امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین نیشنل عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کی (آن لائن) ملاقات
مورخہ 10؍اپریل 2021ء کو امام جماعت احمدیہ عالمگیر امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کو آن لائن ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔
یہ پہلا موقع تھا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس بستی قادیان دارالامان کے کسی وفد سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کی صدارت اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے فرمائی جبکہ مجلس عاملہ کے ممبران نے قرآن کریم کی نمائش کے ہال واقع قادیان سے اس مبارک تقریب میں شرکت کی۔
65 منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں جملہ ممبران عاملہ کو اپنے شعبہ جات کے حوالہ سے انفرادی رپورٹ پیش کرنے اور حضور انور سے کئی معاملات میں ہدایات اور راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
حضورا نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے معتمد صاحب کو مؤثر رپورٹس کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:
آپ کو تو proper planningکرنی چاہیے کس طرح آپ نے قائدین کو تیز کرنا ہے۔ اگر مقامی قائد کام نہیں کر رہا تو ضلعی قائد کے پیچھے پڑیں اور مقامی قائد سے کام کروائیں۔ اگر ضلعی قائد کام نہیں کر رہا تو علاقہ قائد کو کہیں کہ پیچھے پڑ کے ان سے کام لو۔ تو رپورٹوں کا ایسا کوئی باقاعدہ نظام ہونا چاہیے اور صرف رپورٹ رپورٹس کے لیے نہ ہو بلکہ کام بھی ہو رہا ہو۔ تو اگر آج کل covid کی وجہ سے دورے نہیں ہو سکتے تو مقامی نمائندے، علاقہ قائد کو کہیں کہ وہاں کم از کم علاقوں کے قریب قریب جگہوں کے دورے کر کے ان کو تیز کرو۔ آپ کا سارا تبصرہ جو اچھا کام کر رہے ہیں ان کا بھی اورجو اچھا کام نہیں کر رہے ان کا بھی، جو رپورٹس نہیں بھجواتے وہ بھی یہ ایک جائزہ ہر مہینہ علاقہ اور ضلع قائد کو بھی اپنے اپنے علاقہ کا جانا چاہیے تا کہ ان کو پتہ لگے کہ انہوں نے اپنے قائدین کو کس طرح تیز کرنا ہے۔ ایک تو آپ کا ہر مقامی قائد سے رابطہ ہونا چاہیے۔ پھر ان کے کاموں کو oversee کرنے کے لیے ان قائدین کے بھی پیچھے پڑیں۔
حضورِ انور نے مہتمم صاحب تجنیدکوcovidکے حالات کے باوجودتجنیدکو مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:
کووڈ کی وجہ سے پہلے کون سا گھر جاتے تھے، فون کر کے معلومات لے لیتے ہیں۔ اکثر چھوٹی چھوٹی مجالس ہیں۔ مقامی قائد کو پتہ ہے کہ میری قیادت میں اتنے گھر ہیں اور ان گھروں میں اتنے خدام رہنے والے ہیں تو اگر ان کا ڈیٹا (data)وہیں سے پوری طرح لے لیا جائے تو آپ کو ساری معلومات مل جاتی ہیں۔ تجنید کی معلومات گراس روٹس لیول (grassroots level)پر لیا کریں۔ ہر مقامی جماعت سے، ہر مقامی مجلس سے تجنید اکٹھی کریں۔ اس کے اوپر relyنہ کریں کہ جماعت کا یہ aims card بنا ہوا ہے تو ہم نے aims کے اوپر rely کرنا ہے۔ جماعت کا اپنا نظام ہے اور آپ کا اپنا نظام ہے۔ بعض دفعہ خدام الاحمدیہ، لجنہ اور انصار کا نظام جماعتی نظام سے مختلف ہوتا ہے بلکہ آپ انفارمیشن دیتے ہیں جماعت کو۔ اس لیے آپ نے ان کے اوپر rely نہیں کرنا۔ خدام الاحمدیہ کی اپنی انفارمیشن علیحدہ ہونی چاہیے اور ہر سال ہر لیول پر آپ کا فارم پُر کرا کے آنا چاہیے۔
