حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحبؓ سابق ناظر اعلیٰ و امیر مقامی کا ذکر خیر
یکم جون 1963ءکی بات ہے کہ احقر مدرسہ احمدیہ قادیان میں بحیثیت طالب علم داخل ہوا۔ مقدس بستی قادیان میں قدم کیا رکھا، ہر طرف سلامتی کی دعائیں ملتی رہیں۔ جون کا مہینہ تھا گرمی کی شدت تھی جو قوت برداشت سے باہر تھی۔ اس پر مستزاد وطن سے دوری اور اپنوں سے مہجوری نے تکلیف میں اضافہ کیا تھا۔ لیکن مکینانِ قادیان جن میں کثیر تعداد درویشان عالی مقام کی تھی۔ جن میں ہمارے وہ بے لوث مخلص اور ہمدرد اساتذہ اور دوسرے بہت سارے اَور بزرگان اور ہم عمر و ہم جلیس طلباء کی تھی جو سب کے سب بہت زیادہ ہمدرد،غمگسار، پیار ومحبت کے پیکر، زندہ دل، منکسرالمزاج، جن کی باتوں میں مٹھاس اور ملائمت، جن کے دلوں میں غمخواری سے پُر جذبات اور شفقت بھری حوصلہ افزائی تھی۔ ان پیارے لوگوں کا ممتاز حصہ حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی تھا۔ جو پدرانہ جذبات اور پیار کے مظہر تھے۔ جن کی محبت بھری گفتگو مغموم دلوں کی تسکین کا باعث تھی۔ جن کا سلوک ماں کی ممتا کو مات دینے والا ثابت ہوا۔ جب سب درویشانِ کرام جن کا حصہ ہمارے سب سے معزز دونوں بزرگان بھی تھے کی بات کریں تو سب کے دلوں میں غمخواری سے پُر جذبات اور شفقت بھری حوصلہ افزائی تھی۔ سب کی گفتگو خدائے رحمٰن کے احسانات کے تذکروں سے لبریز۔ کلام عشقِ مصطفیٰﷺ سے مزین۔ ایسے محسن لوگ جو مسیح زماں علیہ السلام اور خلفائے کرام کے روح پرور لمحات، کلمات اور ملفوظات کےسایہ میں پروان چڑھے تھے۔ ایسے بے نفس اور ہمدرد، محسن مخلص بزرگان کی دل دہی اور حوصلہ افزائی نے احقر کی ایسی راہنمائی کی۔ ایسی ڈھارس بندھائی کہ دل بےساختہ یوں گویا ہوا۔ ؎
دکھ درد کے ماروں کو غم یاد نہیں آتے
جب سامنے آنکھوں کے غمخوار نظر آئے
اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوتا رہا کہ آئے ہو تو دیارِ مہدی ٔدوراںؑ اور یہاں کے ماحول اوربُستان سے کچھ تو سیکھ کےجاؤ۔ پس یہ تھا وہ وقت جب احقر کے دل میں یہ بات سمائی کہ قادیان دارالامان، جہاں خوش قسمتی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض یافتہ کچھ ساتھی صحابی بھی ہیں۔ جن پر حضرت صاحبؑ کی نظر کرم رہی ہوگی اور وہ مبارک ہو گئے۔ پس اُن کی صحبت سے فیض پانا، اُن کے کلمات سے استفادہ کرنا یقیناً خوش بختی ہوگی اور بشرط اُن کی رضامندی اُن سے اکتساب علم و دعائیں لینا تو مفت میں تابعین کی صف میں شامل ہونے کے مترادف ہوگا جو یقیناًباعث صد افتخار ہوگا۔ پس یہ خیال دل میں بار بار آتا رہا اور انگڑائیاں لیتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے رحم فرمایا۔ دل مائل التجا بہ رب العزت ہوا۔ آہیں کام آئیں۔ خواہشات نے حقیقت کا روپ دھارنا شروع کیا۔ درویشان عالی مقام، صحابہؓ ضوفشاں کی دعائیں، حوصلہ افزائی اور دل دہی اور نظرِالتفات نے اپنا اثر دکھایا۔ لڑکھڑاتے قدموں کو ثبات ملا۔ بے نفس اور مخلص اساتذہ کرام کی مہربانیوں، ہم عصر وہم جلیس طلباء اور ساتھیوں نے احقر کی زندگی میں رنگ بھر دیے۔ آگے بڑھنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کے اسلوب سکھائے۔ چنانچہ سب افکار کافور ہوگئیں۔ خداوند قدوس کی نظر عنایت نے ساتھ دیا۔ اُس کی کرم فرمائی ہوئی۔ سختیوں اور پریشانیوں سے نپٹنے کے طور آگئے۔ سچ کہا حضرت مولانا روم نے کہ سونا آگ کی تمازت اور تکلیف میں چمکتا ہے۔ اور عاشقانِ خام کا حال یوں ہوتا ہے کہ وہ ذرا سی تکلیف سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ ؎
