درویشان قادیان اطاعت خلافت کے پیکر (قسط اوّل)
سنت اللہ کے مطابق امتِ محمدیہ کے حصّہ’’آخرین‘‘میں بدری صحابہؓ کے مثیل تین سو تیرہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورپھر درویشان کرام کا وجود میں آنا مقدر امر تھا۔ چنانچہ اس پاک زمرۂ درویشان کے بارے میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے متعدد الہامات اور کشوف و رؤیا ہیں ۔ ان الہامات و کشوف میں مندرجہ ذیل کشف بھی موجود ہے۔تقریباً 1874ء کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف ہے کہ
’’مَیں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا جو ایک اُونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا وہ نان اس نے مجھے دیا اور کہا کہ یہ تیرے لئے اورتیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے۔یہ اس زمانہ کی خواب ہے جب کہ میں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہےجنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنایا ہے اور اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہوکر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آ آباد ہوئے ہیں ۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ584-585)
برصغیر ہندوستان تقریباً دو سو سال تک انگریزوں کی غلامی میں رہا۔15؍ اگست1947ءکو مسلسل کوششوں سے ملک آزاد ہوا اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی مملکت پاکستان معرض وجود میں آگئی۔جس کے نتیجے میں مشرقی پنجاب کی تمام مسلم آبادی بزور شمشیر جلا وطن کر دی گئی اسی طرح مغربی پنجاب کی وہ تمام آبادی جو مسلمان نہ تھی مشرقی پنجاب بھجوادی گئی۔ اس تقسیم کی وجہ سے تقریباً ایک کروڑ مسلمان مشرقی پنجاب سے جلا وطن کر دیا گیا۔ ایک ملین افراد قتل، زخمی، اپاہج ہوئے۔ کروڑوں روپے کی جا ئیدادیں تباہ و برباد ہوئیں۔ تقسیم ملک سے قبل قادیان اور اس کے نواحی دیہات میں جماعت احمدیہ کی بہت بڑی تعداد تھی۔اور یہ علاقہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ریاست تھا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبل ازیں الہام ’’داغ ہجرت‘‘کے ذریعہ ہجرت کی خبر دی تھی۔ چنانچہ 1947ء میں ہندوستان کی اس تقسیم کے ذریعہ حضرت مسیح موعود ؑکی وفات کے 39؍سال بعد خلافت ثانیہ میں اگست 1947ءتانومبر1947ء کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اورافراد جماعت کو قادیان سے مغربی پنجاب کی طرف ہجرت کے لیے مجبور کر دیا گیا۔ سینکڑوں احمدی شہید ہوئے سینکڑوں زخمی اور لاپتہ ہوگئے۔ کروڑوں روپے کی املاک وجائیدادلوٹ کھسوٹ اور تباہی وبربادی کا شکار ہو گئیں ۔
اس نازک موقع پر احمدیہ مسلم جماعت کے دائمی مرکز قادیان دارالامان کی حفاظت اور آبادی کے لیے احمدیوںکو قادیان میںٹھہرانے کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فیصلہ فرمایا کہ آئندہ قادیان میں احمدیوں کی ایک مخصوص تعداد مقیم رہے گی ،جو مقامات مقدسہ کی حفاظت کریں گے۔
دورِ درویشی کا آغاز
