اطاعتِ امیر از روئے حدیث
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی اطاعت کرو۔
اطاعت ایک ایسا وصف ہے جو ہر نظام کے قیام و استحکام کی بنیاد ہے۔اَجرامِ فلکی ہوں یا خلیہ وایٹم میں موجود چھوٹے سے چھوٹے ذرات، ہر ایک مطیع یا مطاع کی صورت میں متاثر یا مؤثرہے اور باہم ایسا مربوط ہے کہ جہاں کوئی اپنے دائرہ کار سے ہٹتا ہے وہیں اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اسلام جو دین فطرت ہے یہ بھی نام ہے اطاعت اور فرماں برداری اختیار کرنے کا۔خواہ نجی زندگی ہو یا معاشرتی، عبادات ہوں یا دنیاوی کاروبار، ہر حیثیت میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کے عروهٔ وثقیٰ کو تھامے ہوئے نماز کا موقع ہو یا کوئی مہم یا سفر درپیش ہو، دینی معاملات ہوں یا دُنیاوی نظامِ حیات، وسیع دائرہ کار ہو یا مختصر، ہر حال میں صاحبِ امر کی کامل اطاعت کرنا ہی مومن کا شعار ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی موقع پر بھی مسلمانوں کو امیر کے بغیر نہیں چھوڑتے تھے۔خود سفر پر جاتے تو اپنے پیچھے مدینہ میں امیر مقرر فرماکر جاتے، صحابہؓ کو کہیں بھجواتے تو اُن میں سے ایک کو امیر مقرر کرکے اُس کی اطاعت کرنے کی انہیں تلقین فرماتے تھے۔
قرآنِ کریم نے امیر کے لیے’’اولی الامر‘‘کا لفظ اختیار کرکے اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کے ساتھ ان کی اطاعت کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ
(النساء:60)
یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی اطاعت کرو۔
عافیت کا حصار
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: امام تو ایک ڈھال ہے، جس کے پیچھے ہوکر لڑا جاتا ہے اور جس کے ذریعہ بچاؤ کیا جاتا ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب یقاتل من وراء الامام ویتقى بہ، روایت نمبر2957)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز باجماعت کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا: جماعت کو لازم کر لو کیونکہ بھیڑیا اُسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب فی التشدید فی ترک الجماعۃ، روایت نمبر547)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل یہی تھا کہ خواہ کیسے ہی تجربہ کار اور صاحبِ فضیلت کیوں نہ ہوتے، اپنے نگران کے کامل فرماں بردار رہتے تھے اور اس کے تابع ہوکر کام کیا کرتے تھے۔اپنی نجات اور سلامتی اطاعت میں ہی سمجھتے تھے اور امیر سے آگے بڑھ کر کبھی اُس کی نگرانی اور امارت کی تحقیر نہیں کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک سریہ عمرو بن العاصؓ کی قیادت میں روانہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی اس میں شامل تھے۔ جب یہ لشکر جنگ کے مقام پر پہنچا تو عمرو بن العاصؓ نے حکم دیا کہ آگیں روشن نہ کی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری اور وہ غصہ میں اُن سے بات کرنے کے لیے جانے لگے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کیا اور فرمایا: رسول اللہﷺ نے انہیں ان کے جنگی علم کی وجہ سے ہی امیر مقرر کیا ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ پُرسکون ہوگئے۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب السیر،باب ما علی الوالی من أمر الجیش،جزء9صفحہ70، روایت نمبر17900)
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی اُنگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب المظالم، باب نصر المظلوم، روایت نمبر2446)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اسلام تو جماعت ہی سے ہےاور جماعت کا وجود امارت سے ہے اور امارت (قائم) نہیں رہتی مگر اطاعت ہی سے۔ (سنن الدارمی، المقدمۃ، باب فی ذھاب العلم، روایت نمبر257)گویا جماعت کا وجود امراء کی کامل اطاعت اور فرماں برداری ہی سے قائم رہتا ہے۔ ايك موقع پر آنحضورﷺ نے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ جماعت سے چمٹے رہو، اور تفرقے سے بچتے رہو۔(سنن الترمذی، ابواب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، روایت نمبر 2165)
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جو جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اُس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اُتار دیا۔
