ناگاساکی کے ’’پوشیدہ مسیحی‘‘
مسیحیت قبول کرنے والے ابتدائی جاپانیوں پر ظلم و ستم کا اڑھائی سو سالہ دور
مسیحیت قبول کرنے اور اپنے مذہب کی ترویج واشاعت کی پاداش میں ابتدائی تین صدیوں کے مسیحیوں کو ظلم و ستم کے جس بھیانک دَور سے گزرنا پڑا اس کی مثال تاریخِ مذاہب میں ملنا مشکل ہے۔ روم کے زیرِ زمین تاریک قبرستان جنہیں The Catacombs of Romeکہا جاتا ہے مذہب کی پاداش میں ظلم و جبر کی اس داستان کو یوں بیان کرتے ہیں کہ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والے اورحضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو نجات دہندہ خیال کرنے والے مسیحیو ں پر رومیوں نے عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا کہ سطحِ زمین پر مسیحیوں کا بودو باش اختیار کرنا ممکن نہ رہا۔ یہاں تک کہ یہ مخلصین اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے زیرِ زمین غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ جب ظلم و ستم حد سے بڑھ جاتا تو یہ لوگ کئی مہینوں کے سامانِ رسد کے ساتھ زیر زمین نہاں غاروں میں چھپ جاتے حتیٰ کہ بعض اوقات سالہا سال اسی کیفیت میں گزرجاتے۔ قرآن کریم نے ان مخلصین کو ’’اصحابِ کہف‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی قربانیوں کا ذکر سورة الکہف میں مرقوم ہے۔ اصحاب کہف پرظلم و ستم کا یہ دور تین صدیوں سے بھی زائد عرصہ تک محیط تھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :
وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا۔ (الکہف:26)
یعنی ظلم وستم کا یہ دورِ گراں تین سو نو سالوں پر محیط تھا۔ روم میں ایسی ساٹھ سے زیادہ غاروں کے آثار دریافت ہوئے ہیں جو مسیحیت کے ابتدائی مبلغین اور مخلصین کی قربانیوں کی منہ بولتی داستان ہے۔
مذہب کی پاداش میں ایذا رسانیوں کا ذکر ہو تو ناگاساکی کے مسیحی مبلغین اور مسیحیت قبول کرنے والے ابتدائی جاپانیوں کا تذکرہ جاپان میں تبلیغ کرنے والے ہر مذہب کے لیے ایک عمدہ سبق ہے۔ دو سو سال پر محیط جوروستم کا یہ طویل دور نہایت دردناک مظالم، ایذا رسانیوں، قیدو بند اور جلا وطنی سمیت جانی قربانیوں کے ان گنت واقعات پر مشتمل ہے۔
ناگاساکی جاپان کے انتہائی جنوب میں واقع ایک تاریخی شہر ہے۔ سولہویں صدی عیسوی تک ناگاساکی سمیت جاپان کی تمام بندرگاہیں بیرونی دنیا سے روابط اور تجارت کاوسیلہ تھیں۔ لیکن سترھویں صدی عیسوی میں مغربی استعماریت کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظرحکومتِ جاپان نے دنیا سے الگ تھلگ خودساختہ تنہائی کی پالیسی اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ 1641ءسے1858ء تک کے عرصے میں کسی غیر ملکی شخصیت کاجاپان میں داخل ہونامحض ایک خواب اور خیال بن کر رہ گیا۔ اس دَور کو period of national isolation یا ’’مقفل ریاست‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ’’مقفل ریاست‘‘اور تنہائی کی پالیسی کے اس دور میں اگر کسی بیرونی ریاست سے رابطے کی ضرورت پیش آتی تو ناگاساکی شہر کی بندرگاہ ان روابط کا واحد وسیلہ تھی۔
