احمدیت کا پیغام
کتاب : احمدیت کا پیغام
تصنیف لطیف: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
تاریخ تصنیف: 27 اکتوبر 1948ء
پبلشر: اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز U.K
16واں ایڈیشن: فروری 2019ء یوکے
صفحات: 49
آنحضرت ﷺکے سچے عاشق اور ادنیٰ غلام حضرت مرزاغلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اس دورکے نبی ہونے کا اعلان فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ ہی کی راہنمائی اور تائید و نصرت سے آپؑ نےاسلام کی سربلندی اور عالمگیر غلبہ کے لیے جماعت احمدیہ کی بنیاد ڈالی جو حقیقی اسلام کی علمبردار تھی۔ اس جماعت نے اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کو دنیا میں پھیلا دیا ۔ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے ایسے دلائل دیے کہ غیروں کے منہ بند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کےذریعہ جماعت احمدیہ کو اسی لیے قائم فرمایا کہ یہ جماعت ایسی ہو جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار فرمائی تھی تاکہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت اسلام ، قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اس لیے قائم کیا ہے تا وہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہو ۔
( ملفو ظا ت جلد دوم صفحہ 27 )
جماعت احمدیہ کے مخالفین عام مسلمانوں کو دیگر جھوٹی باتوں اور بے بنیاد الزامات کے علاوہ یہ کہہ کر بھی جماعت کے خلاف ورغلاتے اوراس کو ماننے کی بجائے غلط سمت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ احمدیت اسلام سے الگ کوئی نیا دین ہے اور نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود ؑؑ نے آ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مقابل نئی نبوت بنا لی ہے اور ختم نبوت کا انکار کیا ہے ۔ سویاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ختم نبوت کے سب سے بڑے داعی اور اس کے ماننے والے تھے اور کوئی بھی ختم نبوت کے اصل معنوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپؑ کی طرح اتنی گہرا ئی سے اسے نہیں مان سکتا ۔ حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں : ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی دیا ، جو خاتم المومنین، خاتم العارفین اور خاتم النبیین ہے اور اسی طرح پر وہ کتاب اس پر نازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبیین ہیں اور آپ ﷺپر نبوت ختم ہوگئی۔ تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کر دے ۔ ایسا ختم قابل فخر نہیں ہوتا، بلکہ رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپﷺ پر کمالات نبوت ختم ہوگئے۔ یعنی وہ تمام کمالاتِ متفرقہ جو آدم ؑ سے لے کر مسیح ؑ ابن مریم تک نبیوں کو دیے گئے تھے ۔ کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی۔ وہ سب کے سب آنحضرت ﷺ میں جمع کر دیے گئے اور اس طرح پر طبعاً آپ ﷺ خاتم النبیین ٹھہرے اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات، وصایااور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آئے ہیں ، وہ قرآن شریف پر آکر ختم ہوگئے اور قرآن شریف خاتم الکتب ٹھہرا۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے ۔ یہ ہم پر افترائے عظیم ہے ۔ ہم جس قوتِ یقین ، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرتﷺ کو خاتم الانبیاء مانتے ہیں اور یقین کرتے ہیں، اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور رازکو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے،سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے ، مگر اُس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ: 227۔228)