(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، باب فی قتل الخوارج، روایت نمبر4758)
حضرت عرفجہ بن شریحؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: جماعت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہےاور جو جماعت سے الگ ہوجائے اُس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے جو اُسے ٹھوکر مارتا ہے۔
(سنن النسائی، کتاب تحریم الدم، باب قتل من فارق الجماعۃ، روایت نمبر4020)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا، وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اُس کی گردن بیعت سے آزاد ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب الامر بلزوم الجماعۃعند ظہور الفتن، روایت نمبر1851)
حقیقی اور سچی اطاعت
اطاعت صرف پسند اور ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنا نہیں بلکہ ہر حکم خواہ وہ طبیعت، مزاج یا نفس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، طوعًا یعنی خوشی اور کشادہ دلی سے حتی المقدور سرانجام دینا اطاعت کہلاتا ہے اور حقیقی مطیع کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر بات اور ہر حکم کو جاننے اور معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے تا کسی بھی اَمر کی ادائیگی میں کوتاہی سرزد نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ جہاں ہرطرح کے حالات میں اطاعت کرنے کا عہد لیا کرتے تھے وہاں آپؐ سننے پر پابند ہونے کا اقرار بھی لیتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت جریر بن عبد اللہ بجلیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ جہاں تک ہم سے ہوسکا، ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔
(صحیح البخاری، کتاب الاحکام، باب کیف یبایع الامام الناس، روایت نمبر7204،7202)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
تم پر(ہر حال میں) سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے، مشکل میں بھی اورآسانی میں بھی،پسندیدگی میں بھی اور ناپسندیدگی میں بھی اوراس حال میں بھی کہ ہماری حق تلفی کرتے ہوئے دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جارہی ہو۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ )
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مومن تو ایک ایسے اونٹ کی طرح ہوتا ہے جس کی ناک میں نکیل پڑی ہو اور اُسے جہاں لے جایا جائے وہ چلا جاتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، روایت نمبر43)
اطاعت کا تقاضا …اخلاص اور خیر خواہی
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
دین تو خیرخواہی اور اخلاص کا نام ہے۔ ہم نے عرض کیا: کس کے لیے؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے لیے اور اس کی کتاب کے لیے اور اس کے رسولؐ کے لیے، مسلمانوں کے اَئمہ کے لیے اور ان کی عوام کے لیے۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
تین باتیں ایسی ہیں جن میں مومن کا دل خیانت کا ارتكاب نہیں کرتا۔ اخلاصِ عمل، اولی الامر کی خیرخواہی اور جماعت سے وابستگی۔
(مسند احمد بن حنبل، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعمؓ، جزء4 صفحہ80)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کبار صحابہؓ ہمیں نصیحت کیا کرتے تھے کہ اپنے امراء کو بُرا بھلا مت کہنا، انہیں دھوکامت دینا اور اُن کی نافرمانی نہ کرنا اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبر کرتے رہنا۔
(کنز العمال،کتاب الخلافۃ مع الامارۃ، الترغیب فی الامارۃ، جزء5 صفحہ780، روایت نمبر14370)
اطاعت فی المعروف
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت (کا حکم) تو صرف معروف میں ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب سریۃ عبد اللہ بن حذافۃؓ، روایت نمبر4340)
قرآن کریم اور سنتِ نبویﷺ میں ہر جگہ اطاعت کا حکم معروف سے ملزوم ہی دکھائی دیتا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہے کہ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ (النور:54)یعنی معروف کے مطابق اطاعت کرو۔ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ (الممتحنۃ:13) یعنی معروف امور میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی۔ اسی طرح حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیعت لیتے وقت یہ بھی اقرار لیا کہ معروف میں نافرمانی نہیں کریں گے۔
