حاصل مطالعہ

کیا بائیکاٹ (مقاطعہ) اسلامی طریق ہے؟

لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔ اِنَّمَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ قٰتَلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ اَخۡرَجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ وَ ظٰہَرُوۡا عَلٰۤی اِخۡرَاجِکُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡہُمۡ ۚ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ۔ (الممتحنہ:9تا10)

اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم اُن سے نیکی کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تمہیں محض اُن لوگوں کے بارہ میں منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم انہیں دوست بناؤ۔ اور جو اُنہیں دوست بنائے گا تو یہی ہیں وہ جو ظالم ہیں۔

1۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء، تمام ابنیاء کے تمام خلفاء، تمام انبیاء کے تمام صحابہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے کسی کافر سے بول چال بند کی ہو کیونکہ تمام انبیاء کافروں کو تبلیغ کرنے آئے تھے۔ اگر وہ کفار سے نہ بولتے اور کفار سے بائیکاٹ کرتے اور دوستی نہ لگاتے کفار سے نہ ملتے جلتے تو تبلیغ نہ کر سکتے اس طرح ان کے آنے کا مقصد ہی ختم ہوجاتا۔

2۔ سورۃ المائدہ کے پہلے رکوع آیت6میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کا پکا ہوا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور اہل کتاب میں سے پاک دامن عورتوں سے نکاح کرنا بھی تمہارے لیے حلال ہے۔ چنانچہ فرمایا:

اَلۡیَوۡمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ؕ وَ طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ ۪ وَ طَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ ۫ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ (المائدہ: 6)

اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ ایسی یہودی اور عیسائی عورتیں جن کے عقائد پہلے بیان ہوچکے ہیں اگروہ گندے کردار کی مالک نہ ہوں بلکہ پاک دامن ہوں تو ان سے مومن مردوں کی شادی اور رشتہ داری بھی جائزہے۔ جومسلمان اس آیت پر عمل کرتے ہیں۔مذکورہ بالا عقیدے رکھنے والی یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کرے گاتوظاہر ہے کہ وہ اس کافر بیوی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھائے گا، اسی سے کپڑے دھلوائے گا، اسی سے محبت اور پیار کے تعلقات قائم کرے گا، اس کے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے گا اور ان کے آنے پر حسب توفیق ان کی مہمان نوازی کرے گا۔ اپنی بیوی کے یہودی اور عیسائی رشتہ داروں کی خوشی غمی کے مواقع پر ان کے پاس جائے گا، اپنی خوشی غمی میں ان کو بلائے گا تو کافروں کے بارے میں یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ کیا خدا نے ان کے بائیکاٹ کا حکم دیا؟ یا انبیاء نے اپنے منکرین سے بائیکاٹ کیایا بائیکاٹ کی تعلیم دی؟

طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ

یہ جملہ بتاتا ہے کہ دنیاداری کے لحاظ سے کفار کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اور دوستی بہت اچھی ہونی چاہیے، اتنی اچھی کہ مسلمان کفار کے گھر جائیں، ان کی شادی بیاہ اور دعوتوں میں شریک ہوں اور کفار مسلمانوں کے گھروں میں آئیں، ان کی شادی بیاہ میں شریک ہوں اور دعوتوں میں شرکت کریں۔ جب ایسے تعلقات ہوں گے تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ جب مسلمان یہودیوں اور عیسائی کافروں کے پاس جائیں اور وہ چائے پانی اور کھانا وغیرہ پیش کریں تو ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے؟ فرمایا:

طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ

اگر مسلمانوں نے یہودیوں اور عیسائی کافروں کے ساتھ بولنا ہی نہیں، ان کے ساتھ دنیاوی تعلقات رکھنے ہی نہیں، ان کے گھروں میں ان کی شادی بیاہ اور دیگر دعوتوں میں جانا ہی نہیں تو پھر اس آیت کو قرآن میں نازل کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

جب مسلمانوں کی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ کافروں کے ساتھ دوستی ہو گی اور وہ کفار مسلمانوں کے دفتروں اور ان کے گھروں میں آئیں گے تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ کفار کے آنے پر انہیں چائے پانی اور کھانا وغیرہ کھلانا جائز ہے یا ناجائز؟ اس کے جواب میں فرمایا:

وَ طَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ

تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔

3۔ انبیاء سے بڑھ کر دین کےلیے کسی کو غیرت نہیں ہوتی۔ دینی معاملات میں ہمیں اپنی غیرت نبیوں کی غیرت کے نمونوں کے مطابق بنانی چاہیے۔ چنانچہ سورت الانعام آیت نمبر 91میں اللہ تعالیٰ نبیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰٮہُمُ اقۡتَدِہۡ(الانعام: 91)

ان کو اللہ نے ہدایت دی تھی پس تم ان کی دی ہوئی ہدایت اور ان کے نمونے کی پیروی کرو۔

پھر سورت یوسف کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَقَدۡ کَانَ فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ (يوسف: 112)

ان لوگوں کے ذکر میں عقل مندوں کے لیے ایک عبرت (کا نمونہ موجود)ہے۔

یہ اصول بیان کرکے قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دونوں نبی تھے۔ ان دونوں نبیوں کی بیویاں کافرتھیں:

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ۔

اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کىا نوح کى بىوى اور لوط کى بىوى کى مثال بىان کى ہے وہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کے ماتحت تھىں پس ان دونوں نے ان سے خىانت کى تو وہ اُن کو اللہ کى پکڑ سے ذرا بھى بچا نہ سکے اور کہا گىا کہ تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ آگ مىں داخل ہو جاؤ۔

(التحريم: 11)

مگر اس کے باوجود ان دونوں نے نہ تو اپنی بیویوں کو طلاق دی نہ گھر سے نکالا نہ ان سے بول چال بند کی نہ ان سے بائیکاٹ کیا نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ان نبیوں کو اپنی کافر بیویوں سے ایسا کرنے کی ہدایت کی۔ انہیں کے ہاتھ کاپکا ہوا کھانا وہ کھاتے تھے وہی کافر بیویاں نبیوں کا کھانا پکاتی تھیں برتن دھوتی تھیں نبیوں کے کپڑے دھوتی تھیں ان کے بستر بچھاتی تھیں۔

حضرت نوحؑ نبی تھے۔ ان کا اپنا بیٹا کافر تھا۔ کفر کی حالت میں حضرت نوحؑ نے اسے کہا:

وَ نَادٰی نُوۡحُ ۣ ابۡنَہٗ وَ کَانَ فِیۡ مَعۡزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارۡکَبۡ مَّعَنَا…۔

اور نوح نے اپنے بىٹے کو پکارا جبکہ وہ اىک علىحدہ جگہ مىں تھا اے مىرے بىٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا…۔

(هود: 43)

حضرت نوحؑ نے اپنے کافر بیٹے کو ساری عمرگھر سے نہ نکالا نہ بدسلوکی کی، بلکہ آخری دم تک طوفان کے وقت اسے بچانے کےلیے اپنی کشتی میں بیٹھنے کی دعوت دیتے رہے۔ اسی طرح اپنے رشتہ داروں کے بارے میں قرآن کریم نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔

4۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا مگر اس کے باوجود فرماتا ہے۔ ’’اگر تمہارے ماں باپ مشرک اور بت پرست ہوں اور اپنی بت پرستی میں اتنے کٹر ہوں کہ وہ اپنی پوری کوشش کریں کہ تم سے بھی شرک کروائیں تو شرک پرستی کے بارہ میں ان کی بات نہ ماننا،‘‘ بلکہ فرمایا کہ

وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا۔

اور اگر وہ دونوں (بھى) تجھ سے جھگڑا کرىں کہ تُو مىرا شرىک ٹھہرا جس کا تجھے کوئى علم نہىں تو ان دونوں کى اطاعت نہ کر، اور اُن دونوں کے ساتھ دنىا مىں دستور کے مطابق رفاقت جارى رکھ (لقمان: 16)یعنی دنیاد اری کے معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا۔

بقول شما، جو کہ ہرگز ہرگز درست نہیں !بالفرض احمدیوں کے عقائد کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں شرک اور بت پرستی سے یقینا ًکم تر ہیں۔ شرک اور بت پرستی کو خدا معاف نہیں کرے گا۔ اس سے نچلے درجے کے سب گناہوں کو خدا تعالیٰ جس کےلیے چاہے گا معاف کردے گا۔ (النساء: 49)اگر سب سے بڑا گناہ اور سب سے زیادہ برے عقیدے والے رشتہ داروں کے ساتھ یہ سلوک کرنا ہے تو اس سے نچلے درجہ کے غلط عقیدے رکھنے والے احمدی رشتہ داروں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہوگا۔

