حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسے ہے؟ (قسط نمبر8)
قرآن و حدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں ا س کا تعارف
گذشتہ اقساط میں خاکسار نے تفصیل سے حیا اور اسلامی پردے کے موضوعات پرحسب توفیق روشنی ڈالی ہے۔ میری پوری کوشش ہے کہ مضمون ہذا میں ایک خوش نما گلدستے کی شکل میں حیا کے حوالے سے ازواج مطہرات اور صحابیات رضی اللہ عنہن کی حیا اور پردے کے مثالی نمونےپیش کروں۔ اللہ کرے کہ یہ پاک نمونے ہمارے لیے ازدیاد ایمان کا باعث ہوں اور ہم بھی ان نیک نمونوں پہ عمل کرنے والی بنیں۔ آمین۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطاب میں خواتین کو قرون اولیٰ کی صحابیات کے پردے کی مثالیں دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’…جہالت کے اندھیروں سے نکل کر … علم کی روشنی پھیلانے کا منبع ایک عورت بن گئی، پردے وغیرہ کی تمام رعایت کے سا تھ بڑوں بڑوں کو دین کے مسائل سکھائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا کہ دین کا آدھا علم اگر حاصل کرنا ہے تو عائشہ سے حاصل کرو۔ میدانِ جنگ میں اگر مثال قائم کی تو اپنے پردے کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے، اپنی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رومیوں کی فوج سے اکیلی اپنے قیدی بھائی کو آزاد کرواکے لے آئی اور تاریخ میں اس عورت کا ذکر حضرت خولہ کے نام سے آتا ہے۔ پھر مدینہ پر جب کفار کا حملہ ہوا تو مرد اگر خندق کھود کر شہر کی اس طرف سے حفاظت کررہے تھے تو گھروں کی حفاظت عورتوں نے اپنے ذمّہ لے لی اور جب یہو د یوں نے جاسوسی کرنے کےلئے اپنا ایک آدمی بھیجا کہ پتہ کرو تاکہ ہم اس طرف سے حملہ کریں اور مدینہ پر قبضہ کرلیں تو مرد تو اس جاسوس کے مقابلے پر نہ آیا لیکن عورت نے اس کو زخمی کرکے، مار کے باندھ دیا اور اٹھاکر اس کو باہر پھینک دیا۔
جنگِ اُحد میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے تو اس وقت عورتیں ہی تھیں جنہوں نے دین کی غیر ت میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایک مثالی کردار ادا کیا اور وفا کی ایک مثال قائم کردی۔ پس یہ طا قت، یہ جرأت، یہ وفا، یہ علم ان میں اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی وجہ سے آیا تھا۔ ‘‘
(لجنہ اماء ا للہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پرخطاب فرمودہ 19؍ نومبر2006ء)
تاریخ ایسے درخشاں واقعات سے بھری ہوئی ہےجہاں عورت نے اپنے تقدس کا بھی کما حقہ خیال رکھا۔ اور تمام تر امور بھی بجا لائی۔ اسے تو کبھی یہ خیال یا احساس پیدا نہیں ہوا کہ وہ زمانے کی روش سے ہٹ کر چل رہی ہے یا اس وقت کی سوسائٹی یا معاشرے میں پوری طرح سے مدغم نہیں ہوپارہی۔ بلکہ اسے تو ان اعلیٰ اقدار اور انفرادیت پہ فخر تھا، ناز تھا جو اسلام کی مر ہون منت اسے عطا ہوئی تھیں۔ انہی اعلیٰ اقدار کی جانب آج کی مسلمان خواتین کو توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کن لوگوں کی آپ اولادیں ہیں۔ کس عظیم اسلام کی پاسبان ہیں ان کی قدروں کی پاسبان آپ بنائی گئی ہیں آپ نے پیٹھ پھیر لی تو کون ان قدروں کی حفاظت کرے گا۔ ابتدائے اسلام میں ایسی ایسی خواتین تھیں جو پورا پردہ کرتی تھیں باوجود اس کے کہ جب سو سائٹی پاک ہو گئی ہے تو اجازت تھی کہ چہرے کا سامنے کا حصہ کھلا رکھا جائے، جب گند تھا سوسائٹی میں تو پردے میں بہت زیادہ سختی تھی۔ جیسا کہ آج کل پسماندہ ممالک میں گند ہے۔ یعنی نظریں ایسی گندی ہو چکی ہیں ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ نقاب پھاڑ کے بھی پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ یہاں وہی ابتدائے اسلام والا حصہ کام کرے گا جہاں سوسائٹیوں میں ایسی حالت نہیں ہے وہاں پردے کا دوسرا حکم اطلاق پائے گا۔ تو اس وقت بھی امہات المومنین میں ایسی عورتیں تھیں جو پردہ کرتے ہوئے جنگوں میں حصہ لیتی رہیں۔ انہوں نے بڑی بڑی خدمات ادا کی ہیں۔ ‘‘