تو بیک زخمے گریزانی ز عشق
تو بجز نامے نمی دانی ز عشق
اے مخاطب جب ایک ہی زخم سے تو گریز کر گیا اور راہ فرار اختیار کر لی تو معلوم ہوا کہ تجھے ابھی عشق کی ہوا بھی نہیں لگی ہے تو نے صرف عشق کا نام سن رکھا ہے پس محبت کا راستہ آسان نہیں ہے۔ اس کو پانے کے لیے ہمہ قسم قربانی کی ضرورت ہے۔ محبت اور راہ ِسلوک کے راستے پر چلنے کے لیے حصول علم پہلا زینہ ہے۔ اس زینے کو سر کرناحصول محبت کاپہلا قدم ہے۔ علم لُدنی تو انبیائے کرام کا ہی خاصہ ہے۔ ہم جیسے اناڑی اور جاہل و غافل لوگوں کے لیےعلم کسبی کے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔ اور یہی وہ زیور ہے جو اساتذہ کرام کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اگر اس میں طالب علم کامیاب ہوا تو امام عالی مقامؑ کے صحبت یافتہ بزرگان سے قربت، ان کی صحبت اور ان کی ہم کلامی، شرف ملاقات اور شرفِ تلمذ بہت حد تک اس وسیع تر میدان کو سر کرنے اور اس موجوں سے بھرے سمندر میں تیرنے کے گر سیکھنے میں ممد و معاون بن سکتا ہے۔ پس یہ وہ خیالات تھے جنہوں نے احقر کی دنیا بدل دی۔ حوصلہ بخشا اور اس راہ کو سر کرنے میں معاون و مددگار بنا۔ کلاسیں اٹینڈ کیں۔ کتابی علوم حتی المقدور سیکھا۔ لیکن دل جس چیز کے حصول کا خواہاں تھا وہ دل میں بار بار مچلتا رہا۔ بےچین کرتا رہا۔ وہ تھا کسی صحابی حضرت امام زمان علیہ السلام کی صحبت اور شرف تلمذ حاصل کرکے تابعین کی صف میں شامل ہونے کی سعادت پانا۔ بلا شبہ یہ ایک عظیم خواہش تھی اور خداوند قدوس کے فضلوں سے ہی ایسا ہوسکتا تھا۔ ورنہ ہماری ذاتی سعی لاحاصل ہی ہوتی۔ پس اس ہدف کو پانا احقر کے لیے ایک چیلنج ضرور تھا۔ اقبال نے اپنےایک شعر میں ہمارے دل کے درد کو یوں بیان کر کے ترجمانی کی ہے۔ ؎
خرد کے پاس خیر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
پس یہ تھا احقر اور مکرم مولوی عبدالباسط صاحب فاضل پونچھ مرحوم کے لیے وہ وقت جب ہم نے نظر نوازی کی خواہش کے پیش نظر یہ ٹھان لی کہ خیر جہاں سے بھی حاصل ہو وہاں جاکر دھونی رمانی ہے۔ چنانچہ اس عظیم اور لازوال خیر کو پانے کے لیے حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب جٹؓ کے دربار سے بہتر اَور کوئی جگہ نہ تھی کیونکہ آپ صحابی حضرت مہدی دوراں علیہ السلام کے علاوہ ایک متبحر عالم بھی تھے۔ جید علماء میں آپ کا شمار تھا۔ چنانچہ ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ آپ سے شرف تلمذ کی درخواست کریں۔
حضرت مولانا صاحبؓ کی خدمت میں
حضرت مولوی صاحبؓ کے بارے میں جیسا کہ عرض گذاشت ہو چکا ہوں کہ آپ ایک متبحر عالم فاضل صحابی امام زماںؑ تھے۔ آپ باعمل بھی تھے۔ ہمدرد مونس بھی تھے۔ لیکن آپ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ اور امیر مقامی بھی تھے۔ آپ کی ذمہ داریوں کے پیش نظر آپ کی مصروفیات بھی زیادہ تھی۔ لیکن ہم نے آپ کے دروازے کو دستک دے ہی دی۔ آپ نے گرج دار مگر متبسم انداز میں پوچھا کیا بات ہے؟ ہم نے اپنا عندیہ بیان کیا۔ آپ نے مشفقانہ انداز میں مثبت جواب دیا اور پوچھا کون سا سبجیکٹ پڑھنا ہے ہم نے ’’ہدایہ‘‘کے بارے میں کہا۔ آپ نے اگلے دن سے حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا۔ اس طرح ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ واضح رہے ’’ہدایہ‘‘ فقہ حنفیہ کی کتاب ہے جو عربی زبان میں ہے اور مولوی صاحبؓ اس کتاب کے ماسٹر یعنی قابل استاد گردانے جاتے تھے۔ حضرت مولانا صاحبؓ کا مثبت جواب ہمارے لیے باعث صدافتخار تھا۔ ہم نے کچھ اسباق حضرت مولانا صاحبؓ سے پڑھے۔ آپ کے پڑھانے اور سمجھانے کا انداز نرالا اور مؤثر تھا۔ آپ ایک مہربان استاد اور مشفق باپ کی طرح پڑھاتے تھے۔ آپ کی تبحر علمی کا جواب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ آپ کو جنت نصیب کرے۔ آمین۔ ہمارا مقصد پورا ہوا۔ خدا کرے ہمیں واقعۃً وہ درجہ جس کی ہمیشہ خواہش تھی تمام اوصاف اور جزئیات کے ساتھ حاصل ہو۔ حضرت مولانا صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں جانا، ان سے اکتسابِ علم ہماری زندگی کا ایک ایسا باب ہے جو ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں مرتسم ہو کر رہ گیا ہے۔ جس نے ہماری تاریخ کو کم از کم ہمارے لیے درخشاں بنا دیا ہے۔ ؎
پُر سکون محفل تھی ان کی باوقار ان کا کلام
معرفت کے جا م لٹتے جب وہ فرماتے بیان
حضرت مولانا صاحبؓ کا مختصر تعارف
حضرت مولانا صاحبؓ کے حسن کلام، حسن کردار اور سادگی نے آپ کی شخصیت کو بہت ہی پُرکشش، بہت ہی دلکش اور دلنواز بنایا تھا۔ آپ کے چہرے کی مومنانہ مسکراہٹ نے آپ کے وجود کو آئینہ پیارومحبت بنایا تھا۔ ہم دونوں نازا ں اور شادمان تھے کہ ہمیں آپ سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ اور یقیناًیہ بہت بڑی سعادت تھی جو ہم کو ملی۔ فالحمد للّٰہ علٰی احسانہ و فضلہ۔
حضرت مولانا صاحبؓ بچپن سے ہی پدرانہ شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ چار بہن بھائی تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادم خاص حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ آپ کے ماموں تھے وہ آپ کو 1903ء میں دیار ِمہدی میں لائے۔ اور یہیں حضرت امام زمانؑ کی نظروں میں آپ کے قابل فخر ماموں نے دیکھ ریکھ، تعلیم و تربیت اورپرداخت کی۔ قدرت کے کام عجیب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ مقام عطا کرنا تھا۔ آپ سے غیر معمولی کام لینا تھا۔ جو آپ کے کارناموں سے عیاں ہے اور آپ کی سیرت لکھنے والے اس کو بیان کرتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
آپ کا قادیان دارالامان تشریف لانا، یہاں پر حضرت امام عالی مقامؑ کی نظروں میں رہنا، پروان چڑھنا، آپ کے مقام کو سمجھنے کے لیے مشعل راہ ہے۔ یقیناًحضرت صاحبؑ کے پیار و محبت اور نظرِرحمت سے آپؓ مستفید ہوتے ہوں گے۔ 1903ء سے لے کر مئی 1908ء تک اگرچہ آپ بہت کم عرصہ حضرت اقدسؑ کی نظروں اور صحبت میں رہے ہیں لیکن جو بھی رہے جتنا بھی رہے اس پر مستزاد حضرت صاحبؑ کے خادم خاص کی تربیت یہ سب عنایتِ الٰہی سے ہی ملتا ہے۔ اسی مختصر مد ت نے آپ کی تقدیر کو بدل دیا اور آپ راہ نمائی، رہبری اور لیڈری کے لیے تیار ہو تے رہے۔ کہنے والے نے سچ کہا ہے۔ ؎
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
یا کسی شاعر نے یوں بھی اس مضمون کو بیان کیا ہے۔ ؎
