امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گیمبیا کے صحافیوں کے ساتھ(آن لائن) پریس کانفرنس
22؍مئی 2021ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ پہلی مرتبہ گیمبیا کے 15صحافیوں کی پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کانفرنس کی صدارت اپنے دفتر اسلام آباد (Tilford) سے فرمائی جبکہ میڈیا ممبران نے آن لائن، ایم ٹی اے سٹوڈیو گیمبیا (بانجل) سے شرکت کی۔
55 منٹ پر محیط اس میٹنگ میں صحافیوں کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا جن میں مشرقِ وسطیٰ میں برپا حالیہ مظالم اور تشددکے واقعات، مسلمان ممالک میں اتحاد کی کمی اور عالمی امن کے قیام کے متعلق سوالات شامل تھے۔
حضور انور کی کتاب World Crisis and the Pathway to Peace کے حوالے سے ایک صحافی نے حضور انور کے معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام پر مستقل زور دینے کے بارے میں پوچھا۔ جس پر حضور انور نے فرمایا کہ قیام امن کے لیے انصاف بنیادی شرط ہے اور یہ کہ معاشرہ حقیقی طور پر اسی وقت خوشحال ہو سکتا ہے جب اپنے گھر کے معاملات سے لے کر بین الاقوامی روابط تک حقیقی اور شفاف انصاف معاشرے کے ہر طبقے کو میسر آئے۔
عالمی امور پر بات کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:
’’جہاں تک عالمگیر معاملات کا تعلق ہے جب تک انصاف نہ ہوگا، امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کے دوہرے معیار ہوں گے جیساکہ ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں، جن کا مظاہرہ بڑی طاقتوں سے ہوتاہے تو پھر وہ دنیا میں امن کو قائم نہیں کر سکتے۔ لیگ آف نیشنز کے قیام کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ لیگ آف نیشنز کا قیام اس غرض سے کیا گیا تھا کہ ہر ملک کو مساوی حقوق اور انصاف مل سکے۔ مگر وہ ناکام ہوگئی اور اس کا خمیازہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں بھگتنا پڑا۔‘‘
آج کے دور میں اقوام متحدہ کی کارکردگی کا موازنہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی سے کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا:
’’یہی حالات آج اقوام متحدہ کے بھی ہیں۔ وہ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔ غریب اور امیر کے لیے ان کے دوہرے معیار ہیں یعنی مغربی ممالک اور افریقی اور ایشیائی ممالک کے لیے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج دنیا میں بد امنی دیکھ رہے ہیں۔ پس انصاف کے بغیر قیام امن ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اور حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہیں مقامی سطح پر بھی، گھروں میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی انصاف کو قائم کرنا ہوگا۔ تب ہی معاشرے میں امن دیکھ سکتے ہو۔‘‘
ایک صحافی نے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث بیان کی کہ اگر تم کوئی برائی دیکھو تو اس کو اپنے ہاتھ سے درست کردو اور اگر ایسا نہ کر سکو تو اس بارہ میں نصیحت کرو اور اگر کوئی ایسا کرنے کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس بات کو دل میں برا جانے۔ پھر اس صحافی نے احمدیہ مسلم جماعت کے اہلِ فلسطین کی تکلیف دور کرنے کے بارے میں سوال پوچھا کہ ان حالات میں وہ کیا کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے، احمدیہ مسلم جماعت فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے اور ہر طرح کی ناانصافی کے خلاف بھی۔
حضور انور نے فرمایا ’’ہمارے پاس کوئی دنیاوی طاقت نہیں ہے۔ ہم کسی بھی ملک کی حکومت نہیں چلا رہے تو جہاں تک طاقت کا سوال ہے ہم اس کا استعمال نہیں کرسکتے۔ جہاں تک اس (ظلم کے خلاف) برا منانے یا اس کو الفاظ سے روکنے کا تعلق ہے تو ہم ہمیشہ سے ایسا کرتے چلے آرہے ہیں۔ میرے گزشتہ عید کے خطبہ میں مَیں نے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور تشدد کی سخت مذمت کی تھی۔ (فریقین میں ) طاقت کاکوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ اسرائیل دنیا کی چوتھی بڑی طاقت ہے اور فلسطینی محض ایک چھوٹی اور بے سرو سامان قوم ہیں اور وہ برابری کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ وہ محض اس ظلم میں پِس رہے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے مسلم اکثریتی ممالک کے مابین اتحاد کی ضرورت پر زور دیا تاکہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کوشش کی جاسکے۔ حضور انور نے فرمایا:
