احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
صحبت صالحین اور روزوں کاعظیم مجاہدہ
محمداعظم عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ(حصہ چہارم)
کابل سے ہجرت اور دہلی پنجاب میں ورود (حصہ سوم)
(گذشتہ سے پیوستہ) یفعل اللّٰہ مایشاء و یحکم ما یرید اپنی اخیر عمر میں سورہ کریمہ اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا فسبح بحمد ربک واستغفر انہ کان توّابًا کے موافق تمام مشاغل کو ترک کردیا اور کریمہ انی نذرت للرحمٰن صوما فلن اکلّم الیوم انسیا کے مضمون کے مطابق ضروری بات کے سوا کسی سے کلام نہ کرتے اور اپنے رب کی طرف متوجہ رہتے ایک دن ایک آدمی مستفیدین میں سے آپ کے پاس ایک امر کی شکایت لے گیا آپ نے فرمایا میں اس دنیا میں نہیں ہوں فقط میرا ظاہر بدن دنیا میں آپ کا مشاہدہ کرتا ہے ورنہ میں آخرت میں ہوں اور واقع میں بات اسی طرح تھی کہ صرف آپ کے دیکھنے سے خدا یاد آتا تھا اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے سےتمام خطرے اور فکر ذرات کی طرح اُڑ جاتے اگر گوئی شخص اتفاقاً آپ سے دنیوی امر پوچھتا تو جواب میں فرماتے
بسودائے جاناں زجاں مشتغل
بذکرحبیب ازجہان مشتغل
روپیہ آپ ٹھیکریوں کی طرح سمجھتے تھے۔ صدہا روپے آپ کے پاس آتے اور جس مجلس میں وہ روپے آپ کو ملتےاسی مجلس میں مصارف میں بانٹ دیتے یتیم اور مسکین آپ پر اس قدر دلیر ہوگئے تھے کہ جس وقت آپ کے پاس حاضر ہوتے جس قدر روپیہ آتا آپ کے ہاتھوں اور دامن سے کھینچ لیتے اور آپ مسکراتے رہتےاور کچھ برا بھلا نہ کہتے جو لوگ پیچھے رہ جاتے ان کو کچھ نہ ملتا۔ آپ کے کِیسے اور رومال اور دامن تلاش کرتے کہ شاید کچھ ہاتھ آجاوے آپ اپنے سب کپڑے تبسم کرتے کرتے ان کو دکھا دیتے اور فرماتے کوئی چیز نہ رہی انشاء اللہ تعالیٰ جس وقت کہ اور روپیہ آتا ہے تم کو دیا جاویگا بخدا میں نے یہ معاملہ کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تسبیح اور تحمید اور دعاؤں کے سوا آپ کا کوئی دوسرا شغل نہ تھا۔ یہاں تک کہ آپ ماہ ربیع الاول 1298ھ(بمطابق 1881ء)میں آدھی رات اللہ تعالیٰ کو جاملے اور زوال کے بعد ظہر کی نماز سے پہلے دفن کئے گئے آپ کے جنازے پر اس قدر اژدہام تھا کہ بسبب لوگوں کے کثرت کے بازار بند ہوگئے موافق و مخالف بے اختیار آپ کے جنازہ کے نیچے دوڑتے اور جنازہ اٹھانے کی نوبت شہر کے رئیسوں کو نہ ملتی تھی تادوسروں کو کیا پہنچتا۔ اس دن امام احمد بن حنبل کے قول کی سچائی معلوم ہوئی الفرق بیننا و بین اھل البدع یوم الجنائز۔
آپؒ کامزارمبارک شہرامرتسرکے متصل دروازہ سلطان ونڈ کے باہرعبدالصمد کاشمیری کے تالاب کے کنارے پر ہے۔
مولوی غلام رسول صاحب قلعہ والے آپ کی سوانح میں حضرت غزنوی صاحبؒ کی ہجرت کے ذکرکے بعد فرماتے ہیں کہ
