امن کیا ہے اور اس کا حصول کیسے ممکن ہے؟
دور ِحاضر کا سب سے اہم مسئلہ امن و آشتی کا فقدان ہے۔ مادی ترقی کے لحاظ سے بحیثیت مجموعی آج کا انسان بہت بلند مقام تک جاپہنچاہے اور اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت مہارت حاصل کرلی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انسان نے دنیا میں ایک technological revolution (تکنیکی انقلاب) برپا کیا ہوا ہے۔ ایک طرف دنیا مادی ترقی میں بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف امن ناپیدہوتا جارہا ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو الٰہی بصیرت اور ادراک سے دیکھتے ہوئے خداتعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا کی راہ نمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اقوام عالم کے مابین جو تنازعات موجود ہیں وہ دراصل سیاسی، علاقائی اور اقتصادی مفادات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور حالات جو رُخ اختیار کر رہے ہیں اُنہیں دیکھتے ہوئے مجھے ڈر ہے کہ مختلف ممالک کے سیاسی اور اقتصادی تغیرات ایک عالمگیر جنگ پر منتج ہوسکتے ہیں۔ اِن حالات کے نتیجہ میں صرف امیر ممالک ہی نہیں بلکہ غریب ممالک بھی متاثر ہورہے ہیں۔ اس لئے طاقتور ممالک پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ ‘‘
(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ 10)
ہر ذی شعور شخص امن و آشتی کی ضرورت اور اہمیت سے خوب واقف ہے۔ مگر امن ہے کیا؟ یہ لفظ’امن‘جو ہمیں کثرت سے سننے کو ملتا ہے اور ہماری سماعتوں میں محفوظ ہے اس کامطلب کیا ہے؟ کون سے عوامل نقض امن کا باعث بن رہے ہیں؟ امن کا حصول کیسے ممکن ہے؟ کوششوں کے باوجود دائمی اور پائیدار امن کا قیام کیوں ممکن نہیں ہورہا؟ قیام امن کے حسین خواب کو کب تعبیر ملے گی؟
مالٹا میں مختلف مواقع پر جب امن پر بات ہوتی ہے تو ایک طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ ہمیں اس موضوع پر گفتگو کی کیا ضرورت ہے، ہمارے ملک یا خطے میں کون سی کوئی جنگ ہورہی ہے؟ یا یہ کہتے ہیں کہ جدید دَور کا انسان اتنا mature اور سمجھ دار ہوگیا ہے کہ اسے اپنے نفع و نقصان کا خوب ادراک ہے تو پھر ہم کیوں اسے موضوع گفتگوبنائیں؟
اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ صرف جنگ یا باہمی تنازعات کی عدم موجودگی ہی امن نہیں ہے بلکہ امن اس سے کہیں اعلیٰ و ارفع کیفیت کا نام ہے، بہت ہی قیمتی احساسات کا نام ہے۔ امن و آشتی حیرت انگیزمثالی اقدار کا نام ہے۔ البرٹ آئن سٹائن کا مشہور قول اس پر روشنی ڈالتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’Peace is not merely the absence of war but the presence of justice, of law, of order – in short, of government.‘‘
انفرادی سطح پر امن کا مفہوم
انفرادی اور معاشرتی سطح پر ہر فرد ِواحد کے لیے امن کا مفہوم مختلف ہوسکتا ہے۔ ایک گنہگار اور بد شخص گناہ میں لذت و سرور پاتا ہے۔ اگر اسے گناہ میں لذت و تسکین نہ آئے اور امن دکھائی نہ دے تووہ گناہ کیوں کرے۔ گناہ کا سرزد ہوجانا اور بات ہے یہ بشری کمزوری کا تقاضا ہے مگر جان بوجھ کر گناہ کرنا اور بات ہے۔
ایک چور، ڈاکو اور غاصب دوسروں کا مال ہتھیا کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے بڑی مہارت اور ہوشیاری سے کام لیا ہے اور وہ اس میں امن و سکون پاتا ہے۔ ایک زانی، زنا میں سکون تلاش کرتا ہے۔ ایک شرابی جام کا پیالہ ہاتھ میں لیتا ہے تووہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوکر یہ سمجھتا ہے کہ اُسے ہر قسم کا امن، سکون اور سلامتی حاصل ہوگئی ہے۔
دنیا میں منشیات کی روک تھام کے لیے بہت سخت قوانین پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان تمام قوانین کے ہوتے ہوئے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے ایک منشیات کا عادی شخص جب اپنی مرضی کی منشیات (drugs) حاصل کرلیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے اسے دنیا و مافیہا کی تمام نعمتیں، آسائشیں، سکون اور امن مل گیا ہے۔
ایک سگریٹ نوشی کرنے والا شخص جب سگریٹ کے کش لیتا ہے اور ناک اور منہ سے بدبودار دھواں نکالتا ہے تو اس کے چہرے سے ایک عجیب سی خوشی اور سکون چھلکتا نظر آتا ہے۔ اور جتنا بڑا کوئی سگریٹ کا کش لیتا ہے اور جتنا زیادہ دھواں نکالنے میں وہ کامیاب ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اپنے آپ کو مطمئن اور دوسرے سے اعلیٰ تصور کرتا ہے۔
چند سال قبل مالٹا میں ایک رسالہ کے ایڈیٹر سے ملاقات ہوئی۔ چائے پینے کے بعد انہوں نے اپناسگریٹ سلگا لیا۔ مجھے طبعاََ اس سے بہت کوفت ہوئی لیکن موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے ان کے ساتھ سگریٹ نوشی کے مضرات اور سگریٹ نوشی چھوڑنے کے آسان اور پائیدار طریق پر گفتگو شروع کردی۔ خاکسار نے انہیں کہا کہ سگریٹ کے ہر پیکٹ پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے پھر بھی لوگ کیوں سگریٹ نوشی کرتے ہیں؟ آخر آپ کو سگریٹ نوشی میں کیا ملتا ہے؟ تو وہ کہنے لگے جب تک میں صبح اُٹھ کر سگریٹ نوشی نہ کر لوں مجھے کوئی بات سمجھ نہیں آتی اور میرا ذہن کام نہیں کرتا۔ کہنے لگے جب میں صبح اُٹھ کر سگریٹ سلگاتا ہوں تو پھر میرا ذہن کام کرنا شروع کردیتا ہے۔
تو گویا سگریٹ نوشی کا عادی سگریٹ نوشی میں لذت، سرور، امن اور سکون پاتا ہے۔
حقیقی مومن کے لیے امن کا مطلب
لیکن ایک مومن کے لیے امن کا کیا مطلب ہے؟ ایک مومن کے لیے امن کیا ہے؟ ایک حقیقی مومن کی امن کے حصول کے لیے کیا جستجو ہونی چاہیے؟ بندئہ خدائے رحمان کس طرح امن و سلامتی حاصل کرسکتا ہے؟
قرآن کریم و سنت نبویﷺ کا بغور مطالعہ کرنے سے امن کے جو مطالب سمجھ آتے ہیں ان کے مطابق امن کا مطلب اطمینانِ قلب، دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہونا، ذہنی سکون، نفس مطمئنہ کا حصول اور خاتمہ بالخیر ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اے نفس مطمئنّہ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا، راضی ہوتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے۔ پس میرے بندوں میں داخل ہوجا۔ اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
(الفجر: 28تا31)
امن کا مطلب مسابقت کا ایک ایسا ماحول ہے جہاں لوگ آزادی کے ساتھ فَاسْْتَبِقُوْاالْخَیْرَاتِکے حکم کے تحت نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں۔ جہاں لوگوں کو آزادی کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں اور وہ ان بنیادی حقوق سے مستفیض ہوتے ہوئے اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوسکیں۔
جہاں ہر انسان کو اس کی بنیادی ضروریات جیسے کھانا، صاف پانی، لباس، رہائش، تعلیم، صحت کی سہولیات اور مناسب روزگارحاصل ہو۔ جہاں ہر شخص کو بلاتفریق رنگ و ملت کام کرنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔
امن و آشتی کا ایک معنی مذہبی آزادی کا قیام ہے۔ ایسا ماحول جہاں لوگ بلا خوف و خطر مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مذہب کا انتخاب، اس پر عمل اور اس کی تبلیغ کرسکیں۔
امن سے مراد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جہاں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالادستی ہو۔ جہاں قانون کے سامنے سب برابر ہوں۔ جہاں ’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز۔ نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز‘کا مثالی عملی نمونہ نظر آئے۔
ایسا معاشرہ جو اسوۂ رسولﷺ کی روشنی میں عدل وانصاف کے اعلیٰ معیار پر استوار ہو۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ قریش کو ایک مخزومی عورت کے معاملہ سے فکر پیدا ہوئی جس نے چوری کی تھی۔ انہوں نے کہا اس کے بارے میں کون رسول اللہﷺ سے بات کرے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی رسول اللہﷺ کے محبوب اسامہؓ کے سوا کون جرأت کرسکتا ہے۔ چنانچہ آپﷺ سے اسامہؓ نے بات کی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حدکے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا:
’’اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی معزز چوری کرتا تھا تو اُسے چھوڑدیتے تھے اور جب اُن میں کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اُس پر حد قائم کرتے تھے اور اللہ کی قسم اگر فاطمہؓ بنت محمد (ﷺ ) بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس پر بھی حد قائم کرتا۔ ‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الحدود، حدیث نمبر3182)
امن سے مراد ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جہاں عوام الناس کسی خوف و خطر اور ظلم و زیادتی کے بغیر سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ جہاں لوگ محبت و پیار اور عزت ووقار کی خوبیوں سے مزین گھروں میں رہائش پذیر ہوں۔ جہاں گھر جنتوں کا نظارہ پیش کررہے ہوں۔ جہاں نفرت اور تشدد کی کوئی جگہ نہ ہو۔ جہاں ہر ایک کو عزت، وقار، محبت اور شفقت حاصل ہو۔ جہاں انسانی زندگی سب سے اہم تصور کی جاتی ہو۔ جہاں غرباء کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے معاشرے اور حکومت وقت کی مدد میسر ہو۔ یہ ہے امن یعنی ایسا معاشرہ جو محبت اور ہمدردی کی اقدار پر قائم ہو۔
جماعت احمدیہ مسلمہ کا ماٹو’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ‘ایسے حسین اور پُر امن معاشرے کی جامع تصویر کشی کرتا ہے۔
قیام امن میں رکاوٹ کے اسباب
لیکن ایسے امن و سلامتی کے گہوارہ اور جنت نظیر معاشرے کے قیام میں کیا رکاوٹ ہے؟ دنیا کے امن کو کیوں خطرات لاحق ہیں؟
اس کا مختصر، جامع اور درست جواب یہ ہے کہ مخلوق اور خالق کے رشتے میں دُوری پیدا ہوگئی ہے۔ خدا میں اور اُس کی مخلوق کے رشتے میں کدورت واقع ہوگئی ہے۔ انسان نے لباس التقویٰ کے بجائے ظاہری پوشاکوں کو زینت کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ انسان نے خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھنے کی بجائے انہیں پس پشت ڈال دیا ہے۔
خداتعالیٰ کی صفت ’السلام‘
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’السلام‘بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے اور کبریائی والا ہے۔
(الحشر: 24)
یعنی حقیقی مومن کے لیے خدا تعالیٰ کی ذات ہی امن وسلامتی کا منبع و مرکز ہے۔ خداتعالیٰ کی ذات حقیقی اور دائمی امن کا ذریعہ ہے۔ اسی چشمۂ امن وسلامتی سے مومن کی روح کو سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ اس دَر سے دُوری امن و سلامتی سے دُوری ہے۔ جو اس امن وسلامتی کے چشمہ سے اپنی سیرابی کے سامان حاصل نہیں کرتا اسے کبھی حقیقی امن و سکون نصیب نہیں ہوسکتا۔
امن کے حقیقی وسیلہ سے ہٹ جانا، یعنی خداتعالیٰ پر یقین نہ کرنا اور اس پر ایمان نہ لانا، قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا آفات و مصائب کا گھر ہے، ہر طرف پریشانی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان اپنے معبودِ حقیقی کو بھلا بیٹھا ہے۔ لوگ مادیت پسند ہو گئے ہیں۔ حقیقی انسانی اقدار کو بھلا بیٹھے ہیں اور دولت کو اعلیٰ اقدار اور اخلاقیات پر فوقیت دی جانے لگی ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی عدم ادائیگی اور انصاف کا قتل بھی قیام امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کیونکہ اگر انصاف نہیں ہے تو چاہے آپ کچھ بھی کرلیں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
حقوق اللہ و حقوق العباد
امن کا قیام کس طرح ممکن ہے؟ ہم دنیا میں حقیقی امن کیسے قائم کرسکتے ہیں؟
یقیناًہم ہستی باری تعالیٰ پر کامل ایمان، یقین او ر حقوق اللہ کی کامل ادائیگی کے ذریعے حقیقی امن حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح شرف ِانسانیت کے قیام، انسانیت سے حقیقی محبت اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعے دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اسلامی تعلیم کے رو سے دین اسلام کے حصے صرف دو ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دو بڑے مقاصد پر مشتمل ہے۔ اول ایک خدا کو جاننا۔ جیسا کہ وہ فی الواقعہ موجود ہے۔ اور اس سے محبت کرنا اور اس کی سچی اطاعت میں اپنے وجود کو لگانا جیسا کہ شرط اطاعت و محبت ہے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی میں اپنے تمام قویٰ کو خرچ کرنا اور بادشاہ سے لے کر ادنیٰ انسان تک جو احسان کرنیوالا ہو شکر گزاری اور احسان کے ساتھ معاوضہ کرنا۔ ‘‘
(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 281)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصے کئے ہیں۔ اول حقوق اللہ۔ دوم حقوق العباد۔ حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے۔ اور حقوق العباد یہ ہے کہ خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔ ‘‘
(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 281)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ سنو! اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پاتے ہیں۔ (الرعد: 29)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی معرکہ آراء کتاب ’’اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’نظام کائنات کا جو عرفان اسلام نے عطافرمایا ہے اس کے مطابق انسان مخدوم ہے اور باقی ساری کائنات اس کی خادم ہے اس لحاظ سے ساری کائنات میں انسان ہی اپنے خالق کے احسانات کا سب سے بڑھ کر مورد ہے۔ پس اسے سب سے زیادہ خداتعالیٰ کا شکرگزار اور احسان مند بھی ہونا چاہئے جس کی خدمت کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کو مسخر کردیا ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کی غلامی میں آکر انسان ہر دوسری غلامی سے رہائی پالیتا ہے۔ انسان ساری کائنات کے شعور اور ضمیر کی علامت اور اس کی تجسیم ہے۔ جب انسان خالق کے سامنے سربسجود ہوتا ہے تو گویا ساری کائنات خالق کے حضور سجدہ ریز ہوجاتی ہے اور جب انسان اپنے خالق کی طرف رجوع کرتا ہے تو گویا کل کائنات اپنے خالق کی طرف لوٹتی ہے۔ اسلام کے نزدیک اسی مقصد کے حصول اور اس کے مطابق انسانی زندگی کو ڈھالنے میں حقیقی اور کامل امن پوشیدہ ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کوئی امن نصیب نہیں ہوسکتا
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کوئی امن نصیب نہیں ہوسکتا یہی وہ راز ہے جس کو جانے بغیر نہ تو انسان کو اطمینان قلب نصیب ہوسکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ میں امن و سکون کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ حقیقی امن اور اطمینان تک لے جانے والا اور کوئی راستہ نہیں ہے…اس سے بڑھ کر اسلام کا کوئی اور فلسفہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر کوئی فرد حقیقی اطمینان حاصل نہیں کرسکتا اور حقیقی اطمینان کے بغیرمعاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔ قیام امن کے لئے تمام ایسی کوششیں جن کا محرک ذاتی اغراض ہوں یقیناً ناکام اور بے نتیجہ رہتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ موجود نہیں تو پھر امن بھی نہیں اور اس حقیقت کا شعور ہی دراصل دانائی کا کمال ہے۔ ‘‘
(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل، صفحہ312تا314)
خلافت کے ذریعے قیام امن
دَورِ حاضر میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا کامل عرفان اور ادراک حبل اللہ یعنی خلافت حقہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اور اس خلافت ِحقہ کے ذریعے ہی دنیا کے خوف امن میں بدلیں گے۔ انشاء اللہ العزیز
سیدنا و مرشدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہر موقع پر جہاں افرادِ جماعت کی راہ نمائی فرماتے ہیں وہیں دنیا کی بھی راہ نمائی فرماتے ہیں۔ حضور انور کے معرکہ آراء خطابات پر مشتمل کتاب ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پائیدار اور دائمی امن کے قیام کے حوالے سے راہ نمائی فرمائی ہے۔
اسی طرح گذشتہ دنوں حضو رانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عالمی راہ نماؤں کو بذریعہ خطوط قیام امن کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔
خلافت احمدیہ دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کی ضامن ہے۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ دنیا میں ہمیشہ امن و آشتی کی حقیقی علمبردار کے طور پر جانی جاتی رہے گی۔ احمدی جس ملک میں بھی رہتے ہوں گے وہ اپنے اپنے ملک کے وفادار شہری ثابت ہوں گے۔ خلافت احمدیہ کاکام تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو جاری رکھنا اور اسے آگے بڑھانا ہے…خلافت احمدیہ تمام احمدیوں کو ان ہر دو فرائض (حقوق اللہ و حقوق العباد) کی ادائیگی کی طرف مسلسل متوجہ رکھتی ہے جن کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت دنیا میں امن و آشتی کی فضاء پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ‘‘
(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ 10 )
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رکھے۔ ہم ہمیشہ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے والے ہوں۔ خلافت احمدیہ کے سلطان نصیر بننے والے ہوں اور خلافت حقہ کے زیر سایہ دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو حقیقی امن اور اطمینانِ قلب نصیب کرے۔ اللّٰھم آمین۔