تعارف کتاب

قریۂ جاوداں

(’ثناء انجم‘)

کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے کہ گورنمنٹ کالج جنڈیالہ شیرخان کے پرنسپل نے مجھے ایک کتاب دی اور بتایا کہ وہ اس کتاب کی تقریبِ پذیرائی گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں کروانا چاہتے ہیں۔ مجھ سے اس کتاب پر ایک تعارفی مضمون کی فرمائش کی گئی تھی۔ کتاب خوبصورت تھی، نام ’’شوق ہم سفر میرا‘‘اور مصنف محمد دائود طاہر تھے۔ قبل ازیں مصنف سے میرا ذاتی تعارف نہ تھا البتہ نام شناسا لگتا تھا۔ تفصیلی تعارف پر معلوم ہوا کہ موصوف نہ صرف اپنے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ہمارے مربی ضلع، قریشی سعید احمد اظہر صاحب کے برادرِنسبتی ہیں اور سی بی آر (جسے اب ایف بی آر کہا جانے لگا ہے) کے ایک سینئر افسر ہیں۔ بہرحال یہ تقریب منعقد ہوئی اور لاہور سے عطاءالحق قاسمی اور اصغر ندیم سیّد اس میں شمولیت کے لیے خاص طور پر تشریف لائے اور مضامین پڑھے۔ ایک مضمون راقم نے بھی پڑھا۔ میں نے بعد میں اس تقریب کی رپورٹ الفضل کو بھجوا دی جسے جناب نسیم سیفی صاحب نے کمال شفقت سے شائع فرما دیا۔

مصنف کی یہ پہلی تصنیف تھی لیکن اس تقریب میں ہی اہلِ نظر نے کہہ دیا تھا کہ مسافر کا یہ شوق مزید صحرانوردی کروائے گا اور واقعی صحرانورد کا یہ سفر بڑی ہمت اور استقامت سے جاری رہا اور چند ہی سالوں میں ان کی سات کتابیں منظرِعام پر آگئیں۔ بذریعہ ٹیلی فون ہمارا بھی ان سے مسلسل رابطہ رہا تاآنکہ ایک دن انہوں نے اطلاع دی کہ ان کی تازہ کتاب ’’قریۂ جاوداں ‘‘ طبع ہوئی ہے جو ربوہ کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ میں نے خوشی کا اظہار کیا اور مبارکباد عرض کی۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ربوہ سے کتاب منگوائی جائے کہ ایک روز موصوف کا فون آگیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ربوہ سے لاہور جا رہے ہیں اور شیخوپورہ میں رکیں گے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کا منتظر رہوں گا۔ شہر میں سڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے رستے بڑے دشوارگزار تھے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور شام سے قبل میرے ہاں پہنچ گئے۔ پرانی یادیں تازہ ہوئیں اور مجلس بڑی روح پرور رہی۔ اسی ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے یہ کتاب عنایت فرمائی جسے میں نے بڑے انہماک سے پڑھا ہے۔

میرے لیے یہ کتاب اس لیے بھی دلچسپی کا باعث تھی کہ میرا ربوہ سے رابطہ ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں ہوا تھا۔ والدِ بزرگوار مجھے انصاراللہ کے ایک اجتماع میں اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اور میں نے اپنی ہوش میں ربوہ پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ اس وقت بھی ربوہ میں سڑکیں کچی تھیں اور ٹینکر سے پانی کا چھڑکائو کرکے گردوغبار بٹھانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ذہن میں اکثر و بیشتر کئی سوال اٹھتے رہتے تھے کہ ربوہ کے ابتدائی ایام کے احوال کیا ہوں گے؟ اس بنجر، ویران اور بے آب و گیاہ زمین پر کس طرح بودوباش کا آغاز ہوا ہوگا؟ وہ کون سے باہمت، جفاکش اور درویش انسان تھے جو جان کو ہتھیلی پر رکھ کر زندگی کی تمام سہولیات سے محروم اس سرزمین پر آباد ہوگئے؟ ان کے شب و روز کیسے ہوں گے؟ اور اولوالعزم مصلحِ موعودؓ کس عزم اور حوصلے کے ساتھ قادیان کی یادوں کو سینہ سے لگائے اس وادیٔ غیرذی زرع میں خیمہ زن ہوئے ہوں گے؟ یہ سوالات ہمیشہ ہی میرے تصوّر میں ابھرتے رہے اور میں ان کے خودساختہ جوابات سے اپنے ذہن و قلب کو سہلاتا رہا تاہم کبھی کبھار ربوہ کے کسی بزرگ باسی سے ملاقات کا موقع ملتا تو ان سے ربوہ کے ابتدائی حالات کی کچھ کچھ آگاہی ہوجاتی لیکن چند جزوی باتوں سے قلب و نظر کی تسلی کہاں ہوتی؟