’’ملک سوات میں آکراقامت اختیارکی اخوند عبدالغفورصاحب جو زہد اور ریاضت میں اس وقت ممتازتھے اور مجددیہ قادریہ کے طریق اورصوم الدہر کے ساتھ دم بھرنے والے۔ پہلے تو نہایت عمدہ مروت کے ساتھ پیش آئے اوردلدہی اور دلداری کی آخرالامر جب آپ کے حاسدوں کا نوشتہ اخوندصاحب کوپہنچاتوبلاتحقیق مروت کادامن کھینچ لیاکچھ مدت وہاں مبتلا رہ کرحضرت سیدمیرصاحب کوٹھہ والوں کے پاس تشریف لائے اور تبرکاًان کی بیعت سے شرف حاصل کیااوروہاں ہی اس نیازمندکے ساتھ آپ نے عنایت کی راہ سے بھائی چارہ ڈالا یہاں تک کہ حضر ت سیدمیرصاحب نے پوری توجہ کے بعد فرمایا کہ صاحب زادہ کابلی اور مولوی صاحب کے درمیان کوئی علاقہ ہے جو مجھ سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ مولوی عبداللہ صاحب نے ظاہرکردیاکہ ہم اپنے درمیان عقداخوت رکھتے ہیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا الحمدللہ اسی طرح عقداخوت چاہیے کہ ایک دل سے دوسرے کے دل میں نورپہنچے اورحضرت صاحب شروع سے ایام صحبت کی انقطاع تک ایک ہی نہج اور دستور سے آپ کی تسکین خاطر میں کوشش کرتے رہے ہرچندحضرت صاحب کی امداد آپ کووطن پہنچانے اور علماء اور امیرکے درمیان تصفیہ کرادینے کے لئے آپ کے دل میں مرکوز تھی لیکن چونکہ حضرت صاحب کی جبلت ہی آہستگی اور سستی پرواقع ہوئی تھی۔ اس سبب سے اس کام میں تاخیرہوگئی۔ …حضرت صاحب کی ظاہرکوشش آپ کے بارے میں ظاہرنہ ہوئی یہانتک کہ گرمی کے موسم میں آپ نے حضرت صاحب سے سردملک میں جانے کی اجازت طلب کی اور منگل تھانہ میں رہنے کی تجویز کی فقیرنے بھی عرض کی کہ پہاڑوں اور افغانستان میں یہ اندیشہ ہے کہ جمعیت نہ ہوگی ہزارہ کاگردونواح جوانگریزوں کاملک ہے وہاں کسی کی کسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہے وہاں آپ کارہنا خوب نظر آتا ہے۔ فقیرکی التماس کوآپ نے قبول فرمایا اور حضرت نے آپ کورخصت دی تاکہ حیات گل کے پاس ایک سال سکندرپورکے باغ میں چھوٹی مسجدمیں رہے اوران کوتلقین کرتے رہے اوروہاں ہی امیرکاخط آپ کوپہنچا کہ تم جانواور علماء ہم تمہارے ساتھ کچھ چھیڑچھاڑ نہیں کریں گے۔ پہلے اپنے وطن کوتیارہوکرنوشہرہ میں آئے صبح کے وقت اپنے دوستوں سے فرمانے لگے کہ یہاں سے شاہجہان آبادیعنی دہلی میں جانے کاپختہ ارادہ ہے کوئی شخص ہم کونہ روکے اورآپ یکہ میں سوارہوکرہفتہ میں لاہورپہنچے اور لوگوں کوفائدہ پہنچایا آپ کی صحبت دلوں کوکھینچ لیتی تھی اور انکساراورعاجزی کے دروازے دل میں کھولتی تھی۔ پھراس جگہ سے امرتسرمیں حافظ محمود کے پاس مسجد باغوالی میں مشرف ہوئے۔ …پھرامرتسرسے یکہ میں سوارہوکرآٹھ روزمیں دہلی پہنچے اورمولوی صاحب سیدنذیرحسین…کے مدرسہ میں آئے اورمیں نے آپ کے ساتھ بخاری کاسننا شروع کیا۔ …یہاں تک کہ 1272ء میں رمضان کی سولہویں تاریخ دہلی میں غدرمچ گیا اور رفتہ رفتہ تمام ہندوستان میں پھیل گیا۔ فقیرعیدفطرکی نمازپڑھ کررخصت ہوا اور لاہوری دروازہ کے بارہ شاہدرہ تک فقیرکے رخصت کرنے کے لئے آپ تشریف لائے۔ …آپ تو جب دہلی ویران ہوگئی اور لوگ آوارہ ہوگئے راہداری لے کر امرتسر تشریف لائے اور حافظ محمودکی تربیت کے لئے کمر باندھی۔ …اس جگہ سے ایک سال کے بعدرخصت ہوکراپنے وطن کوچلےگئے۔ ‘‘
(سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی مرحوم ص 2 تا 21 و 28 تا 29)
عبداللہ غزنویؒ صاحب کی اولاد
آپ کے 12بیٹے اور15بیٹیاں تھیں، جن میں سے بیشتر نے اہل حدیث کی طرف ہی اپنا میلان رکھا، بیٹوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد، عبداللہ، احمد، عبد الجبار، عبدالواحد، عبدالرحمٰن، عبدالستار، عبدالقیوم، عبدالعزیز، عبدالحیٔ، عبدالقدوس، عبدالرحیم۔
