متفرق مضامین

موسمِ سرما میں وادیٔ نیلم (آزاد کشمیر) کی سیر

ماہ مارچ 2019ء کے آخری تین روز کی تعطیلات کو ضائع نہ ہونے دینے کا پروگرام بنا کر نصر بھٹی، واصل محمود اور خاکسار نے مل کر وادی نیلم کے سفر کا پروگرام بنایا اور کوہِ نور داس سفر پر 27؍ مارچ 2019ء کو روانہ وہ گئے۔

وادیٔ نیلم کا ایک خوبصورت منظر

28؍ مارچ 2019ء کودوپہرساڑھے گیارہ بجے ہم چنیوٹ، پھر بذریعہ بس راولپنڈی اور یہاں سے ایک کوسٹر میں سفر کرتے ہوئے رات 11بجے ہوئے آزادکشمیر کے صدر مقام مظفر آباد پہنچے۔دریائے جہلم پر تعمیر کیا گیا نیا پل دلفریب روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ رسیوں کے سہارے معلق پل کا شمار بلا شبہ پاکستان کے خوبصورت ترین پلوں میں سے ہوتا ہے۔ مظفر آباد میں امیر صاحب مظفرآباد کے ہاں رات قیام کیا۔ ان کے صاحبزادے نے میزبانی کا خوب حق ادا کیا۔

اگلے روز29؍ مارچ کو صبح 11:30بجے بذریعہ کوسٹر کیل کے لیے روانہ ہوئے۔ پٹہکا، چلہانہ اور کنڈل شاہی سے ہوتے ہوئے اٹھمقام پہنچے۔ یہاں بہار کی آمد آمد تھی۔ پھول کھل رہے تھے۔اٹھمقام سے 53کلومیٹر کا سفر کر کے شاردہ پہنچے چند منٹ آرام کے لیے سفر معطل کیا گیا۔ ہم نے یہ موقع غنیمت جان کر شام کے مدہم اندھیرے میں شاردہ اور دریائے نیلم کی تصاویر لیں۔ ہر طرف برف ہی برف تھی۔ پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے گھروں کی چھتوں تک، درختوں کی شاخوں سے دریا کے کناروں تک۔ یہ نیلم ہی کے دلفریب رنگ ہیں کہ صرف 2گھنٹوں میں 53کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے آپ بہار کے شگوفوں سے سرما کی برفوں میں پہنچ جاتے ہیں۔20منٹ بعد کیل کے لیے روانگی ہوئی۔ راستے میں دومقامات پر سڑک کی حالت پہاڑوں سے اترنے والے نالوں کے باعث خاصی خستہ تھی لیکن محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیریت یہاں سے گزر کر رات ساڑھے آٹھ بجے کیل پہنچے۔کیل میں سڑک کنارے برف پڑی تھی اور سردی بھی بہت زیادہ تھی۔ ایک دوست کے ذریعے ہوٹل میں کمرہ قبل ازیں حاصل کر لیا گیا تھا۔ رات اس میں قیام کیا۔

اگلے دن (30مارچ کو)ہم بیدار ہوئے تو سخت سردی کی وجہ سے گرم لحاف چھوڑنے کو دل نہ چاہا لیکن اس وقت سردی کا کوئی ہوش نہ رہا جب واصل صاحب نے کھڑکی سے باہر دیکھ برف باری کی نوید سنائی۔ اب بستروں میں رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا سو ہم نے اڑنگ کیل جانے کی تیاری مکمل کر لی۔ایک ہوٹل سے مناسب ناشتہ کیا۔ برف باری اب خاصی تیز ہوچکی تھی۔ ہم اسی برف باری میں اڑنگ کیل روانہ ہوئے۔

موسم کے رنگ نہایت دلکش تھے۔ کوہساروں نے برف کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ برف باری تھمنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔کیل سے کیبل کار کے زریعہ دریائے نیلم عبور کیا اور برف میں مستور پہاڑ کی ڈھلوانوں پر تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر پیدل چل کراڑنگ کیل پہنچے جہاں زمین پر ہر طرف 6تا 7فٹ برف کی تہ موجود تھی۔ اڑنگ کیل میں قیام کے دوران ہمیں اپنے علاوہ کوئی سیاح نظر نہ آیا۔اس موسم میں مقامی لوگ گھروں سے نکلنے کی ہمت نہیں کرتے۔ ایسے میں سیاحوں کی یہاں موجودگی چہ معنی دارد؟!

اڑنگ۔کیل

تیز ہوا کی وجہ سے سردی خاصی تھی۔ ایک مناسب ہوٹل میں کمرہ حاصل کیا۔ باورچی خانے میں لکڑی کی آگ سے اپنے سرد پڑتے بدنوں کو حرارت پہنچائی۔سامان یہیں رکھا ا ور دوپہر کے کھانے کے بعد گرتی برف میں اڑنگ کیل کی سیر کو نکلے۔ برف باری اب بھی خاصی تیز تھی۔بادل خاصے نیچے آئے ہوئے تھے اور پہاڑ بادلوں میں مستور تھے۔ کوہساروں اور وادی کا منظر خاصا سحر انگیز تھا۔ عصر کا وقت تھا جب برف باری تھمی اور بادل منتشر ہونا شروع ہوگئے۔ مشرقی پہاڑ پر سورج کی کرنیں بادلوں میں سے نکل کر پہاڑ کی چوٹی پر پڑ رہی تھی اور پہاڑ کی چوٹی سونے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ یہ کوہساروں کا کوہ نوردوں کے لیے شاید سب سے حسین تحفہ تھا۔رات کے اندھیرے میں تاروں بھرے آسمان کا نظارہ بھی دلکشی میں اپنی مثال آپ تھا۔اڑنگ کیل میں جو کم سے کم درجہ حرارت ہم نے نوٹ کیا وہ -7ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

