مجھے ڈر ہے کہ مختلف ممالک کے سیاسی اور اقتصادی تغیرات ایک عالمگیر جنگ پر منتج ہو سکتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اگر ہم گزشتہ چند صدیوں کی تاریخ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو ہمیشہ یہ نظر آئے گا کہ اس دَور میں جو جنگیں ہوئیں وہ درحقیقت مذہبی جنگیں نہیں تھیں بلکہ زیادہ تر جغرافیائی اور سیاسی نوعیت کی جنگیں تھیں ۔ آج بھی اَقوامِ عالم کے مابین جو تنازعات موجود ہیں وہ دراصل سیاسی ، علاقائی اور اقتصادی مفادات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور حالات جو رُخ اختیار کر رہے ہیں اُنہیں دیکھتے ہوئے مجھے ڈر ہے کہ مختلف ممالک کے سیاسی اور اقتصادی تغیرات ایک عالمگیر جنگ پر منتج ہو سکتے ہیں ۔ اِن حالات کے نتیجہ میں صرف امیر ممالک ہی نہیں بلکہ غریب ممالک بھی متأثر ہو رہے ہیں۔ اس لیے طاقتور ممالک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔
برطانیہ اُن ممالک میں سے ہے جو ترقی یافتہ دُنیا اور ترقی پذیر ممالک دونوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے ، آپ اگر چاہیں تو عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرکے دُنیا کی راہنمائی کا کام سر انجام دے سکتے ہیں ۔ ماضی قریب میں برطانیہ نے دُنیا کے بہت سے ممالک خصوصاً برصغیر پاک و ہند پر حکومت کی ہے اور عدل و انصاف اور مذہبی آزادی کے اعلیٰ معیار قائم کیے ہیں ۔ جماعت احمدیہ مسلمہ اس کی گواہ ہے۔ بانی جماعت احمدیہ نے عدل و انصاف اور مذہبی آزادی دینے کی برطانوی حکومت کی پالیسی کی بہت تعریف فرمائی ہے ۔ جب بانی جماعت احمدیہ نے ملکہ وکٹوریہ کو اُن کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر مبارکباد دی اور اسلام کا پیغام پہنچایا تو آپؑ نے خاص طور پر دُعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ برطانوی حکومت کو اِس کی کوششوں کا اَجر عطا فرمائے جواِس نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کی ہیں۔ پس ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی سلطنت برطانیہ نے انصاف کا مظاہرہ کیا ہے ہم نے ہمیشہ اس پر شکر گزاری کا اظہار کیا ہے ۔ ہم یہ بھی اُمید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی عدل و انصاف برطانوی حکومت کی پہچان بنا رہے گا صرف مذہبی معاملات میں ہی نہیں بلکہ ہر لحاظ سے۔ ہم یہ اُمید رکھتے ہیں کہ آپ اپنے اُن اوصاف کو فراموش نہیں کریں گے جو ماضی میں آپ کا حصہ رہے ہیں۔
آج دنیا ایک اِضطراب اور بے چینی کا شکار ہے۔ محدود پیمانہ پر جنگوں کی آگ بھڑک رہی ہے ۔ بعض جگہوں پر بڑی طاقتین یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ ہم اَمن کےقیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں ۔ اندیشہ یہ ہے کہ اگر عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو ان چھوٹی چھوٹی جنگوں کے شعلے بہت بلند ہو جائیں گے۔ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اس لیے میری آپ سے یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ دُنیا کو تباہی سے بچائیں۔
اب میں مختصر طورپر بیان کروں گا کہ اسلام کی وہ کون سی تعلیمات ہیں جو دُنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ہیں یا یہ کہ اِن تعلیمات کی روشنی میں دُنیا میں کس طرح امن قائم کیا جا سکتا ہے؟ میری یہ دُعا ہے کہ مسلمان جو اِن تعلیمات کے پہلے مخاطب ہیں ان پر عمل پیرا ہو سکیں مگر درحقیقت دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں اور حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں۔