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ الایمان حب الانصار، روایت نمبر18)
معروف کو سمجھنے میں یہ امر خاص توجہ طلب ہے کہ آنحضورﷺ نے ایسے ائمہ اور امراء کے پیچھے بھی نماز پڑھتے رہنے کا ہی ارشاد فرمایا جو نماز کو اُس کے بہترین وقت میں پڑھنے کی بجائے تاخیر سے ادا کیا کریں گے۔(سنن ابي داود، كتاب الصلوٰۃ، باب اذا أخر الامام الصلوٰۃ عن الوقت، روایت نمبر434) اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا
(النساء:104)
یعنی یقیناً نماز مومنوں پر ایک وقتِ مقررہ کی پابندی کےساتھ فرض ہے۔
ایک حدیث حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
میرے بعد ایسے ائمہ ہوں گے جو نہ میری ہدایت پر چلیں گے اور نہ میری سنت اختیار کریں گے۔ ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کے دل انسانی جسم میں شیطان کے دل ہوں گے۔ حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر یہ وقت آئے تو آپؐ کا کیا ارشاد ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تم امیر کی سننا اور اطاعت کرنا، اگر تمہاری پیٹھ پر مارا جائے اور تمہارا مال لے لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب الامر بلزوم الجماعة عند ظھور الفتن)
گویا ظالمانہ سلوک کے باوجود بھی صبر سے اطاعت کرنے کا حکم ہے۔اولوالامر اور ماتحت کے درمیان اگر کوئی تنازعہ ہوجائےفیصلہ کرنا کلامِ الٰہی اور سنتِ رسولﷺ کا ہی حق ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ
(النساء:60)
یعنی اگر تم کسی معاملہ میں (اولوالامر سے) اختلاف کرو تو ایسا معاملہ اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔نیز آنحضورﷺ نے معروف کو اللہ تعالیٰ کی معصیت کے مقابل ذکر فرما کر یہ واضح کردیا ہے کہ غیرمعروف سے مراد صرف ایسے احکام ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح اور روشن دلیل موجود ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کھلی کھلی نافرمانی اور معصیت میں داخل ہیں۔
(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب قول النبیﷺ سترون بعدی امورا تنکرونھا، روایت نمبر7056)
ہمارے پیارے امام سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’غیرمعروف وہ ہے جوواضح طورپر اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ستمبر 2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍نومبر2003ءصفحہ5)
(اطاعت در معروف کے بارے میں الگ سے ایک مضمون اسی شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ادارہ)
امیر کو حقیر مت جانو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی تو اس نے میری ہی نافرمانی کی۔
(صحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب یقاتل من وراء الامام ویتقى بہ، روایت نمبر2957)
لہٰذا امیر پسند ہو یا ناپسند، برتر ہو یا کم تر، تجربہ کار ہو یا نا تجربہ کار ہر حال میں اُس کی اطاعت لازم ہے۔ حضرت اُمّ حصین رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اگر تم پر ناک کان کٹا ایک حبشی غلام بھی امیر بنا دیا جائے تو اُس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔
(سنن الترمذی، کتاب الجہاد، باب طاعۃ الامام، روایت نمبر2861)
حضرت انسؓ کی روایت میں ہے کہ اُس کا سر منقیٰ جیسا بھی ہو تو بھی سنو اور اطاعت کرو۔
(صحیح البخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام)
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب وہ (حضرت عثمانؓ کے ارشاد پر) ربذہ پہنچے تو وہاں انہوں نے حضرت عثمانؓ کا ایک حبشی غلام پایا۔ (نماز کا وقت ہوا تو) اُس نے حضرت ابوذرؓ کو نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ حضرت ابوذرؓ نے رسول اللہﷺ کا فرمان کہ ’’ایک حبشی غلام بھی امیر بنا دیا جائے تو اُس کی بات سننا اور اطاعت کرنا‘‘یاد کرکے نماز پڑھانے سے انکار کردیا اور اُس کے پیچھے ہی نماز پڑھی۔
(مصنف عبد الرزاق، کتاب الصلوٰۃ، باب الامراء یؤخرون الصلوٰۃ، روایت نمبر3785)
امیر کی طبیعت میں نقائص اور خامیاں ہوں، حتی کہ فسق وفجور میں بھی مبتلا ہو، تب بھی اطاعت سے باہر نکلنا مومن کا کام نہیں ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
