وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط چہاردہم)
گزشتہ مضامین میں خاکسار نے ان ملاقاتوں کے حوالہ سے کچھ عرض کرنے کی توفیق پائی ہے جو حضورِ انور کی شفقت اور بندہ پروری کے طفیل میسر آتی ہیں۔ جن ملاقاتوں میں انتظامی امور سے متعلق رہنمائی کی درخواست کی جاتی ہے، وہ ملاقاتیں اصطلاح میں ’’دفتری ملاقات‘‘ کہلاتی ہے۔
پہلے بھی ذکر گزرا کہ ان ملاقاتوں کا رنگ اور ہوتا ہے۔ ان میں آدمی حاضر ہوتاہےاور وہ معاملات پیش کرنا شروع کردیتا ہے جن پر اسے رہنمائی درکار ہوتی ہے۔حضوران پر رہنمائی ارشاد فرماتے ہیں۔ کوئی بات منظور، کوئی نامنظور اور کسی بات پر مزید غور کرنےیا کسی دوسرے متعلقہ شعبہ سےمزید مشورہ کر کےواپس حاضر ہونے کی تلقین۔ان ملاقاتوں میں جو بات بہت مرتبہ مشاہدہ سے گزرتی ہے ، وہ حضور انور کا اسلامی تعلیم کے مطابق درمیانی راہوں کا چناؤ ہے۔ نہ افراط ہے، نہ تفریط۔ایک کمال درجہ کا ، نہایت پُر وقارتحمل ہے جس کے ذریعہ حضور ہمیں بھی ان راہوں پر واپس لاتے ہیں اور انتہاؤں کے قریب جانے سے دور رکھتے ہیں۔
… … … … … … … … …
ایک مرتبہ ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ ماہِ رمضان کے بابرکت ایام تھے۔ میں صحت کی ناسازی کے باعث اُس روز روزہ نہ رکھ سکاتھا۔ جو معاملات پیش کرنے تھے کر چکا۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر ارشاد ہوا’’روزہ نہیں رکھا آج؟‘‘
عرض کی کہ جی حضور، آج طبیعت خراب تھی۔ روزہ نہیں رکھ سکا۔یہ نہ پوچھ سکا کہ حضور کو کیسے معلوم ہوا ؟
حضور نے بیماری کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ روزے کافی لمبے تھے اور پانی کی کمی کے باعث گردے میں انفیکشن ہو گیا تھا۔ حضور نے بڑی تفصیل سے دریافت فرمایا اور پانی زیادہ پینے کی تلقین فرمائی اور ہومیو دوائی کے مشورہ سے بھی نوازا۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ جب تکلیف ٹھیک ہو جائے تو افطاری اور سحری کے وقت زیادہ پانی پیا کرو تاکہ روزہ ضائع نہ ہو۔
دو سال بعد جب رمضان المبارک آیا، تو اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ پیش آیا۔ ملاقات کے اختتام پر دریافت فرمایا کہ روزے کیسے جارہے ہیں؟ عرض کی کہ حضور ان دنوں ایک دوائی کا استعمال کرنا پڑرہا ہے جس کی ایک خوراک صبح اور ایک شام کو لینی ہوتی ہے، یوں روزہ نہیں رکھ پا رہا۔ حضور نے سن کر تکلیف کی نوعیت دریافت فرمائی۔ بڑی محبت سے سنی اور فرمایا کہ ڈاکٹر سے پوچھ لو کہ سحری اور افطاری کا جو درمیانی وقفہ ہے، وہ اتنا ہے کہ اگر ایک خوراک سحری میں لے لی جائے اور ایک افطاری میں تو کوئی ہرج نہ ہو۔ اگر اس طرح روزہ رکھا جاسکتا ہو تو رکھ لیا کرو۔پوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ روزہ ضائع نہ ہو۔
