بچّوں کا دل ایک تصویری آئینہ ہے
بچپن کی زندگی بھی عجیب زندگی ہے نہ کوئی غم نہ فکر نہ کام نہ شغل نے غم و زد نے غم کالا۔ ایک عجیب راحت اور آرام کے دن ہوتے ہیں بے فکری کے ایّام ہوتے ہیں نہ ان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کھائیں گے کہاں سے نہ یہ غم کہ پہنیں گے کہاں سے۔ خداتعالیٰ نے بھی بچوں کو شریعت کے احکام کی تعمیل سے آزاد کردیا ہے اور کوئی شریعت نہیں جو بچّہ کو احکام الٰہی کا مکّلف بناتی ہو۔ پھر جس قوم کو خدا بھی آزاد کرتا ہو اسے کون مقید کر سکتا ہے۔
اس آزادی اور بے فکری کے ساتھ بچے کا دل نرم اور نازک بھی ہوتا ہے ذرا والدین کے چہرہ پر آثارغضب دیکھے اوراس کے ننھے ننھے ہونٹ باہر نکلنے شروع ہوئے اور اس نے اپنے ہونٹوں کی بھر بھراہٹ سے اپنی خفگی کا اظہارشروع کیا ذراکسی کے قو ل یا فعل کو اس نےناپسند کیا اور چمکتی ہوئی آنکھوں میں نمی آگئی۔ ذرا کسی بھائی بہن نے سختی کی کہ وہ چیخ مار کر رو پڑا۔ بچّہ کا دل نہایت نازک ہے ہر انسان کا دل نازک ہے لیکن بچہ کا دل تو بہت ہی نازک ہے۔
یہ بے فکری اورآزادی اور نزاکت کیوں ہے یہ اس کی آئندہ زندگی کے لئے تربیت کا سامان بہم پہنچا نے کے لیے عالم الغیب خدا، حکیم خدا کی طرف سے ایک عطیہ ہے۔
چونکہ بچپن میں ہی جب تک بچّہ کو بہت سی مفید باتیں نہ سکھلا دی جائیں وہ بڑے ہو کر کسی کام کا نہیں رہ سکتا۔ اس لئے اسے زندگی کےعظیم الشان مقابلہ کی تیاری کے لیے یہ وقت فارغ کردیا گیا ہے۔ سخت دل کا توڑنا مروڑنا مشکل ہوتا ہے۔ اور بھرے ہوئے برتن میں اور کچھ ڈالنا ناممکن ہوتا ہے۔ اس لئے بچہ فارغ القلب پیدا ہوتا ہے اور اس کا دل ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ وہ بہت جلد دوسروں کے اثر سے متاثر ہوجاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو بچہ بہت سے علوم کے سیکھنے سے محروم رہ جائے۔
لیکن بچہ کی اس نزاکت سے فائدہ اٹھانا پہلے ہمارا کام ہےہم جس طرح چاہیں اسے توڑ مروڑ کر اپنے مطلب کے موافق بنا سکتے ہیں۔ گویا وہ ایک نرم بید ہے کہ جسے مروڑ کر جو چیز چاہو بنا لو۔ جیسا کہ قرآن شریف نے بیان فرمایا ہے کہ انسان مٹّی سے بنا ہے جس طرح مٹّی کو جب وہ ابھی گیلی ہو جس شکل میں چاہیں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو بھی اس کے طفولیت کے ایام میں جس طرز پر ڈالنا چاہیں ڈال سکتے ہیں اور جُوں جُوں وہ بڑا ہوتا جاتا ہے اس میں خشکی آتی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا ڈھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پس والدہ کا فرض ہے کہ بچپن میں اس نازک دل کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھے اور ہر قسم کے گندے اثرات سے بچائے۔
بچّہ کا دل ایک تصویری شیشہ کی مانند ہوتا ہے کہ اس پر جو عکس پڑتا ہے وہ اسے اخذ کر لیتا ہے۔ پھر جس قسم کا عکس اس پر پڑے گا۔ وہ اس کے اندر سے نظر آئے گا۔ اگر بچّہ کے دل پر خوبصورت اشیاء کا عکس ڈالا جائے تو خوب صورت شے اس میں سے نظر آئے گی۔ اور اگر بدصورت اشیاء کا عکس پڑے تو وہی اس میں نظر آئے گی۔