قیام پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے جہاں جماعت احمدیہ کے نئے مرکزربوہ کی بنیاد ڈالی وہاں جماعت کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی توجہ فرمائی۔ جب مخالفین ِ جماعت نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں ، ان کا کلمہ اور ہے ، یہ جہاد کے منکر ہیں،حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہ تھی ،محض جھوٹ کا پلندہ اور بے بنیاد الزامات تھے۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مخالفین کے ان بے بنیاد الزامات اور غلط فہمیوں کا جواب دینے کے لیے ایک مضمون بعنوان احمدیت کا پیغام تحریر فرمایا جس میںآپ نے نہایت مدلل رنگ میں اور مختصر انداز میں ان بے سروپا باتوں کا جواب عطا فرمایا تھا۔ حضرت مصلح موعود کا یہ خاص مضمون مورخہ 31۔ اکتوبر 1948ء کو جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے جلسہ سالانہ میںحضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے پڑھ کرسنایا۔ یہ مضمون ٹریکٹ کی صورت میں صیغہ نشرو اشاعت ربوہ نے شائع کیا نیز روزنامہ الفضل جو ان دنوں لاہور سے شائع ہوتا تھا ، کی مورخہ 6نومبر 1948ء کی اشاعت کے صفحہ 2تا 9 اور بقیہ ایک کالم صفحہ 12پر شائع ہوا ۔مضمون کے آخر پر حضور نے اپنا نام مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ رقم فرمایا اور 27.10.48 کی تاریخ لکھی۔اس کے بعد اس عظیم مضمون کے 14 ایڈیشنز کتابی صورت میں قادیان سے شائع ہوئے۔ 15واں ایڈیشن نظارت نشرواشاعت صدر انجمن احمدیہ قادیان نے نومبر 2014ء کو شائع کیا ۔ اس دوران جب حضرت مصلح موعود کے علمی کارناموں یعنی مضامین ، تحریرات ،تصانیف اور تقاریر کو فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ کے زیر اہتمام انوارالعلوم کے نام سے جمع کیا گیا تو اس کتاب یعنی احمدیت کا پیغام کو انوارالعلوم جلد 20میں پانچویں نمبر پر سجایا گیا۔حضرت مصلح موعود جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا گیا تھا آپ کے دیگر علمی اور تحقیقی کارناموں کے ساتھ یہ کتاب بھی ایک نایاب اور نادر تحفہ ہے جس میںاس سوال کہ جماعت احمدیہ کیا ہے اس کو کس غرض سے قائم کیا گیا ہے کا مدلل اور بہترین انداز میں جواب عنایت فرمایا گیا ہے۔ یہ کتاب سچے دین کی کھوج میں رہنے والے نیک فطرت ، زیر تبلیغ افراد، نو مبائعین اور آج کے دور کی نئی احمدی نسل کے لیے بہت اہم اور مفید ہے ۔ جماعت احمدیہ کے عقائد ، تعلیمات اور مقاصد پر مشتمل یہ مفید کتاب ہر احمدی کو زیر مطالعہ رکھنی چاہیے۔ خاص طور پر نوجوانوں اور داعیان الی اللہ کو تو ضرور اس کے علمی نکات کو بغور پڑھنا چاہیےبلکہ نوٹس بھی لینے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کتاب کے آغاز میں اُن لوگوں کو جو عدم علم اور ناواقفیت کی وجہ سے بہت سی سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں۔ ان کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں پہلے انہی لوگوں کی واقفیت کے لیے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں جو عدم علم اور ناواقفیت کی وجہ سے احمدیت کے متعلق مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔(صفحہ 3) اس کے بعد حضور نے دلائل سے ثابت فرمایا کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔
آگے چل کرحضرت مصلح موعود نے احمدیوں کے متعلق ان تمام شکوک کا ازالہ فرمایاہے جو ناواقف گروہ اپنے خیال میں بنائے بیٹھے ہیں۔ ختم نبوت کے متعلق احمدیوں کا عقیدہ بیان کرنے کے بعد حضور نے قرآن کریم کے ہر لفظ پر ایمان رکھنے کے حوالے سے اپنا عقیدہ تفصیل سے ارشاد فرمایا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑنے قرآن شریف کو کامل شریعت قرار دیا ہے، فرماتے ہیں: میرا دل ہرگز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد اب کوئی اور شریعت آسکتی ہے ، کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 490)
جنت ، جہنم ،نجات کس کو ملے گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کس کے حصے میں آئے گی اس حوالے سےا حمدیوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ اس دقیق مسئلہ کو حل کرتے ہوئے حضور نے نہایت اختصار کے ساتھ اور آسان طریقے سےجماعت کا موقف یوں بیان فرمایا ہے : ہمارا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ احمدیوں کے سوا باقی تمام لوگ جہنمی ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی احمدی ہو اور وہ جہنمی ہو جائےجس طرح یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی احمدی نہ ہو اور وہ جنت میں چلا جائے کیونکہ جنت صرف منہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں۔ جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے ۔ اسی طرح دوزخ صرف منہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کے لیے بہت سی شرطیں ہیں۔ کوئی انسان دوزخ میں نہیں جا سکتا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہو۔