تصویر کا دوسرا ایمان افروز رُخ بھی ملاحظہ ہو۔ماہِ رمضان ہی کے دوران ایک ملاقات تھی۔ معاملات میں سے ایک معاملہ ایسا تھا جس کے نتیجہ میں سفر درپیش ہو سکتا تھا۔ عرض کی کہ یہ کام کرنا ہے مگر رمضان کے بعد۔ فرمایا کہ رمضان کے بعد کیوں؟ عرض کی کہ سفر ہوگا اور روزہ چھوڑنا پڑے گا۔ فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے جو رعایت دی ہے، وہ ایسے مواقع کے لئے ہی تو ہے۔ ضروری کام جب کرنا ہے تو کرنا ہے۔ بعد میں روزہ رکھ کے پورےکرلینا!‘‘
یہ تینوں واقعات تین الگ الگ سالوں کے ہیں۔مجھے آج تک معلوم نہیں کہ اسی ایک دن جب میں روزہ نہ رکھ سکا، حضور نے کس طرح استفسار فرمالیا۔کوئی اتفاق کہنا چاہے تو اس کی مرضی، میں اسے اتفاق نہیں مان سکتا۔ اس میں ایک بہت بڑا سبق تھا، جو آنحضورﷺ کی سیرت، حضرت مسیح موعود ؑ کی سیرت اور خود حضور انورکی سیرت پر مبنی تھا۔ روزہ تب تک نہ چھوڑا جائے جب تک پوری تسلی نہ ہوجائے کہ حالات ایسے ہیں کہ رعایت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ جہاں یہ ثابت ہو جائے کہ رعایت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، وہاں اس رعایت سے ضرور فائدہ اٹھایا جائے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دے رکھی ہے۔ لوگ یہ شعر پڑھتے اور سر دھنتے ہیں کہ
مانا کہ دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
مگر اصل سر دھننے کے لائق تعلیم تو ہمیں حضور کے یہاں ملتی ہے جو ہمیں توجہ دلاتے ہیں کہ نہ عقل دل کو چھوڑے، نہ دل عقل کو۔ فقہ میں جو قیاس کی گنجائش اور اپنےدل سے پوچھ لینے کا حکم ہے، وہاں دل اور دماغ دونوں سے فیصلہ کرنا مستحسن اور عملِ صالح ہے۔
… … … … … … … … …
اسی تعلیم کو اجاگر کرنے والا ایک اورواقعہ یاد آگیا۔ یہ بھی ایک واقعہ نہیں بلکہ کئی واقعات سے مل کرایک سبق بنتا ہے۔کچھ روز قبل ایک تحریر حضور انور کی خدمت میں بغرضِ ملاحظہ ومنظوری ارسال کی ۔ جب اسے ترتیب دیا گیا تو وہ 29 صفحات پر محیط تھی۔ خدمتِ اقدس میں ارسال کرنے سے قبل نظرِ ثانی کی مگر یہ خیال نہ رہا کہ کچھ حصہ نکال دینے کے باعث متن کچھ سمٹ گیا ہوگا۔دوبارہ شروع سے آخر تک دیکھا اور ڈاک میں پیش کردیا۔
چند گھنٹوں بعد(یہاں یاد رہے کہ یہ مسودہ ڈاک کے ساتھ گیا جس میں اسی قسم کے کئی خطوط اور مسودات ہوں گے)۔ جب مسودہ واپس آیا تو اس کی پیشانی پر تحریر تھا ’’ٹھیک ہے۔ صفحہ نمبر 29 بالکل خالی ہے۔ کاغذ کی بچت بھی ہونی چاہیے‘‘۔میں نےفوراً صفحہ 29 دیکھا تو معلوم ہوا کہ چونکہ اس پر چند سطور ہی تھیں اس لئے نظرِثانی کے بعد سمٹ کر صفحہ28 پر چلی گئی تھیں۔بہت شرمندگی ہوئی کہ لاپرواہی کے نتیجہ میں آخری صفحہ خالی چلا گیا اور ضائع بھی ہوگیا۔ مگر وہ خالی صفحہ بھی اس ارشادِ مبارک کے طفیل ریکارڈ کا حصہ بن گیا ہے، جو ہمیشہ مجھے اور میرے رفقاء کار کو یاددہانی کرواتا رہے گا کہ ’’کاغذ کی بچت بھی ہونی چاہیے‘‘۔ اور یہ بھی کہ جب خلیفۂ وقت کے پاس کچھ بھی بھیجا جائے، اچھی طرح دیکھ بھال کر بھیجا جائے۔ اگر اس ہستی کے سامنے احتیاط نہ ہوگی، تو پھر کہاں کی احتیاطیں اور کس کام کی؟