5۔ قریش مکہ نے تین سال تک رسول پاکﷺ، آپ کے گھر والوں اور آپ کے صحابہ کا بائیکاٹ کیا۔ نہ وہ آپ کے پاس جاتے تھے نہ آپ میں سے کسی کو اپنے پاس آنے دیتے تھے۔ رسول پاکﷺ نے ساری زندگی کسی ایک کافر کا بھی بائیکاٹ نہیں کیا۔

(طبری حوالہ بائیکاٹ شعب ابی طالب، ابن سعد و ابن ہشام )

-6ابو جہل نے مکہ کی گلیوں پر نوجواں ڈیوٹی پر مقرر کیے ہوئے تھے جو شہر میں داخل ہونے والے نئے آدمی کے ساتھ ہوجاتے تھے اور اسے کہتے تھے تم ہمارے شہر میں اجنبی ہو۔ شہر کے حالات سے واقف نہیں ہو۔ ہمارے شہر میں ایک آدمی ہے جس کا نام محمدﷺ ہے۔ اس کے پاس نہ جانا وہ تمہارا ایمان خراب کر دے گا۔ رسول کریمﷺ نے کبھی کسی صحابی کو یہ نہیں کہا کہ تم کفار کے پاس نہ جانا بلکہ آپؐ صحابہؓ کو حکم دیا کرتے تھے کہ تم لوگوں کو میری طرف سے میرا پیغام پہنچائو خواہ ایک آیت ہی پہنچائو۔ ’’بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً‘‘

(بخاری کتاب حدیث الانبیاء، بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ)

7۔ اللہ تعالیٰ سورۃالمائدہ کی آیت 6میں فرماتا ہےآج کے دن تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا (پاکیزہ) کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے جبکہ تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔ جبکہ سورۃ مریم آیت 89تا 92میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے رحمان کے لیے بیٹے کا دعویٰ کیا ہے:

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا۔ لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡئًا اِدًّا۔ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا (مريم: 89تا92)

اور وہ کہتے ہیں رحمان نے بیٹا اپنا لیا ہے۔ یقیناً تم ایک بہت بیہودہ بات بنا لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ لرزتے ہوئے گر پڑیں۔

بخاری میں لکھا ہے کہ جو شخص کسی کو خدا کا بیٹا مانتا ہے وہ خدا کو گالی دیتا ہے۔

(بخاری کتاب تفسیر القرآن باب و قالوا اتخذاللّٰہ ولدا )

عیسائی حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں ۔عیسیٰ کو خدا کا شریک مانتے ہیں ۔شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ باقی سب گناہوں کو معاف کر دے گا مشرک کو معاف نہیں کرتا سوائے اس کے کہ مشرک شرک سے توبہ کرے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا۔ (النساء: 49)

عیسائی قرآن کریم، رسول کریمؐ اور اسلام کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم ایسے عقیدے رکھنے والے عیسائیوں کا کھانا حلال قرار دیتا ہے۔ احمدی جن کے ایسے عقیدے ہیں بلکہ توحید کے قائل، اسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور قرآن کو سچا سمجھتے ہیں۔ اس کی روزانہ تلاوت کرتے ہیں، قرآن کریم حفظ کرتے ہیں اپنے بچوں کو قرآن کریم حفظ کرواتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کو سچا سمجھتے ہیں اورروزانہ آپ پر درود شریف بھیجتے ہیں۔ ان کا کھانا حلال ہوگا یا حرام؟

8۔ رسول پاک اور آپ کے صحابہؓ کفار کے ساتھ لین دین اور دنیاوی کاروبار کیا کرتے تھے۔ بلکہ جب رسول پاکﷺ فوت ہوئے اس وقت بھی آپ کی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی جس سے آپؐ نے جَو قرض لیے تھے۔

9۔ رسول پاکﷺ کے پاس یہودی عیسائی، مجوسی مشرک اور بت پرست افراد آیا کرتے تھے آپ ان کو مدینہ منورہ کے سب سے مقدس ترین مقام مسجد نبوی کے اندر بٹھایا کرتے تھے اور اپنے گھروں کے برتنوں میں اپنے گھر سے ان کافروں کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ جب کبھی آپ کے اپنے گھر میں مہمان نوازی کی گنجائش نہ ہوتی تو صحابہؓ کی ڈیوٹی لگایا کرتے تھے کہ ان کافر مہمانوں کی مہمان نوازی کا انتظام کیاجائے۔ ان کافر مہمانوں کو مسجد نبوی اوراس کے صحن کے اندر ٹھہراتے اور سلاتے تھے اپنے بستر انہیں مہیا کرتے بلکہ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار ایک یہودی مہمان رات کو آپؐ کے بستر میں پاخانہ کر گیا صبح ہونے پر آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کو دھویا اور صاف کیا۔