زمانہ درویشی کا باقاعدہ طور پر آغاز 16؍ نومبر 1947ء کو ہوا۔ کیونکہ 16؍ نومبر کو قادیان سے آخری قافلہ چلا گیا تھا۔ اور اس کے بعد 313؍احباب قادیان میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے رہ گئے تھے۔قادیان سے آخری قافلہ چلے جانے پر ایک نئے دَور کا آغاز ہوا جس کو ’’دَورِ درویشی‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دَور درویشی کے آغاز میں امارت کا اہم فریضہ حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحب جٹ فاضلؓ کے سپرد ہوا۔ اور 313؍جاںنثاروں نے سر بکفن ہو کر مقامات مقدسہ کی حفاظت کی خاطر اپنے آپ کو پیش کیا اور یہ عہد کیا کہ ہم اپنی جان مال عزت و آبرو سب قربان کر دیں گے لیکن مرکز احمدیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہیں خدا نے اس تخت گاہ کی نگہبانی کے لیے چنا تھا۔ رسالہ الفرقان درویشان قادیان نمبر 1963ء میں درج ہے :
’’16؍ نومبر 1947ء سے زمانہ درویشی شروع ہوا۔ آخری قافلہ 16؍نومبر 1947ء کو چلے جانے کے بعد 313 احباب قادیان میں ٹھہرے رہے۔ دیار حبیب کی آبادی اور شعائر اللہ و مقامات مقدسہ کی نگہداشت اور حفاظت کی خاطر 16؍ نومبر1947ء کو قادیان میں ٹھہرنے والے درویشوں میں 221نوجوان57 درمیانی عمر کے اور35 بوڑھے احباب تھے۔16؍ نومبر1947ء کو قادیان میں ٹھہرنے والے درویشوں میں 11؍صحابہ تھے۔ بعد میں مزید 13؍ تشریف لائے ۔ جس سے صحابہ کی تعداد 24؍ ہو گئی۔‘‘
قادیان کے مقامی احمدی درویشوں کو اُن کے انتخاب کی اطلاع قبل ازیں یکم نبوت/نومبر 1326ھش 1947ء کو بذریعہ کارڈ دی گئی تھی۔ جس پر امیر جماعت احمدیہ قادیان حضرت مولانا جلا ل الدین صاحب شمسؓ کے دستخط تھے اُس کارڈ پر درج ذیل عبارت لکھی ہوئی تھی:
’’درویش نمبر…نام …مبارک ہو کہ آپ کو اگلے دوماہ کے لئے قادیان میں ٹھہرنے کے لئے منتخب کیا گیا ہے ۔اُمید ہے کہ آپ امن اور صلح سے رہیں گے اور اپنے ساتھیوں سے تعاون کریں گے۔ خود تکلیف اٹھائیں گے مگر ساتھیوں کو تکلیف نہ ہونے دیں گے۔‘‘
اسی طرح درویشوں سے حسب ذیل عہد بھی لیا گیا تھا:
’’ہم احمدی…جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں۔ خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تا حکم ثانی (جو انشاء اللہ تعالیٰ موجودہ فیصلہ کے مطابق دو ماہ تک ہوگا) قادیان کو نہیں چھوڑیں گے۔ امن اور صلح سے رہیں گے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ اور ہم میں سے جو افیسر ہیں وہ خود تکلیف اُٹھائیں گے لیکن دوسروں کو تکلیف نہ ہونے دیں گے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ369)
یہی وہ خوش نصیب درویش تھے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ
’’یہ [نان] تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ 585)
16؍نومبر 1947ء کو جب آخری کانوائے قادیان سے چلا گیا تھا تو تاریخ احمدیت کے مطابق اس وقت 316 درویش قادیان میں رہ گئے تھے ۔شروع میں درویشان کو دو دو ماہ کے لیے ہی قادیان میںرکھا گیا تھا اور پروگرام یہ تھا کہ ہر دو ماہ کے بعد کچھ لوگ باہر سے قادیان آیا کریں گے اور جو دو ماہ کے بعد قادیان سے باہر جانا چاہتے ہوں اُن کو بھجوا دیا جائے گا۔ اس پروگرام کے تحت بعض لوگوں کے تبادلے بھی ہوئے اور قادیان میں باہر سے تین مرتبہ نئے لوگ آئے۔اُن تین قافلوں میں آنے والے افراد کی تعداد بالترتیب اس طرح تھی۔اول 10، دوم 15،سوم 35۔اس طرح ’’درویش‘‘کا لقب پانے والے افراد کی کل تعداد 375؍بنتی ہے۔
