امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ فلسطین کے مغربی کنارے اور غزہ کے احمدی مسلمانوں کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 12؍جون 2021ء کو فلسطین کے مغربی کنارے اور غزہ کی احمدیہ مسلم جماعت کے 70سے زائد ممبران کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضور انور نے اس ملاقات کی صدارت اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے فرمائی جبکہ احمدی احباب نے مغربی کنارہ کی مسجد دارالامن سے شرکت کی۔
مختصر تقاریر کے بعداحمدی مر دحضرات اور خواتین کو حضور انور سے چند سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔ حضور انور سے سوال ہوا کہ کیا یہ کسی احمدی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کی ظلم و تعدی کی وجہ سے یا معاشرے کی اکثریت کی وجہ سے، اپنے ایمان کے بارے میں خاموشی اختیار کرے۔
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا:بات یہ ہے کہ اگر خوف ہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا، خاص طور پر عورتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں اور ان کے دل میں ایمان ہے تو اس کو رکھیں اور نہ ظاہر کریں،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اگر مقابلہ کرنے کی ہمت ہے،جرأت ہے، مرد ہے تو پھر ظاہر کرنا چاہیے۔ صحابہ کی جو تعریف ملتی ہے ہمیں، اس میں یہی ہے کہ بعض صحابہ جوشروع میں ایمان لائے ان کو کہیں کسی دوسرے بڑے رئیس کی اور سردار کی پناہ مل گئی تو ان پہ ظلم نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا ہم آپ کی پناہ واپس کرتے ہیں اور ہم اسی طرح ان ظلموں کو برداشت کرنا چاہتے ہیں جس طرح ہمارے باقی بھائی برداشت کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو کہا کہ ٹھیک ہے اگر تم مقابلہ نہیں کرسکتے تو اپنے ایمان کو چھپا کے رکھو، دل میں رکھو، نہ ظاہر کرو ،حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ بہت سارے مسلمان تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد بھی مکہ میں رہے۔ وہ ایمان لے آئے ہوئے تھے اور انہوں نے ایمان چھپایا ہوا تھا۔ بعض ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جو کفار کے لشکر جنگوں کے لیے آتے تھے بعض ان میں شامل ہو کر آ گئے اور جب آگئے، دو آدمیوں کا ذکر ملتا ہے، پچھلے جمعہ میں جو خطبات صحابہ کا ذکر کر رہا ہوں ان میں بھی ذکر کیا تھا کہ ایک جنگ میں اسی طرح لشکر آیا۔ اس کے ساتھ دو اشخاص جنہوں نے اپنا ایمان چھپایا ہوا تھا وہ شامل ہو کر آ گئے۔ اور جب وہ اسلامی لشکر کے قریب پہنچ گئے تو کفار کے لشکر کو چھوڑ کر اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے اور بتایا کہ ہم نے نکلنے کابہانہ بنایا تھا اس طرح ہم ان کے ساتھ شامل ہو کے آ گئے ہیں تو انہوں نے اتناعرصہ اپنا ایمان چھپا کے رکھا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ نہیں کہا کہ کیوں چھپا کے رکھا بلکہ ان کو پناہ دی اور مسلمانوں میں شامل کر لیا۔ تو یہ واقعات تاریخ میں ملتے ہیں جو میں آج کل صحابہ کے واقعات بیان کر رہا ہوں اس میں بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ چند مہینے پہلے بھی میں نے ایک خطبہ میں ذکر کیا تھا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں اور خاص طور پر عورتیں جو ہیں وہ اگر سمجھتی ہیں کہ ان کا ایمان ظاہر ہونے سے ان پر تنگیاں وارد ہوں گی اور وہ برداشت نہیں کر سکیں گی تو ان کو چھپا کے رکھنا چاہیے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جب موقع ملے پھر اس کا اظہار بھی ہو جانا چاہیے۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ کیا ایک احمدی مسلم کو اجازت ہے کہ وہ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرے؟
حضورِ انور نے فرمایا: پہلی بات تو یہ ہے کہ احمدی اپنے ملک کا شہری بھی ہے اور وہ اپنے وطن کی سیاسی پارٹیوں میں داخل ہو سکتا ہے۔ جب وہ سیاسی پارٹی میں داخل ہو گا تو اس کی آواز اس ایوان تک بھی پہنچے گی، ان لوگوں تک بھی پہنچے گی جہاں پیچھے رہ کر وہ نہیں پہنچا سکتا اور اگر اس کا ان کی پالیسی بنانے میں کردار ہے تو وہاں ایسی پالیسی بنائے گا جو ملک کے لیے فائدہ مند ہو گی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کہ جب بھی تمہارے سے رائے مانگی جائے ایمانداری سے دواپنی ایماندارانہ رائے پیش کرے گا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوا جائے۔ احمدی دنیا میں کئی جگہ شامل ہوتے ہیں۔ جب ہندوستان پاکستان، sub-continent اکٹھا تھا اس وقت بھی ہمارے نمائندے سیاسی پارٹیوں میں شامل ہو کر پارلیمنٹ کے نمائندے بنتے تھے۔ پھر پاکستان میں جب تک احمدیوں کو غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا احمدی مرکزی پارلیمنٹ میں بھی اور صوبائی پارلیمنٹ میں بھی نمائندے نمائندے بنتے رہے۔ پھر یہاں دنیا کے اور بہت سارے ملک ہیں، افریقہ میں ہماری بڑی تعداد ہے، پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں،سیاستدان بھی شامل ہیں جماعت میں اور وہاں سے پارلیمنٹ کے ممبر بنتے ہیں، منسٹر وغیرہ بھی بنتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے جو کردار ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح یورپ وغیرہ میں بھی جہاں جہاں موقع ملتا ہے شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹی میں شامل ہوا جائے۔ نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جب ہم اس ملک کے ایک شہری ہیں تو اس ملک کا جو بھی نظام حکومت ہے اس میں ہمارا کردار ہونا چاہیے اور بہتر کردار ہونا چاہیے تا کہ ان کو پتہ لگے کہ ہم کس طرح ملک کی اور قوم کی ایماندارانہ طریقے پر بہتر رنگ میں خدمت کر سکتے ہیں۔ اور احمدی بھی بحیثیت وطن کے شہری ہونے کے ملک کے وفادار ہیں اور اس کی بہتری کے لیے ہر قسم کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک سوال مزاحمتی تحریکوں اور ایسے اداروں کے حوالہ سے ہوا جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں، کیا احمدی مسلمان ایسے گروپس میں شامل ہو سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا:باقی رہ گیا مزاحمتی تحریکیں۔ ایک تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ایسی تحریک جہاں توڑ پھوڑ، فتنہ اور فساد ہو اس سے بچیں۔ اگر ایک حکومت قائم ہے اور حکومت کی طرف سے کوئی پروٹسٹ ہوتا ہے تو اس میں ضرور احمدی کو شامل ہونا چاہیے کیونکہ وہ ایک حکومتی حکمت عملی ہے اور حکومتی پالیسی ہے، اس کے مطابق وہ کام کر رہے ہیں۔ اس میں جنگ بھی شامل ہوتی ہے اس میں حکومت کی فوج میں یا پولیس میں شامل ہو کر اگر لڑائی کرنی پڑے تو لڑائی کرنا بھی چاہیے جس طرح بہت سارے ملکوں میں احمدی فوج میں شامل ہیں اور اپنا کردار ادا کرتے ہیں، فوجی ہونے کی حیثیت سے ملک کی طرف سے لڑائی کرتے ہیں لیکن ایسی تحریکیں جن کو حکومت کا backup نہیں ، حکومت کی جو پالیسی ہے ان کی پالیسی کے خلاف ہے اور وہ تحریکیں صرف آزادی کے نام پہ اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں ایسی تحریکوں سے احمدیوں کو بچنا چاہیے۔ ایسی جماعتوں سے بچنا چاہیے۔ ہاں اگر حکومت کہے کہ ہاں اب قربانی کا وقت ہے ملک اور قوم کے لیے اور فوج میں شامل ہو اور حکومتی پالیسی کا ساتھ دو تو وہاں احمدی کو ضرور شامل ہونا چاہیے لیکن ہر پارٹی میں شامل ہونے سے تو فتنہ اور فساد پیدا ہوگا اور فتنہ و فساد بڑھے گا۔ اس لیے یہ تو جائزہ لینا ہو گا کہ جس پارٹی میں آپ شامل ہو رہے ہیں، جس گروپ میں آپ شامل ہو رہے ہیں اس کا حکومت کی نظر میں کیا کردار ہے۔ بعض دفعہ ایسی بھی تنظیمیں ہوتی ہیں جن کو حکومت کی پشت پناہی ہوتی ہے یا حکومت کی اشیر باد ہوتی ہے، حکومت ان کو سپورٹ کر رہی ہوتی ہے تو اس لحاظ سے تو ان میں شامل ہوا جا سکتا ہے لیکن وہاں بھی یہ دیکھنے والی بات ہے کہ کس حد تک اس سے فتنہ پیدا ہو رہا ہے اور اگر چوائس (choice)ہے کہ فتنہ سے بچا جائے تو پھر یہی ہے کہ احمدی کو تو فتنے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور نہیں بھی چوائس تب بھی کسی طرح حکمت سے اپنے آپ کوہر قسم کے فتنہ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
روحانیت اور ذاتی ترقی کے بارے میں ایک لجنہ کی ممبر نے حضور انور سے پوچھا کہ انسان کو کس طرح پتہ چلے کہ وہ ایک روحانی درجہ سے دوسرے درجہ میں داخل ہو گیا ہے؟
حضورِ انور نے فرمایا: بات یہ ہے کہ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ مسلسل کوشش میں لگا رہے اور یہ نہ دیکھے کہ اس کا درجہ کیا ہوا ہے اور اگلا درجہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کہاں ایک درجہ کی حد ختم ہوتی ہے اور دوسرا درجہ شروع ہوتا ہے۔ اس لیے مومن کے لیے یہی ہے کہ تم نے نیکیوں میں بڑھتے چلے جانا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتی جانا ہے۔ مسلسل اپنے نفس کو پاک کرنے کاجہاد کرنا ہے۔ جب انسان دیکھتا ہے کہ میرے اندر کوئی پاک تبدیلی پیدا ہو رہی ہے میرا خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہو رہا ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں اس سے کوئی اگلا درجہ حاصل کروں، میں ولایت کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کی کوشش کروں، وہ یہ سوچتاہے کہ میں کس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کروں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اب مجھے پکڑا ہے یا میں نے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑا ہے وہ میں کبھی چھوڑ نہ سکوں۔ اس لیے یہ کہنا کہ یہ روحانی درجہ مجھے مل گیا، جہاں انسان کو یہ خیال آ جائے کہ میں ایک روحانی درجے پہ پہنچ گیا ہوں وہاں انسان کے ذہن میں تکبر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور تکبر جو ہے بہت بری چیز ہے۔ تکبر ہی ہے جس نے ابلیس کو اطاعت سے روکا تھا، بات ماننے سے روکا تھا۔ اس لیے انسان کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ میرا مقصد،میراکام صرف یہ ہے کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے احکامات پر عمل کرنا ہے اور اس کے بےشمار احکامات ہیں۔ ایک درجہ کا آپ کس طرح پتہ لگا سکتی ہیں، پہلے قرآن کریم سے تلاش کریں۔ قرآن کریم کے سات سو حکم ہیں یا بعض جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بارہ سو بھی فرمایا ہے۔ تو کیا آپ نے ان سات سو یا بارہ سو حکموں پہ عمل کر لیا؟ کیا ان کی تلاش کر لی ہے؟ جب ان حکموں کی تلاش کر لی ہے اور ان پہ عمل کر لیا تو پھر آپ اگلی بات کریں کہ ہاں اب میں کسی اَور طرف دیکھوں۔ پھر اللہ تعالیٰ خود وہ درجہ عطا فرماتا ہے، انسان کی کوششوں سے عطا نہیں ہوتا۔ اس لیے انسان کا کام، ایک مومن کا کام یہ ہے کہ عاجزی کے ساتھ، انکساری کے ساتھ مسلسل کوشش کرتا رہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کروں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کروں اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کروں اور اس کے لیے جو بھی میری کوشش ہے میں کرتا چلا جاؤں۔ یہی چیز ہے جو اگر انسان کے دل میں رہے گی تو روحانیت کی ترقی ہوتی چلی جائے گی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا پیمانہ رکھا ہوا ہے کہ کہاں، کونسا step ہے جہاں تم پہنچے ہو اور کون سا اگلا step ہے۔ انسان خود judgeنہیں کر سکتا کہ میں کون سے روحانی مقام پہ پہنچ گیا ہوں۔ ایک متقی کا کام یہ ہے کہ تقویٰ پہ چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کرنے کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے اور یہی ہمارا کام ہے اور اس کے لیے ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے اور یہ ایک مسلسل کوشش ہے مسلسل جہاد ہے اور یہی جہاد ہے جو انسان کے نفس کو پھر اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ خود انسان کو بتا دیتا ہے کہ میرے نزدیک تمہاری کیا حیثیت ہے۔
دورانِ ملاقات ایک جذباتی کیفیت اس وقت پیداہوئی جب حضورِ انور سے سوال پوچھا گیا کہ جماعت احمدیہ کے افریقن ممبران سے کونسی بات سیکھی جا سکتی ہے کہ جب بھی حضور انور ان سے ملتے ہیں تو آپ کو خاص خوشی ہوتی ہے۔
نہایت محبت اور پُر شفقت انداز سے حضور انور نے فرمایا:بات یہ ہے کہ مَیں تو ہر احمدی سے، ہر مخلص احمدی سے جب وہ اخلاص سے آتا ہے، ملتا ہے، بیٹھتا ہے اس کو دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں۔ میں تو آپ کو دیکھ کے بھی مسکرا رہا ہوں اور آپ کے لیے بھی میرے وہی جذبات ہیں جو افریقن کے لیےہیں۔ وہی جذبات میرے یوروپین کے لیے ہیں۔ ایک مخلص احمدی چاہے وہ یوروپین ہے، وہ چاہے افریقن ہے، چاہے ایشین ہے چاہے، عرب ہے یا ساؤتھ امریکہ کا ہے میرے لیے تو سب برابر ہیں اور ان کے چہروں سے محبت کے اظہار مجھے بھی مجبور کرتے ہیں کہ میں بھی ان سے اسی طرح محبت کروں، وہی اظہار کروں جو وہ کر رہے ہیں۔ تو اس میں کوئی فرق نہیں ہے نہ آپ افریقنوں سے کم ہیں نہ افریقن آپ سے کم ہیں نہ پاکستانی آپ سے زیادہ ہیں نہ افریقن کسی اور قوم سے کم یا زیادہ ہیں نہ یوروپین۔ جو بھی مخلص احمدی ہے اور خلافت کے ساتھ اس کا خاص تعلق ہے اس کو جب بھی میں ملتا ہوں، دیکھتا ہوں مسکراتا ہوں۔ میں تو ہر ایک جو بھی ہے چاہے وہ افریقن بچہ ہے، چاہے وہ یوروپین بچہ ہے، چاہے وہ ساؤتھ امریکن بچہ ہے، چاہے وہ پاکستانی بچہ ہے، چاہے نوجوان ہے، مرد ہے، عورت ہے ہر ایک کو دیکھ کے اس کے لیے میرے دل میں تو پیار کے جذبات ہی ہوتے ہیں اور میں ہمیشہ مسکراتا رہتا ہوں۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کو دیکھ کے میں نے کبھی ناراضگی کا اظہار کیا ہو۔ کبھی کیا؟ عرب بھی مجھے ملتے رہتے ہیں۔ کبھی میں نے ناراضگی کا اظہار کیا! آپ کو بھی دیکھ کے اسی طرح مسکراتا ہوں۔تو میرے دل میں تو ہر ایک سچے احمدی کے لیے پیار اور محبت کے جذبات ہیں۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ کیا ایک احمدی مسلمان کو کسی ایسے شخص سے دوستی رکھنی چاہیے جو جماعت کو چھوڑ چکا ہو مگر اس کی مخالفت نہ کرتا ہو؟