’’دنیا میں تقریباً 54 مسلم ممالک ہیں۔ اگر وہ متحد ہو کر ایک رائے پر قائم ہو جائیں اور سب باہم مل کر دنیا میں قیام امن کے لیے کوشاں ہو جائیں تو پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ (فلسطینیوں کے حقوق) ملنے کا امکان ہے۔ مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ امتِ مسلمہ متحد نہیں ہے۔ ہر مسلمان لیڈر کے اپنے ذاتی مفاد ہیں۔ ہمارے مخالف بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں وہ جو اسلام کے خلاف ہیں ،کہ مسلمان متحد نہیں ہیں ا س لیے وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ اس لیے اس معاملہ کا عملی حل یہ ہے کہ مسلم دنیا کو ایک ہونا پڑے گا۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ مسلم ممالک کس طرح متحد ہوسکتے ہیں حضور انور نے فرمایا:’’ہر مسلمان لیڈر کو چاہیے کہ مسلم امت کے مفادات کواپنے ذاتی، ملکی اور سیاسی مفادات پر ترجیح دیں۔‘‘
بعد ازاں حضور انور نے فرمایا کہ مسلم دنیا کی باہمی تقسیم اور اختلافات آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہیں جو ایسے وقت کے متعلق تھیں جب مسیح موعود کا آنا مقدر تھا۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس کا حل مسیح موعود کو ماننے اور اس کی تعلیمات پر عمل کر نے میں ہے۔
حضور انور نے مزید فرمایا ’’اس لیے امت مسلمہ کو متحد ہونا چاہیے اور جو حل ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور آنحضرتﷺ نے بتایا ہے وہ یہ ہے کہ جب اس دور کا مجدد آئے تو اس کو مانیں۔ میرے خیال میں یہی ایک واحد حل ہے۔‘‘
ایک دوسرے صحافی کے استفسار پر کہ انسانیت کی موجودہ نسل کے لیے حقیقی امن کے حصول میں اس قدرمشکلات کا سامنا کیوں ہے جبکہ ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جو تکنیکی لحاظ سے سب سے زیادہ ترقی یافتہ زمانہ ہے۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا ’’اس مادہ پرستی کے دَور میں، اگرچہ ہم تکنیکی بنیادوں پر ترقی یافتہ ہیں مگر ہماری حرص بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ پوری دنیا اب ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فلاں اور فلاں ملک میں بہتر سہولیات ہیں، وہ زیادہ ترقی یافتہ ہیں، وہ امیر ہیں اورہم غریب ہیں۔ اور یہی چیز لوگوں میں بے چینی پیدا کر رہی ہے۔ یوں اس تکنیکی ترقی نے زیادہ بےچینی پیدا کردی ہے اور لوگ ایک دوسرے کے اثاثے اور پراپرٹی ہتھیانا چاہتے ہیں۔‘‘
بڑی طاقتوں کے غریب ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرنےپر تبصرہ کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا ’’بڑی طاقتوں والے ممالک افریقن ممالک سے کروڑوں ڈالرز اکٹھےکرتے ہیں، اس نام پر کہ وہ وہاں امن کا قیام کر رہے ہیں یا ان ممالک کی ترقی میں مدد کر رہے ہیں۔ مگر در حقیقت یہ رقم (واپس) ا ن پر خرچ نہیں ہو رہی۔ اگر یہ رقم واقعۃً افریقن ممالک میں خرچ ہو رہی ہوتی یا دنیا کے غریب ممالک میں خواہ ایشیا میں یا افریقہ میں یا کہیں اور تو غربت کی سطح اس درجہ تک نہ پہنچتی جہاں آج موجود ہے۔ اس لیے ہم کہتے تو ہیں کہ تکنیکی ترقی کا دور ہے، جہاں اس ترقی نے ہمیں باہم اکٹھا کر دیا ہے وہاں دشمنیاں بھی پیدا کردی ہیں۔‘‘
ایک اَور سوال کے جواب میں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قیام امن میں کردار اداکرنا تھا، حضور انور نے فرمایا ’’آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے یہ دعویٰ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پوری امت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے اور جملہ انسانیت کی توجہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف مبذول کروانے کے لیے بھیجا ہے۔ اس لیے یہ امام مہدی اور مسیح موعود کا مشن ہے اور اپنی زندگی میں آپ نے کما حقہ اپنے فرائض کی ادائیگی کی اور اپنے پیغام کو جس حد تک ممکن تھا زیادہ سے زیادہ پھیلایا۔ اور اب حضرت امام مہدی علیہ السلام کا پیغام ہم پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کی اس پیغام کی طرف توجہ ہو رہی ہے۔ جو اس کو سمجھ جاتے ہیں وہ ہمارے ساتھ شامل ہو تے جا رہے ہیں۔‘‘
حضور انور نے مزید تفصیل یوں بیان فرمائی کہ ’’آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ دو یا تین سالوں میں یا تھوڑے عرصہ میں کوئی اپنا ٹارگٹ حاصل کرلے۔ تاہم یہ ہمارا مشن ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ایک دن ہم اسے حاصل کر لیں گے اور دنیا کی توجہ اپنے خالق کے حقوق اور باہمی حقوق کی ادائیگی کی طرف ہو جائے گی اور جب ان کی توجہ ہو گئی تو پھر وہ وقت ہوگا جب آپ دنیا کو امن اور سلامتی سے رہتا ہوا دیکھیں گے۔‘‘
٭…٭…٭