حضورِ انور نے مہتمم صاحب سے استفسار فرمایا کہ کیا ہر سال مقامی قائدین سے فارم موصول ہوتا ہے کہ کتنے نئے خدام شامل ہوئے اور کتنے انصار چلے گئے؟ نیز فرمایا کہ سوال یہ ہے کہ ایک تو ماہوار رپورٹ میں تجنید کا ذکرہوتا ہے۔ ایک ہے جو آپ سال کے شروع میں تجنید فارم فِل کرواتے ہیں، آپ کے متعلقہ منتظم تجنید یا ناظم تجنید ہر گھر کا ڈیٹا آپ کو فِل کر کے بھجواتا ہے کہ نئے کتنے آئے اور پرانوں میں سے کتنے انصار اللہ میں شامل ہوئے۔
اس فارم کے حوالہ سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ مجالس سے آئے ہیں؟اس پر مہتمم صاحب نے عرض کیا کہ وہ فارم نہیں آئے۔ چنانچہ حضور انور نے فرمایا:اس لیے آپ تجنید فارم کے اوپر زیادہ زور نہیں دیتے، اس لیے ماہانہ رپورٹ پر زیادہ relyکر رہے ہیں ۔ آپ کا بنیادی کام یہ ہے کہ آپ کو سال کے شروع میں یہ زور دینا چاہیے کہ ہر مجلس سے تجنید فارم فِل ہو کر آئے تو آپ کی مکمل تجنید ہو۔ اور پورا زور لگا کر 973 کی 973مجالس سے تجنید لیا کریں پھر آپ کو صحیح ڈیٹا ملے گا۔ پھر آپ صحیح پلاننگ کر سکیں گے۔ تو یہ تجنید کا کام بڑا اہم کام ہے۔ آپ کا کام ہے کہ پہلے دو مہینے ہر گھر کی تجنید ہر مجلس سے آجانی چاہیے۔ ٹھیک ہے؟ اور اس کے بعد رپورٹیں پوری آئیں یا نہ آئیں فرق نہیں پڑتا۔ آپ کا ایک تجنید فارم علیحدہ آنا چاہیے۔تجنیدکی رپورٹ کا ماہانہ رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سال کے شروع کے دو مہینے اسی پہ زور دینا چاہیے۔
حضورِ انور نے مہتمم صاحب تربیت کو تمام مجالس سے رابطہ کرنے کی ہدایت فرمائی اور اس سلسلہ میں ضلعی و مقامی قائد کی مدد حاصل کرنے کا ارشاد فرمایا۔ نیز فرمایا کہ تربیت کا پروگرام آپ کا بڑا اہم پروگرام ہے۔ اس کو آپ لاگو کر دیں تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ چھوٹی چھوٹی شکایتیں، جھگڑے اس قسم کی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گی۔ ایک تو آپ نے قادیان بیٹھ کے یہاں کا ایک planبنا لیا۔ ایک بات یہ ہے کہ آپ کا انڈیا بہت وسیع ملک ہے اور ہر علاقے کی اپنی نفسیات ہے اور اپنے مسائل ہیں، ان کا اپنا کلچر ہے۔ مختلف کلچر بھی وہاں ہیں۔ یہ بھی دیکھیںاس کے حساب سے اس معاشرے میں رہنے والوں کے لیے کہاں کہاں تربیت کی کمزوریاں ہیں جس کو ہم نے ختم کرنا ہے یا اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اس کے لیے علیحدہ ایک پلان بنانا چاہیے۔ تربیت کا ایک عمومی پروگرام ہے،ہر علاقے کے لیے ان کی نفسیات کے مطابق، ان کے مسائل کے مطابق ایک خصوصی پروگرام بننا چاہیے۔ وہ بھی آپ علیحدہ بنائیں۔ خدام الاحمدیہ اس نہج پہ کام کر کے اگر ان کو سنبھال لے تو آئندہ کی نسل سنبھالی جا سکتی ہے۔ اور پھر دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد ہے اس کو ایک موٹو (motto)بنائیں اور اس سے پھر ان کو پتہ ہو کہ ہم نے دین سیکھنا ہے۔ مقدم تو تبھی کریں گے جب آپ کو پتہ ہو گا۔ جب آپ کو پتہ ہی نہیں دین کیا چیزہے، بعض روایات کا نہیں پتہ، بعض دینی تعلیمات کا نہیں پتہ،تو پھر کس طرح آپ ان کی تربیت کریں گے یا وہ کس طرح اپنی بہترین صلاحیتوں کو آپ کے، جماعت کے کام میں لا سکیں گے۔ تو اس لحاظ سے بھی ایک پلان کریں کہ کس طرح ہم نے مختلف علاقوں میں مختلف تربیتی پروگرام دینے ہیں۔ ایک عمومی پروگرام ہے جو مرکزی ہے، اس کے علاوہ۔ صرف وہی ایک ٹکسالی باتیں نہ کرتے رہیں کوئی نئی نئی چیزیں ایجاد کیا کریں۔ نوجوان ذہن ہے تو نوجوان زرخیز ذہن کو استعمال کریں۔
حضورِ انور نے ایڈیشنل مہتمم تربیت برائے رشتہ ناطہ کو ہدایت فرمائی کہ رشتہ ناطہ کا یہ بھی کام، تربیت کے شعبے کا بھی ساتھ ہی کہ خدام میں یہ بھی عادت ڈالیں کہ وہ دین کو مقدم کرنےوالے ہوں۔ لڑکیوں کے دین کو بھی دیکھیں اور اپنے دین کی بھی اصلاح کریں اور دنیاداری کے پیچھے نہ پڑیں۔ جہیز اور پیسہ کی طرف جانے کی بجائے یہ دیکھیں کہ لڑکی میں دین ہے کہ نہیں اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپ کے خدام میں خود دینی پہلو زیادہ نمایاں ہوگا۔
مہتمم صاحب تربیت نومبائعین جن کی ذمہ داری جماعت میں نئے شامل ہونے والوں کی تعلیم و تربیت ہے، سے مخاطب ہوتےہوئےحضور انور نے فرمایا کہ اس میں یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ مختلف قوموں کے لوگ جو شامل ہوتے ہیں ان کی بنیادی تعلیم، بنیادی علم کے مطابق بھی ان کے لیے پروگرام بنانا چاہیے۔ اگر کوئی عیسائیت میں سے آیا ہے، ہندوازم میں سے آیا ہے، سکھوں میں سے آیا ہے یا دہریہ تھا وہ آیا ہے یا مسلمانوں میں سے آیا ہے تو ان کے لیے علیحدہ ذاتی پروگرام بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے اگر ذاتی طور پر ان سے علیحدہ پروگرام بنا کر بھی توجہ دیں تو وہ زیادہ مضبوط ایمان ہوسکتے ہیں۔
مہتمم صاحب نے حضورِ انور کو بتایا کہ رسالہ راہ ایمان نومبائعین کے لیے مجلس کی طرف سے جاتا ہے۔ اس میں مضامین ہر ایک طبقے کو دیکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:
یہ بڑی اچھی بات ہے۔ پھر feedbackبھی لیں۔ اور feedback ایک دفعہ دے دینا تو کوئی کمال نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جو چیز دی ہے وہ اگلے تک پہنچی؟ اور اگر وہ پہنچی تو اس سے اگلے نے استفادہ کیا؟ اور اگر استفادہ کیا تو اس کے بعد کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں؟ یہ feedback ہونا چاہیے۔ ٹھیک ہے! یہ feedbackبھی آپ کو آنا چاہیے۔ اگر خدام الاحمدیہ کے پاس یہ feedback آجائے تو آپ سمجھیں آپ نے نومبائعین میں انقلاب پیدا کر دیا ہے اور وہ نومبائعین پھر بڑے مضبوط نومبائعین بن جائیں گے۔ یہ بھی آپ کے پاس معلومات آنی چاہئیں کہ اس تربیت کے نتائج کیا نکلے۔
مزید فرمایاکہ کہہ دینا، وعظ کر دینا تو کوئی بات نہیں۔ میں یہاں بیٹھے خطبہ دے دیتا ہوں۔ ساری دنیا، اکثر سن ہی لیتے ہیں۔ اب مجھے جب تک یہ نہ پتہ لگے کہ میرے خطبہ کا اثر کس پہ ہوا ہے تو اس کا فائدہ کیا ہوا؟ اسی طرح آپ لوگوں کے مضامین ہیں۔ جب تک ان کا اثر آپ کو واپس نہیں ملتا۔ اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں۔ تو یہ فیڈبیک کا نظام بھی مؤثر کریں۔