مگر ساتھ ہی ذہن ایک ایسی ملاقات کی طرف بھی گیا جو کچھ سال پہلے کی تھی۔ ایک تجویز حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی۔ تحریر کا سائز(فونٹ سائز)چھوٹا رکھا تا کہ ایک صفحہ پر پورا خاکہ آجائے۔ حضور کوپڑھنے میں دقّت ہوئی۔ عینک لگانا پڑی۔ ساتھ بڑی محبت سے فرمایا ’’لگتا ہے کاغذ کی بچت کی ہے‘‘۔تووہاں میری غلطی یہ تھی کہ زور لگا کر سب کچھ ایک ہی صفحہ پر سمونے کی کوشش کی ہوئی تھی۔
پھر کسی اور موقعہ کی ایک ملاقات یاد آئی جس میں حضور انور نے فرمایا تھا کہ ’’میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ یا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو خط لکھتا تھا تو بہت سوچ کر لکھتا تھا کہ عبارت ایک صفحہ پرپوری آجائےاور خلیفۃ المسیح کا وقت ضائع نہ ہو‘‘۔ یہ بات حضور نے ابھی حال ہی میں جامعہ احمدیہ کینیڈا کی ایک ملاقات میں بھی بیان فرمائی۔
اب کئی سال پر پھیلے اور جدا جدا مواقع پر ہونے والے ان نصائح نے مل کر جو تصویر بنائی وہ اس بات کی غماز ہے کہ حضور متوسط راہوں کی تعلیم دیتے ہیں ۔ وہی تعلیم جو اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز اور ممیز کرتی ہے۔ یعنی ہر کام اپنے محل پر اور درست طور پر ہوتو تبھی صالحیت کادرجہ پاتا ہے۔
انہی راہوں کی طرف لے جانے والے کچھ اور واقعات پیش کرتا ہوں۔یہ موتی بھی ایک ہی مقام سے ملے مگر مختلف مواقع پر ۔ جی چاہتا ہے کہ قارئین کرام کو یکجا کرکے پیش کروں۔
… … … … … … … … …
جماعتی اموال اور جماعتی وقت کا احساس حضرت خلیفۃ المسیح سے زیادہ کس کو ہوسکتا ہے؟ اگر کوئی کہے کہ کوئی اور جماعت کا زیادہ درد رکھتا ہے ، تو وہ جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ بہت سے مواقع پر حضور کی طرف سے جماعتی اموال کو احتیاط سے خرچ کرنے کی تلقین ہوتی ہے۔خود حضور کا ہر فعل اس قول کا ہم رنگ ہے۔ مگر متوسط راہوں کی طرف رہنمائی بھی حضور ہی کی چوکھٹ سے ملتی ہے۔
ایک مرتبہ کچھ تاریخی دستاویزات ایک آرکائیو میں دریافت ہوئے۔ ان کے حصول اور ایک پروگرام میں جلد دکھانے کا معاملہ تھا۔ عرض کی کہ وہ فی صفحہ 10 پاؤنڈ مانگتے ہیں، مگر خاکسار کوشش کررہا ہے کہ انہیں کچھ کم پر قائل کرے ۔چونکہ ایم ٹی اے کمرشل ادارہ نہیں ہے اور ان دستاویزات سے کوئی مالی منفعت بھی مقصود نہیں، لہذا ممکن ہے مان جائیں۔ فرمایا ’’اس سے کم کیا کروانا ہے؟ یہ ضروری مواد ہے، اسے فوراً حاصل کرو اور دکھاؤ۔ اگرضرورت کا وقت نکل گیا تو پیسے بچانے کاکیا فائدہ؟‘‘
… … … … … … … … …
