محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
پس جب کہ آخری دنوں کیلئے یہ علامتیں ہیں جو پورے طورپر ظاہر ہوچکی ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے دوروں میں سے یہ آخری دور ہے اور جیسا کہ خدا نے سات دن پیدا کئے ہیں اور ہر ایک دن کو ایک ہزار سال سے تشبیہ دی ہے۔ اس تشبیہ سے دنیا کی عمر سات ہزار ہونا نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اور نیز خدا و تر ہے اور وتر کو دوست رکھتا ہے اور اس نے جیسا کہ سات دن وتر پیدا کئے ایسا ہی سات ہزار بھی وتر ہیں۔ ان تمام وجوہات سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ یہی آخری زمانہ اور دنیا کا آخری دور ہے جس کے سر پر مسیح موعود کا ظاہر ہونا کتب الہٰیہ سے ثابت ہوتا ہے اور نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب حجج الکرامہ میں گواہی دیتے ہیں کہ اسلام میں جس قدر اہل کشف گزرے ہیں کوئی ان میں سے مسیح موعود کا زمانہ مقرر کرنے میں چودھویں صدی کے سر سے آگے نہیں گزرا۔
اب اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو اس امت میں سے پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ نبوت کے اوّل اور آخر کے لحاظ سے حضرت موسیٰ ؑ سے مشابہ ہوں گے۔ پس وہ مشابہت ایک تو اوّل زمانہ میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اور ایک آخری زمانہ میں۔ سو اوّل مشابہت یہ ثابت ہوئی کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آخر کار فرعون اور اُس کے لشکرپر فتح دی تھی۔ اُسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار ابوجہلؔ پر جو اس زمانہ کا فرعون تھا اور اس کے لشکر پر فتح دی اور ان سب کو ہلاک کرکے اسلام کو جزیرہ عرب میں قائم کردیا اور اس نصرت الٰہی سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ
اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(المزمل:16)
اور آخری زمانہ میں یہ مشابہت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ملت موسوی کے آخری زمانہ میں ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جو جہاد کا مخالف تھا اور دینی لڑائیوں سے اسے کچھ سروکار نہ تھا بلکہ عفو اور درگذر اس کی تعلیم تھی۔ اور وہ ایسے وقت میں آیا تھا جبکہ بنی اسرائیل کی اخلاقی حالتیں بہت بگڑ چکی تھیں اور اُن کے چال چلن میں بہت فتور واقع ہوگیا تھا اور ان کی سلطنت جاتی رہی تھی اور وہ رومی سلطنت کے ماتحت تھے اور وہ حضرت موسیٰ سے ٹھیک ٹھیک چودھویں صدی پر ظاہر ہوا تھا۔ اور اس پر سلسلہ اسرائیلی نبوت کا ختم ہوگیا تھا۔ اور وہ اسرائیلی نبوت کی آخری اینٹ تھی۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں مسیح ابن مریم کے رنگ اور صفت میں اس راقم کو مبعوث فرمایا اور میرے زمانہ میں رسم جہاد کو اٹھا دیا جیسا کہ پہلے سے خبر دی گئی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد کو موقوف کردیا جائے گا۔ اسی طرح مجھے عفو اور درگذر کی تعلیم دی گئی۔ اور میں ایسے وقت میں آیا جبکہ اندرونی حالت اکثر مسلمانوں کی یہودیوں کی طرح خراب ہوچکی تھی اور روحانیت گم ہو کر صرف رسوم اور رسم پرستی ان میں باقی رہ گئی تھی۔ اور قرآن شریف میں ان امور کی طرف پہلے سے اشارہ کیا گیا تھا جیسا کہ ایک جگہ مسلمانوں کے آخری زمانہ کیلئے قرآن شریف نے وہ لفظ استعمال کیا ہے جو یہود کیلئے استعمال کیا تھا۔ یعنی فرمایا
فَیَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ(الاعراف:130)
جس کے یہ معنے ہیں کہ تم کو خلافت اور سلطنت دی جائیگی۔ مگر آخری زمانہ میں تمہاری بد اعمالی کی وجہ سے وہ سلطنت تم سے چھین لی جائے گی۔ جیسا کہ یہودیوں سے چھین لی گئی تھی۔ اور پھر سورۃ نور میں صریح اشارہ فرماتا ہے کہ ہر ایک رنگ میں جیسے بنی اسرائیل میں خلیفے گذرے ہیں وہ تمام رنگ اس امت کے خلیفوں میں بھی ہوں گے۔ چنانچہ اسرائیلی خلیفوں میں سے حضرت عیسیٰ ؑ ایسے خلیفے تھے جنہوں نے نہ تلوار اٹھائی اور نہ جہاد کیا۔ سو اس امت کو بھی اسی رنگ کا مسیح موعود دیا گیا۔ دیکھو آیت
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (سورۃ النور:56)
اس آیت میں فقرہ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ قابل غور ہے۔ کیونکہ اس سے سمجھا جاتا ہے کہ محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے اور چونکہ موسوی خلافت کا انجام ایسے نبی پر ہوا یعنی حضرت عیسیٰؑ پر جو حضرت موسیٰ ؑ سے چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نیز کوئی جنگ اور جہاد نہیں کیا۔ اس لئے ضروری تھا کہ آخری خلیفہ سلسلہ محمدیؐ کا بھی اسی شان کا ہو۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ212۔214)