’’مقفل ریاست‘‘اورجاپانی حکومت کی خود ساختہ تنہائی کا یہ دَور جاپانی تاریخ کا غیر معمولی دَور تھا۔ شہنشاہِ جاپان بھی علاقائی سرداروں اور جاگیرداروں کی طاقت کے سامنے محض نمائشی وجود بن چکے تھے۔ علاقائی سرداروں کی باہم چپقلش اور ریشہ دوانیوں کے اس دَور میں بااثر سردار اور حکمران یورپی تاجروں اور مبلغین کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ خیال کرنے لگے۔ پرتگیزی اور جرمن تاجر بحرالکاہل کے مختلف جزائر سے ہوتے ہوئے جاپان سے تجارتی روابط استوار کر چکے تھے۔
شاہِ سپین کے ایلچی کی حیثیت سے پہلے پادری کی جاپان آمد
’’مقفل ریاست‘‘کی پالیسی کے نفاذ سے کچھ سال پیشترایک مشہورمسیحی پادری Francis Xavierجو ہندوستان، چین اور دیگر مشرقی ممالک میں مسیحیت کے پرچار کے حوالے سے مشہور تھے 1549ء میں ناگاساکی کے نواحی علاقہ Kagoshimaمیں وارد ہوئے۔ مسیحیت کے مبلغ کی حیثیت سے جاپان آنا خطرے سے خالی نہ تھا لہٰذا موصوف شاہِ سپین اور شاہِ پرتگال فلپ ثانی کے ایلچی کے طور پر ہندوستانی ریاست ’’گوا‘‘سے جاپان پہنچے۔
فرانسس زاویئر نے ناگاساکی شہرکے نواح سے اپنے مشن کاآغاز کیا۔ بہت جلد ان کی کوششیں بارآور ہوئیں اور ایک مقامی جاگیردار مسیحیت قبول کرکے فرانسس زاویئر سے جا ملے۔ تجارت سے وابستہ جاگیردار طبقہ مغربی دنیا سے راہ و رسم میں تجارتی مفاد بھی محسوس کرنے لگا۔ لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے بااثر لوگوں سمیت ایک بڑی تعداد مسیحیت کی طرف مائل ہونا شروع ہوگئی۔ حُسن اتفاق کہیے کہ اُن دنوں جاپان میں Oda Nobunagaکی حکومت تھی جو بدھ مت سے ذاتی تعصب کی بنا پر مسیحیت کے لیے قدرے نرم خو ثابت ہوئے۔
جاپان کا’’روم ‘‘یعنی ناگاساکی شہر
مسیحی پادریوں نے ناگاساکی شہر اور گردو نواح کے جاگیرداروں کوہدف بنا کر مسیحیت کا پیغام پھیلانا شروع کردیا۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ مسیحیت کے پیغام کی کشش کی بجائے تجارتی مفادات اور مغربی دنیا سے تعلقات کی خواہش پیشِ نظر تھی۔ لیکن وجوہات جو بھی ہوں امرِِ واقعہ یہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ناگاساکی شہر مسیحیت کا مرکز بن گیا۔ جاگیرداروں کے مسیحیت پر ایمان لانے کے نتیجے میں ان کے زیر اثر طبقات اور کسان گھرانے بھی مسیحیت قبول کرنے لگے۔ محققین کے نزدیک چند سالوں کی محنت کے بعد ہی مسیحیت قبول کرنے والے جاپانیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں تک جا پہنچی، یہاں تک کہ ناگاساکی شہر کو جاپان کا ’’روم‘‘کہا جانے لگا۔ سترھویں صدی کے اوائل میں ناگاساکی اور گردو نواح میں مسیحیوں کی آبادی پانچ لاکھ نفوس بیان کی جاتی ہے۔
(https://www.bbc.com/news/world-asia-50414472)
ناگاساکی کے مسیحیوں پر جوروستم کا آغاز
یہ وہ زمانہ ہے جب صدیوں کی تاریخ پر مشتمل جاپان کا شاہی نظام روبہ زوال تھا۔ حکومتی نظم و نسق طاقتور سرداروں کے ہاتھ میں تھا اور شہنشاہ کا وجود محض علامتی حیثیت میں باقی تھا۔ مسیحیت کے لیے قدرے نرم خُو واقع ہونے والےحکمران Oda Nobunagaکی وفات کےبعدجاپان میں Toyotomi Hideyoshiاور Tokugawa Ieyasuکا دورِ حکومت شروع ہوا۔ ان دونوں ا دوار کے ساتھ ہی مسیحیت قبول کرنے والے جاپانیوں کے لیے مصائب وآلام پر مشتمل ایک ایسے صبر آزما دَور کا آغاز ہوا جو آئندہ آنے والی دو صدیوں سے بھی زائد عرصہ پر محیط ہے۔
سیاسی عدم استحکام کے اس دَور میں 1587ء میں جب مقامی سرداروں اور بااثر شخصیات سمیت ایک بڑی تعداد مسیحیت میں داخل ہوگئی توToyotomi Hideyoshiنے پادریوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے امتناعِ مسیحیت کے دو آرڈیننس نافذ کرکے پادریوں کو جلا وطن کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ نیزبدھ مت یاشنتو مذہب ترک کرکے مسیحیت قبول کرنا جرم شمار ہونے لگا۔ متمول جاپانیوں، حکومتی عہدیداران یا بااثر شخصیات کے مسیحیت قبول کرنے کی صورت میں جرمانوں اور سزاؤں کا اعلان کردیا گیا۔
عرصۂ حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا کہ جاپانی مسیحیوں کے لیے دو ہی راستے بچے تھےیا تو مسیحیت سے تائب ہو کر اپنے اصل دین پر لوٹ آئیں یا پھر موت کو گلے لگاکر اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔ اندریں حالات جنوری 1597ء میں چھ پادریوں سمیت چھبیس افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ جسمانی اور ذہنی ایذا رسانیوں کے ساتھ ساتھ بطور عبرت انہیں جاپان کے قصبوں اور شہروں میں گھماتے ہوئے مسیحیت کے گڑھ ناگا ساکی تک لایا گیا اور 5؍فروری1597ء کو شہر کے عین وسط میں صلیب دے کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اس جوروجفا کی ایک جھلک اورجان کی قربانی پیش کرنے والے ان 26مسیحیوں کے حالات و واقعات کی تفصیل اس ناول میں پڑھی جاسکتی ہے۔ Kirish‘tan: Heaven‘s Samurai: A novel of old Japan۔ جان کی قربانی دینے والے افراد کو تاریخ میں The Twenty-Six Martyrs of Japanکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ناگاساکی شہر میں ایک چرچ ان قربانی کرنے والوں کی یاد سے موسوم ہے جسے اب جاپان کا قومی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح ہالی وُڈ کی مشہور فلم Silenceسمیت درجنوں کتب اور تحقیقی مقالے ناگاساکی کے مسیحیوں کی عزم و ہمت اور صبر و استقلال کے واقعات سے پردہ اٹھا تے ہیں۔
مسیحیت سے لاتعلقی ثابت کرنے کے لیے توہینِ مسیحؑ کی رسم
سترھویں صدی عیسوی جاپانی مسیحیوں کے لیے جورو جفا کی بد ترین صدی کے طور پر طلوع ہوئی۔ 1612ء میں مزید نئے قوانین متعارف کرواتے ہوئے مسیحیت کی تبلیغ جرم قرار دے کر مسیحی کنیسے مسمار کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔ امتناعِ مسیحیت قوانین کے اجرا، سر عام صلیبیں دیے جانے اور پادریوں و سرگرم مسیحیوں کی ایذا رسانی کے باوجودجب مسیحیت قبول کرلینے والوں کی اکثریت اپنے دین پر ثابت قدم رہی۔ اس پر حکام نے فیصلہ کیا کہ مسیحیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اشراف کی بجائے عوام الناس کو ہدف بنایاجائے۔ چنانچہ ’’جاپان کا روم‘‘کہلانے والے، لاکھوں کی آبادی پر مشتمل ناگاساکی شہر کے بارے میں فیصلہ صادر ہوا کہ شہر کے تمام باسیوں کو مسیحیت سے لاتعلقی ثابت کرنے کا آخری موقع فراہم کیا جائے۔ لیکن لاکھوں کی آبادی میں یہ کیسے پتہ چلے کہ کون کس مذہب کا پیرو ہے، کئی تجاویز زیرِ غور آئیں لیکن اس بات کے احتما ل کے پیشِ نظر کہ دباؤ کی وجہ سے مبادا کوئی شخص زبانی طور پرتو مسیحیت کا منکر ہوجائے لیکن اپنی قلبی وابستگی اسی دین سے برقرار رکھے۔ لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ ناگاساکی کے باسیوں کو مسیحیت سے لاتعلقی ثابت کرنے کے لیے حضرت مسیح علیہ السلام اور حضرت مریم ؑکی توہین پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ ان برگزیدہ ہستیوں کی شبیہ پر مشتمل کتبے تیار کیے گئے اور شہر کے باشندوں کو حکم دیا گیا کہ ان پر اپنے پاؤں رکھ کر روند کر گزریں تایہ ثابت ہوجائے کہ ان کے دل مسیحیت سے تائب ہوچکے ہیں۔ محققین کے مطابق :
’’مسیح( علیہ السلام) کی تصویر کو پاؤں تلے روندنے یعنی Fumieکی رسم ایک سالانہ معمول کی شکل اختیار کرگئی۔ مسیحی خصوصاً کیتھولک فرقے کے لوگ مسیح اور مریم کی شبیہ کو خاص اہمیت دیتے ہیں اس لیے جس شخص کے بارے میں شبہ ہوتا کہ یہ مسیحیت قبول کر چکا ہے اسے مجبور کیا جاتا کہ وہ مسیح اور مریم کی شبیہوں کو پاؤں تلے روند کر مسیحیت سے لا تعلقی کا اظہار کرے۔ ‘‘
(The Triupmh of Perseverance:Kakure Kirisitan in Japan and Its Inscription on the World Heritage list page 168, 2018 by Joanes Da Silva Rocha)
بی بی سی انگریز ی سروس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق:
’’سن 1620ء میں لوگوں کے دلوں سے مسیحیت کو نکال باہر کرنے کے لیے لکڑی وغیرہ کے ایسے تختے تیار کروائے گئے جن پر (حضرت) مسیح اور (حضرت) مریم کی شبیہ کندہ تھی۔ ناگاساکی میں بسنے والے ہرایک شخص کو حکم دیا جاتاکہ وہ تختوں کوپاؤں سے روندتے ہوئے گزریں۔ صرف ایک دفعہ ہی اس عمل سے گزرلینا ناکافی خیال کرتے ہوئے شہریوں سے بار بار یہ تقاضا کیا گیا کہ وہ مسیح کی توہین کرکے اپنے قلبی میلانات واضح کریں، چنانچہ کچھ ہی عرصے بعد یہ طریق ایک سالانہ رسم کی صورت اختیار کر گیا اور ہر دفعہ سال ِنو کے موقع پر ناگاساکی کے باسی مسیحیت سے لاتعلقی ثابت کرنے کے لیے اس عمل پر مجبور کیے جاتے۔ ‘‘
جاپانی زبان میں اس معمول کے لیے Fumieیعنی پاؤں تلے روندنے کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق :
’’ناگاساکی کے ہر باسی پر ایسا کرنا فرض تھا، خواہ وہ عام شخص ہو، یاکوئی سامُورائی ہو، یہاں تک کہ بدھ مت کےراہب اوربیمار ولاچار افراد بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھے۔ اگر ان تختوں کابغور مشاہدہ کریں تو لا تعداد مرتبہ روندے جانے کی وجہ سے کندہ شدہ چہرے کے ابھار مٹ چکے تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ا ن پر کتنے پاؤں پڑے ہوں گے۔ ‘‘
بی بی سی نے ناگاساکی میں مقیم پروفیسر سائمن ہل کے حوالہ سے لکھا ہے کہ
’’جن مسیحیوں نے مسیح علیہ السلام کی شبیہ والے کتبوں کی توہین سے انکار کیا انہیں قتل کر دیا جاتا، بسا اوقات انہیں صلیب کی طرح لٹکا کر ایذائیں دی جاتیں۔ ‘‘
(https://www.bbc.com/news/world-asia-50414472)
ناگاساکی شہرمیں ایسی متعدد یادگاریں اور عجائب گھر آج بھی موجود ہیں جو جاپان کے ’’پوشیدہ مسیحیوں ‘‘ کی عزم و ہمت اور اپنے دین پر ثابت قدمی کی داستان بیان کرتے ہیں۔ مذہب کی پاداش میں جان قربان کرنے والے ابتدائی چھبیس افراد کے اسماء اور مجسموں پر مشتمل ایک دیواریاد گار کے طور پر تعمیر کی گئی ہے۔ ناگاساکی شہر کے عجائب گھروں میں مسیحیت قبول کرنے والوں پر جورو ستم کی ایک جھلک مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ پاؤں تلے روندے جانے والے تختے، اپنے دین کو چھپانے کی خاطر حضرت گوتم بدھ کی شکل میں ڈھالے گئے حضرت مسیح اور حضرت مریم کے مجسمے دو سو سالہ مظالم کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔
ان ایذا رسانیوں کی شدت کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے :
’’7؍اکتوبر1613ء کو آٹھ مسیحیوں کو ’’ کیُو شُو‘‘جزیرہ میں جلا کر ہلاک کر دیا گیا۔ جب ناگاساکی کے گورنر نے ان آٹھ مسیحیوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا تو ڈیوٹی پر مامور تین جاپانی Samurai اس حکم کو ماننے سے انکاری ہوگئے۔ لہٰذا ان تینوں کو بھی ان کے اہل خانہ سمیت موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ ‘‘
(Full sail with the wind of grace, Peter Kibe and 187 martyrs: Don Bosco, Japan 2008, pg.51to 52)
بعض محققین حضرت مسیح اور حضرت مریم علیہم السلام کی توہین کرکے اپنا مذہبی وجود برقرار رکھنے کی کوشش کو ’’پوشیدہ مسیحیوں ‘‘کی ایمانی کمزوری کی علامت قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناگاساکی شہر کے سینکڑوں باسیوں نے مسیح کی توہین گوارا نہ کرتے ہوئے موت کو قبول کر لیااور ہزاروں مسیحی ایسے تھے جو ظلم وستم کی تاب نہ لاتے ہوئے ان مظالم کے آگے سرنگوں ہوگئے اوربادلِ نخواستہ حضرت مسیح اور حضرت مریم علیہم السلام کی توہین کے ظاہری عمل سے گزر کر مسیحیت کو اپنے دلوں میں پوشیدہ اور محفوظ رکھتے ہوئے اچھے وقتوں کا انتظار کرنے لگے۔ بی بی سی انگریزی سروس کے مطابق :
’’اگرتمام جاپانی مسیحی مسیح کی شبیہ والے کتبوں کو پاؤں تلے روندنے سے انکار کردیتے تو نتیجۃً سب کے سب قتل کر دیے جاتے اور یوں جاپان سے مسیحیت کا نام و نشان مٹ جاتا۔ لیکن گناہ خیال کرنے کے باوجود انہیں مسیح کی شبیہ کو روندنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحیت جاپان میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے قابل ہوسکی۔
(https://www.bbc.com/news/world-asia-50414472)
جاپانی مسیحیوں پر اصحابِ کہف جیسے حالات
جوروجفابرداشت کرتے، صلیبوں پر جھولتے اور مسیح علیہ السلام کی توہین پر مجبور کردیے جانے والے جاپانی مسیحیوں کے لیے عرصہ حیات مزید تنگ ہوتا گیا یہاں تک کہ یہ لوگ نہاں ہوتے ہوتے پوشیدگی میں چلے گئے۔ 1650ء میں شروع ہونے والے اس دَور کو جاپانی زبان میں kakure kirishitan۔ (隠れキリシタン)یعنی’’پوشیدہ مسیحی‘‘کہا جاتا ہے۔
پوشیدہ زندگی کا یہ دَور آئندہ آنے والے اڑھائی سو سال پر مشتمل تھا۔ اس اڑھائی سوسالہ دَور میں ایک نئے مسیحی معاشرےکا جنم ہوا۔ مسیحیت روایتی انداز سے ہٹ کر چرچ سے گھروں کو منتقل ہوگئی۔ حکام کے قہر وغضب سے بچنے کے لیے گھروں میں حضرت مسیح اور حضرت مریم کے مجسمے حضرت بدھ کی شکل میں متشکل کرکے رکھے جانے لگے۔ اجتماعی عبادات ممکن نہ رہیں تو پانچ پانچ اور دس دس مسیحیوں پر مشتمل احزاب تشکیل دیے گئے جو نہایت احتیاط سے خفیہ طریقوں سے باہم میل جول اور تہواروں کا اہتمام کرتے۔ مسیحی اصطلاحات اور مذہبی رسومات کی ممانعت کے بعد متبادل الفاظ کے ذریعہ مسیحیت کو زندہ رکھنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔ ناگاساکی میں مسیحیت قبول کرنے والے ابتدائی لوگ جاگیردار اور زمیندار تھے لہٰذا نواحی دیہات میں مسیحیت کے لیے پہلے سے قدرےنرم گوشہ موجود تھا لہٰذابعض لوگ ناگاساکی شہر کو چھوڑ کر دیہات میں بودو باش اِختیار کرنے لگے۔