…نجات کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ صداقت اس کے کان میں نہ پڑے تاکہ اسے ماننی نہ پڑے یا جس پر حجت تمام ہو جائے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے خداتعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے لیکن ایسے شخص کو بھی اگر خداتعالیٰ چاہے تو معاف کرسکتا ہے اس کی رحمت کی تقسیم ہمارے ہاتھ میں نہیں ۔ ایک غلام اپنے آقا کو سخاوت سے باز نہیں رکھ سکتا۔ خدا تعالیٰ ہمارا آقا ہے اور ہمارا بادشاہ ہے اور ہمارا خالق ہے اور ہمارا مالک ہے ۔ اگر اس کی حکمت اور اس کا علم اور اس کی رحمت کسی ایسے شخص کو بھی بخشنا چاہے جس کی عام حالات کے مطابق بخشش ناممکن نظر آتی ہو تو ہم کون ہیں جو اس کے ہاتھ کو روکیں اور ہم کون ہیں جو اس کو بخشش سے باز رکھیں ۔
بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ احمدی حدیثوں کو نہیں مانتے ، یہ بات غلط ہے ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس حوالے سے بھی تفصیلی عقیدہ بیان فرمایا ہے۔(صفحہ16)
تقدیر پرایمان کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کتاب میں فرماتے ہیں: احمدی لوگ تقدیر کے ہرگز مُنکر نہیں ۔ ہم لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر اس دنیا میں جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی اور اس کی تقدیر کو کوئی بدل نہیں سکتا۔(صفحہ 18)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس سوال کا جواب بھی عنایت فرمایا ہے کہ نئی جماعت بنانے کی کیا وجہ ہے؟
حضرت مصلح موعود ؓ نے بہت مقفع مسجع اور مبسوط انداز میںدلائل کے ساتھ اس سوال کا تفصیلی جواب بھی دیا ہے کہ احمدیوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی کیا وجہ ہے یہ جواب اس کتاب کے صفحہ 31تا 45پر پھیلا ہوا ہے۔ اس سوال کے سیر حاصل جواب کے بعد فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے ہمیشہ ہی دنیا کے سامنے یہ بات پیش کی کہ میں اپنے ساتھ ہزاروں دلائل رکھتا ہوںلیکن میں کہتا ہوں کہ اگر تمہاری ان دلائل سے تسلی نہیں ہوتی تو نہ میری سنو اور نہ میرے مخالفوں کی سنو ، خدا تعالیٰ کے پاس جاؤاور اس سے پوچھو کہ آیا میں سچا ہوں یا جھوٹا ہوں ۔ اگر خدا تعالیٰ کہہ دے کہ میں جھوٹا ہوں تو بے شک جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا تعالیٰ یہ کہے کہ میں سچا ہوں تو پھر تمہیں میری سچائی کے قبول کرنے سے کیا انکار ہے؟
اے عزیزو! یہ کتنا سیدھا اور راستبازی کا طریقِ فیصلہ تھا ۔ ہزاروں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور تمام وہ لوگ جو اس طریقِ فیصلہ کو اب بھی قبول کریں، اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس طریقِ فیصلہ میں درحقیقت یہی حکمت کارفرما تھی کہ آپ سمجھتے تھے کہ دین دنیا پر مقدم ہے۔(صفحہ 45)
کتاب کے آخری حصہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ رقمطراز ہیں: خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا طریق اپنی جماعت کے لیے بھی کھولا اور اپنے منکروں کے سامنے بھی اس طریق کو پیش کیا۔ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے ، وہ اب بھی کارخانہ عالم چلا رہا ہے،دنیا کا بھی اور دین کا بھی ۔ ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس سے تعلق پیدا کرےاور اس کے قریب ہوتا چلا جائے اور وہ شخص جس پر ہدایت ظاہر نہیں ہوئی اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہی روشنی چاہے اور اس کی مدد سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے ، پس اصل کام اور اصل پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہی تھا کہ وہ دنیا کی اصلاح کریںاور بنی نوع انسان کو پھر خدا تعالیٰ کی طرف لے جائیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے ملنے سے مایوس ہیں ان کے دلوں میں خداتعالیٰ کی ملاقات کا یقین پیدا کریں اور اس قسم کی زندگی سے لوگوں کو روشناس کریں جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ علیہما السلام اور دوسرے انبیاء کے زمانہ میں لوگوںکو نصیب تھی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آخرپر بہت محبت بھرے انداز میں احمدیت میں آنے کی دعوت دی ہے، فرماتے ہیں: آپ آئیں اور اس بوجھ کو ہمارے ساتھ مل کر اٹھائیں جس بوجھ کا اٹھانا اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔(صفحہ 49)
اللہ تعالیٰ ہمیں احمدیت کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین