خدمت انسانیت کے علمبردار… میاں مقبول احمد ناصر ایڈووکیٹ چشتیاں
5؍اگست 2020ء کا دن نہ صرف ہمارے خاندان بلکہ چشتیاں بہاولنگر کے بے شمار غریب و امیر لوگوں کے لیے انتہائی غمزدہ ثابت ہوا۔ اس دن میرے پھوپھا سُسر مکرم میاں مقبول احمد ناصر صاحب ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ ایک شفیق باپ، بہترین ساتھی اور سب سے پیار کرنے والے انتہائی بابرکت اور نافع الناس وجود تھے۔ رسول کریمؐ کی ذات مبارک سے آپ کو انتہائی عشق تھا۔ مہدیٔ دوراںؑ کے مخلص پیروکار اور خلافت کے صحیح معنوں میں سلطان نصیر تھے۔ آپ کا شمار چشتیاں بہاولنگر کے انتہائی قابل اور ایماندار وکلاء میں ہوتا تھا۔ جہاں آپ نے 50سال تک جانفشانی کے ساتھ کام کیااورامیر و غریب لوگوںکی خدمت کی اور جماعت اور اپنے خاندان کی نیک نامی اور شہرت کمائی۔ اس کے علاوہ 60 سال جماعت کی مختلف عہدوں پر فائز رہ کر سلسلہ کی خدمت کی توفیق پائی جن میں صدر جماعت چشتیاں اور قاضی ضلع بہاولنگر کی حیثیت سے قابل ذکر خدمات شامل ہیں۔ آپ اپنے علاقے میں اعلیٰ پائے کے عالم فاضل شخصیت مشہور تھے۔ اور جماعت احمدیہ کے عظیم سفارتکار اور سلسلہ کی چلتے پھرتے تبلیغ کرتےتھے۔ دوست دشمن سب آپ کی قابلیت، لیاقت اور ایمانداری کے قائل تھے۔ آپ ایک نڈر داعی الیٰ اللہ تھے۔ اور آپ کے وسیع تعلقات اور اثر و رسوخ کی وجہ سے چشتیاں شہر میں جماعت کی مخالفت نہ ہونے کے برابر تھی۔
آپ کی ان سب خوبیوں سے خاکسار ان کی زندگی میں ہی واقف تھا۔ لیکن جب ان کی وفات کے بعد پاکستان گیا تو تعزیت کے لیے آئے ہوئے بے شمار لوگوں کے تاثرات سن کر احساس ہوا کہ میاں صاحب انسانیت کی خدمت کے علمبردار تھے اور ان کے احسان و وفا کا دائرہ اپنوں اور غیروں پر بلاتفریق محیط تھا۔ آپ اپنے چچا زاد بھائی میاں محمد اقبال سابق امیر جماعت راجن پور کی طرح جماعت احمدیہ کا ایک درخشاں ستارہ تھے۔
آپ 26؍مارچ 1944ء کو چک نمبر 9/F.Wمنشی والا (پاکستان) میں ایک بااثر زمیندار مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباواجدادافغانستان کی پٹھان نسل سے تھے۔ آپ کے دادا منشی عبدالستار ریاست بہاولپور کے رئیس کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ اور 52مربع زرعی اراضی کے مالک تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد میاں محمد عارف صاحب کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1935ء میں 25سال کی عمر میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ میاں مقبول ناصر صاحب اپنے غیر احمدی رشتہ داروں سے دوستی کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے لیکن دعاؤں کے نتیجہ میں 1960ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔
آپ تعلیم الاسلام کالج میں فٹ بال ٹیم کے کپتان رہے۔ اور حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے چہیتے کھلاڑیوں میں شامل تھے۔ آپ نے ایم اے ایل ایل بی کرنے کے بعد اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کو ٹھکرا کر اپنے آبائی علاقہ میں وکالت شروع کی۔ کیونکہ آپ کے والد صاحب نے آپ کو نصیحت کی تھی کہ اپنے علاقے میں رہ کر لوگوں کی خدمت کرو اور جماعت احمدیہ کا نام روشن کرو۔
1980ء کی دہائی میں میاں صاحب کی وکالت کا سکّہ چمکنے لگا۔ اُن کی شہرت کا باعث زمین کا ایک کیس تھا جو کہ علاقے کے MNAکے خلاف تھا۔ مخالف وکیل بہت قابل تھا اور مخالف پارٹی بہت اثر و رسوخ والی تھی۔ جبکہ ان کا Clientایک شریف آدمی اور حق پر تھا۔ چنانچہ آپ نے خلیفۂ وقت کو دعا کے لیے لکھا اور خود بھی خوب دعا کی اور بہت محنت کی تین گھنٹے مسلسل انگلش میں بحث کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے مہدیٔ دوراں کے خلیفہ کی دعاؤں سے کامیابی عطا کی۔
