حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسے ہے؟ (قسط نمبر 6)
پردہ عورت کے تقدس کی حفاظت کا ضامن ہے
بعض بیماریاں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ شروع میں ہی ہمیں اس کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہو پاتا اور آہستہ آہستہ وہ بڑھتے بڑھتے معاشرے کے لیے ناسور بن جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک بیماری احساس کمتری کی بھی ہے۔ احساسِ کمتری کے نتیجے میں بےپردگی کا رجحان بڑھتا ہے اور اسلامی تعلیم پر عمل نہ کرنے سےایمان کے ضائع ہونے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ اس حوالے سے متنبہ کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’قر آن نے نیکی کے سا تھ با قیا ت کا لفظ ا ستعما ل فر ما یا
الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ (الکہف:47)
بلکہ با قیا ت کو پہلے ر کھا کہ نیکی کی بنیا دی تعر یف یہ ہے کہ وہ با قی ر ہنے والی ہے۔ ما حو ل سے متا ثر نہ ہو بلکہ ما حو ل کو متا ثر کر نے والی ہو ہر حا ل میں ز ندہ رہنے کی صلا حیت ر کھتی ہو اسی لئے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے با قیات کے لفظ کو پہلے ا ستعما ل فر ما تا ہے قرآن کر یم کہ نیکی تو ہے ہی و ہی جس میں بقا کی طا قت مو جو د ہو، جو ز ندہ ر ہنے کی ا ہلیت رکھتی ہو۔ وہ نیکی جو جگہ بد لنے سے مر جا ئے یا مر جھا جا ئے یا نیم جان ہو جا ئے اسے قرآن کر یم کی اصطلاح میں نیکی نہیں کہا جا تا۔ تو ایسی خو اتین جو پر دہ میں ملبو س ر ہا کرتی تھیں یا بعض دیگر ا مور میں اسلامی پا بند یوں کو اختیا ر کیا کر تی تھیں جب ان سے وہ سارے د با ؤ اٹھ گئے اور جب دوسرے محرکات بھی ان کو نصیب ہو گئے جو دوسرے رستوں کی طرف ان کو بلا نے وا لے تھے۔ اگر وہ نیکیاں جو وہ پہلے و طن میں کیا کر تی تھیں وہ قر آنی اصطلا ح میں نیکیاں ہو تیں تو ہر گز اس تبد یلی حا لا ت کا ان کی نیکیوں پر کو ئی بھی اثر نہیں پڑ نا تھا۔ لیکن اگر وہ مجبو ری کی نیکیاں تھیں، عصمت بی بی بے چا ر گی کا سا حا ل تھا (یہ ایک ا ردو کا محا ورہ ہے)تو پھر اس صورت میں لا زماًان کے اوپر اثر پڑنا چا ہیے تھا۔ اور یہ اثرا ت کم و بیش بہت سی صو رتوں میں ہمیں پڑتے ہو ئے د کھا ئی دیتے ہیں۔…
…تو یہ ایک معمو لی مضمون نہیں ہے ایک بہت بڑا اور وسیع مضمو ن ہے اور اس کے مختلف پہلو ؤں پر میں با ر بار پہلے تو جہ دلا چکا ہو ں۔ پر دہ ضروری نہیں ہے کہ بر قع کی صورت میں اختیا ر کیا جا ئے لیکن وہ خوا تین جو ایسے ما حو ل میں پرورش پاچکی ہیں جہاں بر قع اور پر دہ ہم آہنگ ہو چکے تھے۔ ایک ہی چیز کے دو نام سمجھے جا تے تھے، و ہاں ا ن کا بر قع چھو ڑنا عملاََ پر دہ چھوڑنے کے مترا دف ہو جا تا ہے اور بسا اوقا ت بر قع چھو ڑنا احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہو تا ہے۔ ہزا ر بہانے وہ نفس کے تلاش کر یں کہ یہاں تو بر قع کی ضرورت نہیں، یہاں دوسرا پردہ بھی ہو سکتا ہے، کم سے کم پر دہ بھی تو کو ئی چیز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اپنے د ل کو ٹٹول کر دیکھیں تو ان کو محسوس ہو گا کہ یہ سا رے نفس کے بہا نے بنا ئے تھے اور سجا کر ایک با ت کو دکھا یا تھا جو حقیقت میں ایک بد ز یب با ت تھی۔ عملاًوہ بر قع سے نہیں پر دہ سے بھا گنا چا ہتی تھی اور شرم محسوس کر تی تھی ان گلیوں میں بر قع پہن کر کہ کو ئی د یکھنے والا کیا کہے گا کہ د قیا نو سی عورت کہاں آ گئی ہے۔ عو ر تیں آزا د پھر ر ہی ہیں نا چ ر ہی ہیں اور ہر قسم کی د نیا کی لذ تیں حا صل کر رہی ہیں۔ ٹی وی پر د یکھو تو تب کیا اور گلیوں میں جا کر د یکھو تو تب کیا بظا ہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسی د نیا میں ر ہنا اور یہیں مر جانا ہے اور یہی کچھ مدعا ہے انسا نی تخلیق کا۔ ان با توں پر جب نظر ڈا لتی ہیں اور پھر برقع پہن کر با ہر جا تے ہو ئے د یکھتی ہیں اپنے آپ کو، لو گو ں کی نظروں کو دیکھتی ہیں جو ان پر پڑتی ہیں تو شد یداحساس کمتری میں مبتلا ہو جا تی ہیں۔ کہتی ہیں یہ کیا با ت ہے ہم کیوں پرانی اور دقیا نو سی محسوس ہوں، کیو ں نہ نسبتاًادنیٰ پر دہ کی طر ف لو ٹ جائیں۔ ایک یہ طبقہ ہے شروع میں بظا ہر بد ی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ شرمندگی کے نتیجہ میں یہ بر قع ا تا رنے والی خوا تین ہو تی ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ قد م پہلا قدم تو ہو تا ہے آخری قدم نہیں ہو تا اور رفتہ رفتہ تہذیبی ا ثرا ت ان پر غا لب آنے لگ جاتے ہیں جب ایک دفعہ سر جھکا د یا ایک تہذ یب کے سامنے تو وہ سر پھر جھکتا ہی چلا جا تا ہے۔
کچھ دوسری خوا تین ا یسی ہیں جن کا نفس بہا نے ڈ ھو نڈتا ہے اور وہ یہ کہتی ہیں کہ بر قع ثا بت کرو کہاں سے آیا ہے قرآن کریم میں تو بر قع ہے ہی نہیں اور پھر کم سے کم پر دہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اسلامی اصو ل کی فلا سفی میں وا ضح فر ما دیا ہے تو اس کے بعد ہم پر بر قع ٹھو نسنا ز یا دتی ہے۔ یہ درست ہے کہ برقع جب بھی ایجا د ہوا تھا میں نہیں جا نتا کس نے ایجا د کیا تھا، اس کے کچھ پہلو یقیناًتکلیف دہ ہیں اور ہو سکتا ہے برقع کی بعض قسمیں اور عملاًہو تا بھی ہے کہ برقع کی بعض قسمیں پرانی پابند یوں سے بہت بڑھ کر ہیں جو قرآن عورت پر عا ئد کر تا ہے لیکن جس نے بھی یہ پا بندیاں قر آن کے نا م پر یا اسلا م کے نام پر عا ئد کیں جب وہ ایک سو سا ئٹی کا حصہ بن گئیں تو ان سے با ہر نکلنے میں بعض ایسی ا حتیا طو ں کی ضرورت ہے جو ہمارے اپنے فائدہ میں ہیں ا گر ہم ان ا حتیا طو ں کو چھو ڑ د یں گے تو گہرا نقصا ن اٹھانے وا لے ہوں گے۔ کیو نکہ ایک لمبی نسلاًبعد نسلٍ تربیت کے نتیجہ میں ر فتہ رفتہ ہم نے بر قع کو پر دہ سمجھ لیا تھا حالانکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حقیقت یہی بر قع پردہ نہیں ہے پردہ کاایک ذر یعہ ہے اور بعض بہت سی صورت میں اس پر دہ سے ز یا دہ سخت ہے جو اسلام عا ئد کر تا ہے۔ مثلاََ صو بہ سر حد میں اگر آپ چلے جا ئیں تو وہاں ایک تنمبو قسم کا بر قع آپ کو نظر آئے گا اور نہا یت ہی ایک خو فنا ک شکل ہے اس برقع کی۔ با ریک سو را خ آنکھو ں کے سامنے ہوتے ہیں اور سا را سرسے پا ؤں تک یوں معلوم ہوتا ہے تنمبو میں لپٹی ہو ئی عو رت پھر رہی ہے اور اس کی زندگی ایک تکلیف کی ز ندگی ر ہتی ہے ہمیشہ۔ وہ حتی المقدور با ہر ہی نہیں جا تی بے چا ری کہ جب بھی جاؤ ں گی اس مصیبت میں مبتلا ہو کر باہر نکلو ں گی۔ تو بعض اور بھی شد تیں ا ختیا ر کر لیں برقع نے جو پنجاب میں عمو ماََنہیں پائی جا تیں اور احمد یت میں جو برقع را ئج ہے وہ پنجاب میں رائج دوسرے برقعوں سے بھی نسبتاً آسان ہے۔ ہم نقا ب میں آنکھو ں کی جگہ چھو ڑ د یتے ہیں عو رتیں آنکھیں نیچے کر کے نقا ب لیتی ہیں اور بہت بہتر اور زیادہ سہو لت وا لی شکل ہے اور قر آنی تعلیم کے مخا لف بھی نہیں۔
جہا ں تک نظر کا تعلق ہے مر د اور عورت میں قرآنی تعلیم میں کو ئی بھی فر ق نہیں۔ اگر کو ئی یہ کہے کہ عورت کی آنکھ چھپانی ضروری ہے جب کہ مر د کی آنکھ چھپا نی ضرو ری نہیں ہے تووہ قرآنی تعلیم کو نہیں جا نتا۔ یا اگر جا نتا ہے تو کسی اور مصلحت کے پیش نظر ایسی با ت کر ر ہا ہے۔ جہا ں تک حقیقی قرآنی تعلیم کا تعلق ہے مر د اور عورت کی آنکھ میں تعلیم میں فر ق نہیں۔ دو نوں کو جھکنا چا ہیے۔ دو نوں کو آزا د پھرنا نہیں چا ہیے۔ تو آنکھ کا پردہ تو یہ پر دہ ہے۔ با قی جو چہرے کا پر دہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح مو عو د علیہ السلام کی تشریح کے بعد احمدی خواتین میں جو بر قع رائج ر ہا یا اب بھی را ئج ہے وہ دوسرے تہذیبی برقع سے نسبتاًآسان تر ہے اور الا ما شا ء اللہ اس کی روزمرہ کی زند گیوں میں کو ئی د قت پیدا نہیں کر تا۔ ‘‘
(خطبا ت طا ہر جلد 5 صفحہ 624 تا627)
تو دیکھیں بعض کام ہم معاشرتی دبائو میں آکر کرنے لگتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں رہتا کہ ہم صرف اپنے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بھی غلط کررہے ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بیان کیا ہے۔ اسی احساس کمتری کی بیماری کے بارے میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:
’’ابتدا میں ایک برائی بظاہر بہت چھوٹی سی لگتی ہے یا انسان سمجھتا ہے کہ اس برائی نے اسے یا معاشرے کو کیا نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن جب یہ وسیع علاقے میں پھیل جاتی ہے یا بڑی تعداد میں لوگ اسے کرنے لگ جاتے ہیں یا اس برائی سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا معاشرے کے ڈر سے اس کو برائی کہنے سے ڈرتے ہیں یا احساس کمتری میں آکر کہ شاید اس کے خلاف اظہار ہمیں معاشرے کی نظر میں گرا نہ دے، وہ خاموش ہو جاتے ہیں یا عمل نہیں کرتے۔ اس معاشرے کی بہت ساری باتیں ہیں جو معاشرے میں آزادی کے نام پر ہوتی ہیں اور حکومتیں بھی اس کو تسلیم کرلیتی ہیں لیکن وہ برائیاں ہیں۔ مثلاً اس معاشرے میں ان لوگوں کی نظر میں بظاہر یہ ایک چھوٹی سی برائی ہے کہ پردہ سے عورت کے حقوق غصب ہوتے ہیں۔ اس معاشرے میں اس پردہ کے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے اور ان کی نظر میں یہ کوئی برائی نہیں۔ اس لئے اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ شریعت کے حکم کی ضرورت نہیں تھی۔ بعض لڑکیاں احساس کمتری کا شکار ہو کر کہ لوگ کیا کہیں گے یا ان کے دوست اسے پسند نہیں کرتے یا سکول یا کالج میں اسٹوڈنٹ یا ٹیچر بعض دفعہ پردہ کا مذاق اڑا دیتے ہیں تو پردہ کرنے میں ڈھیلی ہو جاتی ہیں۔ شیطان کہتا ہے یہ تو معمولی سی چیز ہے۔ تم کون سا اس حکم کو چھوڑ کر اپنے تقدّس کو ختم کر رہی ہو۔ معاشرے کی باتوں سے بچنےکے لئے اپنے دوپٹے، سکارف، نقاب اتار دو۔ کچھ نہیں ہو گا۔ باقی کام تو تم اسلام کی تعلیم کے مطابق کر ہی رہی ہو۔ لیکن اس وقت پردہ اتارنے والی لڑکی اور عورت کو یہ خیال نہیں رہتا کہ یہ تو ایسا حکم ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے۔ عورت کی حیا اس کا حیادار لباس ہے۔ عورت کا تقدّس اس کے مَردوں سے بلا وجہ کے میل ملاقات سے بچنے میں ہے۔ اس معاشرہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی احمدی لڑکیاں بھی ہیں جو اُن کے پردہ پر مَردوں کی طرف سے اعتراض پر انہیں منہ توڑ کر جواب دیتی ہیں کہ ہمارا فعل ہے۔ ہم جو پسند کرتی ہیں ہم کر رہی ہیں۔ تم ہمیں پردے اتارنے پر مجبور کر کے ہماری آزادی کیوں چھین رہے ہو؟ ہمیں بھی حق ہے کہ اپنے لباس کو اپنے مطابق پہنیں اور اختیار کریں۔ لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو باوجود احمدی ہونے کے یہ کہتی ہیں کہ اس معاشرے میں پردہ کرنا اور سکارف لینا بہت مشکل ہے، ہمیں شرم آتی ہے۔ ماں باپ کو بھی بچپن سے لڑکیوں میں یہ باتیں پیدا کرنی چاہئیں کہ شرم تمہیں اسلامی تعلیم پر عمل نہ کر کے آنی چاہئے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان کر۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍مئی2016ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون2016ء)
پھر ایک اَور خطبہ جمعہ میں حضورانور نے مغربی معاشرے میں حیا کے فقدان کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
’’پس حیا دار لباس اور پردہ ہمارے ایمان کو بچانے کے لئے ضروری ہے۔ اگر ترقی یافتہ ملک آزادی اور ترقی کے نام پر اپنی حیا کو ختم کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دین سے بھی دُور ہٹ چکے ہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری2017ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ء)
ہم جو خود کو خیر امت ما نتے ہیں وہ کس طرح معاشرے کے دبائو میں آکر اپنے ایمان کا سودا کرسکتے ہیں۔ ہم پر تو دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو سچا مانا اور ان کے ہاتھ پربیعت کے دعوے دار ہیں۔ ہمیں تو دوسروں سے بڑھ کر اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر ہونی چاہیے۔
بعض عو رتوں سے جب کہا جا ئے کہ پردہ کر یں تو کہتی ہیں کہ یہاں کو ئی ا حمدی نہیں ہے اس لیے پر دہ کی کو ئی ضرورت نہیں ہے۔ اس بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فر ما یا:
’’کیاپردہ صر ف احمدیو ں سے ہی کر نا ہے؟اُن سے کہیں کہ یہ کہیں نہیں لکھا ہو اکہ صرف احمدیوں سے ہی پر دہ کر و بلکہ جب پر دہ کا حکم آیا ہے اس سے پہلے ایک یہو دی عورت نے ایک مسلمان عورت کے ساتھ بڑی غلط حر کت کی تھی کہ اُس کی چا در و غیرہ کھینچنےکی کو شش کی و یسے تو اللہ تعا لیٰ نے پر دہ کا حکم د ینا ہی تھالیکن یہ بھی ایک و جہ بن گئی۔ تو یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ تم نے صرف احمد یوں سے ہی پر دہ کرنا ہے۔ کیا خطرہ صرف احمد یوں سے ہی ہے؟غیر احمدیوں سے کو ئی خطرہ نہیں ہے؟قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھاکہ تم نے صرف مسلمانوں سے ہی پر دہ کرنا ہے۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ اپنی چا در کو اپنے سر پر ڈالواور اپنی اوڑھنیوں سے اپنے سینے ڈھا نپو۔ اس لئے اگر وہ ایسا کہتی ہیں تو غلط کہتی ہیں۔ وہ اپنی نئی شریعتیں پھیلا ر ہی ہیں۔ ‘‘
( کلاس وا قفا ت نو جر منی23؍اپر یل2017ء
مطبو عہ ا لفضل انٹر نیشنل9؍جون2017ء)
حیا دارلباس باوقار ہوتاہے
ایک مومن کی نشانی ہے کہ وہ منافق نہیں ہوتا۔ اس کا ظاہر و باطن ایک سا ہوتا ہے۔ چاہے وہ کسی ماحول میں رہے یا کسی بھی معاشرے میں، اس کے پیش نظر صرف احکام خدا وندی اور ان کو بجا لانا ہوتا ہے۔ دوہرے معیار زندگی سے وہ یکسر دور ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی انسان بہت لمبا عرصہ اپنے آپ کو منافقت کے لبادے میں نہیں چھپا پاتا۔ آخر کبھی نہ کبھی اس کی سچائی اور حقیقت دنیاکے سامنے آہی جاتی ہے۔ تو جو لوگ احکام خداوندی کو مذاق سمجھ لیتے ہیں وہ سوائے اپنے نفس کو دھوکا دینے کے اور کچھ بھی نہیں کررہے۔ ان کا یہ دوہرا معیارِ زندگی صرف اور صرف انہیں اور ان کی نسلوں کو برباد کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اسی حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:
’’پھر ایک مومن عورت کو اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم حکم ہے اپنی زینت چھپانے کا اور پردے کا۔ اس مغربی معاشرے میں بعض پڑھی لکھی بچیاں اور عورتیں معاشرے کے زیرِاثر یا خوف کی وجہ سے کہ آج کل پر دے کے خلاف بڑی رو چل رہی ہے، پردے کا خیال نہیں رکھتیں۔ ان کے لباس فیشن کی طرف زیادہ جارہے ہیں۔ مسجد میں بھی اگر جانا ہو یا سینٹر میں آنا ہو تو اس کے لئے تو پردے کے ساتھ یا اچھے لباس کے ساتھ آجاتی ہیں لیکن بعض یہ شکایتیں ہو تی ہیں کہ بازاروں میں اپنے لباس کا خیال نہیں رکھتیں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور حیا عورت کا ایک خزانہ ہے اس لئے ہمیشہ حیادار لباس پہنیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی عورت کا، ایک احمدی بچی کاایک تقدّس ہے اس کو قائم رکھنا ہے آپ نے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پردے کا حکم دیا ہے تو یقیناً اس کی کوئی اہمیت ہے۔ اُن مغرب زدہ لوگوں کی طرح نہ بنیں جو یہ کہتے ہیں کہ پردے کا حکم تو پرانا ہو گیا ہے یا خاص حالات میں تھا۔ قرآن کریم کا کوئی حکم بھی کبھی پرانا نہیں ہوتا اور کبھی بدلا نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ ایک زمانہ میں ایسی سوچ پیدا ہو گی اس لئے یہ مستقل حکم اتاراہے کہ منہ سے کہنے سے اللہ کی بندیاں نہیں بنو گی تم لوگ بلکہ جو نصائح کی جاتی ہیں، جو احکامات قرآن کریم میں دیئے گئے ہیں ان پر عمل کر کے حقیقی مومن کہلاؤ گی۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی یکم؍ ستمبر 2007ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍دسمبر2016ء)
(جاری ہے)
٭…٭…٭