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
المختصر حضرت مولانا صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ صحابیت کا شرف پایا اور وہ جو تقدیر ِازل میں لکھا تھا۔ آپ ایک باعزت، باوقار اور قابلِ صد افتخار مقام پر پہنچ گئے۔ آپ ستاروں کے جھرمٹ میں روشن ستارے کے مانند تھے۔ گو آپ بچپن سے شفقت پدری سے محروم تھے لیکن قدرت کو جو منظور ہوتا ہے اس کے تانےبانے خالق کائنات کے ہاں محفوظ ہوتے ہیں یا وہ بنتے جاتے ہیں۔ آپ کو ممتاز مقام ملنا تھاسو مل گیا۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیت سے مشرف ہوئے، آپ ممتاز ہوئے کیونکہ آپ ایک متبحر عالم تھے آپ ممتاز ہوئے کیونکہ 1947ء کے خون آشام ایام میں آپ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے پاکستان ہجرت کے وقت امیر مقامی مقرر فرمایا۔ آپ ممتاز تھے کیوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو ناظر اعلیٰ جیسے عہدے کا امین مقرر کیا۔ آپ کی شخصیت کو پرکھنے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ آپ تادم واپسی ان دونوں عہدوں پر فائز رہے۔ اس سے بزرگان کے آپ پر حسن ظن اور بھروسے کا پتہ لگتا ہے۔ آپ عالی ظرف تھے اس لیے بلا لحاظ مذہب و ملت شہر کے لوگ آپ کی قدر اور عزت کرتے تھے۔ خداوند ذوالجلال نے آپ کو زندہ دل کے ساتھ ساتھ خوش خلقی، خوش مزاجی اور خوش مذاقی کے اوصاف سے بھی متصف کیا تھا۔ آپ بلا لحاظ مذہب، بلالحاظ عمر سب کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ آپ ہمیشہ کے لیے ممتاز ہیں کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے شرف صحابیت حضرت امام زماں علیہ السلام کا تحفہ عطا فرمایا ہے۔
آپ کی مقبولیت
غرض آپ مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے چہرے پر ہمیشہ مومنانہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ آپ قد آور یعنی سرو قد بزرگ تھے۔ سر پر ہمیشہ لونگی والی پگڑی رہتی اور بدن پر شیروانی زیب تن کرنے کی عادت نے آپ کی شان کو دوبالا کر دیا ہوتا تھا۔ آپ بہت ہی جرأت مند، صحت مند اور بارعب وجود تھے۔ آپ کا طرزِ کلام ہمیشہ ناصحانہ ہوا کرتا تھا۔ گفتگوگرج دار ضرور ہوا کرتی تھی لیکن اس میں آپ کی خوش مزاجی، خوش کلامی، پدرانہ شفقت اور لطف و پیار ہوا کرتا تھا۔ آپ سب کے ساتھ پیار کا سلوک کرنے کے عادی تھے۔ آپ میونسپل کونسلر اور پھر پردھان کے عہدے پر بھی رہے ہیں۔ ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کی خدمت میں آتےاور آپ ان کے مسائل کو غور سے سنتے اور ہمدردانہ سلوک کا مظاہرہ کرتے۔ مسائل حتی الوسع حل کرتے۔ حل کرنے کے طور طریق سمجھاتے۔ آپ کسی کو جھڑکتے نہیں تھے۔ نہ مایوس کرتے تھے۔ کچھ مسائل حل کر کے، کچھ ناصحانہ انداز اپنا کر، کچھ اچھے بول سنا کر، یہی وجہ تھی کہ بسا اوقات لوگوں کا جھرمٹ آپ کے گرد رہتا۔ مسلم ہو یا غیر مسلم ہر کوئی آپ کی عزت کرتا، آپ کا احترام کرتا ہم نے پایا ہے۔ آپ کی عادت تھی کہ نما ز عصر کے بعددارالضیافت کی طر ف جانے والی سٹرک کے داخلے کے پاس جہاں آج دفتر تعمیرات ہے کرسی پر رونق افروز ہو جاتے۔ غیر مسلم آتے آپ کی ٹانگیں دبانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ وہ اپنا دکھڑا آپ کو سناتے۔ آپ ان کے ہموم و غموم کو دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ کی محفل میں ہر عمر کے لوگ آتے ۔آپ ہر فرد کو اس کی عمر کے مطابق نصائح سے نوازتے۔ بہت ہی دلربا، خوشکن وہ دَور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہر احمدی گھر سے باہر ٹوپی پہن کر چلتا، نمازوں میں سُستی بہت شاذ تھی، نوجوان و اطفال لغویات سے کوسوں دور رہتے۔ سرِ بازار سگریٹ کے کش لینا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا۔ احمدی تو احمدی غیر مسلم بھی آپ سے ڈرتے تھے۔ آپ کا رعب سب پر یکساں تھا۔ مولانا رومؒ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے۔ ؎
ہر کہ ترسد از حق و تقویٰ گزند
ترسد از وے جن و انس وہر کہ دید
یعنی جو خدا سے ڈرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے اس سے جن و انسان سب ڈرتے ہیں اور جو بھی اس کی طرف دیکھے گا اس پر اس مرد حق کی ہیبت طاری ہوتی ہے۔
حضرت مولانا صاحبؓ سخت مزاج تو تھے نہیں۔ ہاں مومنانہ جرأت اپنے اندر ضرور رکھتے تھے۔ پھر کیا وجہ اس درویش صفت بزرگ سے جو سب کے لیے بمنزلہ باپ تھے خوف کھاتے تھے کیوں ان کے وجود کا ایک گوناں رعب تھا؟ ہر کسی پر بلا لحاظ مذہب بلالحاظ عمر و جنس یہ رعب، یہ ہیبت ایک ظالم و جابر یا جور و جفا کرنے والے کی طرح نہیں تھا بلکہ یہ رعب اسی طرح کا تھا جو ایک پدر ِمہربان کا اپنے بچوں پر طاری ہوتا ہے۔ یہ رعب اس درویش صفت کا بھی نہیں تھا بلکہ یہ رعب اس حبل اللہ کا تھا جو خلافت کے رنگ میں حق تعالیٰ نے احمدی دنیا کو انعام کے رنگ میں عطا کیا ہے۔ جس کو تھامے رکھنا، جس کی قدر کرنا، جس کی حفاظت کرنا ہر احمدی کافرض ہے۔ پس جس نے اس حقیقت کو پایا اس کی نَیا پار ہو گئی۔ وہ بامراد ہوگیا۔ خلافت سے وابستگی اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کی یکتائی اور وحدانیت کو سمجھنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یکتائی عالم انسانیت کو نکتہ اتحادپر قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہےاور نبوت و رسالت کے بعد خلافت سے وابستگی اور فدائیت و اطاعت اس کا واحد ذریعہ ہے جو اس راز کو سمجھا وہ کامیاب ہوگیا۔ وہ با رعب بن گیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ کو یہی مقام حاصل تھا۔ اس موقع پر مولانا روم کا یہ شعر کتنا موزوں معلوم ہوتا ہے جو آپؒ نے حضرت عمرؓ کی شان میں بیان فرمایا۔ فرماتے ہیں:
ہیبت حق است ایں از خلق نیست
ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست
یعنی یہ رعب و ہیبت اس گدڑی پوش کا نہیں ہے بلکہ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی ہیبت ہے کیونکہ اس گدڑی پو ش کا دل اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبت خاصہ سے مشرف ہے۔ پس یہ اسی معیت حق کا رعب ہے۔
پس احقر کا اس بات پر پختہ اور کامل یقین ہے کہ جب تک احمدی دنیا اس حقیقت کو سامنے رکھتی ہے یہ رعب یہ ہیبت ہر کسی پر چاہے وہ فرد ہو یا جماعت، جمہوری حکومت ہو یا ڈکٹیٹرانہ نظام، یہ رعب ہمیشہ ان پر قائم رہے گا۔ واضح رہے کہ خلافت ڈھال ہے۔ ڈھال کی اوٹ میں رہ کر کس چیز کا ڈر ہے۔ خلافت دو قسم کی ہے ایک وہ جو براہ راست خداوندذوالجلال کی طرف سے قائم ہوتی ہے اس لحاظ سے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیائے کرام آئے وہ سب خلیفۃ اللہ تھے۔ ابنیاء کرام کے بعد جمہوری طرز کی خلافت قائم ہوتی ہے یعنی لوگوں کی رائے سے۔ لیکن اس کے قائم کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کام کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خواہش شامل ہوتی ہے۔ دونوں قسم کی خلافتیں اللہ تعالیٰ کی نمائندگی ہی کرتی ہیں۔ پس جس نے اس راز کو سمجھا جس نے اس حقیقت کو جانا وہ بامراد و کامیاب ہوا۔ ایسے لوگوں کا رعب اور ہیبت لازماًدوسروں پر رہے گا۔ جمہوری خلفاء اپنے نمائندے مقرر کرتے ہیں ان کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا ایسا ہی سلوک رہتا ہے نہ صرف ان نمائندگان کے ساتھ بلکہ تمام ان اشخاص کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک نظر آتا ہے جو خلافت حقہ سے منسلک ہو کر اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرمست ہوتے ہیں بلکہ ان کے لیے لازم بن جاتا ہے کہ اپنے امام و مقتدا وپیشوا کی کامل پیروی کریں۔ خداوند ذوالجلال کا پیار ان کے شامل حال لازم رہتا ہے اور رہے گا۔
آں دم کہ دل بعشق دھی خوش و مے بود
درکار خیرحاجت ہیچ استخارہ نیست
وہ وقت کتنا مبارک اور خوش کن ہوتا ہے جب دل کو حق تعالیٰ کی محبت کا درد عطا ہوتا ہے۔ پس اچھائی، بھلائی اور خیر کے کاموں میں استخارہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نیکی کرنی ہی کرنی ہے۔ نماز ادا کرنی ہی کرنی ہے۔ اس میں استخارہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح حبل اللہ یعنی خلافت حقہ کے دامن سے وابستہ رہنا دینی اور دنیاوی ترقیات اور کامرانی کی ضمانت ہے۔
حضرت مولانا صاحبؓ کی خلافت سے وابستگی اور دارالامان سے محبت
بات حضرت مولانا صاحبؓ کے احترام اور رعب کی چلی تھی دراصل یہ رعب اس حبل اللہ کا تھا جس کے ساتھ آپ چمٹے ہوئے تھے۔ یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ جب ایک راہی پروردگار عالم حبل اللہ سے چمٹے رہنے کا عہد کرتا ہے اور پھر پختہ یقین کے ساتھ اس پر قائم و دائم رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ وہ کشتی ہے جو اس کے نجات دنیاوی و اخروی کی ضامن ہے پھر ایسا سالک، ایسا راہی مصیبتوں سے نہیں ڈرتا۔ وہ طوفانوں اور حوادث سے متاثر ہوئے بغیر دلبر کی یاد میں مست رہتا ہے اور ہر قربانی کے لیے تیار رہتا ہے یہاں تک کہ جان کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ حضرت مولانا صاحبؓ نے اپنے تمام ساتھیوں یعنی درویشانِ کرام کے ساتھ اپنے اس عہد کو پورا کیا۔ انہوں نے تمام دنیاوی لہو و لعب سے منہ موڑ کر محض خدا کی رضا کی خاطرخلافت حقہ کی اطاعت میں اپنی جانیں پیش کیں۔ خدا تعالیٰ کو ان کی یہ ادائیں پسند آئیں لہٰذا ان کا رعب و دبدبہ سینکڑوں کی کیا بات ہزاروں ہزار پر تھا۔ یہ بات ان بزرگان کی زبانی عیاں ہے کہ کس طرح ایک مختصر اور قلیل تعداد کا دبدبہ خدا تعالیٰ ذوالمنن نے قائم کیا تھا۔ اور یہ سب حبل اللہ یعنی خلافت سے عہد وفا کی وجہ سے تھا۔ پس یہ نقطہ ہم سب کو بلکہ پوری دنیائے اسلام کو دعوت فکر دیتا ہےکہ اتفاق و اتحاد میں دبدبہ اور رعب ہے اور حبل اللہ سے وابستگی اس کی ضمانت ہے۔ لازوال سلطنت کی ضامن ہے حبل اللہ۔ خدا تعالیٰ کے پیار و محبت اور نظر عنایت کو کھینچنے کا واسطہ ہے حبل اللہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات واحد ہے، وحدت میں اتحاد ہے۔ اتحاد میں رعب ہے اتحاد ثمرآور ہے۔ اتحاد بارآور ہے۔ حبل اللہ خلافت حقہ ہے۔ پس حضرت مولانا صاحبؓ پوری قوم کے سرخیل تھے۔ آپ کی براہ راست خلافت سے ناقابل تسخیر وابستگی تھی اوراحقر کے نزدیک آپ کے دبدبے، آپ کے احترام، آپ کے اعزاز اور آپ کے رعب و ہیبت کی یہی ضمانت تھی۔ آپ یقیناً خلافت کے فدائی تھے۔ سورج کی تعریف دراصل اپنی آنکھوں کی تعریف ہوتی ہے۔ حضرت مولانا صاحبؓ کی تعریف میں کیا کروں۔ وہ میری بساط میں کہاں؟
دل کو چھولینے والا ایک واقعہ
اس بات کی وضاحت بخوبی ہوگئی ہے کہ ان بزرگان نے اپنی مرضی کو خلیفہ وقت کی مرضی کے تابع کر دیا تھا۔ اور قادیان میں ڈٹے رہنے کی قسم کھائی تھی۔ جس کو انہوں نے پورا کیا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً ایسے لوگوں سے راضی ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا بھی گروہ تھا جو قادیان کی یادوں کو اپنے سینوں میں دبائے با دل نا خواستہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے لیکن اپنے وطن کی محبت کبھی مٹ نہیں سکتی ۔کسی کے دبانے سے دب نہیں سکتی۔ بھلائے سے نہیں بھولتی۔ پھر ایسی جگہ کی محبت جو امام آخر الزماں علیہ السلام کی جائے پیدائش اور سکونت کی جگہ تھی جہاں کے یہ مہاجر باسی تھے۔ اس ضمن میں اس بات کا اظہار کرنا مطلوب ہے کہ حضرت مولانا صاحبؓ کی حسب معمول ایک سال جلسہ سالانہ کی صدارت تھی تلاوت کلام مجید کے بعد جو نظم رکھی گئی تھی وہ تھی؎
خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو
دیارِ مہدیٔ آخر زماں میں رہتے ہو
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی یہ نظم پڑھنے والے نے جس درد بھرے الفاظ میں پڑھی اس نے سب کے دلوں کے زخم ہرے کردیے۔ غالباً اس جلسے میں پاکستان کے کچھ زائرین بھی شامل تھے سب کی حالت غیر تھی اور دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ حضرت مولانا صاحبؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی آپ نے اپنی پگڑی کا پلو اپنی آنکھوں پر اختتام نظم تک رکھا اور آنسو پونچھتے رہے۔ اس بات سے اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ آپ کو خلیفہ وقت، خاندان مسیح موعودؑ اور مہاجرین قادیان دارالامان سے کس قدر محبت تھی۔ اور اس درد نے آپ کو بے چین کر دیا تھا۔ ان کی جدائی ہمیشہ شاق بنی رہی جب تک آپ مولا کریم کے ہاں پہنچ گئے۔ خدا کرے کہ قادیان کی واپسی کے دن ہم لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں آمین۔
حضرت مولانا صاحبؓ کی خلافت اور خلیفہ وقت سے وابستگی قابل تقلید اور مثالی تھی۔ نامساعد حالات کے باوجود آپ نے قادیان دارالامان میں خلیفہ وقت کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ آپ اطاعت ِخلافت میں اس درجہ پر قائم تھے جہاں آنے والی نسلیں آپ پر ناز کرتی رہیں گی۔ آپ اپنی محنت، لگن، اطاعت و تابعداری، امانتداری و دیانتداری فدائیت اور خدمت مسکینانِ قادیان کی وجہ سے اُس مقام پر پہنچنے والے بزرگ تھے جن کا ذکر خیر ہمیشہ صفحہ قرطاس کی زینت بنتا رہے گا۔ کیونکہ
وہ امیرالمومنین کے عاشق مشغوف تھے
اور دہلیز خلافت پر فدا با مال و جان
حضرت مولوی صاحبؓ کی پدرانہ فطرت
حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب جٹؓ کی فطرت میں ہر کس و نا کس کے لیے پدرانہ جذبات کا مادہ قدرت نے ودیعت کر رکھا تھا۔ گرج دار گفتار رکھنے والے مولوی صاحبؓ بہت ہی ہمدرد اور انسان دوست تھے۔ اگرچہ بادی النظر میں سائل یا ملنے والاآپ کی گفتار سن کر مایوس ہو جاتا تھا لیکن آپ کے عملی تعاون اور فطری کردار سے وہ بلیوں ا چھلنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ بہت سارے واقعات سننے سے جو بعض دوستوں نے سنائے آپ کی انسان دوستی، خدا خوفی، غریب پروری اور مونسیت کو اجاگرکرتے ہیں۔ ایسی بیسیوں مثالیں درویشانِ کرام اور ان کی اولاد سے سننے کو ملتی ہیں یا ملی ہیں۔ مجلسِ یاراں میں آپؓ کا ذکر خیر چل رہا تھا۔ مکرم مولوی محمود احمد صاحب خادم فاضل افسر لنگرخانہ قادیان نے آپ کا ایک واقعہ سنایا جو آپ کی فطرت کو سمجھنے کے لیے بہت کچھ بیان کرتا ہے کہ ہمارے والد محترم مرحوم مولانا بشیر احمد صاحب خادم دورے پر تھے۔ دورہ طویل ہوا۔ اِدھر گھر میں ضروریات زندگی خصوصاً آٹے کی کمی ہوئی۔ ہماری والدہ مرحومہ حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنی بپتا سنائی۔ مولانا صاحب نے گرج دار لہجے میں کہا تو میں کیا کروں؟ محمود صاحب نے کہا والدہ مرحومہ نے کہا کہ میں مایوس لوٹ کر سیدھا بیت الدعا میں چلی گئی اوررب العالمین سے ملتجی ہوئی۔ مغرب کا وقت تھا کہ ایک دوست نے سر پر گندم کی بوری اٹھائی ہے اور کہا کہ یہ حضرت مولوی صاحبؓ نے بھیجا ہے۔ بظاہر یہ ایک واقعہ ہے جو ہوا۔ لیکن اس میں دعا کی تاثیر، خدا کا فضل، دل کا پسیجنا اور حضرت مولوی صاحب کی سیرت کو سمجھنے کے لیے کافی کچھ موجود ہے۔
حرف آخر
المختصر حضرت مولانا صاحبؓ نہایت درجہ ہمدرد و غمگسار، غریب پرور، بلاامتیاز ہر کسی سے حسن سلوک اور پیار کرنے والے، خلافت کے شیدائی، امانتدار، دیانتدار، اوصاف کریمانہ سے متصف بزرگ تھے۔ آپ نہایت درجہ وجیہہ صورت، پُر وقار، سادہ مزاج، بے نفس اور درویشانہ اوصاف کے حامل وجودتھے۔ ہر چھوٹے بڑے، اعلیٰ و ادنیٰ، امیروغریب سے خندہ پیشانی سے ملنا آپ کے مزاج میں شامل تھا۔ آپ شگفتہ مزاج، نرم خُو مگر بارعب اور مومنانہ فراست سے مزین و مرصع حاکم تھے۔ آپ کا مزاج سنت نبویﷺ کے تابع دینی مزاج تھا جو آج ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ کی فطرت میں یہ بات داخل تھی جو ایک حقیقی باپ کی اپنی اولاد کے لیے ہوتی ہے ہم نے آپ کو ہمیشہ اس بات کا مکلف پایا۔ احمدی تو احمدی آپ کے حسن سلوک سے غیرمسلم بھی مایوس نہ تھے۔ آپ بے لوث خادم، فدائی مجاہد، پاک سیرت، دیندار، مونس، مہربان اور شفیق باپ کی طرح تھے۔ آپ حتی الوسع ہر کسی کا خیال رکھنے والے تھے اور یہ کام خوش مزاجی، خوش اخلاقی اور خوش کلامی سے انجام دیتے تھے۔ آپ ترش رو، متکبر اور خشک ملانوں کی طرح نہیں تھے بلکہ
زندہ دل اور زندہ روح اور بے حد خوش مزاج
ایک لطیفہ کہہ دیا محفل ہے کشتِ زعفران
آپ اپنے سے ملنے والوں کی حتی الامکان فوری دادرسی کرتے تھے۔ اگر کسی نے کبھی آپ کے سامنے بے باکانہ بات کی توآپ ناراض نہ ہوتے اور نہ ہی سائل کو جھاڑ سناتے تھے بلکہ مومنانہ فراست سے مزاج شناسی کر کے عملی اظہار سے درد کا دوا کرنے والے بزرگ تھے۔
یہ قصہ لطیف ابھی ناتمام ہے
جو کچھ بیان ہوا وہ آغاز باب ہے
٭…٭…٭