جیسا سلوک بچوں سے کیا جائے گا۔ ویسا ہی سلوک وہ آگے کریں گے۔ بعض مائیں اس عمل کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بچہ کو خراب کر دیتی ہیں۔ اور نہیں جانتیں کہ اب ہم جو کچھ اس بچّہ کو سکھا رہی ہیں۔ یہ ایک تصویر کی طرح اس کے دل کے آئینہ میں منعکس ہوگا۔ اس لئے ہم ایسے اثرات اس پر ڈالیں جن سے اس کی زندگی بہتر ہو نہ خراب۔
ہر ایک انسان غور سے بچوں کی زندگی کا مطالعہ کرے دیکھ سکتا ہے کہ بچوں میں نقل کرنے کی بڑی عادت ہوتی ہے اور جس طرح شیشہ کے سامنے کھڑے ہو کر انسان جو کچھ کرتا ہے وہی بعینہ شیشہ میں بھی نظر آنے لگتا ہے۔ اسی طرح جو کچھ والدین کو بچّہ کرتا دیکھتا ہے اسی طرح آپ بھی کرنے لگتا ہے۔ خصوصاً ماں کو چونکہ ہر وقت دیکھتا ہے اس کے اعمال کی نقل تو وہ ہر وقت کرتا رہتا ہے اس لئے وہی تصویر اس کے دل پر نقش ہوتی ہے۔
بعض لوگ بچوں کو چڑاتے ہیں اور ان کے سامنے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ماروں۔ میں نے دیکھا ہے ایک دو دفعہ کے بعد بچہ بھی وہی شکل بنا کر اسی طرح ہاتھ اٹھا کر کہنے لگتا ہے ماروں۔ بعض احمق بچوں کو پیار سے گالیاں دیتے ہیں بچے بھی آگے سے اسی طرح گالیاں دینے لگتے ہیں۔
غرض بچہ ایک تصویری شیشہ ہے یا ایک گنبد ہے کہ یہ گنبد کی سدا جیسی کہے ویسی سُنے بلکہ ایک فونو گراف ہے کہ جو کچھ اس کے خالی ریکارڈ میں بھر دو وہی وہ آئندہ زندگی میں سناتا رہتا ہے۔ گنبد دوسری دفعہ آپ ہی اس آواز کو نہیں دہراتا۔ لیکن فونوگراف ہمیشہ وہی آواز دہراتا ہے۔ پس بچّہ کے دل کو ایک تصویری آئینہ یا فونوگراف کہنا درست ہوگا کہ وہ ہمیشہ وہی تصویر وہی آواز دیتے ہیں۔ جب بچہ کے دل کی یہ کیفیت ہے تو کیوں اس پر نیک نشانات نہ قائم کیے جائیں اس میں عمدہ آوازیں نہ بھری جائیں۔
بعض عورتیں اپنے بچوں سے ہمیشہ منہ بنا کراورتیوڑی چڑھا کر بات کرتی ہیں تو اُن کے بچے بھی ہمیشہ منہ پھلا کر بات کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں اس کے برخلاف جوعورتیں ہنس مکھ ہوں بچوں سے نیک سلوک کی عادی ہوں ان کی اولاد بھی ویسی ہی ہنس مکھ ہوتی ہے۔
پس یہ ہر ایک ماں کا فرض ہے کہ بچہ کے ان آزاد ایّام اور سیکھنے کے دنوں میں اس کے دل پر ایسے نقش منقوش کرنے کی کوشش کرے۔ اور اس کے اندر ایسی آواز بھرنے کی فکر کرے جو بڑے ہو کر اس کے لیے مفید ہوں اور اس ماں کے لئے نیک نامی کا ذریعہ۔
ہمیں بچوں کی تربیت میں ٹوپی والے آدمی کی مثال سے سبق لینا چاہیے کہتے ہیں کہ کوئی شخصایک جگہ درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اور اس کے پاس کچھ ٹوپیاں تھیں۔ اس کی آنکھ لگنے پر بندر ٹوپیاں اٹھا کر لے گئے اور سر پر اسی طرح لیں۔ جب وہ جاگا تو سخت حیران ہوا۔ بہت جتن کئے۔ مگر بندروں سے ٹوپیاں واپس نہ لے سکا۔ ان پر پتھر بھی پھینکے۔ مگر انہوں نے ٹوپیاں نہ دیں۔ اس نے سوچا کہ بندروں کو نقل کرنے کی عادت ہوتی ہے اسی کا تجربہ کروں۔ اپنے سر سے ٹوپی اتار کرزور سے زمین پر دے ماری۔ بندروں نے یہ حرکت دیکھتے ہی ٹوپیاں اتار اتار کر پھینکنی شروع کیں اور اس نےجمع کر لیں۔
ماؤں کو بھی چاہیے کہ بچوں سے ایسا سلوک کریں جس کی نقل کرنے پر وہ ساری عمر ذلیل و خوار نہ ہوں بلکہ ان کے اخلاق درست ہو جائیں۔
(اخبار الفضل قادیان دار الامان، مورخہ 3ستمبر1913ء صفحہ 11)
٭…٭…٭