امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ سوئٹزرلینڈ کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 19؍جون 2021ء کو مجلس انصار اللہ سوئٹزرلینڈ کے ممبران عاملہ کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضور انور نے اس میٹنگ کی صدارت اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے فرمائی جبکہ ممبران مجلس عاملہ مجلس انصار اللہ نے بیت النور Wigoltingen سے شرکت کی۔
دعا کے ساتھ اس ملاقات کا آغاز کرنے کے بعد حضور انور نے مجلس عاملہ کے ہر ممبر سے انفرادی طور پر ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کے بارے میں دریافت فرمایا۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے شعبہ کی مساعی کی رپورٹ پیش کرکے حضورانور سے راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
میٹنگ کے دوران حضور انور ا یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس انصار اللہ سوئٹزرلینڈ کو جماعت کے نوجوانوں کی اخلاقی اور مذہبی تربیت کے لیے پروگرام ترتیب دینے اور اپنامثالی نمونہ پیش کرنے پر زور دیا۔
حضور انو ر نے فرمایا کہ اپنے گھروں کی، اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں۔ خدام اور اطفال کی تربیت کرنا انصار کا کام ہے۔ اور جب تک ان کے اپنے نمونے قائم نہیں ہوں گے وہ بچوں کی تربیت کیا کریں گے، نوجوانوں کی اور بچوں کی کیا تربیت کریں گے۔ اس لیے یہ دیکھیں کہ انصار صرف خود ہی نہ نمازیں پڑھنے والے ہوں اور خود ہی نہ قرآن پڑھنے والے ہوں بلکہ ان کے گھروں میں ان کی بیویاں بھی، بیٹیاں بھی، بیٹے بھی، بچے بھی نمازیں پڑھنے والے ہوں، قرآن پڑھنے والے ہوں۔ تربیت کا ایسا پلان ہونا چاہیے۔ یہی تو اصل کوشش ہے اگلی نسل کو سنبھالنا۔ خود تو سنبھالے گئے، خود تو پڑھ لیا، قرآن پڑھ لیا، نماز پڑھ لی اور چلے گئے اگلے جہان میں۔ تو پیچھے جو نسل چھوڑ کے جا رہے ہیں ان کو بھی تو اس نہج پہ چلنا چاہیے۔ ایک ناصر کو صرف اپنی فکر نہیں کرنی چاہیے، اپنی نسل کی فکر بھی کرنی چاہیے۔
حضورِ انور نے مجلس انصار اللہ کو جسمانی طور پر مزید فعال ہو نے کی طرف توجہ دلائی اور انہیں پیدل چلنےاور سائیکل چلانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس سے ان کی ذہنی قوت اور صلاحیتوں پر مثبت اثر پڑے گا اور انہیں بہتر رنگ میں جماعت احمدیہ کی خدمت کی توفیق ملے گی۔
حضورِ انور نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پا ئے جانے والے تعصّب کے بارے میں فرمایا کہ ایسے حالات میں احمدی مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی تبلیغی کاوشیں اَور تیز کردیں اور اسلام کی پُر امن تعلیمات کا خوب پرچار کریں۔
حضور انور نے فرمایا کہ تبلیغ کی طرف بھی توجہ دیں۔ جتنی زیادہ مخالفت ہے تبلیغ اتنی زیادہ ہونی چاہیے۔ اسلام کے خلاف جو یہاں (منفی)خیالات پائے جاتے ہیں اس کا جواب صحیح تو یہی ہے کہ تبلیغ اتنی زیادہ کی جائے۔
حضورِ انور نے 2009ء میں سوئٹزرلینڈ میں پاس ہونے والے ایک قانون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں مناروں کی تعمیر پر پابندی لگائی گئی ہے اور اس سال کے شروع میں سوئس پبلک نے پبلک مقامات پر پردے کی پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس حوالے سےمجلس عاملہ کے ایک ممبر نے اپنے خیال کا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ بنانے کی خاطر اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں۔
اس پرحضور انور نے فرمایا:
تو اس کا مطلب ہے کہ پولیٹیکل پارٹی نے لوگوں کی psycheکو دیکھ کے ایجنڈا بنایا۔ اس کا مطلب ہے کہ عام پبلک میں اس قسم کی tendencyہے یااسلام کے خلاف کچھ نہ کچھ (تحفظات) ہیں جن کی وجہ سے پولیٹیکل پارٹیز بھی اپنے انٹرسٹ (interest)کو حاصل کرنے کے لیےایجنڈا بناتی ہیں۔