آج کےاس مضمون میں خاکسارقارئین الفضل انٹر نیشنل کی خدمت میں ’’درویشان قادیان۔اطاعت خلافت کے پیکر‘‘ کےحوالے سے چند واقعات کا تذکرہ کرے گا۔ اس دعا کے ساتھ کہ درویشان قادیان کے ان عملی نمونوں کو دیکھ کرہمیں بھی اللہ تعالیٰ خلافت کی اطاعت کے معیار کو بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم اور ہماری نسلیں خلافت کےسچے سلطان نصیربننےوالےہوں،آمین۔
درویشان قادیان اور اطاعت خلافت
اطاعت عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کے اصطلاحی معنی کامل فرمانبرداری اختیار کرنے کے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اطاعت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں لذت اور روشنی آتی ہے …اطاعت میں اپنے ھوائے نفس کو ذبح کردیناضروری ہوتا ہے بدوںاس کے اطاعت ہو نہیں سکتی‘‘
(تفسیر بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 3صفحہ 317)
درویشان قادیان کی زندگی اطاعت خلافت کا عملی نمونہ تھی۔ انہوںنےاپنے قول و فعل سے اطاعت کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔اُن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
خلیفہ وقت کے حکم کی عملی تصویر
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درویشان قادیان کو مختلف اوقات میںجو قیمتی نصائح فرمائیں۔اُن میںسے ایک یہ تھی کہ
’’مَیں پہلے بھی لکھ چکاہوں اب پھر لکھتا ہوں کہ اب جولوگ وہاں رہیں اُن کو یہ سمجھ کر رہنا چاہیے کہ انہوں نے مکی زندگی اور مسیح ناصری والی زندگی کا نمونہ دکھلانا ہے۔ اگرہمارے کسی آدمی کی سختی کی وجہ سے یا مقابلہ کی وجہ سے مقامات مقدسہ کی ہتک ہوئی تو اس کاذمہ دار وہی ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء کے ذریعہ سے ہم کو یہ نمونے دکھائے ہوئے ہیں۔ اب نصیحت اور تبلیغ اور ضمیر کے سامنے اپیل کرنے سے کام لینا چاہئے اور دُعا اور گریہ وزاری اور انکساری سے کام لینا چاہیے اور ظلم برداشت کرکے ظلم کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے جب تک یہ طریق ہماری وہاں کی آبادی نہیں دکھائے گی۔ دوبارہ قادیان کا فتح کرنا مشکل ہے۔ ہمارے آدمیوںکو چاہیے کہ وہ دعائیں کریں اور روزے رکھیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو دعائوں کی قبولیت اور الہام کی نعمت میسر آجائے پھر وہ اس نعمت کے ذریعہ سے سکھ اور ہندو آبادی کے دلوں کو فتح کریں…اور جو جسمانی شوکت ہم سے چھن گئی ہے وہ روحانی طور پر ہم کو پہلے سے بھی زیادہ مل جائے۔یہ طریقہ بھی اختیار کریں کہ کوئی مصیبت زدہ سکھ یا ہندو ملے تو اُس کو یہ تحریک کریںکہ تم احمدیت کی نذر مانو تو تمہاری یہ تکلیف دور ہو جائیگی پھر اُس کے لئے دعائیں بھی کریں۔ بیماروں کی شفا، مقدمہ والوں کی فتح اور اس قسم کے اور مصیبت زدوں کے لئے بھی یہ تحریک کرتے رہیں تو تھوڑے سے دنوں میں ہی سینکڑوں آدمی سکھوں اور ہندوئوں میں اُن کے مرید بن جائیں گے اور ایک روحانی حکومت اُن کو حاصل ہو جائے گی۔‘‘
(بحوالہ مکتوبات اصحاب احمد جلد اول صفحہ 40)
اس ہدایت میں حضرت مصلح موعو دؓ نے درویشان قادیان کو مکی زندگی اور مسیح ناصری والی زندگی گزارنے کی نصیحت فرمائی۔(2) دعا گریہ وزاری اور انکساری سے کام لیں۔(3) دعائیں کریں روزے رکھیں۔
حضرت مصلح موعود ؓکی اس زریں ہدایت پر درویشان قادیان نے دل و جان سے عمل کیا اور اپنی عبادتوں اور دعاؤں کے معیار کو بلند کیا اور تقسیم ملک کے وقت مسلمانوں اور ہندوئوں سکھوں کے درمیان جو نفرت کی خلیج حائل ہو گئی تھی اسے اپنے کردار سے آہستہ آہستہ پاٹتے پاٹتے بالکل ختم کر دیا۔ اگر چہ بعض مواقع ایسے بھی آئے جب دوسری طرف سے سخت شورش برپاکرنے کی کوشش کی گئی لیکن درویشان کرام نے اپنے عظیم المرتبت آقا کے حکم کی واضح ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایسے پاکیزہ اخلاق کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں امن، صلح، پیار و محبت اور آشتی کی فضا ہموارہوئی۔درحقیقت شورش اس وقت بھڑکتے ہوئے شعلوں کا رنگ اختیار کر جاتی ہے جب اس کو دونوں طرف سے ہَوا ملے۔ درویشان قادیان جو کہ اپنے عظیم آقا کی اطاعت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے قادیان میں دھونی رما کر بیٹھے تھے ان سے کب توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ کسی بھی شورش میں حصہ لیں گے۔چنانچہ انہوں نے باوجود محصوریت کے اورباوجود بائیکاٹ کے ہر طرح سے امن کی بحالی کی کوششیں کیں اور بالآخر اپنے قرب و جوار میں رہنے والی دیگر اقوام کے لوگوں کے دل جیت لیے اور غیر بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے لگے کہ واقعی درویشوں نے اپنے کردار سے تقسیم ملک کے وقت کے مخدوش حالات کو بدل ڈالا۔
درویشی کے نتیجے میں تاریخ احمدیت کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔اس نئے دَور کے آغاز سے قریباً اڑھائی سال تک عرصہ محصوریت کی زندگی تھی اس عرصہ میں سوائے عبادت، دُعا اور اپنے طور پر مُطالعہ کے اور کوئی میدان علمی اور عملی ترقی کا درویش حضرات کے سامنے نہ تھا۔ہاں مساجد میں قرآن کریم و احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس باقاعدہ ہوتا تھا اور صبر و رضا اور زہد و اتقا پیدا کرنے کی تلقین ہوتی تھی جس کے نتیجے میں ان کے اندر ایک نئی زمین اور نئے آسمان کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ایک تغیّر عظیم اور ایک تبدیلی پیدا ہوگئی ۔ ہر درویش میں ایک پاک تبدیلی نظر آنے لگی۔ چہرے چمکنے لگے آنکھیں روشن ہو گئیں حوصلے بلند ہوگئے۔نمازوں میں سو فیصد حاضری اورنمازیں صرف ایسی نہیں بلکہ خشوع وخضوع، رقّت و سوز، یکسوئی و ابتہال کے ساتھ ہونے لگیں۔نماز تہجد تمام مساجد میں باقاعدگی اور شرائط کے ساتھ با جماعت ادا ہونے لگی ۔بعض درویش جو ڈیوٹی پر تھے وہیں نمازیں ادا کرتے تھے کھڑے کھڑے اور چلتے پھرتے بھی اُن کی زبانیں ذکر الٰہی میں مشغول ہوتی تھیں۔ یہ وہ محصوریت کا دَور تھا جبکہ درویشوں کی مصروفیات نمازوں اور پُر سوز دُعاؤں پر ہی مشتمل تھیں ۔درویشان کرام کے اس دَور کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کی اطاعت میں کس طرح انہوں نے دنیاوی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اور احمدیت کی ترقی کے خواب ان کی آنکھیں دیکھتی تھیں۔