شعبہ جات اپنے بجٹ میں ’ضیافت‘ کی مد بھی شامل کرتے ہیں۔ اس بارہ میں حضور کے ارشادات جو سبھی دفاتر کو موصول ہوتے رہے ہیں، سے اندازہ ہوتا رہا کہ اگر کسی مقامی احمدی دوست ہی کی مہمان نوازی ہو تو جہاں لنگرخانہ کی سہولت موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جائے۔
مگر مختلف مواقع پر یہ ہدایت بھی ملی کہ باہر کے مہمان کے لئے اس کے مزاج اور ذوق کے مطابق ضیافت کا سامان کیا جائے، مگر وہ بھی مناسب حد میں رہتے ہوئے۔
جب بھی کوئی باہر کا مہمان آیا، حضور نے خاکسار سے یا تو پہلے دریافت فرمایا کہ ’’کہاں لے کر جاؤ گے؟‘‘ یا یہ کہ ’’کیا کھلاؤ گے؟‘‘۔ اسی طرح باہر سے آنے والے ایک معزز مہمان دور کا سفر کرکے آئے تھے۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت ملاقات کے لئے وقت بھی عنایت فرما رکھا تھا۔ جب انہیں لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو حضور نے ان سے بڑی تفصیل سے دریافت فرمایا کہ ان کی رہائش کا انتظام کیسا ہے، کہاں ٹھہرے ہیں اور یہ کہ کوئی دقّت تو نہیں۔ جب وہ صاحب واپس چلے گئے تو اگلی ملاقات میں دریافت فرمایا کہ ’’یہاں سے کہاں لے کر گئے تھے؟‘‘
پھر دریافت فرمایا’’کھانے میں کیا کھلایا تھا؟‘‘۔ عرض کی کہ ان سے پوچھا تھا، انہوں نے بتایا کہ انہیں عرب پکوان پسند ہے، لہذا ایک عربی ریستوران میں لے گیا تھا۔’’وہاں کیا کھایا تھا؟‘‘عرض کر دی۔ پھر فرمایا کہ ’’اچھی طرح خیال رکھا کرو۔ ان سے پوچھ کرکہ کیا پسند ہے پھر ان کی پسند کی جگہ پر لے جایا کرو‘‘۔
تو مہمان نوازی اور ضیافت کے تقاضے کیسے وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے ہیں، اس کا بہت لطیف سبق عطا فرمایا۔
… … … … … … … … …
مہمان نوازی کے حوالہ سے ایک اور واقعہ بھی یاد آیا۔ جماعت احمدیہ برطانیہ کی جلسہ گاہ، لندن سے باہر کوئی پون گھنٹہ کی مسافت پر ہے۔ جو سڑک موٹروے سے اتر کر جلسہ گاہ تک جاتی ہے، جلسہ کے ایام میں ہجومِ خلق سے بے حد مصروف ہوجاتی ہے۔ اکثر لوگ گاڑیوں میں جارہے ہوتے ہیں ، سڑک بھی چھوٹی ہے، یوں اس رش میں دیر سویر ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے۔جلسہ کے ایام میں ایم ٹی اے کی لائیو نشریات صبح سے شروع ہونی ہوتی ہیں اور اس کی تیاری اس سے بھی بہت پہلے۔یوں یہ مناسب نہ لگتا تھا کہ روزانہ لندن سے وہاں جانے اور ٹریفک میں پھنس جانے کا خطرہ مول لیا جائے۔ اس کے سبب کئی سال سے حضور انور کی اجازت سے خاکسار جلسہ گاہ کے بالکل قریب ایک ہوٹل میں بکنگ کروا لیا کرتا تھا۔ رات گئے وہاں چلا جاتا اور پھر علی الصبح ٹریفک میں پھنسے بغیر جلسہ گاہ پہنچ جایا کرتا۔
