درویشان قادیان اطاعت خلافت کے پیکر (قسط دوم۔ آخری)
آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ …نے مسیح پاک کی اس بستی کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دینے کا عہد کیا تھا۔(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)
خلافت سے کیے عہد کو زندگی کے آخری لمحہ تک نبھایا
اس جگہ درویشان قادیان کا خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا ایک عجیب مثالی تعلق تھا۔ ان درویشان نے خلیفہ وقت سے کیے اپنے عہدوفا کو اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک نبھایا۔ چند ایک واقعات اس ذیل میں درج ہیں۔
٭…استاذی المحترم محترم عطاء اللہ خان صاحب درویش ایک انتہائی دعا گو بزرگ تھے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بچپن میں آپ سےقرآن مجید اور دیگر اسباق پڑھنے کی توفیق ملی۔ خاکسار نےاپنی ہوش میںآپ کو اکیلے دیکھا۔ بیت الدعا بعدہ لنگر خانہ میں اکیلے رہتےتھے۔ بعد میں جب بڑے ہوئے تو اس کی وجہ معلوم ہوئی۔
آپ اپنے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے تحریر کرتےہیں کہ
’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے دیہاتی مبلغین کی ضرورت کے لئے تحریک فرمائی۔خاکسار اس تحریک میں قادیان میں آکر شامل ہوا یہ دسمبر 1945ء کی بات ہے۔ جس کا کورس تین سال تھا۔ اسی دوران مارچ1947ءمیں خاکسار کی شادی ’’مڈھ رانجھا‘‘ ضلع سرگودھا میں امیر جماعت شیخ شمس الدین صاحب کی لڑکی سعیدہ بیگم سے ہوئی۔ اہلیہ کو اپنے ساتھ لیکر قادیان پہنچا۔ اسی سن 1947ءمیں تقسیم ملک عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا ارشاد تھا کہ عورتیں،بچے اور ساٹھ سال اوپر کے بوڑھے آدمی پاکستان چلے جائیں اور نوجوان میری اجازت کے بغیر نہ جائیں۔ خاکسار نے اہلیہ سے کہا کہ آپ قافلہ میں چلی جائیں اور میں حضور کے ارشاد کے مطابق نہیں جاسکتا۔ مگر وہ بضد رہیں کہ آپ چلیںگے تو میں جاؤں گی۔ ورنہ نہیں۔ اہلیہ کے ایک رشتہ دار پاکستان جارہے تھے ان سے میں نے کہا کہ آپ انہیں سمجھا کر ساتھ لے جائیں اور گھر پہنچائیں۔مگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو قافلہ روانہ ہونے والا تھا میں نے اپنا کچھ سامان اپنے ساتھ لیا اور چل پڑا تاکہ (اہلیہ) یہ سمجھ لیں کہ میں ان کے ساتھ چل رہا ہوں وہ راضی ہو جائیں۔ جب قافلہ روانہ ہونے لگا اور ٹرک اسٹارٹ ہوگئے یہ تمام قافلہ’’ تتلہ‘‘ کی نہر کی پٹری پر تھا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ؓ نے Whistleدی کہ جو قادیان واپس جانے والے ہیں وہ نہر کی پٹڑی کے نیچے درختوں کے سائے میں کھڑے ہوجائیں میں اس وقت ٹرک کے اوپر کی چھت پر تھا اور اہلیہ کے رشتہ دار بھی وہیں موجود تھے۔ ان کو میں نے کہا کہ اب میں جارہا ہوں آپ نے ان کو گھر پہنچا نا ہے اور میں نے ٹرک کے اوپر سے چھلانگ لگا دی اور قادیان واپس جانے والوں کی لائن میں کھڑا ہوگیا۔ اس طرح وہ بھی بخیرو عافیت پاکستان پہنچ گئیں اور خاکسار بھی اس ابتلا میں کامیاب ہوگیا۔‘‘
(ماہنامہ مشکوٰۃ قادیان اپریل2003ء)
٭…اطاعت خلافت کا ایک واقعہ خاکسار کےپڑوسی محترم محمد موسیٰ صاحب درویش بیان کیا کرتےتھے۔ آپ سے یہ واقعہ خاکسار نے کئی بار خود سنا ہےآپ بتاتے تھے کہ میں نے 1946ء میں فوج کی ملازمت ترک کرکے قادیان میں رہائش اختیار کرلی۔ تقسیمِ ملک کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے آپ سے ارشاد فرمایا کہ آپ نے ہجرت کرکے پاکستان نہیں جانا مجھے آپ کی خدمات کی ضرورت ہے۔چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کےارشاد پر میں قادیان ہی ٹھہرگیا اور درویشان میں شامل ہوا۔آپ نے ساری زندگی قادیان میںہی گزاری۔اور اب آخری آرام گاہ بھی قادیان دار الامان میں ہے۔یہ ایک دو درویشان کی بات نہیں بلکہ ہر ایک درویش کی یہی تاریخ ہے۔