میاں صاحب کبھی بھی جھوٹا کیس نہیں لیتے تھے اور اپنے علاقے میں ’’نہ بکنے والا، نہ جھکنے والا احمدی وکیل‘‘مشہور تھے۔ میاں صاحب اپنے پیشے کو انسانیت کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اور بے شمار غریب اور یتیم لوگوں کے کیس طاقتور لوگوں کے خلاف بغیر فیس کے لڑے تاکہ اُن کو انصاف مل سکے۔ اکثر اوقات شہر کے مولویوں کے زمینی تنازعات کے کیس آپ کے دفتر میں بُک ہوتے تو ان سے فیس نہ لیتے۔ ان کو بھائی کہتے اور انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی حقیقی تعلیم کا تعارف کرواتے۔ وہ لوگ آپ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر آپ کی مخالفت ترک کر دیتے۔ آپ غریب اور یتیم بچوں کی شادیوں پر اُن کی مالی اعانت کر تے آپ کے دفتر کے ایک کلرک کے مطابق میاں صاحب کے دفتر میں لوگ روتے ہوئے اپنے مسائل لے کر انصاف کے لیے آتے لیکن میاں صاحب کی شفقت اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر خوشی خوشی واپس جاتے۔
میاں صاحب پنجوقتہ نمازوں اور نماز تہجد کا باقاعدگی سے التزام کرتے۔ آپ نہایت نیک، مہمان نواز، دعا گو اور سادہ زندگی گزارنے والے بزرگ وجود تھے۔ آپ تصنع، بناوٹ اور مال و دولت کی ہوس سے بے نیاز تھے۔ اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث سکھانے کی وجہ سے حلقۂ احباب میں عالم فاضل اور دعا گو بزرگ مانے جاتے تھے۔ اپنی ہر محفل میں حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر بڑی محبت و عقیدت اور فخر سے کرتے۔ اپنےبچوں کو ہمیشہ خلافت احمدیہ کا خادم بن کر زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے۔ میاں صاحب خاکسار کو پیار سے حاجی صاحب کہتے اور فرماتے کہ حاجی صاحب مجھ پر اللہ کے بے شمار احسانات ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ مجھے احمدی مسلمان بنایا اور رسول کریمؐ اور حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت نصیب ہوئی اور خلفاء کی عقیدت اور مسیح موعودؑ کی بیعت میں آنے کی برکت سے میری دعاؤں کو قبول کیااور سلسلےکا پیغام ہر جاننے والے تک پہنچانے کی توفیق ملی۔
آپ کے زیر تبلیغ بے شمار لوگ احمدیت کی سچائی کے قائل تھے۔ لیکن کہتے کہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے بیعت نہیں کر سکتے۔ جس کا ثبوت وہ خطوط ہیں جو میاں صاحب کے ذاتی کاغذات میں محفوظ ہیں۔ جن میں لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم آپ کے روحانی پیشوا کے پیروکار ہیں اور آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں حقیقی اسلام کی تعلیم سے روشناس کرایا۔ اور آپ کی محفل میں سرورِ کائناتﷺ کا ذکر سن کر ہمیں دلی تسکین ملتی ہے۔
میاں صاحب اپنے قریب رشتہ داروں کے علاوہ اپنے ملازمین اور ساتھیوں کی ہر لحاظ سے دلجوئی اور مالی اعانت کیا کرتے تھے۔ جس میں اپنےبہن بھائیوں کی تعلیم اور شادیوں پر خرچ کے علاوہ غریب رشتہ داروں کی کفالت اور علاج معالجہ اور تعلیم کے لیے مالی امداد جیسے کارِ خیر شامل ہیں۔ جہاں تک غیروں کی امداد کا تعلق ہے تو ایک لمبی تفصیل ہے جو لوگوں نے مجھے خود بتائی ہیں۔ سب کو احاطۂ تحریر میں لانا مشکل ہے۔ مختصراً کچھ کا ذکر کرتا ہوں۔
ایک ذاتی ملازم کا گھریلو جھگڑا ختم کرنے کے لیے آدھی رات کو اس کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر اس کے گھر جانا، اپنے ذاتی ڈرائیور کی بہن کی شادی پر مالی امداد کرنا، اپنے ایک کلرک کی بیوی کے علاج کے لیے مالی امداد، ایک غریب سائل کے بیٹے کو جھوٹے کیس سے بری کروا کر اس کی سزائے موت کی سزا ختم کروانا۔ اور ایک جاننے والے کے پلاٹ پر ناجائز قبضہ ختم کروانا وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ میاں صاحب کی انسانی ہمدردی اور خدمات کے بے شمار واقعات ہیں۔ ان میں سے کچھ واقعات بیان کر دیتا ہوں۔