پوشیدگی کے دَور کی بعض اصطلاحات اور رسوم
پوشیدگی کے اس دَور میں مسیحی آبادیاں بڑے شہروں سے دیہات کی طرف منتقل ہوگئیں۔ لیکن دیہات میں بھی محتاط طرزِ زندگی کو برقرار رکھا گیا۔ دیہات میں مسیحی باشندوں کے لیے ایک پوشیدہ لیکن باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا۔ پانچ پانچ یا دس دس افرادپر مشتمل حزب تشکیل دے کرہر حزب کا ایک نگران مقررکر دیا جاتا۔ اس دور کی بعض مذہبی اصطلاحات کے حوالے سے ایک محقق لکھتے ہیں :
’’دیہات میں چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا ایک لیڈر مقرر ہوتا۔ ایک شخص اس بات پر مامور ہوتا کہ عبادات اور تہواروں کا کیلنڈر تشکیل دے۔ اس نگران کو جاپانی زبان میں 帳方 Chokataیعنی صاحبِ رجسٹر کہا جاتا۔ پادریوں کی عدم موجودگی میں ایک شخص بپتسمہ دینے پر مامور ہوتا جسے جاپانی زبان میں 水方Mizukataیعنی صاحب الماء یا پانی والے صاحب کہا جاتا۔ ‘‘
(The Triupmh of Perseverance:Kakure Kirisitan in Japan and Its Inscription on the World Heritage list page 168, 2018 by Joanes Da Silva Rocha)
’’اسی طرح اطلاعات اور رابطہ کے انچارج کو 聞き役یعنی صاحب الاذن ( کانوں والا)کےنام سے موسوم کیا جاتا۔ ‘‘
(The Age-Old Ritual Practice of Ohatsuhoage among the Kakure Kirishtan Survivors page 5 by Roger Vanzila Munsi)
اجتماعی عبادات کی مناہی کے باعث پوشیدہ مسیحیوں نے ربطِ بہم برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا طریق اختیار کیا۔ نئی فصل پکنے پر شنتومت کے لوگ شکرانے کے طور پر دعوتوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اپنے دین کو چھپائے بیٹھے جاپانی مسیحیوں نے بھی اس سے ملتی جلتی دعوتوں کا اہتمام شروع کردیا۔ اس تہوارکوجاپانی زبان میںお初穂あげیعنی Ohatsuhoageکہا جاتا۔ اس کا لفظی مطلب ہے پہلا رزق یا پہلی عطا۔ اس لفظ سے کسی مذہبی عبادت یا مسیحیت کا شائبہ نہ ہوسکتا تھا بلکہ سننے والے اسے فصل پکنے پر شکرانے کااظہارخیال کرتے۔ یہ دعوتیں عموماً اتوار کو منعقد ہوتیں۔ بظاہر فصلوں کی پیداوار سے منسلک یہ لنگر دراصل پوشیدہ مسیحیوں کے اجتماع اور مذہبی عبادات کی خاطر منعقد ہوتے۔
(The Age-Old Ritual Practice of Ohatsuhoage among the Kakure Kirishtan Survivors page 5 by Roger Vanzila Munsi)
’’پوشیدہ مسیحیوں ‘‘کے نام سے نئے فرقے کا جنم
جبری پابندیوں کے باعث خفیہ زندگی گزارنے پر مجبورپوشیدہ مسیحی دلی طور پر اپنے مذہب مسیحیت پر قائم رہتے ہوئے بظاہر بدھ مت اور شنتو معابد سے منسلک ہوگئے۔ پادریوں کے جلا وطن ہوجانے کی وجہ سے بپتسمہ سے محروم رہ جانے والوں کو گھروں میں ہی بپتسمہ دینے کی روایت قائم ہوگئی۔ مصائب و آلام سے بچنے کی خاطر بدھ مت اور شنتو مذہب کے عقائد سے ملتی جلتی بعض رسمیں ’’پوشیدہ مسیحیت ‘‘ میں در آنے لگیں۔