میرے بعد تم پر جو حکمران ہوں گے اُن میں سے نیک اپنی نیکیوں کے ساتھ تم پر حکومت کریں گے اور بُرے اپنی بُرائیوں کے ساتھ تم پر حکومت کریں گے۔ تم ان کی بھی بات سننا اورجو بات حق کے مطابق ہو اُس میں اُن کی اطاعت کرنا۔ اگر وہ اچھے کام کریں تو اُن کے لیے بھی مفید ہوگا اور تمہارے لیے بھی۔ لیکن اگر وہ بُرائی کریں تو (مطیع رہنا) تمہارے لیے تو باعث اجر ہوگا لیکن(وہ بُرائی) اُن کے لیے وبال بن جائے گی۔
(المعجم الاوسط للطبرانی، جزء6صفحہ247،روایت نمبر6310)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:
نماز تو ہر ایک مسلمان کے ساتھ (باجماعت) پڑھنا فرض ہے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار۔اور جہاد بھی ہر ایک امیر کی معیت میں واجب ہے، خواہ وہ نیک ہو یا بد، خواہ وہ گناہِ کبیرہ کا ہی مرتکب کیوں نہ ہو۔
(سنن الدار قطنی، کتاب العیدین، باب صفۃ من تجوز الصلاۃ معہ والصلاۃ علیہ، روایت نمبر1764)
صبر اور اطاعت…حق تلفی کے باوجود اطاعت کا حکم
اطاعت کے بلند معیار حاصل کرنے کے لیے قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے۔ آنحضورﷺ نے ہمیں یہی راہ نمائی فرمائی ہے کہ امیر یا حکمران اگر حق تلفی بھی کرے، سختیاں اورتکالیف بھی پہنچائی جائیں، اُس کے دائرہ حکومت میں رہتے ہوئے اطاعت چھوڑنا یا بغاوت کرنا درست نہیں ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے بعد ترجیحی سلوک ہوگا اور ایسے معاملات ہوں گے جنہیں تم ناپسند كرو گے۔ صحابہؓ نے کہا: یا رسول اللہ ! اگر ہم میں سے کوئی ایسے حالات سے دوچار ہو تو آپؐ (اُس کے لیے) کیا فرماتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: (اُن کے) جو حق تم پر ہوں وہ ادا کرنا اور اپنے حقوق اللہ سے چاہنا۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب الامر بالوفاءببیعۃ الخلفاء)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو اپنے حاکم سے کوئی ایسی بات دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو چاہیے کہ وہ اس پر صبر کرے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہوا، پھر وہ (اسی حالت میں) مرگیا تو وہ یقیناً جاہلیت کی موت مرا۔
(صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی سترون بعدی امورا تنکرونھا، روایت نمبر7054)
حضرت سلمہ بن یزید جعفیؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: یا نبی اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوجائیں جو اپنا حق تو ہم سے طلب کریں لیکن ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو ایسی صورت میں آپؐ ہمیں کیا فرماتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ایسے حالات میں بھی اپنے امراء کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ کیونکہ جو ذمہ داری اُن پر ڈالی گئی ہے اُس کا مواخذہ اُن سے ہوگا اور جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے اُس کا مواخذہ تم سے ہوگا۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فی طاعۃ الامراء واِن منعوا الحقوق )
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب تم اپنے امیر میں کوئی بُری بات دیکھو تو اُس کے عمل سے نفرت کرو۔ لیکن اطاعت سے اپنا ہاتھ مت کھینچو۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمۃ وشرارھم )
ایک موقع پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ ایک مضبوط جسم والا جری شخص جو کسی مہم پر بطیبِ خاطر نکلے۔پھر امیرایسے سخت احکام دے جو عقل سے باہر ہوں (تو کیا وہ ایسے امیر کا حکم مانے؟)انہوں نے کہا: میں صرف یہی کہتا ہوں کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ ہوتے تھے۔ جونہی آپؐ ہمیں کسی بات کا حکم دیتے، ہم پہلی دفعہ پر ہی اطاعت کیا کرتے تھے۔ اور یقیناً تم میں سے ہر شخص اچھی حالت میں رہے گا، جب تک وہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیے رہے گا۔
(صحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب عزم الامام علی الناس فیما یطیقون، روایت نمبر2964)
اطاعت کرتے ہوئے حق کا ساتھ نہیں چھوڑنا
ظالم وجابر امیر کی اطاعت کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کی ادائیگی میں کمی اور کوتاہی برتتے ہوئے اپنے دین اور ایمان کے ضائع ہونے کی کچھ بھی پروا نہ کی جائے۔ ان کی اطاعت کا یہ مطلب ہے کہ افتراق اور انتشار پھیلانے سے باز رہا جائے اور ایسی باتیں اور کام نہ ہوں جن سے اجتماعیت کو نقصان پہنچے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جن باتوں پر ہم سے بیعت لی اُن میں یہ بھی تھی کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں حق پر عمل کریں گے اور حق بات کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ہم کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
(صحیح البخاری،کتاب الاحکام، باب کیف یبایع الامام الناس، روایت نمبر7199)
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر ایک ناک کان کٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ امیر بنا دیا جائے۔ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچائے تو صبر کرنا، اگر وہ کوئی کام تمہارے سپرد کرے تو اُس ذمہ داری کو نبھانا۔اگر وہ تم سے کچھ روک دے توصبر کرنا، اگر وہ تم پر ظلم کرے تو برداشت کرنا اور اگر وہ تمہارے دین میں کوئی نقص ڈالنے کا ارادہ کرے تو اُسے کہنا: میرے دین پر میری جان قربان ہے۔(یعنی جان دے سکتا ہوں لیکن دین میں نقص قبول نہیں کرسکتا) اور جماعت سے الگ مت ہونا۔
(کنز العمال، کتاب الخلافۃ مع الامارۃ، اطاعۃ الامیر، جزء5صفحہ778، روایت نمبر14358)
اطاعت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور کفر میں نہیں ہے
امیر یا حاکم اگر کوئی ایسا حکم دے جس کی تعمیل سے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی اور معصیت ہوتی ہو، تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی لازم ہے اور اس حاکم کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: سننا اور اطاعت کرنا پسندمیںبھی اور ناپسندیدگی میں بھی ہر مسلمان شخص پر (اس وقت تک) ضروری ہے جب تک کہ (اللہ تعالیٰ کی) نافرمانی کا حکم نہ دیا گیا ہو۔ اور اگر (اللہ تعالیٰ کی) نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت۔
(صحیح البخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام ما لم تکن معصیۃ، روایت نمبر7144)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور ایک انصاری شخص کو ان پر امیر مقرر فرمایا اور آپؐ نے انہیں حکم دیا کہ اس کی بات سننی ہے اور اطاعت کرنی ہے۔پھر کسی بات پر انہوں نے اسے غصہ دلایا تو وہ کہنے لگا: لکڑیاں جمع کرو۔ لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں تو اُس نے کہا: آگ جلاؤ۔ آگ جلائی تو وہ کہنے لگا: کیا تمہیں رسول اللہﷺ نے میری بات سننے اور اطاعت کرنے کا نہیں کہا تھا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔اُس نے کہا: تو اس میں داخل ہوجاؤ۔ بعض لوگ تو اس میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوگئے لیکن بعض نے (انہیں روکتے ہوئے) کہا: آگ ہی سے تو بچنے کے لیے ہم رسول اللہﷺ کی طرف بھاگ کر آئے ہیں۔ وہ یہ بحث ہی کرتے رہے کہ آگ بجھ گئی۔ جب وہ واپس آئے تو انہوں نے نبی کریمﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے اُن لوگوں سے جنہوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا فرمایا: اگر تم اس میں داخل ہوجاتے تو قیامت تک اس میں ہی رہتے اور دوسروں کے متعلق آپؐ نے اچھی بات فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃوتحریمھا فی المعصیۃ)
ایک موقع پر حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے ایسے امیر کی اطاعت کے متعلق پوچھا گیا جو ناحق طور پر لوگوں کو قتل کرنے اور اُن کا مال لوٹنے کا حکم دیتا ہو۔ آپؓ سے آیت کریمہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ …وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ
(النساء:30)
کا بھی ذکر کیا گیا۔ یعنی اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے اموال آپس میں ناجائز طریق پر نہ کھایا کرو۔ …اور اپنے لوگوں کو قتل نہ کرو۔ آپؓ نے فرمایا:اللہ کی اطاعت (کے حکم) میں اس (امیر) کی اطاعت کرو اور اللہ کی معصیت (کے حکم) میں اس کی نافرمانی کرو۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب الامر بالوفاء ببیعۃ الخلفاء)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(تم میں) ایسے امراء بھی ہوں گے جن کی کچھ باتیں تو معروف ہوں گی لیکن کچھ باتیں ناپسندیدہ ہوں گی۔ جو اُن سے الگ رہا نجات پا گیا۔اور جو اُن سے بچا وہ بھی سلامتی میں رہا۔ لیکن جو اُن میں مل جُل گیا وہ ہلاک ہوگیا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفتن، باب ماذکر فی عثمان، روایت نمبر37743)