٭…محترم چودھری فیض احمد صاحب درویش اخبار بدر 25؍نومبر1976ء کی اشاعت میںمحترم چودھری عبد الحمید آڑھتی صاحب درویش کی وفات پر لکھتے ہیں:
’’مرحوم کے بیٹوں نے جو خدا کے فضل سے سب کے سب فارغ البال ہیں ، مرحوم کو کئی بار دعوت دی کہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں ہمارے پاس چلے آئیں۔ تاکہ ہم آپ کی خدمت کا حق ادا کرسکیں۔ لیکن مرحوم کا جواب بڑا ہی ایمان افروز ہوا کرتا تھا۔ مرحوم کا جواب یہ تھا کہ بیشک اگر میں تمہارے پاس آ جائوں تو تم میری خدمت کر سکوگے۔ لیکن جو عہد مَیں نے قادیان کی خدمت کے لئے دمِ واپسیں تک اپنے خدا سے کر رکھا ہے وہ مَیں بہرحال پُورا کروں گا اور ہم تمام درویش اس امر کے گواہ ہیں کہ مرحوم نے بڑی ہی وفاداری، بڑی ہی دینداری اور بڑے ہی اچھے رنگ میں اس عہد کو نبھایا۔ اور اپنے بیوی بچّوں سے 29سال جُدا رہ کر شعائر اللہ کی خدمت کی سعادت پائی۔‘‘
خود اپنی آمد پیدا کرنے کی کو شش کریں
خلافت سے اخلاص و وفا کا ایک اور نمونہ دیکھیے۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے درویشان کو فرمایا تھا کہ خود اپنی آمدن پیدا کرنے کی کوشش کریں اس سلسلہ میں حضورؓ نے دکان داری، طب، زمینداری اور چھوٹی چھوٹی صنعتوں کے جاری کرنے کا حکم دیا۔
چنانچہ اس حکم پر ان درویشان نے جو صحت مند تھے جی جان سے عمل کیا اور اکثر نے مرتے دم تک اس عہد کو نبھایا اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے بخوبی ہو سکتا ہے چنانچہ محترم چودھری فیض احمد صاحب درویش مرحوم اپنے ایک درویش بھائی محترم مستری عبدالغفور صاحب کی وفات پر اخبار بدر 13؍مارچ1975ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں:
’’زمانۂ درویشی میں سے اکثر حصّہ مرحوم نے صَدر انجمن احمدیہ پر بوجھ بنے بغیر گزارا۔ وہ اپنے آبائی پیشہ یعنی لوہار کا کام کرکے گزارہ چلاتے رہے۔ اُن کا بایاں ہاتھ زمانۂ درویشی میں ہی ایک مشین پر کام کرتے ہوئے کٹ گیا تھا۔ اُنگلیاں تو جُڑ گئیں تھیں۔ لیکن اُن میں ٹیڑھا پن آ گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ بدستور مستری کا کام کرتے رہے۔ اور بڑی ہمت کے ساتھ اپنا گزارہ چلایا۔‘‘
سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکی اس آوازپر لبیک کہنے والے ان درویشوں پر خدا تعالیٰ نے غیر معمولی افضال و برکات کے دروازے کھولے ۔مثلاً ان درویشوںمیں مکرم عزیز احمد منصوری صاحب درویش مرحوم بھی تھے۔آپ نے اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے دہلی میں اپنا گملوں کا کاروبار شروع کیا۔ اللہ کے فضل سے کاروبار چل نکلا آج بھی آپ کے نواسے نئی دہلی میں اس کاروبار کو کرتے ہیں۔
وقار عمل اور جذبہ اطاعت
سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا (البقرۃ: 286)
یعنی ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔درویشان کرام اس فرمان الٰہی کی عملی تصویر تھے۔حکم سنتے ہی اس پر عمل شروع کر دیتے تھے۔
ابتدائی زمانہ درویشی میں محترم بابا شیر ولی صاحب درویشوں کے ایک حصہ کے نگران تھے۔ وہ درویش نوجوانوں کو چاق و چوبند رکھنے کےلیے بعض اوقات یہ حکم دیتے کہ تم میں سے ہر ایک دس فٹ لمبا پانچ فٹ چوڑا پانچ فٹ گہراگڑھا کھودے۔ جب ایک گھنٹے کا مقررہ وقت ختم ہو جاتا معائنہ کےلیے آتے۔ فرماتے جزا کم اللہ۔اب تم میں سے ہر ایک کھودے ہوئے گڑھے کو تیس منٹ میں مٹی سے بھر دے۔فوراً حکم کی تعمیل کی جاتی کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ پوچھتا جب گڑھے دوبارہ مٹی سے بھروانے تھے تو کھدوائے کیوں تھے۔ درویشان کرام کے پیش نظر حکم کی اطاعت تھی سوال و جواب کو وہ پسند نہ کرتے تھے ۔
بہشتی مقبرہ کی پختہ چار دیواری جو اب موجود ہے۔ تقسیم ملک کے وقت موجود نہ تھی ۔کھلا قبرستان ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خطرہ رہتا تھا کہ کوئی دشمن ان قبور کی بے حرمتی نہ کر جائے۔ چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ بہشتی مقبرہ کے چاروں طرف دیوار بنا دی جائے پختہ اینٹوں کی دیوار بنانا تو اس وجہ سے ممکن نہ تھا کہ نہ تو اتنی مقدار میں اینٹیں میسر تھیں اور نہ ہی اینٹیں خریدنے کےلیے رقم دستیاب تھی ۔چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ اس کے چاروں طرف کچی مٹی گارے کی دیوار بنا دی جائے ۔درویشان کرام صبح صبح وقار عمل شروع کرتے ۔گارا بناتے پھر اس گارے سے تھوبے بنا کر دیوار بناتے تھے اس دوران کھانے کےلیے لنگر کی ایک ایک روٹی ملتی جسے کھا کر پانی پی لیتے اور پھر وقار عمل میں مصروف ہو جاتے ۔دیوار کےلیے گارا بنانے والوں میں وہ درویش بھی تھے جو زمیندار اور دولت مند گھرانوں کے تھے جنہوں نے کبھی مٹی کو ہاتھ نہ لگایا تھا۔ جو ایسے متمول گھرانوں کے تھے جہاں نوکروں اور خدمت گاروں کی کمی نہ تھی مگر اس وقار عمل میں وہ یہ بھول جاتے کہ ہم کون ہیں سب کے ساتھ یکساں محنت کرتے تھے ۔یہی وہ جذبہ وقار عمل تھا جو سیدنا المصلح الموعود ؓنے ہر احمدی نوجوان میں اجاگر کر دیا تھا یہ دیوار تقریباًسات فٹ اونچی اور چار پانچ فٹ چوڑی تھی ۔
اس خام چاردیواری کی جگہ مارچ 1951ءمیں پختہ چاردیواری کی تعمیر کا کام شروع ہوا ۔اور ا س تعمیر کے لیے ایک بزرگ درویش بابا خدا بخش صاحب نے (1387/ایک ہزار تین سوستاسی)روپے عطیہ دیا تھا ۔موصوف تقسیم ملک سے قبل اسٹیشن پر قلی تھے۔روز مرّہ کے اخراجات میں سے بچت کرکے یہ رقم حج کرنے کے لیے جمع کی تھی۔ مگر جب صحت خراب ہو گئی تو یہ رقم تعمیر چاردیواری کے لیے دے دی۔ گویا اس چار دیواری کی اینٹوں میں اُس درویش کی خون پسینے کی کمائی کا رنگ بھی ہے ۔جزاہ اللہ احسن الجزاء۔
درویشان کرام میں سے ایک نذرمحمد خان صاحب افغان ہوا کرتے تھے ۔(تاریخ وفات 28؍مئی 1959ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان)۔ان کے بارے میں چودھری فیض احمد صاحب درویش مرحوم تحریر فرماتے ہیں کہ
’’قارئین کے لئے یہ بات شاید عجیب ہو کہ ایک نذر محمد خاںمرحوم اکیلا دس پندرہ آدمیوں کے برابر کام کرتا تھا۔ایک بار بہشتی مقبرہ میں جب نئی پختہ دیوار تعمیر ہو چکی اور پرانی دیوار کی مٹی کے بڑے بڑے ڈھیر دیوار کی اندرونی طرف بے ترتیب صورت میں پڑے رہ گئے تو اس مٹی کو ہموار کرنا اتنا بڑا کام تھا کہ ہم کئی بار سوچا کرتے تھے کہ وقار عمل کے ذریعہ سارے درویشوں کو چند روز لگا کر یہ کام سرانجام دیا جائے۔ایک روز کسی کو خیال آیا کہ نذر محمد خاں کو کسی طرح اس کام پر آمادہ کیاجائے تو وہ اکیلے اس کام کے لئے کافی ہوںگے۔لیکن سوال یہ تھا کہ اس خالص افغان سے کہے کون؟ آخر حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سے عرض کیا گیا کہ خاں صاحب آپ کے بغیر کسی کی بات نہ مانیں گے۔چنانچہ آپ کے فرمانے پر خاں صاحب مان گئے۔اور سینکڑوں آدمیوں کا تین روزکا کام اس اکیلے شخص نے چند روز میں ختم کرکے ہمیں دانتوں تلے اُنگلیاں دبانے پر مجبور کردیا۔اس سے ایک لطیف بات نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے ہر فرد کو خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہر فرد کے ساتھ محبت اور عقیدت ہےاور دلوں کی گہرائیوں میں فرمانبرداری کے جذبات ہیں ۔نذر محمد خاں صاحب مرحوم ایک مجذوب آدمی تھے اور صرف اپنی لے اور دُھن کے تھے۔ لیکن حضرت میاں صاحب کے فرمانے پر فوراً تعمیل کی حالانکہ جیسا کہ اکثر مواقع پر ہوا۔ اگر کوئی دوسرا کہتا تو اُسے یقیناً یہ جواب ملتا کہ،خو !ہم تمہارے باپ کا نوکر ہے؟‘‘
(وہ پھول جو مرجھا گئے صفحہ120)
درویشان کرام اپنے افسران بالاکی کس طرح اطاعت کیا کرتے تھے اس ضمن میں ایک اقتباس محترم چودھری فیض احمد صاحب درویش مرحوم کے ایک مضمون سے تحریر ہے۔مکرم فضل الٰہی صاحب گجراتی درویش مرحوم کے متعلق لکھتے ہیں کہ
’’ راقم الحروف نے جنرل سیکرٹری(آج کل اس عہدہ کا نام صدر عمومی ہے۔)کی حیثیت سے بیسیوں بار اس کا تجربہ کیا اور جہاں کہیں محنت اور وقار عمل کا کام ہوتا مجھے اپنے بھائی فضل الٰہی صاحب کی ضرورت ہوتی تو وہ بلوانے پر فوراًبھاگ کر پہنچتا۔اس کی فرمانبرداری کا اور اطاعت گزاری کا یہ عالم تھا کہ جائو کہنے پر وہ جا چکا ہوتا اور آئو کہنے پر گویا وہ پہلے ہی آچکا ہوتا ۔ اُس نے ساری درویشی میں کبھی کسی مفوّضہ کام کے بارے میں تامّل یا تخلف نہ کیا۔‘‘
(وہ پھول جو مُرجھا گئے صفحہ135)
یہی جذبہ اطاعت و فرمانبرداری ہر درویش میں تھا ۔ لبیک کہنے کے علاوہ انہوں نے کچھ اور سیکھا ہی نہ تھا۔ اور یہی جذبہ ان کو ہر دو جہاں میں سرخرو کر گیا ۔ اپنی عملی زندگی اور نمونے سے آنے والی اولاد کو بھی یہ پیغام دے گئے کہسمعنا و اطعنا پر عمل ہی کامیاب اور مقبول زندگی کا راز ہے اسے کبھی فراموش نہ ہونے دینا۔
اطاعت و فرمابرداری کے ضمن میں ایک اور بہادر جان نثار درویش محترم مرزا محمود احمد صاحب درویش مرحوم کا ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اکتوبر 1955ء میںقادیان اور اس کے گرد ونواح میں مسلسل تیز بارشوں کی وجہ سے سیلاب آگیا ۔ قادیان کے گرد ڈھاب میںبھی سیلاب کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ قادیان کے نشیب میں واقع مکانات پانی سے بھرگئے عجیب خوفناک صورت پیدا ہوگئی ۔ریلوں اور بسوںکی آمد ورفت بند ہوگئی ۔ ڈاک وتار کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ۔ ایسے حالات میں حضرت مصلح موعودؓ کو حالات کی اطلاع دینا بہت ضروری تھا ۔اطلاع بھجوانے کی کوئی صورت نظرنہیںآرہی تھی۔ آخر مرزا محمود احمد صاحب درویش کو حکم دیا گیا کہ جو بھی ذریعہ اختیار کرو۔ربوہ جا کر اطلاع کرو۔
محترم مرزا محمود احمد صاحب بتایا کرتے تھے کہ میں نے قادیان سے لاہورتک کا سفرپیدل اور تیرتے ہوئے کیا۔آگے لاہور کی جماعت نے ربوہ بھجوانے کا انتظام کردیا۔یہ جاںنثاردرویش بتایا کرتے تھے بعض جگہ پانی کا بہائو اتنا تیز ہوتا تھا کہ میری ہمت جواب دینے لگتی تھی۔مگر اُس وقت میںبڑی الحاح ودرد سے
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ
کی دعاکرتا تو الٰہی طاقت میری غیرمعمولی مدد کرتی۔
جب ربوہ پہنچے تو حضرت مصلح موعود ؓنے اُن کی فدائیت اور جذبہ اطاعت وفرماںبرداری اور جرأت وجواںمردی کی تعریف کی اور انہیں مسجد مبارک ربوہ میںحالات و کوائف بتانے کے لیے کہا گیا ۔اُس وقت کے سیلاب کو دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی ہمت جواب دے جاتی تھی مگر یہ تھا وہ درویش کہ پانی کے کسی بہائو میںیہ طاقت نہ تھی کہ اس جذبہ اطاعت کو بہالے جاتا۔
پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی طرف سے اظہار خوشنودی
یہ تو چندواقعات ہیں۔ ورنہ ہر درویش کی زندگی اطاعت کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ چنانچہ ہمارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز درویشان کی اطاعت کے حوالے سے16؍دسمبر2005ء کو قادیان میں ارشاد فرمودہ خطبہ جمعہ میں ایک مقام پر فرماتےہیں:
’’آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ میں سے ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے یا اُن لوگوں کی نسل میں سے ہے جنہوں نے مسیح پاک کی اس بستی کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دینے کا عہد کیا تھا۔ جنہوں نے اپنے اس عہد کو نبھایا اور خوب نبھایا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍دسمبر2005ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2006ءصفحہ5)
ایک اور خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ایک لمبا عرصہ ایسا بھی گزرا جس میں پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کے تعلقات کی وجہ سے براہ راست مرکز سے یا اس جگہ سے جہاں خلیفۂ وقت کی موجودگی تھی، تعلق نہ رہا۔ ایسے دَور بھی آتے رہے جب آج کی طرح ذرائع مواصلات نہیں تھے اور جو تھے وہ منقطع ہو جاتے رہے لیکن درویشان نے جماعت اور خلافت سے محبت اور وفا کے غیر معمولی نمونے دکھائے ۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍مئی2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍مئی2007ءصفحہ5)
قادیان میں اب 2درویش حیات ہیں۔جو درویشان گزر گئے ہیں جنہوں نے باوجود علمی اور مالی کمزوریوں کے پورے ہندوستان کے نظام کو چلایا تھا۔آج اُن کی اولادوں کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا کر رہا ہے ۔ اکثر درویشان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے دینی و دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہے ۔کسی کو بیرون ملک جاکر خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور کسی کو قادیان میں رہتے ہوئے اپنی زندگیوں کو وقف کرتے ہوئے خوش اسلوبی کے ساتھ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ سیّد نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درویشی کی ابتدا کے وقت اپنے ایک خط میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
’’آپ لوگ وہ ہیں جو ہزاروں سال تک احمدی تاریخ میں خوشی اور فخر کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے اور آپ کی اولادیں عزّت کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی اور خد ا کی برکات کی وارث ہونگی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا فضل بلا وجہ کسی کو نہیں چُنتا ۔‘‘
( الفرقان ربوہ درویش قادیان نمبر صفحہ 5)
آج یہ دُعائیں درویشان کرام اور اُن کی اولاد کے حق میں پُوری ہو چکی ہیںاور ہو رہی ہیں۔ تاریخ احمدیت میں ان کی بے مثال قُربانیاں محفوظ ہو چکی ہیں۔خلیفہ وقت کی شفقت کی نگاہیں اُن کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ حین حیات دو درویشان مکرم مولوی ایوب بٹ صاحب درویش ، اور مکرم طیب علی صاحب درویش کو صحت و سلامتی والی عمر عطا فرمائےور ان کا انجام بخیر کرے۔اور ہمیں درویشان قادیان کے خلافت سے وابستگی کے ان پاک نمونوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانےکی توفیق عطا فرمائے۔