پوشیدگی کے اڑھائی سو سالہ دَور کے بعد جب جاپان میں مذہبی آزادیوں کا اعلانِ عام ہو گیا تو ان پوشیدہ مسیحیوں کی اکثریت نے رومن کیتھولک مذہب اختیار کر لیا تو بعض ایسے بھی تھے جو اپنے آباء کے دین اور رسوم و رواج کو چھوڑنے پر متذبذب ہوگئے۔ حتی کہ آج بھی ناگاساکی کے نواح میں ’’پوشیدہ مسیحی‘‘فرقہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
(https://www.japantimes.co.jp/news/2019/11/20/national/history/japan-hidden-christians-religion-last-generation/)
مذہبی آزادیوں کے با وصف پوشیدگی کے دَور کے رسوم و رواج پر کاربند رہنے والے ان مسیحیوں کو بسا اوقات دیگر مسیحی فرقوں کی طرف سے تعصب کا نشانہ بناتے ہوئے مسیحیت سے الگ مذہب تصور کیا جانے لگا۔ لیکن پابندیوں کے خاتمے کے بعد کچھ ہی سالوں میں ان مسیحیوں کی اکثریت رومن کیتھولک فرقہ سے وابستہ ہوگئی۔ پوپ جان پال دوم اور پوپ فرانسس جاپان کے دوروں میں ’’پوشیدہ مسیحیوں‘‘ کی یادگاروں کا وزٹ کرکے انہیں خراج تحسین پیش کرچکے ہیں۔ مسیحیت کے رسم و رواج کے مطابق قربانیاں دینے والے کئی ابتدائی مسیحیوں کو سینٹ کا خطاب دیا جاچکا ہے۔ پوشیدہ مسیحیوں کی کئی یادگاریں جاپان کا قومی ورثہ قرار پاچکی ہیں جبکہ کئی مقامات یونیسکو کی طرف سے عالمی ورثہ قرار دیے جاچکے ہیں۔
مظالم کے دَور کا اختتام اور پوشیدہ مسیحیوں کی دریافت
1853ء میں امریکہ اور جاپان کے مابین ہونے والے ایک معاہدہ کے نتیجہ میں جاپان کی خود ساختہ تنہائی اور ’’مقفل ریاست‘‘کی پالیسی اپنے اختتام کو پہنچی۔ نیزجاپان میں وحدت و احترام کی علامت سمجھے جانے والے شہنشائے جاپان کے مقام و مرتبہ کی بحالی کی کاوشیں کامیاب ٹھہریں اور 1868ء سے Meijiشہنشاہ کے تاریخی عہد کا آغاز ہوا۔ اس زبردست تبدیلی سے اہل جاپان ایک مرتبہ پھر انتشار و افتراق سے اتحاد و یگانگت کی طرف لوٹنے لگے۔ ’’مقفل ریاست‘‘کی پالیسی کے خاتمے سے جاپان کی بین الاقوامی تنہائی کا طویل دَوربھی اپنے اختتام کو پہنچا اور بیرونی ممالک سے تعلقات بحال ہونے پر مغربی تاجروں اور سفارتکاروں کی آمدو رفت دوبارہ شروع ہوگئی۔
فضا سازگار ہونے پر ’’پوشیدہ مسیحی ‘‘غول در غول ظاہر ہونے لگے، ناگاساکی کے گرد و نواح اور جنوبی جاپان میں ہزارہا کی تعداد میں مسیحیوں کی دریافت محیر العقول تھی۔ ان مسیحیوں کے لیے ایک لمبی اور تاریک رات چھٹ چکی تھی۔ ایک روشن صبح طلوع ہورہی تھی اور اس واقعہ میں عالمِ مسیحیت کے لیے ایک پیغام پوشیدہ تھا کہ طویل انتظار ختم ہونے کو ہے اور مسیح کی آمد ثانی قریب تر ہے۔
مثیل مسیح کی بعثت اورجاپان میں مذہبی آزادیوں کا اعلانِ عام
اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص حکمتوں پر مبنی یہ عجیب تصرف الٰہی ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کی بنیاد رکھے جانے سے محض ایک ماہ قبل یعنی فروری 1889ء میں میجی بادشاہت کے 31ویں سال میں جاپان میں مذہبی آزادیوں کا اعلانِ عام کردیا گیا۔ جاپان کے میجی کانسٹی ٹیوشن کے اجرا نے جاپان کو بین الاقوامی برادری کے قریب لا کھڑا کیا اور یوں صدیوں سے جاری مذہبی پابندیوں اور تشدد کا خاتمہ ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد استعارہ کے رنگ میں جاپان کے مسیحیوں کے لیے بھی حقیقی نجات دہندہ ثابت ہوئی۔