2015 ءکے جلسہ سالانہ یوکے پر خاکسار نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ صرف مقامی پریزینٹرز کی بجائے بیرونِ ملک سے بھی اچھی صلاحیت رکھنے والے پریزینٹر بلوا لئے جائیں۔ یوں ایم ٹی اے انٹرنیشنل کا ’انٹرنیشنل‘ رنگ بھی محسوس ہوگا۔ حضور نے ازراہِ شفقت اجازت مرحمت فرمائی۔خاکسار نےاس منظوری سے ہمت پا کرجسارت کی ایم ٹی اے العربیہ کے لئے بھی گزارش کر دی کہ اس کے لئے بھی مختلف عرب ممالک سے پریزینٹر بلوا لئے جائیں تاکہ عرب دنیا کے مختلف لہجے بولنے والوں کی بھی نمائندگی ہوجائے۔ اس کی اجازت بھی حضور انور نے مرحمت فرمائی۔
میرا تجربہ ہے کہ جب حضور انور کی طرف سے تجاویز پر اجازت ملتی ہے تو انسان بہت خوش تو ہوتا ہی ہے، اور ہونا بھی چاہیے، مگر اس کے ساتھ ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ سب سے پہلے انسان کے اپنے ظرف کا امتحان ہوتا ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ ایم ٹی اے پر باہر سے پریزینٹر بلالینے کی اجازت کےساتھ جو خوشی حاصل ہوئی تھی، اس میں درپردہ میرے ظرف کا امتحان بھی تھا۔
اس سال بھی خاکسار ہوٹل میں قیام کی اجازت لے چکا تھا اور حضور انور نے اجازت مرحمت بھی فرما دی تھی۔ پریزینٹرز والا معاملہ اس اجازت کے کئی ہفتوں بعد پیش ہورہا تھا۔ جب ان پریزینٹرز کے آنے کی تصدیق ہو گئی اور ویزا وغیرہ کے حصول کے مراحل طے ہوگئے، تو جلسہ بہت نزدیک آچکا تھا۔ ملاقات کی صورت نہ تھی اور یہ کوئی ایسی ہنگامی بات بھی نہ تھی، اس لئے بذریعہ خط عرض کی کہ ’’چونکہ ان پریزینٹرز کو صبح بہت جلدی سٹوڈیو پہنچنا ہوگا اور رات گئے تک وہیں کام کرنا ہوگا، لہذا اگر اجازت ہو تو انہیں حدیقۃ المہدی ہی میں ایک اچھے کیبن کا انتظام کردیا جائے‘‘۔
حضور انور کا جواب موصول ہوا’’ٹھیک ہے۔ کرلیں۔ آپ نے اپنے لئے ہوٹل کیوں لیا ہے؟‘‘
خاکسار اب بھی نہ سمجھ پایا۔ ایک اور خط لکھا اور عرض کی کہ یہ وجہ ہے اور یہ کہ حضور انور نے اجازت مرحمت فرمائی تھی، لہذابکنگ کروا لی تھی۔ جواب میں ارشاد آیا ’’یا انہیں بھی ہوٹل میں ٹھہرائیں، یاآپ بھی ان مہمانوں کے ساتھ کیبن میں رہیں‘‘۔
مجھے نہایت درجہ ندامت ہوئی۔ ان مہمانوں کی اجازت میں نے لی تھی۔ یہ ایم ٹی اے کے مہمان تھے۔ انہیں خاکسار کے شعبہ میں کام کرنا تھا، سو یہ سب سے پہلے میرے شعبہ کے مہمان تھے۔ مجھے خود خیال ہی نہ آیا کہ انہیں چھوڑ کر میں کہیں اور قیام کروں گا تو یہ بات کس قدر معیوب معلوم ہوگی۔ شاید ان میں سے کوئی اظہار نہ ہی کرے، مگر کسی کی دلآزاری بھی ہوسکتی تھی۔نادانی میں اس بات کا بالکل خیال نہ رہا کہ میرے مہمانوں کے کچھ حقوق ہیں، اور مجھے ان سے غافل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ ارشاد موصول ہوتے ساتھ حضور انور کی خدمت میں عریضہ تحریر کیا جس میں معذرت چاہی اور عرض کی کہ حضور کے ارشاد پر نہایت خوش دلی سے عمل ہوگا۔ ہوٹل کا کمرہ تبشیر کے حوالہ کیا اور جلسہ کے ایام میں خودبھی اپنے ان مہمان رفقاء کار کی طرح کیبن میں قیام کیا۔
جو گہرا سبق اس پورے واقعہ سے ملا اور حضور انور کے ارشاد کے جو بابرکت نتائج ظاہر ہوئے، ان کے باعث مجھے یہ واقعہ تحریر کرنے میں ذرہ برابر بھی تأمّل نہیں۔ ہوٹل میں قیام صرف اسی سہولت کے پیش نظر تھا جو اوپر بیان ہوئی۔ ورنہ چند گھنٹے جو جلسہ کے کارکنان کو جلسہ کے ایام میں نیند کے لئے میسر آتے ہیں، ان میں نیند تو کسی بھی حالت میں آجاتی ہے۔ سو جب تک ہوٹل کی اجازت ملتی رہی، بروقت پہنچ جانے کی سہولت میسر آجاتی رہی۔ مگر اس سال ایم ٹی اے اور ایم ٹی اے العربیہ کے نئے پریزینٹر تھے۔ انہیں بروقت صبح جمع کرنے، ان کے دن بھر کے معمول پر نظر ثانی کرنے اور معاملات کو حتمی شکل دینےکے جو تقاضے تھے، وہ ہوٹل میں قیام کر کے کبھی پورے نہ ہو پاتے۔ نیند تو، جیسا کہ عرض کی، جتنی ان ایام میں آسکتی ہے،وہ کہیں بھی آجاتی، سو کیبن میں بھی آگئی اور بہت اچھی آئی۔ جلسہ کے ایام میں تو اس قدر نیند ہی کافی ہوتی ہے جوجسم اور ذہن کو اگلے روز کام کے لئے تھوڑی سی چارجنگ مہیا کر دے۔ مگر جو سہولت کام میں اس ارشاد کی تعمیل سے ہوئی، مجھے اقرار کرنا ہے کہ پہلے نہ ہوئی تھی۔ کہیں جانے کا خیال، نہ کہیں واپس پہنچنے کی فکر۔ سفرمیں وقت کا ضیاع ، نہ پارکنگ کی جگہ تلاش کرنے کی کوفت۔ رات کے وقت بھی کوئی پریزینٹر اگلے روز سے متعلق کوئی بات پوچھنے آجاتا، جو بصورتِ دیگر ممکن نہ تھا۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ سبق کہ ہماری نظر معاملہ کی اس تہہ تک پہنچ ہی نہیں سکتی جہاں تک خلیفۃ المسیح کی پہنچتی ہے۔ اس لئے نہ تو بغیر حضور سے رہنمائی لئے کسی کام کا تصور بھی کرنا چاہیے، اور پھر اس پر جو رہنمائی حاصل ہو، اس میں اپنی مرضی کو فی الفور خلیفۃ المسیح کی مرضی کے تابع کردینا چاہیے۔ جماعت خلیفۃ المسیح کی ہے،جماعت کا ہر کام خلیفۃ المسیح کا ، ہم خلیفۃ المسیح کے ہیں، تو ہماری مرضی خلیفۂ وقت کے منشاء مبارک سے جدا کیسے ہو؟
… … … … … … … … …
جب خاکسار کی وقفِ زندگی کی درخواست ازراہِ بندہ پروری قبول ہوئی توپہلے پہل مَیں ایم ٹی اے جنرل آفس میں تعینات ہوا۔ یہ دفتر محمود ہال میں واقع تھا۔ جب ذمہ داری کی نوعیت ایسی ہوگئی کہ مجھے بیت الفتوح منتقل ہونا پڑا تو آغاز میں جو دفتر ملا وہ یوں تھا کہ ایک ہال نما کمرہ میں چار دیواریں کھڑی کر کے اسے ایک الگ کمرہ بنا دیا گیا تھا۔ کوئی کھڑکی وغیرہ نہ تھی۔ ان چاردیواروں کے اندر میرا میز ، میں اور میری کتابیں خود کو سموئے ہوئے تھے۔ مگر انگلستان میں جگہ کی کمی کا گلہ ہر گز مناسب نہیں۔ اگر ہم حضور کی رہائش اور دفتر کی سادگی اور جگہ کی قلت کو دیکھیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔ ایسے میں کون جگہ کی تنگی کا گلہ کرے۔مگر جب حضور کے ارشاد سے یہ دفتر بن گیا تو اس کے بعد ایک ملاقات میں حضور نے دریافت فرمایا کہ ’’تمہارا دفتر بن گیا؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟‘‘۔ عرض کی جی نہیں حضور، بالکل ٹھیک ہے۔بلکہ بہت بہت شکریہ!
اگلی ملاقات میں پھر یہی دریافت فرمایا، اور میرا جواب بھی وہی رہا۔ پھر جب تیسری مرتبہ دریافت فرمایا تو میں نے خیال کیا کہ اب تو عرض کرہی دینا چاہیے۔ سو عرض کر دی کہ حضور، سب ٹھیک ہے، بس تازہ ہوا اور روشنی کے لئے کوئی کھڑکی نہیں ہے، باقی تو سب اچھا ہے۔
ایسے جیسے اس بات کا انتظار ہی تھا،تبسم فرماتے ہوئے فرمایا’’کوئی بات نہیں! تازہ ہوا اور روشنی باہر جا کر لے لیا کرو‘‘۔
مجھے اپنے کئے پر بہت ندامت ہوئی۔ میں نے کیوں خیال کرلیا کہ شکایت کے رنگ میں کوئی بھی بات عرض کروں۔ ہمیں تو ہر حال میں راضی رہنا آنا چاہیے۔کئی دن اس تأسّف میں گزارے کہ حضور کو میری بات سے رنج ہوا ہوگا۔
مگر کچھ ہی روز بعد بیت الفتوح کی انتظامیہ نے بتایا کہ انہیں حکم ہوا ہے کہ کھڑکی نصب کر دی جائے۔ چونکہ دیواروں میں تو یہ کھڑکی لگ نہیں سکتی، لہذا اسے چھت میں نصب کرنا پڑے گا۔حضور کے لئے دل سے بہت دعا نکلی۔ حضور نے مجھے سمجھا بھی دیا اور سہولت بھی مہیا فرمادی۔
اب اس کھڑکی کے لگنے کے بعد جب پہلی بارش ہوئی، تو کھڑکی سے پانی ٹپکنے لگا۔ سارا سامان سمیٹ کر ایسی جگہ رکھنا پڑا جہاں پانی سے محفوظ رہیں۔ انتظامیہ کو بتا دیا اور انہوں نے بظاہر کچھ کوشش بھی کی۔اگلی بارش پر پھر یہی منظر دہرایا گیا۔ اب پھر انتظامیہ نے کچھ مرمت کرنے کی کوشش کی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہاں انگلستان میں بارش کا کوئی موسم اور وقت معین تو ہے نہیں ۔ اسی لئے یہاں ساون کے جُھولوں اور گیتوں اور برسات کے پکوان بنانے کا بھی کوئی رواج نہیں۔ بلکہ الٹا بارش کو برا بھلا کہنے کا رواج عام ہے۔تو جب بھی بارش ہوتی، یہی نقشہ بن جاتا۔میں اس کھڑکی کے مسئلہ کو حضور انور کی خدمت میں عرض کرنا نہ چاہتا تھاکہ کہیں شکایت کا رنگ نہ لگے۔ مگر ایک وقت آیا کہ یہ ناگزیر ہو گیا۔
ہمیں معلوم بھی نہ ہوامگرباربار چھت ٹپکنے سے دیواریں نہایت کمزور ہوگئیں اور ایک روز ہمارا ایک شیلف ٹوٹ کر نیچے آگرا۔ اب یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ مسئلہ صرف چھت ٹپکنے کا نہیں بلکہ کتب اور ریکارڈ کے غیر محفوظ ہوجانے کا بھی ہے۔ ڈرتے ڈرتے عرض کردی۔ حضور نے بہت سخت نوٹِس لیا۔ پہلے تو دریافت فرمایا کہ یہ مسئلہ کب سے ہے؟ عرض کی کہ کچھ ماہ سے۔ پھر فرمایا ’’پہلے کیوں نہیں بتایا۔ جب انتظامیہ کو توجہ دلائی تھی تو لکھ کر بھیجنا تھا، مجھے بھی نقل بھیجتے۔ اب ان کو جاکر لکھو کہ میں نے کہا ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے، ورنہ کوئی اور جگہ تمہیں دیں‘‘
میں نے ارشاد پہنچا دیا۔ اس روز شام سے پہلے پہلے ہر رنگ ونسل اور قوم و ملت سے تعلق رکھنے والا ماہرِ تعمیرات میرے کمرے میں موجود کھڑکی کی مرمت کرنے میں مصروف تھا۔ اسی دن کام شروع ہوگیا اور ایک ہفتہ کے اندر اندر کھڑکی کے مسئلہ کی اصل جڑ تلاش کر کے اس کی مرمت کردی گئی۔
تازہ ہوا اور روشنی ایک ذاتی ضرورت تھی، بلکہ ضرورت سے زیادہ خواہش تھی۔ اس کے اظہار پر محسوس ہوا کہ یہ بیان نہیں کرنا چاہیے تھی۔ مگر جہاں جماعتی ضرورت کی بات آئی، وہاں حضور نے یہ سکھا دیا کہ وہاں اپنی ذات کو ایک طرف رکھ کر ایسی ضرورت کو فوری توجہ دینی چاہیے۔
… … … … …(باقی آئندہ)