(الازھاز لذوات الخمار جلد دوم صفحہ 15)
اب میں آپ کے سامنے چند صحابیاتؓ کی سیرت سے وہ واقعات پیش کروں گی جو حیا اور پردے سے تعلق رکھتے ہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاشرم و حیا کا پیکر
اس حوالے سے ہم سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیا کے پاک نمونے دیکھتے ہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاشرم و حیا کا پیکر تھیں۔ آپؓ کے بارے میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
’’بےشک فاطمہ نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں پاکدامنی کی وجہ سے اور ان کی اولاد کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ یہ بھی فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اس کی اولاد پر جہنم حرام کردی۔ ‘‘
(مستدرک حاکم۔ طبرانی۔ جمع الجوامع بحوالہ ازدواج مطہرات و صحابیات انسائیکلوپیڈیاصفحہ292)
آپؓ پردے کی نہایت پابند تھیں۔ ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ سے پوچھا کہ عورت کی سب سے اچھی صفت کونسی ہے؟ آپؓ نے جواب دیا اپنی نگاہ نیچی رکھے اپنی زینت کو چھپائےکہ نہ وہ کسی غیرمرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیرمرد اُس کو دیکھے۔ حضورؐ یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔
(ماخوذ ازتاریخ اسلام کی نامور خواتین صفحہ120)
وفات سے پہلے اسما ء بنت عمیسؓ کو بلا کر فرمایا:
’’میرا جنازہ لے جاتے وقت اورتدفین کےوقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے اپنے اور میرے شوہر نامدار کے کسی اور سے غسل میں مدد نہ لینا تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا۔ ‘‘
(تاریخ اسلام کی نامور خواتین صفحہ 118)
حضرت فاطمہؓ کے مزاج میں انتہا کی شرم و حیا تھی اس لیے ان کی وصیت کے مطابق جنازےپر کھجور کی شاخیں باندھ کر اوپر پردہ لگا دیا گیا۔ چونکہ تدفین رات کے وقت ہوئی اس لیے بہت کم لوگوں کو شریک ہونے کا موقع ملا۔ حضرت علیؓ نے وصیت کے مطابق رات کو ہی دفن کیا۔
(سیرت حضرت فاطمۃ الازہرہ، صفحہ21)
یہ ہیں وہ لازوال نمونے جو حضرت فاطمہؓ نے قائم کیے۔ زندہ انسان تو اپنی حیا کا محافظ ہوتا ہی ہے مگر آپؓ نے تو اپنی وفات کے بعد بھی اپنی حیا اور پردے کا پورا التزام کیا ہوا تھا۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی حیا
حضرت رقیہؓ حیا دار، پاک اور نفیس طبیعت کی مالک تھیں۔ آپؓ نے عصمت وپرہیزگاری زہد و تقویٰ، نفاست و طہارت، شرم وحیا، حمیت اور غیرت اور دیگر اوصاف کریمہ اور اخلاق عالیہ ورثہ میں پائے تھے۔
( بحوالہ حضرت رقیہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 13)
امہات المومنینؓ اور صحابیاتؓ کی حیا کے لازوال نمونے
ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج نے یہ نمونے قائم کیے ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جو ابتدائے اسلام میں ایمان لائی تھیں۔ اس وقت تو پردے کا رواج ہی نہیں تھا نہ ہی وہ معاشرہ ایسا تھا جہاں عورت کا اپنے شخصی تقدس اور اپنی حیا کا خیال رکھنا مشکل کام تھا۔اس کے باوجود سیرت کی کتابوں میں آپ کی عزت، پاک دامنی اور شرافت کا ذکر ملتا ہے۔ اور یہ بھی علم ہوتا ہے کہ آپؓ ایک مضبوط اعصاب والی خاتون تھیں جنہوں نے نہ صرف اپنی حیا کا خیال رکھا بلکہ اپنی فطری پاکیزگی اور شرافت کے باعث طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔
(ماخوذ ازسیرت خاتم النبیین صفحہ 107، ایڈیشن 2001ء)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
