چرنوبل(Chernobyl) جہاں 24؍ہزار سال تک لوگ آباد نہیں ہو سکتے
اپریل کی چھبیس تاریخ اور 1986ءکا سال۔ متحدہ روس میں ایک دھماکا ہوا اور یہ دھماکا اس قدر بڑا اور ہولناک تھا کہ تمام روسی ماہرین گھبرا گئے اور بوکھلاہٹ میں یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ دُنیا کو کیسے بتایا جائے اور کب بتایا جائے۔ بعض ماہرین کا خیال تھا کہ کسی کو کچھ بتایا ہی نہ جائے۔ آج کی دُنیا اِس دھماکے کو ’’چرنوبل کا جوہری حادثہ‘‘کے نام سے جانتی ہے۔
بہت سے لوگوں کو چرنوبل میں جوہری حادثے کی تباہ کاریوں کے متعلق علم ہوگا مگر اس حادثے کی بنیادی وجہ کیا ہوئی یہ کبھی معلوم نہیں ہوسکی۔ پانچ لاکھ کے قریب روسی مرد و خواتین نے اس حادثے کے اثرات کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ چرنوبل حادثہ دراصل ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے دس گنا زیادہ طاقتور تھا جس کو اگر یہ مرد و خواتین نہ روکتے تو آدھے سے زیادہ یورپ کی آبادی صفحہ ہستی سےمٹ جاتی۔
ایک روشن مستقبل کی امید میں 29؍ستمبر1966ء کو متحدہ روس کے شہر چرنوبل (جو آج کے یوکرائن میں واقع ہے)کے قریب کےایک علاقے میں جوہری پاور پلانٹ شروع کیا جس کا نام اس علاقے کی نسبت سے چرنوبل جوہری پاور پلانٹ رکھا گیا۔ اس پلانٹ کی تعمیر کےساتھ ہی ایک شہر بسانے کا عمل بھی شروع ہوا جس کا نام پرپیات (Pripyat)تھا جس کا مقصد خاص اس پلانٹ کے لیے رہائش اور روزمرہ کی چیزوں کی فراہمی اور اس میں کام کرنے والے افراد کے اہل خانہ کو رہائش مہیا کرنا تھا۔ پرپیات میں بہت سی نئی انتظامی عمارتیں، ادارے اور عوامی عمارتیں شاپنگ مالز بنائی گئیں۔ چرنوبل میں پہلا ری ایکٹر 1977ء میں بنا۔ اس کے فوراً بعد دوسرا ری ایکٹر 1979ءتیسرا 1981ءاور چوتھا 1983ء میں تعمیر کر لیا گیا۔ ماہرین کے مطابق چوتھا ری ایکٹر سب سے بہترین حالت میں تھا۔ روسی حکام کا ارادہ تھا کہ چرنوبل جوہری پاورپلانٹ کو دُنیا کا سب سے بڑا اور بہترین پاور پلانٹ بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے یہاں مزید 7کے قریب ری ایکٹرز لگائے جانے تھے جس کےبعد جوہری توانائی کی مارکیٹ میں روس سب سے طاقتور ترین ملک بن جاتا مگر اسی دوران یہاں دھماکا ہو گیا جس کو سنبھالنے میں روس کے 18؍بلین روبیلز جو کہ 67؍بلین امریکن ڈالرز کے قریب بنتے ہیں خرچ ہوگئے۔
26؍اپریل 1986ء علی الصبح چرنوبل ایٹمی پلانٹ کے یونٹ نمبر چار کے ایٹمی ری ایکیٹر کے ٹھنڈا کرنے کے نظام پر ایک تجربہ کیا گیا۔ ری ایکٹر میں درجہ حرارت زیادہ ہوگیا۔ بھاپ کے دباؤکے باعث وہ دھماکے سے پھٹااور اپنے ساتھ ریکٹر پلانٹ کی چھت بھی لے اڑا۔ ایٹمی تابکاری چرنوبل کےشمالی شہر پرپیات میں پھیل گئی جہاں لوگ ابھی نیند سے جاگے بھی نہیں تھے۔ ری ایکٹر چار میں ایٹمی ایندھن اور اس کے اردگردنصب گریفائٹ کو بھی آگ لگ گئی۔ انتظامیہ نے ہیلی کاپٹرز کی مدد سے آگ پر قابو پانے کےلیے ریت ڈالی۔ مگر یہ آگ کئی روز تک جاری رہی۔
اپریل 1986ء کو جوہری ری ایکٹر میں حادثے کی وجہ سے آسمان پر ریڈیوایکٹو دھویں کے گہرے بادلوں کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا لیکن 29؍اپریل کو اس حادثے کے سلسلے میں پہلا سرکاری بیان جاری کیا گیا۔ اِس میں کہا گیا کہ ماحول میں کچھ آلودگی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو۔ بعض اطلاعات کے مطابق سوویت یونین کے حکام نے قریب کےعلاقوں میں تابکاری اثرات محسوس کیے جانے کے بعد ان تنصیبات میں صرف ایک جوہری حادثے کے امکان کا اعلان کیا۔ آخرکار اس دھماکے کے ڈیڑھ روز بعد لوگوں کو شہر خالی کر دینے کا حکم دیا گیا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ چند روز کے لیے جا رہے ہیں، اس لیے زیادہ ترلوگ اپنے گھروں کی ہر چیز چھوڑ کر شہر سے چلے گئے۔ مگر وہ دوبارہ کبھی واپس نہ آسکے۔
جوہری تابکاری سے بھرپور زہریلے بادلوں نے ہمسایہ ممالک کی فضابھی آلودہ کرنا شروع کردی اور پھر 28؍اپریل کی صبح سویڈن میں زہریلی بارش نے سوویت یونین کا راز فاش کردیا، سویڈش حکام نے ہنگامی طور پر عالمی برادری کو آگاہ کیا، اطلاع ملتے ہی پورا مغرب اور امریکہ فعّال ہوگیا، مغربی ممالک نے اپنے سیٹلائٹ سیّاروں کا رخ سوویت یونین کی طرف کیا تو چرنوبل حادثہ چھپ نہ سکا اور سوویت حکومت کوباضابطہ طور پر عالمی برادری کو ہولناک حادثے سے آگاہ کرنا پڑا۔ عالمی برادری کو ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ تابکاری سے دریائے پرپیات آلودہ ہوسکتا ہے جس سے لاکھوں انسان اور آبی حیات متاثر ہوگی۔