حضورِ انور نے فرمایا: ہاں کوئی حرج نہیں ہے۔ دین تو ہر ایک کا اپنے دل کا معاملہ ہے۔ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ کوئی جبر نہیں، کوئی زبردستی نہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جماعت اس کے نزدیک صحیح نہیں ہے اور وہ ایک وقت کے بعد چھوڑ دیتا ہے لیکن مخالفت نہیں کرتا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو برابھلا نہیں کہتا، ان کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ استعمال نہیں کرتا تو آپ پھر اس سے بے شک تعلق رکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا یہ تعلق کسی وقت اس کے لیے اصلاح کا باعث بن جائے اور وہ دوبارہ رجوع کر لے اور توبہ کر لے اور واپس آ جائے لیکن اگر اس کے ساتھ آپ فاصلہ ڈالتے رہیں گے اور آپ اس کے دوست ہیں تو پھر وہ اَوردور ہٹتا چلا جائے گا، ہو سکتا ہے زیادہ برائیوں میں مبتلا ہو جائے۔ تو دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ مخالفت نہیں کر رہا تو اس سے تعلق قائم رکھیں اور اگر مخالفت کر رہا ہے پھر بھی سلام علیک رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ہو سکتا ہے کسی وقت میں آپ اس کی اصلاح کا باعث بن سکیں۔
لجنہ کی ایک ممبر نے حضورِ انور سے راہنمائی طلب کی کہ کس طرح بچوں کو الیکٹرانک (سکرین ٹائمنگ ) سے روکا جائے یعنی فون اور ٹیبلیٹس سے۔
حضورِ انور نے فرمایا: بات یہ ہے کہ اب تو سائنسدان اور ڈاکٹر بھی یہ کہتے ہیں بچوں کی نظریں خراب ہوتی ہیں، ان کی سوچوں پہ اثر پڑتا ہے اس لیے بچوںکو چوبیس گھنٹے میں ایک گھنٹے سے زیادہ انٹرنیٹ اور گیموں پہ اور ٹی وی پہ نہیں بیٹھنے دینا چاہیے لیکن آج کل کیونکہ کورونا کی وجہ سے سکول بند ہو جاتے ہیں، پڑھائیاں بھی بند ہیں تو انٹرنیٹ پر آن لائن پڑھائیاں زیادہ ہو رہی ہیں لیکن بہرحال پھر بھی اس قسم کی گیمیں جو وقت ضائع کرنے والی ہیں اور پھر وقت ضائع کرنے والی ہی نہیں بلکہ پیسہ بھی ضائع کرنے والی ہیں۔ اس پہ آپ پیسے دے کے گیم کو خریدتے ہیں اور پھر جس طرح نشے کا عادی انسان ہو جاتا ہے اسی طرح گیموں کو کھیلنے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے، اس کے بغیر ان کا گزارہ ہی نہیں ہوتا۔ بچوں کی جو گیمز ہوتی ہیں ان کے دوران غلط قسم کی، جنسی بے راہ روی کی باتیں بھی اشتہار کے طور پر ڈال دیتے ہیں اور جب گیم کھیلتے کھیلتے وہ اشتہار سامنے آتے ہیں تو بچپن سے ہی بچوں کے دماغ ان گندی باتوں سے زہر آلود ہو رہے ہوتے ہیں اور بڑے ہو کے پھر وہ ایک اَ ور نہج پہ چل پڑتے ہیں۔ اس لیے ایک تو یہ ہے کہ ماں باپ کو یہ توجہ رکھنی چاہیے کہ بچے انٹرنیٹ پہ یا ٹی وی پہ جو بھی گیم کھیل رہے ہیں یا جو بھی پروگرام دیکھ رہے ہیں وہ کون سا ہے اور اس کی نگرانی رکھیں اور پھر یہ نگرانی رکھیں کہ ایک خاص وقت معین ہے، اس معین وقت کے علاوہ تم نے نہیں دیکھنا۔ ان کو بتائیں، ان کو سمجھائیں کہ تمہاری نظر خراب ہو جائے گی، تمہاری سوچوں پہ فرق پڑے گا اس لیے بہتر ہے کہ تم اس کی جگہ کتابیں پڑھو جو برین کی ڈویلپمنٹ کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اور اس کے علاوہ ان کے لیے متبادل پروگرام بنائیں، ان کے پاس بیٹھیں ان سے discussionکریں، ان سے باتیں کریں، اگر بہت ہی زیادہ زور دیتے ہیں تو پھر انٹرنیٹ پہ یا ٹی وی پہ ان کو اچھے پروگرام، دوسرے ایسے پروگرام دکھانے کی کوشش کریں جن سے ان کی علمی قابلیت بھی بڑھے اور روحانی لحاظ سے بھی وہ بہتر ہوں اور عقل کا معیار بھی بلند ہو۔
آخر پر حضور انور نے دعا کروائی جس سے یہ بابرکت پروگرام اختتام کو پہنچا۔
٭…٭…٭