اب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقام اورنیک نمونہ پیش کرنا چاہوں گی۔ آپؓ کی حیا کے کیا پاک نمونے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کاوہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ مسائل کی سمجھ اور احکام کو یاد رکھنے میں تمام ازواج میں سب سے بہتر تھیں اس بناء پر شوہر کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ آپؓ کایہ اصول تھا کہ جب تک وہ واقعہ کو اچھی طرح سمجھ نہیں لیتی تھیں اس کی روایت نہیں کرتی تھیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تو آپؐ سے اس کو بار بار پوچھ کر تسکین کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے علم و فضل سے اُن کا لوہا مانتے اور فیض یاب ہوتے نظر آتے ہیں حتیّٰ کہ حدیث میں آیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحا بہؓ کو کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہؓ کے پاس نہ مل گیا ہو۔‘‘
(ترمذی باب مناقب عائشہ بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ 487)
حیا کے بے نظیر واقعات
پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد سختی سے اس کی پابندی کی۔ کبھی کسی غیر محرم کے سامنے نہیں آئیں۔ ایک مرتبہ ایک نابینا شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ نے ان سے پردہ کیا اس نے تعجب کیا اور پوچھا ام المومنینؓ مجھ سے کیا پردہ؟ میں تو نہیں دیکھ سکتا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا تم مجھے نہیں دیکھ سکتے میں تو تمہیں دیکھ سکتی ہوں اپنے گھر میں ایک پردہ ڈال رکھا تھا جو صحابی کوئی مسئلہ پوچھنے آتا آپؓ پردے کے پیچھے سے اس سے کلام فرماتیں۔ وفات تک یہی طریقہ رہا۔
(خدیجہ شمارہ نمبر 1/2011ءصفحہ 50
بحوالہ’’عائشہ صدیقہ‘‘لجنہ قادیان صفحہ19تا21)
حضرت عائشہؓ نے خود بھی جنگوں میں حصہ لیا اور ایک دفعہ ایک جنگ کی کمان کی۔ جنگ جمل میں اپنے اونٹ پر بیٹھ کر سارے لشکر کی کمان کی تھی۔ پردے کے احکام نازل ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے پردےکی سختی سے پابندی کی اور پردے کے احکام کے اندر رہتے ہوئے تمام کام کیے۔ بعض اوقات علوم دین کے تعلق میں کتنےاجتماعات کو خطاب کیا اور صحابہؓ کثرت سے دین سیکھنے کے لیے آپؓ کے دروازے پر حاضری دیا کرتے۔ پردے کی پابندی کے ساتھ آپ تمام سائلین کے تشفی بخش جواب دیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے اپنے گھر میں ایک پردہ ڈال رکھا تھا۔ جو صحابیؓ مسئلہ پوچھنے آتے آپ پردہ کے پیچھے سے اس سے کلام فرمایا کرتیں۔ وفات تک یہی طریقہ رہا۔
(خدیجہ شمارہ نمبر 1/2011ءصفحہ 50حوالہ’’عائشہ صدیقہ‘‘لجنہ قادیان صفحہ 20)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’علم سیکھنے اور سکھانے کےلئے جانا یہ نہایت ہی کثرت کے ساتھ ثابت ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تاریخ سے بھی اس کے ثبوت مل سکتے ہیں پس اسلام ہر گز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔ اور نہ ابتدائے اسلام میں مسلمان عورتیں ایسا کرتی تھیں۔ بلکہ وہ رسول کریمﷺ کا وعظ سننے آتی تھیں۔ جنگوں میں شامل ہوتی تھیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیں۔ سواری کرتی تھیں۔ مردوں سے علوم سیکھتی اور سکھاتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ مردوں کو رسول کریمﷺ کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں۔ بلکہ خود لڑائی کی بھی ایک دفعہ آپ نے کمان کی۔ غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی صرف اس امر کا اُن کو حکم تھا کہ اپنے سر گردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں اُن کو ڈھانپے رکھیں تاکہ وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بند رہیں۔ اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیں تو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام علمی اور تربیتی کاموں سے الگ رہیں۔ یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہو اہے۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 303)
آپؓ حیا کا انتہائی اعلیٰ عملی نمونہ پیش کرتی ہیں کہ زندہ اور فوت شدہ سب سے پردہ کرتیں۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عائشہؓ کے پردے کی انتہا یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے شہید ہونے کے بعد آپؓ کی اجازت سے آپ کے حجرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ دفن ہوئے تو حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےمزار اقدس پر بے پردہ جاتے ہوئے حجاب آتا ہے کیونکہ وہاں عمرؓ دفن ہیں۔ کتنی پابندی کی پردے کی۔ حالانکہ مردے ہزاروں من مٹی کے نیچے پڑے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں پھر بھی حجاب اور حیا کا یہ عالم تھا۔
(مسند احمد، مسند عائشه رضی الله عنہا، 10/457، حدیث 26408ماخوذ از ازواج مطہراتؓ و صحابیاتؓ انسائیکلوپیڈیاصفحہ129)
ایک مرتبہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں ان کے بھائی حضرت عبد الر حمٰنؓ کی بیٹی حضرت حفصہؓ حاضر ہوئیں، انہوں نے ایک باریک دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا باریک دوپٹہ لینے پر ناراض ہوئیں اس دوپٹہ کو پھاڑ دیا اور انہیں اپنا ایک موٹا دوپٹہ اوڑھا دیا۔
(موطا امام مالک، کتاب اللباس، باب ما یکرہ للنساء، صفحہ 485 حدیث 1739)
ایک روایت میں ذکر ملتا ہےکہ قافلے ہمارے پاس سے گزرتے جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھیں۔ جب وہ لوگ ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی جِلبَاب(برقع نما بڑی چادر) سر سے نیچے لٹکا لیتی (اس احتیاط سے کہ منہ پر نہ لگے )اور جب وہ لوگ آگے گزر جاتے تو ہٹا دیتی۔
(ابو داؤد کتاب المناسک باب فی المحرمۃ تغطی وجھہا صفحہ 297، حدیث1833)
حیا کا تقدس برقراررکھتے ہوئے مسلم خواتین بالخصوص ازواج مطہرات کی پاک زندگی کے حوالے سے کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ’’اسلام سے پہلے عورتوں کو جنگ میں رنگ و طرب کی محفلیں سجانے اور ناچ گانے کے لئے شریک کیا جاتا تھا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا تقدس بحال کرتے ہوئے زخمیوں کی مرہم پٹی، تیمار داری اور نرسنگ کے لئے خواتین کو جنگ میں شریک کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرعہ اندازی کے ذریعہ اپنی ازواج کو شریک سفر کرتے۔ غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہؓ اور صاحبزادی حضرت فاطمہؓ نے بھی زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کی خدمات سر انجام دیں۔ حدیبیہ اور سفر فتح مکہ میں حضرت اُمّ سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ ‘‘( ازواج النبیؐ، تعدد ازواج، صفحہ 18۔ 19) جس سے علم ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کو زنداں کے قیدی کے طور پہ نہیں لیتا بلکہ ان کے حقوق کو قائم فرما کر معاشرے کا مفید وجود بھی بنا دیتا ہے۔ اور خواتین کو ہمیشہ یہی حکم دیتا ہے کہ ہر حالت میں اپنے تقدس کا اپنی حیا کی پاسداری کا اہتمام کریں۔ اس طرح پردے کے احکام نازل ہونے سے قبل بھی اگر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ پردہ اگر نہیں بھی تھا تو بھی حیا کا معیار نہایت عمدہ تھا اور یہ ہمیں اس واقعہ میں نظر آتا ہے۔