حضور انور نے مہتمم صاحب مقامی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
قادیان کے خدام اور اطفال کی تربیت باقیوں کی نسبت اعلیٰ اور معیاری ہونی چاہیے۔ اس طرف خاص توجہ دیں۔ ہدایات میں دے چکا ہوں اس کے مطابق دیکھیں کہ آپ نے اس پروگرام کو اپنے قادیان میں کس طرح لاگو کرنا ہے اور کس طرح بہتر رنگ میں لاگو کرنا ہے۔ قادیان کی مجلس ایک ماڈل مجلس بننی چاہیے تاکہ لوگ جب باہر سے آئیں تو آپ کودیکھ کے کہیں کہ ہاں یہ خدام اور اطفال ہمارے لیے ماڈل ہیں۔ ہم نے ان کی نقل کرنی ہے۔ نہ یہ کہ جب وہ باہر سے آئیں تو یہ دیکھیں کہ ان کے تو اپنے اخلاق ٹھیک نہیں یا اپنی تربیت ٹھیک نہیں۔ نمازوںمیں یہ سست ہیں، قرآن کریم پڑھنے میں یہ سست ہیں، السلام علیکم کہنے میں یہ سست ہیں، بنیادی اخلاق میں یہ سست ہیں تو پھر وہ اچھا اثر لینے کی بجائے برا اثر لیتے ہیں۔ تو آپ لوگوں کو اس نہج سے بھی سوچنا چاہیے کہ آپ نے دنیا کے سامنے نمونہ قائم کرنا ہے خاص طور پر اپنے ملک کے خدام اور اطفال کے سامنے۔ تو اس طرف خاص توجہ دیں۔
حضورِ انور کے استفسار پر مہتمم صاحب عمومی نے بتایا کہ تمام مساجد میں جمعے کے دن اور دیگر جماعتی پروگرامز پر باقاعدگی سے ڈیوٹی دی جاتی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:
پندرہ سولہ سال کے بچے نہ کھڑے کر دیا کریں، sensible اور بالغ اور عاقل قسم کے خدام اکٹھے ہونے چاہئیں کہ اگر کوئی ہنگامی حالت پیدا بھی ہوجائے تو ان میں کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی ہو یا کس طرح ہینڈل کرنا ہےsituationکو اور کس طرح اپنے انچارج کو بتانا ہے۔ یہ ساری تربیتی ہدایات بھی ان کے سامنے ہونی چاہئیں۔
مہتمم صاحب نے بتایا کہ اس حوالہ سے تمام مجالس کو سرکلر بھجوائے جاتے ہیں۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا:
وقتاً فوقتاً چیک کر لیا کریں کہ ڈیوٹی دینے والوں نے ان کو پڑھا بھی ہے کہ نہیں۔ اور یہاں بھی خدام کو ٹریننگ صحیح طرح دیا کریں اور مجموعی طور پر قادیان کے عمومی ماحول پر بھی نظر رکھیں۔ مختلف قسم کے لوگ یہاں ہیں۔ مختلف طبائع کے لوگ یہاں ہیں۔ جو بھی صورتِ حال، نئی نئی ڈویلپمنٹس ہوتی ہیں وہ آپ لوگوں کو پتہ ہے وہ خاص طورپر نظر رکھ کر دیکھیں اور اس کی ایک ہفتہ وار رپورٹ باقاعدہ صدر صاحب کو دینی چاہیے۔
نیز فرمایا کہ روزانہ قادیان کے عمومی ماحول پر نظر رکھیں اور اسی طرح جہاں جہاں دیکھیں کمزوریاں ہیں وہاں صدر صاحب کو بتائیںا ور صدر صاحب پھر مہتمم تربیت اور باقی نظام کو فعال کر کے ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اٹیچ کریں تربیت کا یہی فائدہ ہے اور تربیت کا شعبہ اگر فعال ہو جائے تو باقی سارے شعبے بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ بہرحال عمومی طور پر نگرانی رکھیں۔ مسجدوں کی نگرانی اور قادیان کے عمومی ماحول کی نگرانی اور بہشتی مقبرے کی ڈیوٹی ہے آپ کی وہ دینی ہے۔ دارالمسیح کی ڈیوٹی ہے وہ دینی ہے یہ ساری ڈیوٹیاں خاص طور پر رکھیں۔
مہتمم صاحب تعلیم کو مخاطب ہوتے ہوئے حضورانور نے فرمایا کہ چھوٹی مجالس کو خاص طور پر تربیتی امور کے حوالہ سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اس طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔ شہری مجالس کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان کے دینی اور اخلاقی تعلیم کے الگ پروگرام بنانے کی ضرورت ہے اورالگ طریقوں سے انہیں سکھانے کی ضرورت ہے۔
حضورِ انور نے مزید فرمایا کہ کئی جگہوں پر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں، پھر بعض دوسری جگہوں پر بعض اَن پڑھ بھی ہوتے ہیں۔ بعض لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ انہیں پڑھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جہاں آسان اردو زبان استعمال ہوئی ہے، وہاں بھی بعض ایسے الفاظ آجاتے ہیں جن کا سمجھنا آسان نہیں ہے۔ تو آپ کو کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ سمجھا سکے۔ آڈیو کتابیں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ آپ کو ایسا پلان بنانا چاہیے کہ 100 فیصد خدام کو اس میں شامل کریں اور (ان کتب کو) پڑھائیں۔
بعد ازاں مہتمم صاحب اطفال کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ کتنے اطفال مجلس اطفال الاحمدیہ کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہمارا اپنے اطفال کا خیال رکھنا اور ان کی راہنمائی کرنا سب سے اہم اور نتیجہ خیز کام ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کا اچھی طرح خیال رکھنے والے ہوں گے تو آگے چل کر وہ خدام الاحمدیہ کے فعال ممبر ہوں گے اور جماعت کے مفید وجود بھی بنیں گے۔ اس لیے اطفال الاحمدیہ کی نگرانی ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل ذمہ داری ہے۔ اس کو معمولی کام نہ سمجھیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ چند پروگرام بنا لینے پر تسلی اور اطمینان سے نہ بیٹھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ ان کا اثر کیا ہوا ہے اور وہ کتنے مؤثر تھے اور کتنے لوگ اس میں شامل ہوئے۔ اپنی کمزوریوں پر دیانتداری سے نظر رکھیں اور ان کمزوریوں سے آئندہ بچنے کے لیے سوچیں کہ ان پروگراموں میں کیا تبدیلی کرنی چاہیے۔ اطفال الاحمدیہ کا خیال رکھنا ایک نہایت اہمیت کی حامل ذمہ داری ہے۔ آپ کو اس کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔
ملاقات کے آخر میں حضورِ انور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کو فرمایا:
میری ساروںسے باتیں ہو گئی ہیں اور اس وقت تو اتنی ہی باتیں ہو سکتی تھیں۔ اس سے زیادہ باتوںکا وقت نہیں ہے اور آپ جو مَیں نے باقی مہتممین کو باتیں کہی ہیں وہی باتیں آپ کے لیے ہیں اور میرا خیال ہے آپ کا قلم کافی تیزی سے چل رہا تھا، نوٹ کر لیا ہو گا آپ نے تو بس ان پہ اب کام آپ کر رہے ہیں ان کومزید بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ میری باتوں سے جو آپ سمجھتے ہیں کہ نہیں کر رہے ان کو کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے۔ اللہ حافظ و ناصر ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
٭…٭…٭