سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مسجدکی تعمیرکم وبیش مکمل ہوئی ہی تھی کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی وفات ہوگئی اور حسب خواہش اور وصیت اسی مسجدکے صحن میں جہاں انہوں نے خودسے جگہ نشان زدکی ہوئی تھی ان کی تدفین ہوئی ۔

خریدزمین برائے تعمیرمسجد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسجد کی تعمیر کے تعلق سے ایک جگہ تحریر فرمایا ہے :

’’ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے تو میں اُس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے۔ یہ دیکھ کر میں چشم پُرآب ہوگیا اور پھر آنکھ کھل گئی۔‘‘ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیاداری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے۔ اور فرمایاکرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں ہی گذرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر ناکامی تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پردادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرع راقم کو بھول گیا ہے اور دوسرا یہ ہے عے ’’کہ جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے۔‘‘ اور یہ غم اور درد ان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے۔ اور وصیّت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عزّوجلّ کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے۔

اللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ وَ أَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ۔

آمین ۔ قریباً اسی 80یا پچاسی 85 برس کے عمر پائی۔‘‘

(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 189۔191حاشیہ)

مسجدکانقشہ

یہ مسجد چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی تھی اور شروع شروع میں اس کے صرف تین در تھے اور اس کی چھت کے چاروں کونوں پر چار مینار بنائے گئے اور درمیان میں ایک بڑا گنبد جبکہ اس کے بڑے گنبدوں کے دونوں جانب دو چھوٹے گنبد بنے ہوئے تھے یہ قدیم تعمیر شدہ حصہ اسی طرح اللہ کے فضل سے ابھی تک موجود ہے ۔

اصل مسجدکارقبہ زیر گنبد سواچارسو مربع فٹ مسقف اور ساڑھے تیرہ سومربع فٹ بصورت صحن تھا۔ (قادیان دارالامان ازعبدالرشید آرکیٹیکٹ صفحہ52)

مسجدکوجانے کے لیے دوراستے تھے ایک اس کی شمال کی طرف سے اوریہ دروازہ اس گلی میں کھلتاتھا جوکہ بازارکوجاتی ہے۔ اور دوسرا راستہ اس کے شرقی جانب سیڑھیوں کی صورت میں ۔

مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہلے صرف مسجدکی شمالی جانب سے دروازہ تھا لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں ہی جب مسجد کی توسیع ہوئی تھی تو اس وقت ایک دوسرا دروازہ مشرقی جانب بھی بنا دیا گیا جو کہ خلافت ثانیہ کے دور میں ایک بڑا گیٹ بنا۔

(بحوالہ:مرکزاحمدیت قادیان۔صفحہ55۔56)

اس مسجدکے صحن میں کنواں تھا۔ اور جیساکہ اوپربیان ہواہے کہ مسجدکی تعمیرکم وبیش مکمل ہوئی ہی تھی کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی وفات ہوگئی اور حسب خواہش اور وصیت اسی مسجدکے صحن میں جہاں انہوں نے خودسے جگہ نشان زدکی ہوئی تھی ان کی تدفین ہوئی ۔

اسی صحن میں شہتوت کے دودرخت بھی ہواکرتے تھے جوکہ خلافت اولیٰ کے زمانے تک موجودرہنے کاذکرملتاہے ۔

(قادیان دار الامان از عبد الرشید آرکیٹیکٹ ، نقشہ مسجد اقصیٰ)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جن بعض مساجدکودھرم سالہ بنائے جانے کاذکرفرمایاہے جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ اس میں سے ایک ابھی تک موجودہے ۔ اس کاذکرایک کتاب میں اس طرح سے ملتاہے کہ

’’یہ مسجدہندوبازار کوجاتے وقت احمدیہ بازارسے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اورمنارۃ المسیح سے مشرق کی طرف ہے۔ یہ مسجدچھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی تھی اور اسکے سامنے ایک چھوٹا ساصحن تھا……اس وقت اس میں داخل ہونے کے لئے ایک دروازہ مشرق کی جانب تھاجب کہ اسی طرح دوکھڑکیاں بھی موجودتھیں۔بعدازاں اس میں جنوبی جانب توسیع کی گئی اور مسجدکے برابرہی ایک کمرہ اورتعمیرکیاگیااس کے بعد …… اس کی توسیع بھی ہوئی اوراس کودومنزلہ کیاگیااوراس کے نیچے والے دونوں کمروں میں سے ایک پرانی مسجداور دوسرابعدمیں تعمیرشدہ کمرہ ان دونوں کمروں کے سامنے برآمدہ تھااس میں اور دوکمرے ایک شمال جنوب اور دوسرا مشرق مغرب جانب تعمیرہوئے اوراوپرجانے کے لئے شمالی جانب پختہ سیڑھیاں تعمیرکی گئیں تھیں ایک عرصہ دراز تک یہ اسی حالت میں موجودرہی۔1970ء میں اس گوردوارہ کے مشرق کی جانب ایک اور کمرے کی بنیادرکھی گئی اور…تقریباً تین سال کی مسلسل کوشش کے بعد یہ کمرہ تعمیرہوا۔مسجدکا گوردوارہ بن جانے سے لے کر1979ء تک اس مسجدکی محراب ٹوٹی حالت میں باہرکوابھری ہوئی جوں کی توں رہی۔لیکن 1979ء میں امرجیت سنگھ بیدی صاحب نے مسجدکے سامنے مغربی جانب پڑی ہوئی خالی جگہ کواستعمال میں لاناچاہااسی دوران اس مسجدکی چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی محراب کوتوڑکرختم کردیاگیا۔اور دیوارسیدھی کرکے وہاں کی خالی جگہ پرایک چھوٹا سامکان تعمیر کر دیا۔ 1979ءمیں ہی اس مسجدمیں گوردوارہ کااصل نشان ایک جھنڈے کی طرز کاجسے سکھ مذہب کی اصطلاح میں’’ نشان صاحب‘‘ کہاجاتاہے گاڑدیاگیا……1981ء میں اس مسجدکااصلی دروازہ……بہت خستہ ہوگیاتھاجوکہ مسجدکے صحن میں داخل ہونے کا اصل دروازہ تھااس کوتبدیل کردیاگیااوراسکی جگہ لوہے کاگیٹ نصب کردیا۔1991ء میں سکھوں نے اس گوردوارہ کی تعمیرنوکی۔اوراصل مسجداوربعدمیں توسیع شدہ حصہ کو بنیادوں تک اکھاڑکرنئی بنیادیں بھرکرپھرسے گوردوارہ کی تعمیرکی ۔‘‘

(مرکزاحمدیت قادیان ،ص26-27)

مسجداقصیٰ کی تعمیر وتوسیع

اس تاریخی مسجدکی تعمیرکوکم وبیش ڈیڑھ سوسال ہونے کوآئے اور اس دوران یہ مسجدتعمیروتوسیع کے کئی مراحل سے گزری ہے۔اورحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرکے مطابق کہ اورغالباً آئندہ اوربھی یہ مسجد وسیع ہوجائے گی نہ جانے کتنی وسعت اختیارکرجائے ایسے مقامات کی مقدس وبابرکت تاریخ کے متعلق دیکھا جائے تو چشم تصورمیں قادیان ہے اور یہ دومساجد………

بہرکیف ابھی تک کی ہونے والی تعمیروتوسیع کا مختصر ذکر پیش کیاجاتاہے۔

پہلی توسیع:بعہدمبارک حضرت اقدس علیہ السلام …

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے والد صاحب نے جو مسجد بنوائی تھی اس میں صرف دو صد افرادکے نماز پڑھنے کی گنجائش موجود تھی لیکن جب قادیان کی عظمت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت وجود سے بڑھنے لگی اور لوگ اس جگہ کثرت سے آنے لگے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں ہی 1900ء میں مسجد کا صحن مشرقی جانب سے اس قدر بڑھادیا گیا کہ آپ کے والد محترم کی قبر جو مسجد کے باہر تھی وہ مسجد کے صحن میں آگئی اور قبر چونکہ نیچے تھی مسجد کا صحن اونچا تھا اس لیے قبر کے اوپر چار فٹ اونچا اینٹوں کا تعویز بنا دیا گیا تاکہ لوگ قبر کے اوپر نہ چلیں اور پھر قبر کی نشاندہی بھی رہے جس جگہ اس وقت مینارۃ المسیح ہے وہ جگہ بھی اس توسیع کے وقت مسجد کے صحن میں شامل ہوگئی تھی اس توسیع کے وقت مسجد کے صحن میں سفید پھو ل والی اینٹ استعمال کی گئی تھی جو کہ پہلے توسیع شدہ حصہ کی نشان دہی کرتی ہے وضو کرنے کے لیے پانی کا انتظام شمالی جانب مسجد کے باہر ہی تھا جہاں ایک کنواں بنا ہوا تھا ۔مسجد کی توسیع کے ساتھ یہ حصہ بھی مسجد میں شامل ہوگیا ہے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button