محمد بن عبداللہ غزنوی نے تفسیر جامع البیان پر عربی میں حاشیہ لکھا جو میاں فیروز الدین مرحوم (ساکن جموں ) نے چھپوایا اور کتاب مفت تقسیم ہوئی۔ محمد بن عبداللہ غزنویؒ کے صاحبزادے مولانا عبد الاول اور عبدالغفورتھے۔ عبدالاول نے مشکوٰۃ المصابیح اور ریاض الصالحین کا اردو ترجمہ کیا اور حواشی لکھے۔
(ماخوذ از حضرت مولانا داؤد غزنویؒ از سید ابو بکر غزنوی ص 233 تا 234),(ہندوستان میں اہلحدیث کی دینی خدمات ص39، 40، 46 تالیف امام خان نوشہرویؒ )
یہاں خاکسارایک بات لکھنے سے اپنےآپ کوروک نہیں پارہاکہ خدائے علیم و قدیرکی تقدیریں بھی عجیب ہوتی ہیں، اس کے اپنے مصالح ہوتے ہیں۔ فرشتے بھی اس کی باتوں کے رازدارنہیں ہوتے، اس کے بھیدوں کی سارکسی کوبھی نہیں ہوپاتی۔ اس مربی و صانع کے عجیب کام ہوتے ہیں کہ ’’گرچہ بھاگیں جبرسے دیتاہے قسمت کے ثمار‘‘ایسے نیک اور مردصالح کے یہ جوان بیٹے، پسران نوح ثابت ہوئے۔ اوران میں سے کسی کوبھی مامورزما نہ پرایمان لانے کی توفیق نہ ملی۔ بلکہ بعضوں نے تو خداکے اس فرستادے اور مامور پرسب وشتم کرتےہوئے اپنی بدقسمتی کی تاریکیوں میں ایسا اضافہ کیا کہ خداکے اس فرستادے کی تکذیب وتکفیرسے مزیدبڑھے اور سب وشتم تک اترآئے اور یوں ایمان لانے کے نورسے محروم رہتے ہوئے اپنے آپ کوتاریکیوں اوراندھیروں کے ایسے گہرے سمندرمیں دھکیل دیا کہ آج ان کاکوئی نام لیوانہیں صرف کتابوں کی سیاہ تحریروں میں یہ نام دیکھے جاسکتے ہیں اور یہ لوگ اس آیت کے مصداق بن گئے
أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَّغْشَاهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُوْرٍ (النور: 41)
انہوں نے اپنے آپ کواس نورسے محروم کرلیاجو اللّٰہ نور السموت والارضکی طرف سے آسمانوں سے اتراتھا۔ اور شایدکہ یہ نوشتہ ٔ تقدیرہی تھاکہ جسے ان کے صالح باپ نے اپنے مرنے سے پہلے ہی کاتب تقدیرکی کتاب میں پڑھ لیاتھا۔
چنانچہ حضرت اقدس بانئ سلسلہ احمدیہ جو حضرت عبداللہ غزنویؒ سے ملنے ان کے پاس تشریف لے جایاکرتے اور وہ خودبھی گاہے قادیان آجایاکرتے تھے۔ آپ علیہ السلام اپنی ایک تحریرمیں فرماتے ہیں:
’’از انجملہ بعض مکاشفات مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم ہیں جو اس عاجز کے زمانہ ظہور سے پہلے گذر چکے ہیں۔ چنانچہ ایک یہ ہے کہ آج کی تاریخ 17 جون 1891ءسے عرصہ چارماہ کاگذرا ہے کہ حافظ محمد یوسف صاحب جو ایک مرد صالح بے ریا متقی اور متبع سُنّت اور اوّل درجہ کے رفیق اور مخلص مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ہیں وہ قادیان میں اس عاجز کے پاس آئے اور باتوں کے سلسلہ میں بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے کشف سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس کہ میری اولاد اس سے محروم رہ گئی۔ ‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 703-704، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 479)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