یہ کتاب دیکھ کر مجھے اس لیے بھی خوشی ہوئی کہ اس میں بالکل اسی دور کے تفصیلی حالات و واقعات بیان ہوئے تھے جسے ہم نے بچشمِ خود نہیں دیکھا تھا اور جس دور کے حالات کا ہمیں تجسس تھا۔ یہ درحقیقت مشہور اور جری لوگوں کی داستانِ عشق و وفا تھی جو تمام دنیا کو تج کر اس وادیٔ غیر ذی زرع میں صرف خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر دُھونی رما بیٹھے تھے۔

اس دور کا ایک واقعہ ہمارے ایک عزیز دوست سید حمید احمد شاہ (جو اَب کینیڈا میں جا بسے ہیں ) سناتے تھے جس سے ہم اس دَور کی بے بسی اور بے کسی کا کسی قدر اندازہ لگایا کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ جب انہوں نے بی اے کا امتحان دینا تھا وہ ایک شام گھر میں لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا عزیزاحمد صاحبؓ تشریف لے آئیں اور میری والدہ سے میرے بارے میں دریافت فرمانے لگیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لیٹا ہوا ہے تو کہنے لگیں یہ وقت تو پڑھنے کا ہے، وہ لیٹا کیوں ہوا ہے؟ والدہ نے جواباً کہا کہ گھر میں کوئی میز کرسی نہیں ہے اور وہ زیادہ دیر تک نیچے بیٹھ نہیں سکتا لہٰذا لیٹ گیا ہے۔ یہ سن کر وہ خاموش ہوگئیں لیکن دوسرے ہی دن انہوں نے پندرہ روپے کی رقم بھجوا دی اور کہا کہ اس سے حمید کو میز کرسی خرید دو اور اُسے کہنا کہ انہیں اب لیٹنا نہیں، پڑھنا ہے۔

مندرجہ بالا واقعہ سے ہم اس دور کی عمومی بے بسی، بےکسی اور کس مپرسی کا تخیلاتی اندازہ لگایا کرتے تھے تاہم ’’قریۂ جاوداں ‘‘کے مصنف نے ان تمام حالات و واقعات کی تفصیلی رُوداد کھول کر بیان کردی ہے کہ کس طرح لوگ بغیر بجلی، پانی، گیس اور دیگر سہولتوں کے وہ شب و روز گزار رہے تھے اور حقیقتاً اس بے آب و گیاہ سرزمین پر ایڑیاں رگڑ رہے تھے لیکن اس یقین سے پُر تھے کہ ’’چشمہ یہیں سے نکلے گا‘‘اور پھر

زمانہ اسی طرح چلتا رہا

دئیے سے دیا یونہی جلتا رہا

مصنف نے کمال محنت سے ماضی کی یادوں کو سمیٹا ہے۔ جہاں مصنف کے مشاہدہ کی گہرائی اور گیرائی کی داد دینا پڑتی ہے وہاں ان کی یادداشت نے بھی کمال وفاداری سے ان کا ساتھ دیا ہے۔ مصنف نے کھوئے ہوئوں کی تلاش میں عزم و استقلال سے اپنے سفر کو جاری رکھا اور اس جہدِمسلسل میں وہ اس راہ کے منفرد سالک قراردیے جا سکتے ہیں جنہوں نے شعور اور لاشعور کے کئی دریچے وا کر دیے ہیں اور ان دریچوں میں بے شمار ملکوتی ہستیاں متبسّم پھول برساتی دکھائی دیتی ہیں اور دعوتِ عمل دیتے ہوئے پکار پکار کے کہہ رہی ہیں کہ

قدم قدم پہ ذرا کوئی جاں کو ہارے تو

ہماری طرح کوئی زندگی گزارے تو

ماضی کی حسیں یادوں میں کھوئے رہنا اور اپنے اوپر غم کی کیفیت طاری کرلینے کو علمِ نفسیات والے ناسٹلجیا(Nostalgia) کی اصطلاح سے یاد کرتے ہیں جس کا تعلق یونان کی شکست کے وقت ان کے فوجی قیدیوں کا گھر اور حسین ماضی کو یاد کر کے آنسو بہانے سے ہے لیکن مصنف نے جس ماضی کو کریدا ہے ان یادوں کا اس قسم کے ناسٹلجیا سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ ماضی کی ان یادوں میں آنسو بہانا نہیں ہے بلکہ یہ غم و الم کی کیفیت آپ کے حوصلوں کو جوان اور ارادوں کو مضبوط کر کے آپ کو میدانِ عمل میں اتارتی دکھائی دیتی ہے اور آپ کے عزم و ہمت اور استقلال کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے۔ غالباً اسی لیے شاعر نے کہا تھا کہ

تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

فاضل مصنف نے ان داغہائے سینہ کو انشراحِ صدر سے کھول کر بیان کر دیا ہے اور ان کو قصۂ پارینہ نہیں بننے دیا بلکہ یہ تو عزم و استقلال اور تہوّر کی ایک ایسی لازوال داستان ہے جو کہکشاں کی طرح اُفق در اُفق پھیلتی چلی گئی ہے اور ہمیشہ عزم و جوانمردی کے آسماں پر جگمگ جگمگ کرتی رہے گی اور شبِ تاریک میں اجالا ڈھونڈنے والوں کو پیغام دیتی رہے گی کہ

چراغ جلتے نہیں ہیں جلائے جاتے ہیں

مصنف نے کتاب ہذا کو خوبصورت ابواب میں تقسیم کیا ہے اور بیان کردہ تمام معلومات کی ثقاہت کو ذاتی رابطوں، ملاقاتوں نیز ٹیلی فونک رابطوں سے لے کر تمام جدید ترقی وسائل کی مدد سے پرکھ کر بیان کیا ہے۔ مصنف کی یہ محنتِ شاقہ قابلِ صد تحسین ہے۔

مصنف نے ربوہ کی ابتدائی زندگی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ اگرچہ تمام بنیادی سہولیات سے یکسر محروم تھا تاہم وہاں خلوص و محبت، صبر و قناعت، ایثار و قربانی اور ایمان و عرفان کی چاندنی چٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پھر اولوالعزم مصلح موعودؓ کی ہم رکابی ان کے لیے تسکینِ قلب کا سب سے بڑا ذریعہ تھا گویا

شبِ وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا

بغل میں صنم تھا، خدا مہرباں تھا

اور اسی لیے وہ دنیاومافیہا سے بے خبر اپنے مقصدِحیات کی طرف کشاں کشاں رواں دواں تھے۔

مصنف نے خلفائے احمدیت کی محبت و شفقت اور عوام سے بے تکلفی کے واقعات سے بھی کتاب کو مزین کیا ہے۔

ایک سائیکل ریس کا ذکر ہے جس میں حضرت مصلحِ موعودؓ تشریف فرما ہوئے اور اول آنے والے خادم بشارت اللہ سے فرمایا کہ’’آپ تو سائیکل اللہ معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘

ایک اور واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ خلفائے کرام کا افراد جماعت کے ساتھ کیسا بے تکلفانہ تعلق ہوتا ہے۔

مصنف کی ابتدائی معلمہ مسماۃ مومنہ صاحبہ تھیں۔ ان کی پیدائش پر حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا نام تجویز فرمایا تو ان کی والدہ فضل بی بی صاحبہ نے کہا کہ کیا اس کا کوئی اور نام تجویز نہیں ہو سکتا۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا: ’’تو پھر کافرہ رکھ لو‘‘اور اس طرح ان کا نام مومنہ ہی رکھا گیا اور پھر اسی کی برکت تھی کہ مومنہ نے مصنف جیسے قلم کار کو پکّی جماعت میں قلم پکڑنا سکھایا اور علم کی شاہراہ پر گامزن کیا۔

فاضل مصنف نے کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کر کے کوئی پچپن ذیلی عنوانات کو مختلف شعراء کے مصرعوں اور اشعار سے مزین کیا ہے جس سے ان کا ذوقِ سلیم مترشّح ہوتا ہے۔ ان ذیلی عنوانات کے تحت مصنف نے ربوہ کی زندگی کے سماجی، معاشرتی، مذہبی، انفرادی اور اجتماعی پہلوئوں کا نہ صرف احاطہ کیا ہے بلکہ ان کی چلتی پھرتی، جیتی جاگتی اور متحرک تصاویر دکھا دی ہیں۔ اس طرح کتاب میں تجسیم کاری اور محاکات نگاری کے اعلیٰ نمونے نظر آتے ہیں۔

’’قریۂ جاوداں ‘‘نے بزرگان، مربیان، سکول کے اساتذہ، کالج کے پروفیسرز، طلباء، تجار، دکاندار، پیشہ ور حکیم، ڈاکٹر، سنیاسی، مریض، عاقل، غیر عاقل، دودھ بیچنے والی خواتین، گھروں کی ملازمات، غرض ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی زندہ اور متحرک تصاویر پیش کر دی ہیں۔ اسی طرح ’’قریۂ جاوداں ‘‘میں ہرقسم کی تقریبات یعنی جلسہ سالانہ، تنظیمی اجتماعات، مذہبی تقریبات، دروس القرآن، نکاح، شادی اور جنازہ جات کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ مصنف کی عقابی نگاہ نے گلی محلوں میں پتلی تماشا اور کرتب دکھانے والوں کو بھی تلاش کرکے کتاب کی جامعیت اور ثقاہت پر مہر ثبت کر دی ہے اور کمال یہ ہے کہ ان تفصیلات کے باوجود انہوں نے تحریر کی چاشنی اور روانی کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ شخصیات کے تعارف میں ان کے قلم نے یادوں کے پانیوں میں جس روانی سے سفر کیا ہے مرزا غالب یاد آگئے۔ معذرت کے ساتھ؎

رَو میں ہے رخشِ ’’قلم‘‘کہاں دیکھئے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہر شخصیت کو گلی محلوں، گھر اور دفاتر میں کام کرتے اور محوِکلام ہوتے ہوئے دکھادیتے ہیں اور قاری اس شخصیت کے سحر میں گم ہو کر پکار اٹھتا ہے کہ

برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو

آج ایسا لگا یہیں کہیں ہو

مصنف نے جگہ جگہ طنز و مزاح کے نشتر بھی اس خوبی سے چلائے ہیں کہ قاری مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے اور جب اس کے ہواس بجا ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ پر ہنس رہا ہوتا ہے۔ بطور نمونہ پشاور کے ہوٹل کے واقعے کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جس ریستوران سے کھانا کھاتے تھے اس کا کھانا اچھا تھا اور بِل بھی وسائل کے مطابق تھا لیکن ان کے اپنے الفاظ میں ایک دن ’’ہم پر انکشاف ہوا کہ اس کا کِچن انتہائی گندہ ہے اور آوارہ بلیاں ہر وقت برتنوں میں منہ مارتی رہتی ہیں۔ ہماری طبیعت بہت مکدّر ہوئی اور ہم نے وہاں کھانا چھوڑ کر ایک اور ہوٹل تلاش کرلیا تاہم احتیاطاً اب ہم نے کچن میں جھانکنا چھوڑ دیا تھا۔ ‘‘

شکر ہے مصنف نے بروقت بڑا دانشمندانہ فیصلہ کرلیا ورنہ ہوٹلوں سے کھانا کھانا ان کے لیے ناممکن ہوجاتا۔ اس واقعے سے ہمیں وہ ستم ظریف یاد آگیا جس نے جب یہ پڑھا کہ سگریٹ نوشی سے کینسر کا خطرہ ہے تووہ سخت پریشان ہوا اور اس نے اس طرح کی وارننگز ہی پڑھنا چھوڑد یں۔

اور اب سب سے اہم بات یہ کہ اس کتاب کے بارے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیز کا مبارک خط اور اظہارِ خوشنودی اس کتاب کے ماتھے کا جھومر ہے جس سے مصنف کی تمام تر محنت بارور ہوگئی ہے اور حقیقتاً اسے اپنی محنت کا صلہ مل گیا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس خط سے آپ کے جذبات ہجر و فراق کی کیفیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جس کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ ’’میری طبیعت کچھ ایسی ہے کہ ان کو قابو میں ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

بہرحال ہجر و فراق میں رنج و کرب کی یہ کیفیت تو سب کا مشترکہ اثاثہ ہے اور ہر احمدی کی قلبی کیفیت یہی ہے کہ

سفر تُو کردی وَ مَن در وطن غریب شدم

یعنی سفر تو آپ نے کیا ہے لیکن میں اپنے ہی وطن میں بےوطن ہوکر رہ گیا ہوں۔

آخر میں مصنف کے لیے مبارکبادی کی دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے قلم کو مزید جِلا بخشے اور ہر طرح حافظ و ناصر ہو۔ اسلاف کی یادوں کو زندہ رکھنا اور ان کی روایات کو قائم رکھنا ہم پر فرض اور قرض ہے کیونکہ یہی ہمارے لیے امرت اور یہی ہمارا اثاثہ ہے۔ مصنف نے اس فرض اور قرض کو بخوبی ادا کیا ہے اور اس امرت کی بطریقِ احسن حفاظت کی ہے جو کہ اخلاف کے لیے زندگی بخش یادگار ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button