اس ہدایت کی عملی تعمیل کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ درویش صحابی حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ میں درج کرتا ہوں۔ آپؓ درویشان کی روحانی حالت اور عبادت کےذوق و شوق کوبیان کرتےہوئے تحریر کرتےہیں کہ
’’قادیان پہنچے بیس روز ہوئے ہیں۔ پہلا ہفتہ تو قریباً آٹھ ماہی جدائی کی حسرت و حِرمان کی تلافی کی کوشش میں گزر گیا۔اور ماحول کی طرف نظر اٹھانے کی بھی فرصت نہ ملی۔ دوسرے ہفتہ کچھ حواس درست ہوئے تو دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں کہ ایک نئی زمین اور نئے آسمان کے آثار نمایاں ہیں۔ ایک تغیرّ ہے عظیم، اور ایک تبدیلی ہے پاک، جو یہاں کے ہر درویش میں نظر آتی ہے۔ چہرے ان کے چمکتے۔ آنکھیں ان کی روشن حوصلے اُن کے بلند پائے۔ نمازوں میں حاضری سو فیصدی، نمازیں نہ صرف رسمی بلکہ خشوع خضوع سے پر دیکھنے میں آئیں رقّت و سوز یکسوئی و ابتہال محسوس ہوا۔ مسجد مبارک دیکھی تو پُر مسجد اقصیٰ دیکھی تو بارونق مقبرہ بہشتی کی نئی مسجد جس کی چھت آسمان اور فرش زمین ہے۔ وہاں گیا تو ذاکرین و عابدین سے بھر پور پائی۔ ناصرآباد کی مسجد ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آباد ہے اذان و اقامت برابر پنجوقتہ جاری…مساجد کی یہ آبادی اور رونق دیکھ کر الٰہی بشارت کی یاد سے دِل سرور سے بھر گیا۔ اور اُمید کی روشنی دکھائی دیتی ہے…نہ صرف یہی کہ فرائض کی پابندی ہے۔بلکہ نوافل میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کثرت۔ ہجوم اور انہماک پایا۔ مقامات مقدسہ کے کونہ کونہ کے علم پانے کا عموماً ان نوجوانوں کو حریص دیکھا۔ اور پھر عامل بھی۔حتٰی کہ حالت یہ ہے کہ اس تین ہفتہ کے عرصہ میں میں نے بار ہا کوشش کی کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیت الدعا میں کوئی لمحہ تنہائی کا مجھے بھی مل سکے۔ مگر ابھی تک یہ آرزو پوری نہیں ہوئی۔ جب بھی گیا نہ صرف یہ کہ وہ خالی نہ تھا بلکہ تین تین چار چار نوجوانوں کو وہاں کھڑے اور رکوع و سجود میں روتے اور گڑ گڑاتے پایا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ متصلہ دالان اور بیت الفکر تک کو اکثر بھرپور اور معمور پایا۔
