اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (قسط اوّل)
جولائی2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
کمرہ عدالت میں جج کے سامنے توہین مذہب کا ملزم قتل کردیا گیا
پشاور (خیبر پختونخواہ): مورخہ 29؍جولائی 2020ء کو توہین مذہب کے ملزم طاہر احمد نسیم نامی شخص کو کمرہ عدالت میں جج کے سامنے قتل کردیا گیا۔ قاتل کا اصلی نام فیصل تھا لیکن اپنی شناخت کو چھپانے کے لیے اُس نے اپنا نام خالد بتایا۔
مقتول طاہر نسیم کی عمر 47 سال تھی اور وہ امریکی شہری تھا۔ مقتول احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن بعد میں اپنے آپ کو پندرھویں صدی کا مجدد اور ایک قسم کا نبی کہلوانا شروع کردیا۔ مقتول کو نفسیاتی عوارض لاحق تھے اور جماعت احمدیہ سے قطع تعلقی کرلی تھی۔ قتل کے وقت ملزم طاہر احمد نسیم احمدی نہیں تھا۔
سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملاؤں نے مقتول طاہر احمد نسیم کو ایک محفل میں نبوت کے دعویٰ سے دستبردار ہو کر، اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔ جب اس پر بھی ملاؤں کی تسلی نہ ہوئی تو اسی محفل میں انہوں نے مقتول کو بانی جماعت احمدیہ کی ذات کے خلاف ہرزہ سرائی پر مجبور کیا۔ لیکن اس سب کے باجود، ملاؤں نے طاہر احمد نسیم پر تعزیراتِ پاکستان 295-Cکے تحت توہین مذہب کا مقدمہ بنا دیا۔ ملزم کو کمرہ عدالت پولیس کی نگرانی و زیرِ حراست لایا گیا تھا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ مقتول طاہر احمد نسیم نے نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی قسم کی توہین نہیں کی تھی۔ اس کا دعویٰ صرف نبوت کا تھا جس کو توہین مذہب قرار دے دیا گیا تھا۔ اس حقیقت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مقتول کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ سراسر جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی تھا۔
قاتل جس کا نام فیصل بتایا جاتا ہے ایک نوعمر نوجوان ہے اور اسلام آباد کے ایک مدرسے کا طالب علم ہے۔ طاہر احمد نسیم کو قتل کرنے کے بعد ملزم فیصل نے بتایا کہ اُس نے یہ قدم اس لیے اُٹھایا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے خواب میں آکر ملزم کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ طاہر احمد نسیم ایک قادیانی تھا۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان نے وقوعے کے معاََ بعد ٹویٹ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ اگرچہ مقتول طاہر احمد نسیم احمدی نہیں تھا مگر وہ مقتول کے اہل خانہ کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ ترجمانِ جماعت احمدیہ کی اس وضاحت کے باوجود میڈیا کے کچھ حلقے اورملا زبردستی مقتول کو احمدی بتاتے رہے جس سے ان کی بدنیتی صاف ظاہر ہوتی ہے۔
برسوں سے قائم احمدیوں کا سکول انتظامیہ کے احکامات کے تحت بند کردیا گیا
بستی اللہ داد دریشک ( ضلع راجن پور، پنجاب) جولائی 2020ء: پولیس نے احمدیوں کا سکول بند کر کے مقدمہ درج کر لیا۔
اللہ داد دریشک ضلع راجن پور پنجاب میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ چند سال قبل یہ سارا قصبہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی نذر ہوگیا تھا۔ جماعت احمدیہ نے اپنی مدد آپ کے تحت احمدیوں کے تباہ شدہ مکانات دوبارہ بنوائے تھے۔ اس علاقے میں احمدیوں کا ایک پرائمری سکول بھی تھا جو گذشتہ کئی برسوں سے مذہب یا فرقے سے بالاتر ہوکر تمام بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کررہا تھا۔
مخالفین نے ڈی سی کو شکایت کی کہ یہ سکول جماعت احمدیہ کی این جی او ہیومینٹی فرسٹ چلا رہی ہے جہاں ’’قادیانیت‘‘ کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ اس من گھڑت مفروضے پر مبنی شکایت پر پولیس نے چند دن بعد سکول کو بند کردیا۔
پولیس نے راجن پور تھانے میں ایف آئی آر نمبر 20/325 کے تحت 23؍جولائی 2020ء کو تعزیرات پاکستان 295-B, 295-A, 298-A, 298-B, 298-Cکے ساتھ ضلعی جماعت احمدیہ کے اراکین نعیم اختر، نسیم احمد قمر، اور سکول کی پرنسپل بشری طالب کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ پاکستان کے ناظر تعلیم مرزا فضل احمد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ یاد رہے کہ ان شقوں کے تحت ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
مورخہ 4؍اگست 2020ء کو راجن پور بار میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کوئی وکیل (ملعون) احمدیوں کے کیس کی پیروی نہ کرے۔
احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی اور پنجاب میں احمدی مخالف جذبات میں مزید شدّت
مذہبی منافرت کی دلدل میں پھنستا پنجاب: 67 احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی اور قبروں کے کتبے توڑ دیے گئے
ترگڑی (ضلع گوجرانوالہ) 13-14؍جولائی 2020ء: ملاؤں کے اکسانے پر پُر تشدد ہجوم نے پولیس کے تعاون کے ساتھ 67؍احمدی مرحومین کی قبروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ان کے کتبوں کو توڑ دیا۔ بالکل اسی طرح کا واقعہ اس سے پندرہ روز قبل ضلع شیخوپورہ میں بھی پیش آچکا تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے صوبے کی انتظامیہ نے ذمہ داران کو ملاؤں کے تابع کردیا ہے۔ 3؍ جولائی کو یہاں کے ایک مقامی مُلاّ نے جمعہ کے خطبہ کے دوران لوگوں کو احمدیوں کے خلاف اشتعال دلا یا تھا۔ پھر پانچ دن بعد باہر سے درجنوں مُلاؤں کو ترگڑی بلوایا گیا جنہوں نے لوگوں کو احمدیوں کے خلاف مزید اُبھارا۔
شر پسندوں نے مقامی ایس ایچ او کو ڈرا دھمکا کے احمدیوں کے خلاف کارروائی کی ’’اجازت‘‘ طلب کی اور پھر دو روز رات کی تاریکی میں 67 احمدی قبروں کے کتبوں کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیا۔ پاکستان شاید دنیا بھر میں وہ واحد ملک ہے جہاں پولیس کو ملاؤں کی خوشنودی کے لیے قبیح سے قبیح فعل سرانجام دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار احمدیوں کو جانورں کی قربانی سے روکنے کے لیے سرگرم عمل
لاہور: مورخہ 29؍جولائی 2020ء کو ڈان لاہور میں دو کالمی خبر شائع ہوئی جس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے وفاقی وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں، عید الاضحی کے موقع پر احمدیوں کو جانور قربان کرنے کی اسلامی رسم پر پابندی لگائے۔
یہ خط، صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن طاہر نصراللہ وڑائچ کا دستخط شدہ ہے اور اس میں آئین اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے کہ احمدی یا لاہوری گروپ کسی بھی قسم کے اسلامی شعائر کا استعمال نہیں کرسکتے۔
بار نے وفاقی وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پنجاب پولیس کو ہدایات جاری کریں کہ وہ احمدیوں کے خلاف جانوروں کی قربانی سے متعلق تمام تر ضروری ہدایات جاری کریں۔ اس خط کی ایک نقل آئی جی پولیس کو بھی ارسال کی گئی۔
پنجاب اسمبلی میں ’’تحفظ بنیادِ اسلام ‘‘ بل منظور کرلیا گیا!
لاہور، 22؍جولائی 2020ء: پنجاب اسمبلی نے تحفظ بنیادِ اسلام نام کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ اس موقع پر سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے اس بل کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل اسلام کے تحفظ اور سربلندی کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بل کے چند مندرجات در ج ذیل ہیں:
تحفظ بنیاد اسلام بل کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز (DGPR) کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی نشریاتی ادارے، پرنٹنگ پریس، یا کتاب گھر پہ چھاپا مار کر کسی بھی کتاب کو طباعت سے قبل یا بعد میں ضبط کرسکتا ہے۔
اس قانون کے تحت نبی اقدس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک سے قبل ’’خاتم النبیین‘‘ لکھنا اور بعد میں عربی میں صلوٰۃ کا لکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
تاجرانِ کتب کو باہر سے کتب منگوانے کے پندرہ دن کے اندر افسرِ مجاز کو تمام کتب کی تفصیلات مہیا کرنی ہوں گی۔ اس قانون کے تحت ڈی جی پی آر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کو جو قومی سلامتی، ثقافت، مذہب یا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف ہو درآمد کرنے، چھاپنے یا شائع کرنے سے منع کردے۔
تحفظِ بنیاد اسلام قانون کی خلاف ورزی پر پانچ سال تک کی قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے مطابق ’’یہ بل اسلام کے تحفظ اور سربلندی کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وفاق اور دوسرے صوبوں کو بھی اس سلسلے میں ہماری (پنجاب کی) تقلید کرنی چاہیے۔‘‘
ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ اہل تشیع علماء نے اس بل کو یکسر مسترد کردیا ہے جبکہ پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے اس بل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