میجی بادشاہ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار
نومبر2015ء میں دورہ جاپان کے دوران حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شنتومت کے نہایت مقدس مقامات میں سے ایک Meiji Shrineکا بھی دورہ فرمایا۔ ایک شنتو معبد میں خلیفة المسیح کی آمد اپنی ذات میں ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے تاثرات رقم فرماتے ہوئے معبد کے سربراہ سے پوچھا کہ قیامِ امن کے لیے میجی بادشاہ کا کردار اور عمل کیسا تھا ؟ معبد کے چیف نے جواب دیا کہ امن عالم اور مذہب کی آزادیوں کے لیے میجی دور ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمیجی بادشاہ کے لیے درج ذیل یاد گار الفاظ رقم فرمائے:
اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ
Allah is the The Light of Heavens and the Earth. Allah reward the Emperor Meiji for his peace creating work in the country and the world.
جاپانی عقائد کے مطابق بادشاہ کی حیثیت دیوتا جیسی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا پیغام ایک طرف میجی بادشاہ کو خراج تحسین تھا تو دوسری طرف توحید باری تعالیٰ کی عظیم الشان منادی تھی اور آپ نے نہایت لطیف پیرائے میں جاپانی قوم تک یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ آسمانوں اور زمین کا نور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے۔
اسی دورے کے دوران جاپانی میزبانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کے قافلہ کو عشائیہ کے لیے مدعو کیااورعشائیہ کے لیے اس تاریخی ہال میں انتظام کیا گیا جہاں 1889ء میں جاپان کا وہ آئین منظور ہواجس کی بدولت جاپان میں بسنے والوں کو مذہبی آزادیاں نصیب ہوئیں۔
جاپانیوں کی مذہبی زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ
’’جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے ‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ351)
جاپانی قوم عمدہ مذہب کی تلاش کے اس سفر میں کبھی حضرت کنفیوشس کی تعلیم کو گلے لگاتی ہے تو کبھی حضرت بدھ علیہ السلام کے فلسفہ میں پناہ لیتی ہے۔ شنتو مت کا عقیدہ بھی جاپانیوں کی تشنہ لبی دور نہیں کرپاتا اور ناگاساکی کے باسی شدید پیاسوں کی طرح نہایت والہانہ رنگ میں مسیحیت کو خوش آمد ید کہتے ہوئے نہ صرف اس مذہب کو قبول کرلیتے ہیں بلکہ مسیح علیہ السلام کی سنت میں صلیبوں پر بھی جھول جاتے ہیں۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی عمدہ مذہب کی تلاش کا یہ سفر ہنوز جاری ہے اور سکونِ قلب کی منزل مقصود اور اس سفر کا منتہاء خدائے واحد ویگانہ کی پرستش میں مستور ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’لمبے مصائب سےگھبرانا نہیں چاہیے۔ ہم سے پہلے مسیحی جماعت کو تین سو نو سال تک دُکھ دئے گئے۔ لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا اور آخر اس صبر کا نہایت شیریں پھل کھایا۔ پس تم کو جلدی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے اور استقلال سے مصائب کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد4صفحہ441)
٭…٭…٭