کیا رسول کریم ﷺ کے مجازی ظہور کا مضمون ایک غیر اسلامی تصور ہے؟
اس تناظر میں عبد الکریم الجیلی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’الانسان الکامل ‘‘ کا حوالہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’آنحضرتﷺ کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہٖ آنحضر تﷺ کا ظہور تھا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 263)
اس عبارت اور اسی طرح کے مضامین پر مشتمل عبارات پر غیر احمدی علماء کی طرف سے طرح طرح کے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔کبھی کہاجاتا ہے کہ اس طرح مجازی ظہور غیراسلامی تصورہے۔کبھی اسے ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ اس طرح کا عقیدہ رکھنے سے (نعوذ باللہ ) دو محمد رسول اللہﷺ ماننے پڑتے ہیں ایک مکہ میں اور دوسرے قادیان میں۔ اس طرح کی باتیں کرکے عام مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام عبارات کو سیاق وسباق کے ساتھ پڑھا جائے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کردہ مضامین بہت آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔
رسول کریمﷺ کے مجازی ظہور کا ذکر اسلامی لٹریچر میں ملتا ہے۔کئی بزرگان سلف نے اپنی کتب میں اس کا ذکر کیا ہے۔عبدالکریم الجیلی آٹھویں صدی ہجری کے معروف مشاہیر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکے ساتھ والدہ کی طرف سے نسبی تعلق کی وجہ سے الجیلی کہلاتے تھے۔ طریقت میں سلسلۂ قادریہ سے منسلک تھے۔ اُن کی تصانیف میں سے بیس کے قریب معلوم و موجود ہیں جب کہ بیس کے قریب معدوم ہو چکی ہیں۔
تصوف میں الجیلی کی معروف تالیف ’’الانسان الکامل‘‘ ہے۔ انسان کامل کے مباحث عالم اسلام میں سب سے پہلے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے مرتب صورت میں پیش کیے اور ان کے بعد ہی انسان کامل کے مباحث نے اسلامی تصوف میں راہ پائی۔ ابن عربی کے شاگرد اور مرید و مفسر صدرالدین قونوی نے اپنی معروف تالیف مفتاح الغیب میں انسان کامل کے موضوع پر ایک الگ فصل کے تحت سیر حاصل بحث کی ہے۔
(اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ دانش گاہ پنجاب، لاہور، جلد12 صفحہ943،1393ھ،1973ء)
عبدالکریم الجیلی ’’انسان کامل ‘‘میں آنحضرتﷺ کا مختلف صورتوں میں ظہور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’اور اس امر کا بھید یہ ہے کہ آنحضرتﷺ ہر صورت میں متصور ہو سکتے ہیں۔پس ادیب جب اُس کو اُس صورت محمدیہ میں دیکھے کہ جس پر وہ اپنی زندگی میں تھا تو اس کا وہی نام رکھے گا اور جب اس کو کسی اَور صورت میں دیکھے اور یہ جان لے کہ وہ محمدﷺ ہیں تو اس کا نام وہی رکھے گا جو اس صورت کا نام ہے پھر یہ نام حقیقت محمدیہ کے واسطے ہوگا۔دیکھو رسول اللہﷺ جب شبلی رضی اللہ عنہ کی صورت میں ظاہر ہوئے تو شبلی نے اپنے شاگرد سے کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں اس بات کی میں اللہ کا رسول ہوں اور شاگرد بھی صاحب کشف تھا۔پس اس نے ان کو پہچان لیا اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ تُو بے شک اللہ کا رسول ہے اور یہ امر غیر معروف ہے۔اور ایسا ہے جیسے کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ فلاں شخص فلاں شخص کی صورت ہے اور کشف کا ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ بیداری میں بھی وہی ہو جو خواب ہوتا ہے۔