آج کے اس دور میں، جب کہ دنیا واقعی سمٹ کر ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ، ہمیں بحیثیت انسان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے۔ ہمیں انسانی حقوق کے ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے اور ایسی کوشش کرنے کی ضرورت ہے جس سے دنیا میں امن قائم کرنے میںمدد مل سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کوشش عدل کے تقاضے پورے کرنے کی نیت سے اور پوری دیانتداری سے کی جانی چاہیے۔ اس دور کے مسائل میں سے ایک مسئلہ اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ مذہب کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ مسلمانوں کے بعض گروہ مذہب کے نام پر ناجائز حملے یا خود کش دھماکے کر تے ہیں تاکہ غیر مسلموں کو جن میں فوجی اور معصوم شہری بھی شامل ہیں نقصان پہنچائیں یا ہلاک کریں جس کے نتیجہ میں معصوم مسلمان یہاں تک کہ بچے بھی نہایت بے رحمی سے مارے جا رہے ہیں۔ اسلام اس ظالمانہ فعل کو کلیۃً ردّ کرتا ہے ۔ بعض مسلمانوں کے اس بھیانک طرز عمل کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں ایک بالکل غلط تأثر پیدا ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرہ کے بعض طبقات علی الاعلان اسلام کے خلاف باتیں کرتے ہیں جبکہ بعض دوسرے ایسے ہیں جو اگرچہ کھلم کھلا اظہار تو نہیں کرتے مگر دلوں میں اسلام کے بارہ میں کوئی اچھی رائے بھی نہیں رکھتے۔ یہ وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک اور دیگر غیر مسلم ممالک کے لوگوں کے دلوں میں ان چند مسلمانوں کے طرزِ عمل کے باعث عدم اعتماد پیدا ہو گیا ہے ۔ بہتری کی کوئی صورت پیدا ہونے کی بجائے غیر مسلموں کا رَدِّ عمل ہر روز بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ اس غلط ردِّ عمل کی ایک مثال تو وہ حملے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی سیرت اور کردار پر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم پر کیے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے برطانوی سیاستدانوں ، خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں اور دانشوروں کا رویہ بعض دیگر ممالک کے سیاستدانوں کے رویہ سے مختلف ہے ۔ میں اس کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں ۔ ایسے نازک احساسات کو ٹھیس پہنچانے سے نفرتوں میں اضافہ کے سوا کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ یہ نفرت پھر بعض انتہا پسند مسلمانوں کو ایسی حرکتیں کرنے پر آمادہ کرتی ہیں جو سراسر غیر اسلامی ہیں جن کے نتیجہ میں کئی غیر مسلموں کو پھر موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی مخالفت کا اظہار کریں۔ ان حملوں سے ان لوگوں کو جو انتہا پسند نہیں ہیں اور آنحضرت ﷺ سے گہری محبت رکھتے ہیں شدید تکلیف پہنچتی ہے ۔ ان میں جماعت احمدیہ سر فہرست ہے ۔ ہمارا سب سے اہم کام ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کو آنحضرت ﷺ کے کامل اسوہ اور اسلام کی حسین تعلیمات سے آگاہ کیا جائے ۔ ہم تمام انبیاءؑ کا سچا احترام کرتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں کہ یہ سب خدا کے فرستادہ ہیں ۔اس لیے ہم تو ان میں سے کسی کے خلاف کوئی بے ادبی نہیں کر سکتے لیکن جب ہم اپنے نبی کریمﷺ کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے الزامات سنتے ہیں تو ہمارے دل بے حد رنجیدہ ہو جاتے ہیں ۔
آج جب کہ دنیا مختلف بلاکوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے ، انتہا پسندی بڑھ رہی ہے ۔ نیز مالی اور اقتصادی صورت حال بدتر ہوتی چلی جارہی ہے اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ ہر قسم کی نفرتوں کو مٹا دیا جائے اور امن کی بنیادوں کو اُستوار کیا جائے۔ اگر یہ کام صحیح رنگ میں پوری ایمان داری اور نیک نیتی کے ساتھ نہ کیا گیا تو حالات اَور زیادہ ابتر ہو جائیں گے اور پھر ہمارے بس میںکچھ بھی نہیں رہے گا ۔ یہ ایک قابل تحسین بات ہے کہ اقتصادی طور پر مضبوط مغربی ممالک نے غریب اور پسماندہ ممالک کے افراد کو اپنے ملکوں میں آکر آباد ہونے کی اجازت دی ہے ۔ ان لوگوں میں مسلمان بھی شامل ہیں ۔ حقیقی عدل کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں کے جذبات اور مذہبی سرگرمیوں کا بھی احترام کیا جائے ۔ یہ وہ طریق ہے جس کو اختیار کرکے لوگوں کے ذہنی اطمینان کو قائم رکھا جا سکتا ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب کسی فرد کا ذہنی اطمینان اُٹھتا ہے تو پھر معاشرہ کا امن بھی متأثر ہوتا ہے ۔
(خطاب فرمودہ 22؍اکتوبر 2008ء بمقام برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز)
٭…٭…٭