کیل

اگلے روز 31؍ مارچ کو اڑنگ سے واپسی ہوئی۔ ہمارا ارادہ تھاکہ تاؤبٹ روڈ پر ایک مقام پھلاوائی تک رسائی حاصل کی جائے جہاں ہمارے ایک دوست خرم جمال صاحب کا گھر ہے۔ جیپ ٹریک مچھل نامی مقام تک کھلا تھا جو کیل سے تقریباً8کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس سے آگے کم و بیش 4.5فٹ برف اور کیچڑ کے باعث بند تھا۔ایک جیپ پر لفٹ لے کر مچھل پہنچے اور یہاں سے پیدل آگے روانہ ہوئے۔ چند مقامی لوگ ہمراہ تھے۔جم گڑھ نامی مقام پر پہنچے تو مقامی لوگوں نے ہمیں یہ کہہ کر آگے جانے سے روک دیا کہ آگے راستہ خطرناک ہے۔ برف کے تودے گرنا معمول ہے جو آپ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔سو ہم نے یہیں سے واپسی کرلی۔ پیدل ہی کیل پہنچے۔ اب ہمارا ارادہ تھا کہ پیدل ہی شاردہ پہنچا جائے جو کیل سے 18کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

جم گڑھ سے کیل اورکیل سے شاردہ کے درمیان دسیوں ندی نالے پار کیے جن میں سے چند ایک خاصے شوریدہ سر تھے۔ کئی مرتبہ ہمارے بوٹ برفیلے پانی سے بھرے اور اسی حالت میں 5گھنٹے پیدل سفرکر کے ہم شاردہ پہنچے۔ راستے میں بہت سی آبشاروں کا بھی نظارہ کیا۔چند ایک گلیشیربھی پار کیے۔کیل سے اڑنگ کیل کے درمیان اور جم گڑھ سے شاردہ تک جو پیدل سفر ہم نے کیا اس کی مجموعی مسافت کم و بیش 34کلومیٹر بنتی ہے۔

شاردہ میں قدیم یونیورسٹی اور شہرکی سیر کے بعد بس اڈے پر آگئے جہاں کیل سے آنے والی کوسٹر کے ذریعے ہمارااٹھمقام پہنچنے کا پروگرام تھا۔ لیکن اس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ کیل سے شاردہ کے درمیان ایک مقام کیل سیری پر برف کا ایک خاصا بڑا تودہ گرا ہے جس نے راستہ بند کردیا ہے اور کوسٹر واپس کیل چلی گئی ہے۔یہ وہی گلیشیر تھا جس سے مصافحہ کرتے ہوئے ہم کچھ دیر قبل شاردہ پہنچے تھے۔ اس کوسٹر کے چند مسافر اور مقامی حضرات گلیشیر کو پیدل پار کر کے شاردہ آگئے تھے جن کی زبانی ہمیں گلیشیر گرنے کا حال معلوم ہوا۔

شاردہ یونیورسٹی

کوسٹر کے مسافروں نے شاردہ قیام کی بجائے مظفر آباد پہنچنے کو ترجیح دی اور ایک ویگن ڈرائیور کو اس مقصد کے لیے تیار کیا۔ ہم بھی اٹھمقام تک نتھی ہوگئے۔ اٹھمقام میں اتر کر محکمہ واپڈا کے ایک ایکسین دوست کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں رات قیام کیا۔

اگلے دن صبح ناشتے کے بعد مظفر آباد بذریعہ کوسٹر پہنچے۔ یہ یکم اپریل 2019ء کا دن تھا۔یکم اور 02اپریل 2019ء کو ہم مظفرآباد کے مختلف مقامات کی سیر کرتے رہے جن میں دریائے جہلم کے کنارے ایک قدیم بارہ دری، دومیل کے مقام پر قائد اعظم پل کے نیچے دریائے جہلم اور دریائے نیلم کا سنگم، دریائے نیلم کے کنارے لال قلعہ اور ایک پارک، وہ منفرد مقام جہاں دریائے جہلم آبادی کے گرد Uکی شکل میں بہتا ہے، دریائے جہلم کا معلق پل، سپریم کورٹ آزادکشمیر، بازار اور ایک پہاڑ کی چوٹی سے رات کو جگنو کی مانند چمکتی مصنوعی روشنیوں میں مظفر آبادکے دلفریب منظر کے ساتھ ساتھ 08اکتوبر2005ء کو آنے والے تباہ کن زلزلے کا مرکزی مقام بھی شامل ہیں۔

مظفر آباد کا ایک منظر

03اپریل2019ءکو ربوہ واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔ ایک کوسٹر پر سفر کرتے ہوئے راولپنڈی اور یہاں سے جھنگ جانے والی بس کے ذریعے چنیوٹ پہنچے۔ چنیوٹ سے ایک رکشہ نے ہمیں شام 07بجے ربوہ اتارا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے یہ خوبصورت سفر اختتام کو پہنچا لیکن اس سفر کے دوران کوہساروں اور وادیوں کے جو حسین تحائف ہم نے سمیٹے وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ انشاء اللّٰہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. سیر سے قبل ہم تینوں کا ارادہ تھا کہ سردیوں کا احوال قلمبند کریں گے مگر آپ ہی اس صرف اس احوال کو ضبط تحریر لا سکے ہیں ۔ بہت ہی عمدہ تحریر لکھی ہے۔ شکریہ ذیشان

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button