تنزانیہ کے ریجن گئیٹا (Geita) میں مسجد بیت الٰہی کا افتتاح
محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ تنزانیہ کو ترقیاتی کاموں کی توفیق حاصل ہورہی ہے۔ ملک کے شمال مغرب میں واقع گئیٹا (Geita) ریجن کے اکثر لوگ عیسائیت یا دیگر مقامی مذاہب کے پیروکار ہیں۔ اس ریجن کے صدر مقام گئیٹا شہر سے تقریباً 60 کلو میٹر کے فاصلہ پر Kagaye نامی گاؤں میں جماعت احمدیہ کا پودا 2019ء میں لگا اور اب 400 سے زائد نفوس اس جماعت کا حصہ ہیں۔ الحمد للہ۔ یہ نومبائعین نہایت تیزی کے ساتھ نظامِ جماعت کے ساتھ تعلق میں بڑھ رہے ہیں۔ امسال جماعت احمدیہ تنزانیہ کو اس گاؤں میں مسجد کی تعمیر کی توفیق ملی۔ الحمد للہ علیٰ ذلک۔
مکرم احتشام لطیف صاحب (ریجنل مبلغ) لکھتے ہیں:Kageyeگاؤں کے افراد مسجد کی تعمیر سے قبل کبھی کھلے میدا ن میں اور کبھی کچی اینٹوں سے بنے ایک ہال میں نماز ادا کرتے تھے۔ یہ ہال گاؤں کے لوگوں نے روئی اکٹھی کرنے کے لیے بنایا تھا۔ جماعت کے افراد گاؤں بھر میں اپنی نیک نامی کی وجہ سے یہیں باجماعت نمازیں ادا کرتے اور اسی عارضی سینٹر پر بچوں کی تربیتی کلاسز کا بھی اہتمام کیا جاتا۔ ایک عرصہ سے نماز باجماعت اور دیگر اجتماعی پروگراموں کے لیے مسجد کی تعمیر کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی جس کے لیے اس جماعت کے نومبائعین نے بہت دعائیں کیں۔ مکرم طاہر محمود چوہدری صاحب (امیر و مشنری انچارج تنزانیہ) نے ماہ جنوری میں اس گاؤں میں مسجد کی تعمیر کی اجازت دیاور مسجد کے لیے نہایت مناسب پلاٹ خرید لیا گیا۔
مسجد کی تعمیر میں نومبائعین مرد، خواتین اور بچوں نے وقارِ عمل کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ گاؤں Lake Victoria کے کنارے پر واقع ہے اور اس کی طرف جانے والا راستہ پگ ڈنڈی ہونے کی وجہ سے بڑے ٹرک نہیں گزر سکتے۔ اس لیے مسجد کی تعمیرکے لیے سامان تقریباً 3 کلومیٹر دور سے احمدی احباب سائیکل کی مدد سے یا خود سر پر اُٹھا کر لاتے تھے۔ اسی طرح تقریباً دو کلومیٹر دور سے ریت اور پانی کی مسلسل فراہمی ممکن بنانے کے لیے نومبائعین نے مختلف اوقات میں ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔ مسجد کی خوبصورت عمارت مئی 2021ء میں مکمل ہوئی اور اس کا نام ’’مسجد بیتِ الٰہی‘‘ رکھا گیا۔ اس مسجد کا مسقف احاطہ 28×40مربع فٹ ہے اور اس میں 320 افراد کےنماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ یہ مسجد اس گاؤں میں کسی بھی اسلامی فرقہ کی پہلی مسجد ہے۔
مورخہ17؍جون 2021ء بروز جمعرات اس گاؤں کی خوبصورت نئی مسجدکے افتتاح کا پروگرام تھا۔ مکرم امیر صاحب کی قیادت میں قافلہ موانزہ سے براستہ فیری Lake Victoria کو عبور کرکے اس گاؤں میں پہنچا تو ایک جمِ غفیر نے نعرۂ تکبیر اور اھلاً وسھلاً و مرحباً کہہ کر اُن کا استقبال کیا۔ مکرم امیر صاحب نے مسجد کا افتتاح کرکے اجتماعی دعا کروائی۔ نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد افتتاحی تقریب کا آغاز ہوا۔
تلاوت و نظم کے بعد مکرم موسیٰ ماسالے صاحب (صدر جماعت) نے اس گاؤں میں جماعت کی مختصر تاریخ بتائی۔ جس کے بعد گاؤں کے چیئرمین مکرم صفی یونس صاحب نے اس مسجد کی تعمیر پر جماعت کا شکریہ ادا کیا اور مبارکباد دی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مسجد کی وجہ سے اب گاؤں کے بچے دینی ماحول میں تربیت پاسکیں گے۔ بعد ازاں کیتھولک چرچ کے نمائندہ مکرم Moses Samson صاحب نے اپنے مختصر خطاب میں اس مسجد کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ عبادت گاہ کی تعمیر سے لوگوں میں پیار و محبت بڑھے گی اور ہمارے لیے باعثِ فخر ہے کہ یہاں مسجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ مکرم Nikodem Yonas صاحب (چیئرمین CCM) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ہمارے گاؤں کی خاصیت ہے کہ یہاں تمام مذاہب والے حسنِ سلوک سے رہتے ہیں اور ہم اس خوبصورت مسجد کی تعمیر پر بہت خوش ہیں۔ African England Church کے نمائندہ مکرم یوحنا Simon صاحب نے کہا کہ جب ہمیں مسجد کے افتتاح میں شرکت کی دعوت ملی تو بے حد خوشی ہوئی۔ آپ سب یہاں نہایت نیک مقصدکے لیے آئے ہیں، میری دعا ہے کہ آپ اس کو ہمیشہ جاری رکھیں۔
اس کے بعد محترم امیر صاحب نے اپنی تقریر میں اسلام میں مساجد کی تعمیر کی غرض و غایت بیان کی اور غیر از جماعت احباب کے لیے جماعت احمدیہ کا تعارف بھی کروایا۔ آپ نے بتایا کہ جماعت احمدیہ پورے علاقہ کے لیے امن اور محبت کا پیغام لائی ہے۔ اس مسجد کے دروازے تمام لوگوں کے لیےکھلے ہیں۔ نیز مسجد کی ظاہری صفائی اور زینت برقرار رکھنے کی بھی ترغیب دلائی۔ اس بابرکت تقریب کا اختتام اجتماعی دعا سے ہوا۔ تقریباً700احباب اس تقریب میں شامل ہوئے جن میں غیر از جماعت مہمانان بھی شامل تھے۔ ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مرکزی مبلغین نے بھی اس بابرکت تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔
ایک نومبائع دوست مکرم عثمان رشیدی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ مسجد دعاؤں کی قبولیت کی علامت ہے جو کہ ہم نے اللہ کے حضور اپنے آنسوؤں کے ساتھ پیش کی تھیں۔ مکرم علی Nyoro صاحب نے بتایا کہ یہ مسجد ہمارے گاؤں کی زینت ہے۔ میں روز اس کے اردگرد جھاڑو دے کر اس کے ماحول کو صاف رکھوں گا۔ مکرمہ آمنہ صاحبہ کا کہنا تھا کہ میرا گھر مسجد سے تقریباً 3 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے لیکن میں روزانہ یہاں نماز ادا کرنے کے لیے آنے کی کوشش کروں گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسجد کی تعمیر کو اپنے حضور قبول فرمائے اور نومبائعین کی یہ جماعت ایمان و اخلاص میں مزید ترقی حاصل کرتی چلی جائے۔ آمین
(رپورٹ:شہاب احمد، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)