تابکاری کے باعث سوویت حکام نے چرنوبل کے قریب 30کلومیٹر کے علاقے کو انسانی آبادی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ جس میں پرپیات کا شہر بھی شامل تھا۔ تاہم چرنوبل پاور پلانٹ 2000ءمیں اپنے بند ہونے تک بجلی فراہم کرتا رہا۔ چرنوبل کے نیوکلیئر پلانٹ کے گرد کنکریٹ کی موٹی تہ نہیں بچھائی گئی تھی جسے اب نیوکلیئر پلانٹس کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ایک اخبار کے مطابق حکام کی مجرمانہ بزدلی کی وجہ سے تابکاری علاقے کے ہزاروں لوگ اس حادثے کا نشانہ بنے اور سپاہیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیے بغیر اور بغیر کسی حفاظتی انتظام کے تباہ شدہ جوہری پلانٹ کی طرف روانہ کیا گیا۔
اِس حادثے کے سلسلے میں متعدد تحقیقات کے باوجود ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی کیونکہ اب تک تحقیقاتی ٹیموں میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی کے زیر اثر ہونے یا دباؤ کی وجہ سے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کی وجہ وہاں کے عملے کی طرف سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی بنی ہے لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں پتہ چلا کہ جن قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے انہیں اس حادثے کے بعد قلم بند کر کے قوانین کی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جبکہ درحقیقت جوہری ری ایکٹر کا اصل منصوبہ ہی ناقص تھا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔
اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی مختلف قسم کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اُس وقت 9 ہزار افراد کی ہلاکت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کی تصدیق کی تھی۔ جبکہ ماحولیاتی ادارے Green Peace نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چرنوبل کے جوہری تنصیبات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا یعنی 93 ہزار تک ہو سکتی ہےاور خیال کیا جا رہا ہے کہ ریڈیو ایکٹو اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 2 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
اگرچہ چرنوبل کا سانحہ 35 برس قبل پیش آیا تھا اور اس کے تابکاری اثرات یورپ تک پہنچے ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا میں تیل، گیس اورکوئلے جیسے قدرتی ذرائع کے استعمال کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کے باعث اِن کے نعم البدل کے طور پر جوہری ایندھن کے استعمال کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے جبکہ بہت سے ماہرین ایٹمی انرجی کے استعمال کے خطرات سے مسلسل آگاہ کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ریڈیوایکٹو شعاعیں چاہے کتنی ہی معمولی مقدار میں ہوں، صحت کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہیں۔ البتہ بعض یورپی ممالک جوہری توانائی کے خطرات کی طرف زیادہ متوجہ ہیں۔ برطانیہ میں جوہری توانائی سے استفادہ کا رجحان نسبتاًکم ہے جبکہ چرنوبل کے واقعے نے جرمنی پر زیادہ دور رس اثرات مرتب کیے۔ جہاں ماحول پرستوں کے گروپ کو تقویت ملی جو پہلے ہی ایٹمی توانائی کے خلاف تھے، تحفظ ماحول کی ایک نئی وزارت بھی وجود میں آئی ہے۔ جرمنی میں ایٹمی بجلی گھروں کو بند کرنے کا سمجھوتہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
جرمنی میں ماحول پرستوں کے گروپ W.W.F کے ترجمان Jörn Ehlersکا کہنا ہے کہ میرے خیال میں چرنوبل کے حادثے نے جرمنی میں ایٹمی توانائی کے استعمال کی حوصلہ شکنی میں ایک اضافی کردار ادا کیا ہے۔ 70کے عشرے میں ایسے منصوبے موجود تھے جن کی رو سے جرمنی میں 100 سے زائد ایٹمی بجلی گھر قائم کیے جانے تھے لیکن آخر کار صرف 20ایٹمی بجلی گھروں نے کام کرنا شروع کیا۔ بعد میں مزید ایک کا اضافہ ہوا اور اب ایٹمی بجلی گھروں سے دستبردار ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
یوکرائن کی حکومت کا کہنا ہے کہ چرنوبل کے اس متروک علاقے میں لوگ آئندہ 24؍ہزار سال تک آباد نہیں ہو سکیں گے لیکن وہاں اس نے جوہری توانائی کی تباہ کاریوں کے بعد اب شمسی توانائی کا پلانٹ لگایا ہے اور اس کے اوپر چمکتے ہوئے سورج کو دیکھا جا سکتا ہے۔
(بشکریہ DW.COM. BBC URDU. NATIONAL GEOGRAPHIC DOCUMENTARY)
٭…٭…٭