابل پر ناقص تھی کیونکہ ابھی کامل تعلیم کا وقت نہیں آیا تھا اور کمزور استعداد یں اس لائق بھی نہ تھیں تاہم وہ تعلیم اپنے وقت کے مناسب حال نہایت عمدہ تعلیم تھی ۔ وہ اُسی خدا کی طرف رہنمائی کرتی تھی جس کی طرف توریت نے رہنمائی کی ۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد مسیحیوں کا خدا ایک اور خدا ہوگیا جس کا توریت کی تعلیم میں کچھ بھی ذکر نہیں اور نہ بنی اسرائیل کو اس کی کچھ بھی خبر ہے۔ اس نئے خدا پر ایمان لانے سے تمام سِلسلہ توریت کا اُلٹ گیا۔ اور گناہوں سے حقیقی نجات اور پاکیزگی حاصل کرنے کیلئے جو ہدایتیں توریت میں تھیں وہ سب درہم برہم ہوگئیں ۔ اور تمام مدار گناہ سے پاک ہونے کا اس اقرار پر آگیا کہ حضرت مسیح نے دنیا کو نجات دینے کیلئے خود صلیب قبول کی اور وہ خدا ہی تھے۔ اور نہ صرف اسی قدر بلکہ توریت کے اور کئی ابدی احکام توڑ دئے گئے اور عیسائی مذہب میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام خود بھی دوبارہ تشریف لے آویں تو وہ اس مذہب کو شناخت نہ کر سکیں۔ نہایت حیرت کا مقام ہے کہ جن لوگوںکو تورات کی پابندی کی سخت تاکید تھی انہوں نے یک لخت تورات کے احکام کو چھوڑ دیا۔ مثلاً انجیل میں کہیں حکم نہیں کہ تورات میں تو سُور حرام ہے اور میں تم پر حلال کرتا ہوں ۔ اور توریت میں تو ختنہ کی تاکید ہے اور میں ختنہ کا حکم منسوخ کرتا ہوں ۔ پھر کب جائز تھا کہ جو باتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نہیں نکلیں وہ مذہب کے اندر داخل کردی جائیں ۔ لیکن چونکہ ضرور تھا کہ خدا ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام دنیا میں قائم کرے اس لئے عیسائیت کا بگڑنا اسلام کے ظہور کے لئے بطور ایک علامت کے تھا ۔
یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ اسلام کے ظہور سے پہلے ہندو مذہب بھی بگڑ چکا تھا۔ اور تمام ہندوستان میں عام طور پر بُت پرستی رائج ہوچکی تھی اور اِسی بگاڑ کے یہ آثار باقیہ ہیں کہ وہ خدا جو اپنی صفات کے استعمال میں کسی مادہ کا محتاج نہیں اب آریہ صاحبوں کی نظر میں وہ پیدائش ِ مخلوقات میں ضرور مادہ کا محتاج ہے ۔ اس فاسد عقیدہ سے ان کو ایک دوسرا فاسد عقیدہ بھی جو شرک سے بھرا ہوا ہے قبول کرنا پڑا۔ یعنی یہ کہ تمام ذرّات عالم اور تمام ارواح قدیم اور اَنادی ہیں۔ مگر افسوس کہ اگر وہ ایک نظر غائر خدا کی صفات پر ڈالتے توا یسا کبھی نہ کہہ سکتے ۔ کیونکہ اگر خدا پیدا کرنے کی صفت میں جو اس کی ذات میں قدیم سے ہے انسان کی طرح کسی مادہ کا محتاج ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اپنی صفتِ شنوائی اور بینائی وغیرہ میںانسان کی طرح کسی مادہ کا محتاج نہیں۔ انسان بغیر توسط ہوا کے کچھ سن نہیں سکتا اور بغیر توسط روشنی کے کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ پس کیا پرمیشر بھی ایسی کمزوری اپنے اندر رکھتا ہے ؟ اور وہ بھی سننے اور دیکھنے کیلئے ہوا اور روشنی کامحتاج ہے ؟ پس اگر وہ ہوا اور روشنی کا محتاج نہیں تو یقیناً سمجھو کہ وہ صفت پیدا کرنے میں بھی کسی مادہ کا محتاج نہیں ۔ یہ منطق سراسر جھوٹ ہے کہ خدا اپنی صفات کے اظہار میں کسی مادہ کا محتاج ہے ۔ انسانی صفات کا خدا پر قیاس کرنا کہ نیستی سے ہستی نہیں ہوسکتی اور انسانی کمزوریوں کو خدا پر جمانا بڑی غلطی ہے ۔انسان کی ہستی محدود اور خدا کی ہستی غیر محدود ہے ۔ پس وہ اپنی ہستی کی قوت سے ایک اور ہستی پیدا کر لیتا ہے۔ یہی تو خدائی ہے۔ اوروہ اپنی کسی صفت میں مادہ کا محتاج نہیں ہے ورنہ وہ خدا نہ ہو ۔ کیا اس کے کاموں میں کوئی روک ہوسکتی ہے ؟ اور اگر مثلاً چاہے کہ ایک دم میں زمین و آسماں پیدا کردے توکیا وہ پیدا نہیں کرسکتا؟ ہندوئوں میں جو لوگ علم کے ساتھ روحانیت کا بھی حصہ رکھتے تھے اور نری خشک منطق میں گرفتار نہ تھے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا جو آج کل پرمیشر کی نسبت آریہ صاحبان نے پیش کیا ہے ۔ یہ سراسر عدم روحانیت کا نتیجہ ہے ۔(لیکچرسیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ203-206)