تہجد کی نماز چاروں مساجد میں برابر باقاعدگی اور شرائط کے ساتھ باجماعت ادا ہوتی ہے۔اور بعض درویش اپنی جگہ پر بعض اپنی ڈیوٹی کے مقام پر ادا کرتے ہیں۔ کھڑے کھڑے چلتے پھرتے بھی ان کی زبانیں ذکر الٰہی سے نرم اور تر ہوتی دیکھی اور سُنی جاتی ہیں۔ اور میں یہ عرض کرنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ نمازوں میں حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے سو فیصدی ہے۔ درس تدریس اور تعلیم و تعلّم کا سلسلہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ ہر مسجد میں ہر نماز کے بعد کوئی نہ کوئی درس ضرور ہوتا ہے۔ اور اس طرح قرآن، حدیث اور سلسلہ کے لٹریچر کی ترویج کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس کی بنیاد صحیح اور نیک نیت پر شوق اور لذت کے ساتھ اُٹھائی جارہی ہے۔ عام علوم کے درس ان کے علاوہ ہیں۔اور روزانہ وقارِ عمل تعمیر و مرمت، صفائی و لپائی مکانات، مساجد اور مقابر راستے اورکوچہا بلکہ نالیاں تک۔اس کے علاوہ خدمت خلق بڑی بشاشت اور خندہ پیشانی سے کی جاتی ہے۔ جس میں ادنیٰ سے ادنیٰ کام کو کرنے میں تکلیف، ہتک یا کبیدگی کی بجائے بشاشت و لذّت محسوس کی جاتی ہے۔ گیہوں کی بوریاں آٹے کے بھاری تھیلے اور سامان کے بھاری صندوق، بکس اور گٹھے یہ سفید پوش خوش وضع اور شکیلے نوجوان جس بے تکلفی سے ادھر سے اُدھر گلی کوچوں میں جہاں اپنے اور پرائے مرد اور عورت اور بچے ان کو دیکھتے ہیں لئے پھرتے ہیں۔ قابل تحسین و صدآفرین ہے اور ان چیزوں کا میرے دل پر اتنا گہرا اثر ہے جو بیان سے بھی باہر ہے۔‘‘
(الفضل جون 1948ء صفحہ4-5)
حضرت صاحبزاہ مرزا وسیم احمد صاحب کا خلافت سے اخلاص ووفا کا مضبوط تعلق
درویشان قادیان کےاس حسین گلدستے میں بانئی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم و مغفور کا وجود بھی نظر آتا ہے۔ آپ کی ساری زندگی خلافت سے اخلاص و محبت کا آئینہ دار تھی۔
آپ نے 21سال کی عمر میں درویشانہ زندگی کا آغاز کیا۔ مورخہ 5؍مارچ 1948ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حکم کے مطابق آپ شام ساڑھے سات بجے پاکستان سے 14 افراد کے ساتھ قادیان پہنچے۔درویشان قادیان کے لیے وہ زمانہ انتہائی صبرآزما اور غایت درجہ ابتلاکا زمانہ تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک موقع پر آپ کے بارے میں فرمایا کہ مَیں نے اپنا ایک بیٹا اس وادی غیر ذی زرع میں بسادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو کام کی توفیق دے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب عین جوانی میں بطور نمائندہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ، قادیان میں تشریف لائے اور تا وفات(2007ء) اپنے اس فرض کو خوش اسلوبی اور اولوالعزمی سے نبھایا۔
’’مَیںنے خلیفہ کا چہرہ دیکھ کر بیعت نہیں کرنی بلکہ مَیںنے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت کی بیعت کرنی ہے‘‘
ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے ذکر خیر پر مشتمل جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ وہ سارا کا سارا آپ کے خلافت سے مضبوط تعلق کا ثبوت ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ
’’ 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات ہوئی تو اس موقع پر بھی آپ ربوہ نہیں جا سکتے تھے آپ کی دو بڑی بیٹیوں کی تو شادیاں ہو چکی تھیں۔ چھوٹی بیٹی اور بیٹا شاید آپ کے ساتھ تھے تو آپ کی بیٹی امۃ الرؤف کا بیان ہے کہ ابّا کو خلافت سے بے انتہا عشق تھا اور حضور کی وفات کے اگلے روز ایک خط لے کر امّی کے اور میرے پاس لائے کہ اس کو پڑھ لو اور اس پر دستخط کر دو۔ یعنی اپنی اہلیہ اور اپنی بیٹی کے پاس لائے کہ دستخط کر دو۔ اس میں بغیر نام کے خلیفۃ المسیح الرابع کی بیعت کرنے کے متعلق لکھا تھا۔ خلیفۃ المسیح الرابع لکھ کر بیعت تھی کہ یہ مَیں ابھی بھجوا رہا ہوں تو یہ بیٹی کہتی ہیں کہ مَیں نے اس پر کہا کہ ابّاابھی تو خلافت کا انتخاب بھی نہیں ہوا، ہمیں پتہ نہیں کہ کون خلیفہ بنے گا۔ تو کہتے ہیں کہ مَیں نے خلیفہ کا چہرہ دیکھ کر بیعت نہیں کرنی بلکہ مَیں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت کی بیعت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی خلیفہ بنائے اس کی مَیں نے بیعت کرنی ہے۔ اس لئے مَیں نے یہ خط لکھ دیا ہے اور مَیں اس کو روانہ کر رہا ہوں تاکہ خلافت کا انتخاب ہو تو میری بیعت کا خط وہاں پہنچ چکا ہو۔ تو یہ تھا خلافت سے عشق اور محبت اور اس کا عرفان۔ اللہ کرے ہر ایک کو حاصل ہو۔‘‘
خلیفہ وقت کے ہر حکم کی من و عن انہی الفاظ میں تعمیل کرواتے
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتےہیں:
’’جشن تشکر کے وقت آپ نے سارے بھارت کا دورہ کیا، جماعتوں کو آرگنائز کیا، ان کو بتایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا دورہ ہوا۔ اس وقت آپ نے ساری انتظامی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پھر جب 2005ء میں میرا دورہ ہوا ہے اس وقت آپ کی طبیعت بھی کافی خراب تھی، کمزوری ہو جاتی تھی، بڑی شدید انفیکشن ہو گئی۔ جلسہ پہ پہلے اجلاس کی انہوں نے صدارت کرنی تھی اور بیمار تھے، بخار بھی تھا لیکن چونکہ میرے سے منظوری ہو چکی تھی، تو اتفاق سے جب مَیں نے گھر آ کے ایم ٹی اے دیکھا تو صدارت کر رہے تھے، مَیں نے پیغام بھجوایا کہ آپ بیمار ہیں چھوڑ کے آ جائیں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بخار ہے، مَیں بیمار ہوں، بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ سخت کمزوری کی حالت تھی لیکن اس لئے کہ اجلاس کی صدارت کے لئے میری خلیفہ وقت سے منظوری ہو چکی ہے، اس لئے کرنی ہے۔ خیر اس پیغام کے بعد وہ اٹھ کر آ گئے۔ اس حالت میں ہی نہیں تھے کہ بیٹھ سکتے۔ تو انتہائی وفا سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے والے تھے اور پھر مَیں نے دیکھا کہ جہاں ہماری رہائش تھی، وہاں گھر میں بعض چھوٹے چھوٹے کام ہونے والے تھے تو مستریوں کو لا کر کھڑے ہو کر اپنی نگرانی میں کام کرواتے تھے، حالانکہ اُس وقت ان کو کمزوری کافی تھی۔ خلافت سے عشق کی مَیں نے کچھ باتیں بتائی ہیں، کچھ آگے بتاؤں گا۔ پھر ان میں توکّل بڑا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے بڑا محبت کا تعلق تھا، توکّل تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت عشق تھا اور وہی عشق آگے خلافت سے چل رہا تھا اور خلافت سے عقیدت اور اطاعت بہت زیادہ تھی۔ پھر لوگوں سے بے لوث محبت تھی۔ خدمت کا جذبہ تھا۔ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بے انتہا احترام کیا کرتے تھے…۔
خلافت سے تعلق کے بارہ میں دوبارہ بتاتاہوں۔ کوئی حکم جاتاتھا، کوئی ہدایت جاتی تھی تو من وعن انہی الفاظ میں اس کی فوری تعمیل ہوتی تھی۔ یہ نہیں ہوتا تھا، جس طرح بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ اگر کوئی فقرہ زیادہ واضح نہیں ہے تو اس کی توجیہات نکالنا شروع کردیں گے۔ جس کے دو مطلب نکلتے ہوں تو اپنی مرضی کا مطلب نکال لیں۔ بلکہ فوری سمجھتے تھے کہ خلیفہ ٔ وقت کا منشا ء کیا ہے۔
جیساکہ پہلے بھی مَیں نے کہا ہے باوجودبیماری کے خلیفۂ وقت کی طرف سے آمدہ ہدایت پر اگر ضرورت ہوتی تو خود جاکے تعمیل کرواتے۔ گذشتہ دنوں ڈیڑھ سال پہلے جو زلزلہ آیا، اس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔ تومسجد کی مرمتیں ہو رہی تھیں۔ یہاں سے انجینئر جاتے رہے ہیں۔ وہاں کی زمین کی ٹسٹنگ (Testing) کے لئے کہ مزید کیاجائزہ لیناہے، کھدائی کرکے دیکھنی تھی۔ یہ کا م میاں صاحب کے بغیر بھی ہو سکتاتھا۔ لیکن خود وہاں موقع پر پہنچے اور اپنی نگرانی میں یہ کروایا اور جو انجینئر یہاں سے گئے، بڑا ہنس کے پھر ان انجینئر صاحب کو میرے متعلق کہا کہ انہیں یہ بتا دینا کہ مَیں وہاں موجود تھا۔ یہ بتا دیناکہ مجھ سے چلا نہیں جاتاتھا لیکن اس کے باوجودمَیں یہاں آکے کھڑا ہوگیا۔ یہ نہیں کہ کوئی اظہار تھا کہ دیکھو مَیں بیماری کے باوجود یہاں آگیاہوں۔ احسان کے رنگ میں نہیں بلکہ اس لئے کہ خلیفہ ٔوقت کی دعائیں میرے ساتھ ہو جائیں گی۔ تو یہ تھا ان کا خلافت سے تعلق۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍مئی2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍مئی2007ءصفحہ7تا9)
جہاں خط ملے فوراً قادیان پہنچ جاؤ
حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب 1948ء میں بعمر21سال قادیان بطوردرویش کے تشریف لائے۔ اور پھر اکتوبر 1952ء میں پندرہ دن کے پرمٹ پر ربوہ آئے تو آپ کی شادی محترمہ امۃ القدوس بیگم صاحبہ سےہوئی۔ شادی کے معاً بعد ملکی حالات مخدوش ہو گئے ۔ ایسے نازک وقت میں اطاعت خلافت کا ایک اہم واقعہ ہم سب کے لیے بطور سبق درج ہے۔
محترمہ امۃ القدوس بیگم صاحبہ واقعہ کو بیان کرتے ہوئے خودلکھتی ہیں کہ
’’شادی کے دس دن بعد میرے کچھ کاغذات شیخوپورہ سے حاصل کرنے تھے جس کے لئے ہم شیخوپورہ گئے واپسی پر نصف رستہ میں حضور کی دوسری گاڑی ملی جس میں ان کی والدہ اور بھائی بیٹھے تھے۔انہوں نے حضرت مصلح موعود ؓ کا خط ان کو دیا۔جس میں تحریر تھا کہ جہاں تمہیں یہ خط ملے واپس لاہور چلے جانا کیونکہ یہ اطلاع ملی ہے کہ تمہیں یہاں روک لیا جائے گا اس لئے فوراً لاہور پہنچ کر جہاز کی سیٹ کراؤ اگر سیٹ نہ ملے تو چارٹر جہاز کرا کر بھی جانا پڑے تو چلے جانا کیونکہ اگر تم یہاںرہ گئے تو مجھے ڈر ہے کہ قادیان خالی نہ ہو جائے۔حضور کی چٹھی پڑھ کر اطاعت کے ساتھ فوراً گاڑی مڑوالی اور لاہور کی طرف روانہ ہوگئے۔‘‘
(مصباح لجنہ اماء اللہ قادیان حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نمبر)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