کسی مسلمان کے اپنے عقائد کے اظہار پر سوئٹزرلینڈ میں قانونی پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر وہاںhuman rights یا religious rights، freedom of religionتو نہ ہوا۔ ایک طرف سوئٹزر لینڈ کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم بالکل آزاد ہیں اور ہم کسی انفلوئنس میں نہیں آتے دوسری طرف جو freedom of religion ہے اور freedom of expression ہےfreedom of portrait of their belief ہے وہ کوئی نہیں ہے۔
حضورِ انور نے مکرم خادم حسین وڑائچ صاحب سے گفتگو فرمائی جن کے بیٹے مکرم عبد الوحید وڑائچ صاحب اس سال کے شروع میں ایک حادثہ میں ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے بعد واپسی پر وفات پا گئےتھے۔ مرحوم نے یہ مشن اپنے ذمہ لیا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کا جھنڈا دنیا کی سب اونچی چوٹیوں پر لہرائیں گے۔
تعزیتی کلمات اور دعاؤں کے بعد حضور انور نے فرمایا:
بڑا افسوس ہوا ہے آپ کے بیٹے کی وفات کا۔ اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرے اور ان شاء اللہ کسی وقت اس کا جنازہ بھی پڑھا دوں گا۔ بہرحال وہ ایک مقصد کے لیے گیا تھا اور وہ ہمیشہ مقصد پورا کرتا رہا، اس لحاظ سے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی شہادت ہی ہےکیونکہ اس کاایک نیک مقصد تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اس کا اجر دے۔ جہاں اپنے لحاظ سے جو اس نے سوچا وہاں اسلام کا پیغام، احمدیت کا پیغام پہنچایا اور جھنڈا بھی گاڑا۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ کم از کم چوٹیوں پر، بلندیوں پر تکبیر، اذان بھی دے دیتے ہوں گے یا کم از کم نماز ہی پڑھ کے اس جگہ پر اللہ کا پیغام تو پہنچا ہی دیا ہوگا ۔ بہرحال ان کی ایک بامقصد زندگی تھی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنی جان قربان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔
اس ملاقات کے اختتام پر حضورِ انور نے فرمایا کہ مختلف شعبہ جات کے ٹارگٹس مقرر کرتے ہوئے ممبران عاملہ کو حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے مگر بلند نظر بھی ہونا ضروری ہے۔ حضور انور نے سوئس انصار کو خاص تاکید فرمائی کہ اسلام کی پُر امن تعلیمات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے بھرپور سکیم بنائیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ اَور کچھ نہیں تو کم از کم جماعت کا، اسلام کا تعارف اس طرح لوگوں میں کروائیں کہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق جو reservationsہیں وہ دور ہو جائیں۔ بہترین پیغام لوگوں کو پہنچے، ان کو سمجھ آ جائے کہ اسلام حقیقت میں کیا چیز ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی ہر آبادی تک جماعتی طور پر تو پہنچتا ہی ہے، انصار اللہ کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی سکیم بنائیں کہ ہر شخص تک اسلام کا ایک تعارف، مختصر تعارف امن اور محبت اور پیار کے حوالے سے پہنچ جائے۔ ٹھیک ہے! بیعتیں ہونا اور کسی کو قبول کرنے کی توفیق دینا یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن ہمارا کام پیغام پہنچا دیناہے۔ اور اس کے لیے یہ دیکھیں کہ اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس لیے تم مسلمان ہو جاؤ، مسیح موعود آ گئے اور ان کو مان لو یہ ٹھیک ہے، ایک علیحدہ بات ہے لیکن اس سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت لوگوں کی نفسیات کیا ہے۔ ان کو کس قسم کا لٹریچر چاہیے، اسلام کے متعلق جو ان کے تحفظات ہیں ان کو کس طرح ہم دور کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے انصار اللہ کو بھی چاہیے کہ جماعت کے ساتھ بھی مل کے کوشش کریں اور لٹریچر بنائیں اور پھر تقسیم کریں اور سوئٹزرلینڈ کی آبادی کا ہر شہر جو ہے،کم از کم اس کی پچاس فیصد آبادی تک یہ تعارف حاصل ہو جائے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے۔ امن، پیار اور محبت کی تعلیم ہے اور میڈیا میں جو لوگ تم دیکھتے ہو، سنتے ہو وہ غلط ہے۔
٭…٭…٭