10۔ باوجود اس کے کہ یہودی اور عیسائی آنحضرتﷺ کو جھوٹا مانتے تھے، قرآن کریم کو جھوٹا سمجھتے تھے، توحید کو چھوڑ کر شرک کرتے تھے۔ آپؐ کے پاس آنے والے کافر مہمان مسجد نبوی کے اندر بیٹھ کر آپ کے ساتھ دینی مسائل پر گفتگو اور بحث کیا کرتے تھے۔ اپنے عقائد کے حق میں وہ دلائل دیتے تھے۔ اسلام کے خلاف وہ اپنے اعتراضات اور شکوک بیان کرتے تھے۔ آپ اپنے دلائل دیتے تھے اور ان کے اعتراضات کے جوابات ان کو سمجھاتے تھے۔ کفار کے اپنے عقائد کے حق میں دلائل بیان کرنے پر اور اسلام کے خلاف اپنے اعتراضات اور شبہات بیان کرنے پر رسول پاکﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے کبھی نہیں فرمایا کہ تمہاری باتیں سن کر ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اس لیے خبردار اپنے عقیدے کے حق میں کوئی بات نہ کرنا ہمارے عقیدے کے خلاف اپنا کوئی اعتراض اور شبہ بیان نہ کرنا۔ بلکہ قرآن کریم تو بار بار کفار کو مخاطب کرکے فرماتا ہے اگر تم سچے ہو تو اپنے عقائد کے حق میں کوئی دلیل بیان کرو۔ اگر کفار کے اپنے عقیدے کے حق میں دلائل بیان کرنے سے جذبات مجروح ہوتے اور دل آزاری ہوتی تو قرآن کریم بار بار انہیں اس بات کی اجازت نہ دیتا۔ ورنہ تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ اے کافرو !اگر تم سچے ہو تو اپنے عقیدے کے حق میں دلیل بیان کرو تا رسول پاکﷺ اور صحابہ کی دل آزاری ہو ان کے جذبات مجروح ہوں۔ نعوذ باللہ

قرآن کریم میں ہے کہ

قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ۔ (النمل: 65)

اے نبی کفار سے کہو کہ اگر تم اپنے عقائد کو سچا سمجھتے ہو تو ان کی سچائی کے دلائل بیان کرو۔

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ… (النحل: 126)

کفار کو اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت یعنی عقل اور خوبصورت نصیحت کے ذریعہ بلا اور کفار کے ساتھ بڑے خوبصورت طریق سے مباحثہ کر۔

اگر کفار کو اپنے عقائد کے حق میں دلائل پیش کرنے اور اسلامی عقائد کے خلاف اعتراضات پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے تو پھر

’’جَادِلۡہُمۡ‘‘

کفار سے مباحثہ کر، کا حکم بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ مباحثہ کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے حق میں دلائل دیں اور ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف اپنے دلائل اور اعتراضات بیان کریں۔

11۔ رسول پاکﷺ نے کبھی کسی یہودی، عیسائی، مجوسی، مشرک وغیرہ کو ان کے عقیدہ کے مطابق عبادت کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ایک بار نجران کی وادی سے عیسائی پادریوں کا ایک وفد مدینہ منورہ میں آیا اور کئی دن وہ مسجد نبوی کے اندر بیٹھ کر رسول پاکﷺ اور صحابہ کی موجودگی میں عیسائیت کے حق میں باتیں کرتے رہے اور رسول پاکﷺ ان سے دینی مسائل پر گفتگو کرتے رہے۔ ایک دن دوران گفتگو وہ مسجد سے اٹھ کر جانے لگے۔ آپؐ کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ہماری عبادت کا وقت ہوگیا ہے اس لیے ہم باہر جاکر عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:عبادت کےلیے مسجد سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ یہیں بیٹھ کر اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرلیں۔ چنانچہ وہ عیسائی پادری جو عیسیٰ علیہ السلام کو خدا اور خدا کا بیٹا مانتے تھے اور اپنے عقیدہ کے مطابق عیسیٰ کو خدا سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے انہوں نے مسجد نبوی کے اندر اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کی۔

(مرسلہ: رحمت اللہ بندیشہ۔ مربی سلسلہ جرمنی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button