اور خواب اور کشف میں یہ فرق ہے کہ وہ صورت جس میں محمدﷺخواب میں دکھائی دیتے ہیں اس صورت کا نام بیداری میں حقیقت محمدیہ پر واقع نہیں ہوسکتا کیونکہ عالم مثال میں تعبیر واقع ہوتی ہے۔پس حقیقت محمدیہ سے اس صورت کی حقیقت کی طرف بیداری میں تعبیر ہوسکتی ہے برخلاف کشف کے کہ جب تجھ کو حقیقت محمدیہ کا کشف ہوجائے اور یہ بات معلوم ہو جائے کہ وہ کسی آدمی کی صورت میں متجلی ہے تب تجھ کو اس صورت کا نام حقیقت محمدیہ پر واقع کرنا لازم ہے اور تجھ کو یہ بھی واجب ہے کہ اس صورت والے کا ایسا ادب کرے جیسے کہ محمدﷺ کا ادب چاہیے کیونکہ تجھ کو کشف نے یہ بات عطا کی کہ اس صورت میں محمدﷺ متصور ہیں پھر اس امر کے ظہور کے بعد اب تیرے واسطے یہ جائز نہیں ہے کہ تو اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرے جیسا کہ پہلے کرتا تھا۔اب شاید تجھ کو میرے اس قول سے مذہب تناسخ کا وہم گزرے حاشاء اللہ وحاشا رسول اللہﷺ۔میری مراد ہرگز اس سے یہ نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کو ہر صورت میں متصور ہونے کی قوت ہے۔یہاں تک کہ وہ اس صورت میں تجلی کرتی ہیں او ر آپ کی عادت ہمیشہ سے یہ جاری ہے کہ ان میں سے کسی اکمل کی صورت میں متصور ہوتے ہیں تاکہ ان کی شان بلند ہو جائے اور ان کی خواہش قائم ہوجائے پس وہ لوگ ظاہر میں آنحضرتﷺ کے خلفاء ہیں اور باطن میں آپ ان کی حقیقت ہیں۔‘‘
(الانسان الکامل مصنفہ سیّد عبدالکریم بن ابراہیم جیلانی۔ ترجمہ مولوی ظہیر احمد السہوانی،حصہ دوم،باب 60،صفحہ104،مطبوعہ فیض بخش سٹیم پریس فیروز پور شہر 1908ء)
اس عبارت میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کی حقیقت کے حوالے سے جب انکشاف ہوجائے کہ وہ فلاں شخص کی صورت ظاہر ہوئی ہے تو اس شخص کا اسی طرح ادب کرنا چاہیے جس طرح رسول کریمﷺ کا کیا جاتا ہے۔ غیر احمدی علماء کو ان بزرگان کی عبارات میں کوئی قابل اعتراض چیز نظر نہیں آتی۔’’الانسان الکامل‘‘کے اس حوالے میں شبلی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے مرید کو اپنے نام کا کلمہ پڑھنے کا کہا۔ اصل حوالہ یہ ہے :
’’ایک مرتبہ کوئی شخص شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں بیعت کی نیت سے آیا ہوں اگر آپ قبول فرمائیں۔فرمایا :مجھے منظور ہے۔لیکن جو کچھ میں کہوں گا۔اس پر عمل کرنا ہوگا۔عرض کی بسروچشم۔پوچھا :کلمہ کس طرح پڑھتے ہو؟عرض کی :
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہ۔
خواجہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :نہیں۔اس طرح کہو:
لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ شِبلی رَسُولُ اللّٰہِ۔
مرید درست اعتقاد تھا اس نے فوراً اسی طرح کہہ دیا۔‘‘
(مفتاح العاشقین صفحہ نمبر 6ملفوظات حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی، ہشت بہشت صفحہ 636شبیر برادرز اردو بازار لاہور )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی اپنے مرید کو اپنے نام کا کلمہ نہیں پڑھایا پھر بھی غیر احمدی علماء یہ الزام لگاتے ہیں کہ احمدیوں نے اپنا الگ کلمہ بنایا ہوا ہے۔’’الانسان الکامل‘‘آنحضرتﷺ کا مختلف افراد کی صورت میں ظہور اوران کا رسول کریمﷺ جیسا ادب کرنا تو قابل اعتراض نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد عطا ہونے کی وجہ سے آنحضرتﷺ کے مجازی اور بروزی ظہور کا ذکر فرمایا تو اس میں ان غیر احمدی علماء کو اعتراض نظرآتا ہے۔اور اسے ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہیں۔
(مرسلہ:ابن قدسی)