’’غزوہ بنو مصطلق(جسے غزوۂ مر یسیع بھی کہا جاتا ہے )میں حضرت عائشہؓ کا ہار گم ہوا۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ’’اس زمانہ میں سفروں میں عورتوں کو ہودج سمیت اٹھا کر اونٹوں پر رکھ دیا جاتا تھا۔ اس سفر میں فجر کے وقت جب قافلے نے کوچ کرنا تھا اس سے قبل آپؓ قضائے حاجت کے لئے باہر تشریف لے گئیں۔ واپس آکر گلے پر جو ہاتھ پھیرا تو آپؓ کا ہار موجود نہیں تھا۔ آپؓ گھبراہٹ میں واپس جا کر ہا ر تلاش کرنے لگیں اور صبح کی روشنی ہو جانے تک ڈھونڈتی رہیں۔ ہار تو مل گیا لیکن آپ کی واپسی تک قافلہ روانہ ہو چکا تھا۔ آپؓ فرماتی تھیں کہ میں سخت پریشان ہوئی جنگل میں تن تنہا اکیلی وہاں آکر جو لیٹی ہوں تو آنکھ لگ گئی جو کسی کی با آواز بلند انَا للہ پڑھنے سے کھلی۔ یہ شتر سوار صحابی رسول حضرت صفوانؓ بن معطّل تھے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق لشکر کے پیچھے حفاظتی نقطۂ نظر سے یہ جائزہ لیتے آرہے تھے کہ کوئی خطرہ تو نہیں یا قافلے کی کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی۔ اچانک ان کی نظر فرش زمین پر سوئی ہوئی حضرت عائشہؓ پر پڑی تو بے اختیار اُن کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے انّاللہ وَ انّا الیہ راجعون۔ یہ سن کر حضرت عائشہؓ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ پردے کے احکامات نازل ہونے سے قبل اس صحابی ٔ رسول نے مجھے دیکھا ہوا تھا اس لئے پہچان لیا، میں نے فوراً پردہ کر لیا۔ حضرت عائشہؓ کی اپنی گواہی اس صحابی کے بارہ میں یہ ہے کہ صفوان شریف النفس انسان تھا اس نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی بس اونٹ کو میرے سامنے لا کر بٹھا دیا اور مہار پکڑے رکھی اور میں اونٹ پر سوار ہو گئی۔ ‘‘
(ازواج النبیؐ، حضرت عائشہؓ، صفحہ 73)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’حضرت عائشہؓ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ جنگ صفین میں فوج کو لڑا رہی تھیں تو ان کی ہودج کی رسیوں کو کاٹ کر گرا دیا گیاتو ایک خبیث الطبع خارجی نے ان کے ہودج کا پردہ اٹھا کر کہا تھا کہ اوہو یہ تو سرخ و سفید رنگ کی عورت ہے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں منہ کھلا رکھنے کا طریق رائج ہوتا تو جب حضرت عائشہ ہودج میں بیٹھی فوج کو لڑا رہی تھیں۔ اس وقت وہ انہیں دیکھ چکا ہوتا اور اس کے لیے کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی اسی طرح بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بعض طبقات کی عورتوں کے لیے منہ کو جس قدر ہوسکے چھپانے کا ہی حکم ہے قرآن مجید کی ایک آیت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ اپنے سر کے رومالوں کو کھینچ کر اپنے سینوں تک لے آیا کریں خمار کسی چادر یا دوپٹے کا نام نہیں بلکہ اس رومال کا نام ہے جو کام کرتے وقت عورتیں سر پر رکھ لیا کرتی ہیں پس اس کے یہ معنی نہیں کہ دوپٹے کی آنچل کو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں کیونکہ خمارکی آنچل نہیں ہوتی چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ سر سے رومال کو اتنا نیچاکرو کہ وہ سینے تک آجائے۔ جس کے معنی ہیں کہ سامنے سے آنے والے آدمی کو منہ نظر نہ آئے۔ ‘‘
(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلداول صفحہ 202)
اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا
آپؓ کی سیرت کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ آپؓ بہت حیا دار تھیں۔ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؓ سے بے حد محبت تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ آپؐ سب سے پہلے ام سلمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے کیونکہ وہ ہم میں سب سے بڑی تھیں اور اختتام حضرت عائشہؓ کے حجرے پر کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت ام سلمہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ جبرائیل علیہ السلام آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہؓ کو بتایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے جو وحیہ کلبی کے روپ میں تشریف لائے تھے اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بھی جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی۔
(ماخوذ از سیرت ام سلمہؓ صفحہ10)
اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ
’’میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور میمونہؓ بھی ساتھ تھیں۔ تو ابن ام مکتومؓ آئے۔ یہ پردہ کے حکم کے نزول سے بعد کی بات ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے پردہ کرو۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ کیا وہ نابینا نہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پہچان سکتا ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو۔ اور تم اس کو دیکھ نہیں رہیں۔ ‘‘
(ترمذی کتاب الأدب عن رسول اللّٰہ باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال)
دیکھیں کس قدرپابندی ہے پردے کی کہ غض بصر کا حکم مردوں کو تو ہے، ساتھ ہی عورتوں کے لیے بھی ہے کہ تم نے کسی دوسرے مرد کو بلا وجہ نہیں دیکھنا۔
حضرت ام سلمہؓ کی ہجرت مدینہ کے واقعے میں درج ہے گو اس وقت پردے کا حکم لازم نہیں ہوا تھا مگر اس واقعے میں ایک سبق ہے کہ آپؓ نے اپنی حیا اور پردے کے تقدس کو بہرحال قائم رکھا۔ نہ صرف آپؓ بلکہ اس زمانے کےشرفاء میں بھی حیا پائی جاتی تھی۔ حضرت ام سلمہؓ کو قبیلے والوں نے بچہ لے کر مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ آپؓ بچہ لے کر مدینہ کی طرف اکیلے ہی روانہ ہوگئیں جب حضرت ام سلمہؓ تنعیم کے مقام پر پہنچیں تو حضرت عثمان بن طلحہؓ سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ام سلمہؓ اور ان کے خاوند سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ انہوں نے آپؓ سے پوچھاکہ کدھر کا ارادہ ہے۔ حضرت ام سلمہؓ نے جواب دیا مدینے کا۔ پوچھا کوئی تمہارے ساتھ ہے۔ جواب میں بولیں ’’خداتعالیٰ اور یہ بچہ۔‘‘ عثمان بن طلحہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے نے کہا تم تنہا کبھی نہیں جا سکتیں۔ یہ کہہ کر اونٹ کی مہار( رسی) پکڑ لی اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ رضی اللہ عنہا اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں۔ میں نے ایسا شریف انسان کبھی نہیں دیکھا۔ راستے میں جب کہیں ٹھہرناہوتا۔ تو اونٹ کو بٹھا کر خود عثمان کہیں دور درخت کے نیچے چلا جاتا۔ اور روانگی کا وقت آتا تو کجاوہ اونٹ پر رکھ کر دور ہٹ جاتا۔ اور کہتا کہ اب سوار ہو جائو غرض مختلف منزلوں پر قیام کرتے ہوئے جب یہ لوگ قبا کے مقام پر پہنچےتو عثمان نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہاکہ لو اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ وہ یہیں مقیم ہیں۔ اور عثمان نے واپس مکہ کا راستہ لیا۔ حضرت ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا جب مدینہ پہنچیں اور لوگوں کے پوچھنے پر اپنے باپ کانام بتاتیں تو لوگ یقین ہی نہ کرتے کیونکہ انہیں یقین نہ آتا کہ اتنے معزز گھرانےکی بیٹی اکیلا سفر کر سکتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے تو حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت ہجرت مدینہ کی۔ آپؓ لوگوں کی حیرت پر خاموش ہو جاتیں۔ جب حج کا زمانہ آیا اور ام سلمہؓ نے اپنے گھر والوں کو خط بھیجا تب لوگوں کو یقین آیا کہ یہ ابی امیہ کی بیٹی ہیں کیونکہ ابی امیہ مکہ کے معزز شخص تھے چنانچہ ام سلمہؓ کی عزت مدینے والوں کی نظروں میں اور بھی بڑھ گئی۔
( سیرت ام سلمہؓ صفحہ5تا6)
٭…٭… (جاری ہے)…٭…٭