حضرت ابو سلالہ سلمیؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
تم پر ایسے حکام بھی آئیں گے جو تمہاری معیشت پر قابض ہوں گے، تم سے بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے، جو کام کریں گے بُرا ہی کریں گے۔ وہ تم سے اُس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم اُن کی بُرائی کو اچھائی نہ قرار دے لو اور اُن کے جھوٹ کو سچ نہ کہہ دو۔ جہاں تک وہ حق پر راضی ہوں انہیں اُن کا حق دیتے رہو۔ پھر اگر وہ (اللہ کی قائم کردہ حدود سے) تجاوز کریں تو جو (حق کا ساتھ دیتے ہوئے) مارا گیا تو وہ شہید ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، جزء22صفحہ362)
ظلم کی اصلاح کا طریق
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے ہم سے بیعت لیتے ہوئے یہ بھی اقرار لیا کہ ہم امارت (یعنی حکومت) چھیننے کے لیے امیر سے نہیں جھگڑیں گے، سوائے اس کے کہ ایسا کھلا کفر دیکھیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پاس واضح روشن دلیل ہو۔
(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی سترون بعدی امورا تنکرونھا، روایت نمبر7056)
ناحق بات ہو یا ظلم وزیادتی کے فیصلے ہوں، امیر یا حاکم کو توجہ دلانا اور ظلم وزیادتی اور ناانصافی سے روکنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذیل میں داخل ہے۔نیز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اور آپؐ نے فرمایا: ظالم کی مدد اُسے ظلم سے روکنے سے کرسکتے ہو۔(صحیح البخاری، کتاب المظالم، باب أعن أخاک ظالما أو مظلوما، روایت نمبر2444)اسی طرح ایک اور قولِ نبویﷺ ہے کہ ظالم حکمران کے سامنےحق بات کرنا اور عدل کی بات کرنا بہترین جہاد ہے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، روایت نمبر4011، 4012)
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ موقع بے موقع تنقید شروع کردی جائے۔ایسا کرنا یقیناً انتشار پھیلانے اور اختلاف کو رواج دینے کا باعث بنے گا، جو منع ہے۔ ذکر ملتا ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے کہا: ہم اپنے حکمران کے پاس جاتے ہیں اور اُس سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو اُن باتوں کے خلاف ہوتی ہیں جو ہم باہر نکل کر کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا: ہم تو اسے نفاق کہا کرتے تھے۔
(صحیح البخاری، کتاب الاحکام، باب ما یکرہ من ثناء السلطان، روایت نمبر7178)
اس بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اُس حدیث کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لوگوں میں سب سے بُرا وہ شخص ہے جو دو رُخہ ہو۔ کچھ لوگوں کے پاس ایک منہ لے کر آئے اور دوسروں کے پاس دوسرا۔
(صحیح البخاری، کتاب الاحکام، باب ما یکرہ من ثناء السلطان، روایت نمبر7179)
بلاشبہ ظالم وجابر اور خطا کار امیر وحاکم کے ساتھ خیرخواہی کا یہی تقاضا ہے کہ مظالم اور غیرمنصفانہ فیصلوں اور غلط طرق کی اصلاح کے لیے کوئی ایسا مناسب طریق اختیار کیا جائے جو نہ تو الْمَجَالِسُ بِالْأَمَانَةِ کی خلاف ورزی ہو اور نہ ہی منافقت میں داخل اور فتنہ وفساد کو ہوا دینے والا ہو اور نہ ہی امارت چھیننے کی ایسی کوششں ہو، جو بغاوت کہلائے۔
ایک دفعہ حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ جو امیرِ لشکر تھے، ان کا ایک حکم حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو غلط محسوس ہوا تو انہوں نے انتہائی غصہ سے برملا اِس کا اظہار کیا تو حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ نے انہیں یاد دِلایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ جو حاکم کو کسی معاملہ میں خیرخواہانہ مشورہ دینے کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیے کہ علانیہ نہ کہے، علیحدگی میں کہے اگر وہ اسے قبول کرلے تو ٹھیک اور اگر قبول نہ کرے تو جو ذمہ داری اس پر تھی وہ ادا کرچکا۔
(مسند احمد بن حنبل، مسند المکیین، حدیث ہشام بن حکیمؓ، جزء3 صفحہ403)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ثواب فرماں برداری میں ہوتا ہے اور دین تو سچی اطاعت کا نام ہے نہ یہ کہ اپنے نفس اور ہوا وہوس کی تابعداری سے جوش دکھاویں۔…وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلدسوم صفحہ103تا104)
٭…٭…٭