1990ء میں مسجد بنانے پر بستی نور پورہ کے صدر جماعت کو گرفتار کر لیا گیا۔ لاکھ کوشش کے باوجود ان کی ضمانت نہ ہورہی تھی اسی دوران چشتیاں شہر کے ایک سرکردہ مولوی صاحب میاں صاحب سے کوئی قانونی مشورہ لینے آئے تو میاں صاحب نے یہ مسئلہ اس کے ساتھ ڈسکس کیا تو اُس مولوی نے ثالث بن کر صلح کروانے کی حامی بھر لی۔ اس طرح میاں صاحب کے ذاتی تعلق کی وجہ سے ایک ماہ کے اندر اندر صدر صاحب کی ضمانت ہوگئی۔
اسی مولوی کے فرزند جو چشتیاں شہر کے نامی گرامی مولانا ہیں میاں صاحب کی تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئے اور بتایا کہ میاں صاحب میرے والد مرحوم کے بھائی کا درجہ رکھتے تھے۔ میرے والد مرحوم ہمارے گھریلو مسائل کے لیے ہمیشہ میاں صاحب سے راہ نمائی لیا کرتے تھے۔ اور کہنے لگے کہ چشتیاں شہر میں ہم نے کسی مولوی کو میاں صاحب اور جماعت کی مخالفت نہیں کرنے دی۔
ایک اور واقعہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کافی سال پہلے ایک دفعہ جامع مسجد چشتیاں میں ایک مولوی نے خطبہ جمعہ میں جماعت کے خلاف کچھ بولا تو میاں صاحب نے اگلے دن میرے والد صاحب کو ملنے کا پیغام بھیجا اور کہا کہ اپنے دوست کو قابو میں رکھو۔ میرے والد نے کہاکہ یہ ایک سرپھرا مولوی ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ کچھ دنوں کے بعد یہ آپ کے پاس آنے والا ہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہواکہ وہ مولوی زمینی تنازع کے کسی مقدمے میں بُری طرح پھنس گیا۔ اس کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس ضمن میں میاں مقبول صاحب ہی تمہاری مدد کر سکتے ہیں۔ مجبوراً اس نے اپنے بیٹے کو میاں صاحب کے پاس بھیجا۔ میاں صاحب نے بغیر فیس کے اس مولوی کا کیس لڑا اور اس کی فیملی کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ بعد میں وہ مولوی جماعت کے خلاف بولنے پر اور تقریرکرنے پر سخت شرمندہ اور نادم ہوا۔ اور میاں صاحب سے معافی مانگی۔
بعض اوقات آپ کے مخالف وکلاء بھی آپ سے قانونی مشورے کے لیے آپ کے دفتر میں آتے۔ آپ ان کو پوری دیانتداری سے معقول مشورہ دیتے۔ اور اُن سے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے۔
میاں صاحب کی ایک اور بڑی خوبی جس سے ان کی جماعت اور خلافت سے والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہےچندوں کی ادائیگی تھی۔ آپ بہت باقاعدگی کے ساتھ چندے ادا کرتےتھے۔ فیس ملنے کے بعد فوری طور پر سب سے پہلے اس میں سے چندے کی رقم علیحدہ کرتے پھر باقی رقم اخراجات کے لیے گھر پر دیتے۔ چندہ ہمیشہ وقت پر ادا کرتےاور ہر قسم کی مالی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔
اس کے علاوہ تعزیت پر آنے والے لوگوں نے میاں صاحب کی شخصیت کے بے شمار واقعات سنائے اور پیغام بھی بھیجے ان سب کو احاطۂ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ لیکن مختصراً ان کی زندگی کے کچھ حالات بیان کر دیے ہیں۔
آپ 2012ءکے بعد ہر سال جلسہ سالانہ U.Kمیں شامل ہورہے تھے۔ آپ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ بہت سے غیر از جماعت لوگ میاں صاحب کو دعا کے لیے کہتے۔ بعد میں کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب کی دعائیں اس طرح سنتا ہے جیسے میاں صاحب کسی بہت بڑے ولی اللہ کے خاص مرید ہوں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین