خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍اگست 2021ء
’’میں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا ہی یہی اقتضاء ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو جو بات ہو خدا کے واسطے ہو‘‘ (حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام)
جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء کے موقعہ پر میزبانوں اور مہمانوں کو اپنے فرائض ادا کرنے نیز بعض انتظامی امور کی بابت زرّیں نصائح
اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی وہ اعلیٰ اخلاق قائم فرمانے تھے جس سے اسلام کی خوبصورت تصویر ہمارے سامنے آئے اور وہ ہم دنیا کو پیش کر سکیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ مہمان کا احترام کرتا ہے
مہمان بھی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اسلام نے جہاں میزبان کو مہمان کی عزت و احترام کرنے کی ہدایت کی ہے وہاں مہمانوں کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بحیثیت مہمان تمہاری بھی کچھ ذمہ داری ہے
جن کو دعوت نامہ اور اجازت نامے ملے ہیں وہ سوائے اشد مجبوری کے ضرور جلسہ میں شامل ہوں ورنہ ان کے نہ شامل ہونے سے ان لوگوں کی حق تلفی ہو گی جن کو اجازت نامے نہیں دیے گئے۔ موسم کی خرابی کو عذر نہ بنائیں
لمبے عرصہ کے بعد ملنا آپ کو جلسہ کے پروگرام سننے سے محروم نہ کر دے یا دعاؤں کی طرف توجہ رکھنے سے محروم نہ کر دے۔ جلسہ پر آئے ہیں تو اس سے بھر پور استفادہ کریں
ان دنوں میں ذکر الٰہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید کھینچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس لیے ان دنوں میں خاص طور پر ذکر الٰہی پر زور دیں اور دنیا میں پھیلے ہوئے احمدی جہاں اکٹھے ہو کر جلسہ سن رہے ہیں یا گھر والوں کے ساتھ مل کر جلسہ سن رہے ہیں تو وہ بھی ذکر الٰہی پر توجہ دیں تا کہ زیادہ سے زیادہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے والے ہوں۔ اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنے والے ہوں اور دنیا کی آفات سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے بچنے والے ہوں
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍اگست 2021ء بمطابق 06؍ظہور 1400 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن (ہمپشائر) یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج ان شاء اللہ جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ان دنوں میں جلسہ کے ہر لحاظ سے بابرکت انعقاد کے لیے بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں خالص دینی ماحول بھی رکھے اور شاملین کے دلوں کو نیکی اور تقویٰ میں زیادہ کرے۔ گو آج کل جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے یہاں شامل ہونے والوں کی تعداد بہت محدود ہے لیکن گھروں میں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض جگہ جماعتی انتظام بھی ہے اس کے تحت مساجد میں یا جہاں ہال میسر ہیں وہاں ہالوں میں جلسہ سنا جائے گا۔ بہرحال جو بھی اس طرح جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں وہ بھی اس سوچ کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوں کہ گویا وہ جلسہ گاہ میں ہی ہیں اور تینوں دن پروگراموں کو سنیں اور دعاؤں میں گزاریں۔
اس سال اس طرح جلسہ کا انعقاد انتظامیہ کے لیے بھی ایک نیا تجربہ ہے اور شامل ہونے والوں کے لیے بھی۔ انتظامیہ کو جو بعض سہولتیں مہمانوں کے آرام کے لیے مہیا ہوتی تھیں وہ اس سال مہیا نہیں ہو سکیں۔ اس خیال میں رہے کہ مل جائیں گی لیکن نہیں مل سکیں اس لیے مہمان یا شاملین جلسہ بھی ان حالات کو سمجھتے ہوئے جہاں بھی انتظامیہ سے انتظامات میں کمیاں رہ گئی ہیں ان سے صرفِ نظر کریں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جلد حالات بہتر کرے اور پھر جلسہ اپنی پہلی شان کے ساتھ منعقد ہو سکے۔ بعض لوگوں کو شکوہ ہے کہ ہمیں جلسہ میں بعض شرائط کی وجہ سے شامل نہیں ہونے دیا گیا یا بعض جگہ شاملین کا جو انتخاب ہوا ہے وہ صحیح نہیں۔ بہرحال انتظامیہ اس معاملے میں اپنا عذر پیش کرتی ہے۔ یعنی بعض مقامی جماعتوں کی انتظامیہ یہ عذر پیش کرتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ عذر صحیح ہے یا غلط؛ افراد جماعت سے یہی کہوں گا کہ یہاں بھی صَرفِ نظر سے کا م لیں اور سمجھیں کہ پہلے تجربے کی وجہ سے بعض غلطیاں ہو گئی ہوں گی اس لیے معاف کر دیں اور کسی قسم کی رنجش دل میں نہ لائیں۔
اس بات کے بعد میں جلسہ اور مہمان نوازی کے حوالے سے بعض باتیں کروں گا۔ عموماً جلسہ والے دن کے خطبہ میں مَیں مہمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں یا بعض انتظامی باتیں کرتا ہوں اور جلسہ سے ایک جمعہ پہلے کا جو خطبہ ہے اس میں میزبانوں اور مہمان نوازی کرنے والوں، ڈیوٹی دینے والوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ کہتا ہوں۔ لیکن کیونکہ اس دفعہ پہلے ڈیوٹی دینے والوں کی ذمہ داریوں کے متعلق کچھ نہیں کہا اس لیے آج دونوں کے لیے کچھ باتیں کہوں گا۔
پہلی بات تو میزبانوں کو یہ کہنی چاہتا ہوں، ڈیوٹی دینے والوں کو یہ کہنی چاہتا ہوں کہ حالات کی وجہ سے مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس دفعہ چھ سات ہزار مہمان جو بیرونی ممالک سے آتے تھے وہ تو نہیں آ رہے۔ ملک کے اندر سے ہی مختلف شہروں سے آنے والے مہمان ہوں گے اور ہیں بھی بہت کم تعداد میں۔ اس لیے اس بات کو آسان سمجھ کر relax نہ ہو جائیں۔ اگر کہیں کوئی کمی رہ جائے تو جو قریب کے مہمان ہوتے ہیں، تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں ان کو زیادہ شکوہ پیدا ہو جاتا ہے اس لیے بڑی احتیاط سے اور توجہ سے ہر ایک کی مہمان نوازی کریں۔ کسی قسم کی کمی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں تک برطانیہ کے جلسہ کے کارکنان کا تعلق ہے جیسا کہ کل میں نے کارکنوں کی inspectionکے دوران بھی کہا تھا کہ ہر طبقے کے کارکن، ناصرات میں سے بھی، لجنہ میں سے بھی، اطفال میں سے بھی، خدام میں سے بھی، انصار میں سے بھی اپنی ڈیوٹیوں اور اپنے کام میں بہت ماہر ہو چکے ہیں اور بڑا کام سنبھال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نئے شامل ہونے والے بچوں اور بچیوں کو بھی وہ اچھی طرح کام سکھا سکتے ہیں اس لیے اس لحاظ سے تو کوئی فکر نہیں کہ کام آتا نہیں۔ جلسہ کے ہر شعبہ میں بڑی گہرائی سے دیکھ کر کام کرنے والے کارکن موجود ہیں اور کر سکتے ہیں لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے کہ مومن کو یاددہانی کرواتے رہنا چاہیے یہ اس کے لیے فائدہ مند ہے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسہ کا انتظام مختصر ہے۔ بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ اعتماد کہ یہ جلسہ تو تھوڑی سی تعداد میں ہو رہا ہے اسے تو ہم سنبھال ہی لیں گے، بعض امور میں لاپروائی کی وجہ سے پھر کمی رہ جاتی ہے، خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور جو نئے ڈیوٹیوں میں شامل ہونے والے ہیں وہ اس سے غلط پیغام بھی لے سکتے ہیں۔ پس مہمانوں کے آرام کے لیے بھی اور نئے آنے والوں کو سکھانے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ چاہے انتظام اتنا وسیع نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر شعبہ کا ہر کام بہت اہم ہے اور خاص طور پر آج کل موسم بھی کافی خراب ہے اس لیے بھی بعض شعبہ جات کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہر ڈیوٹی دینے والے کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مہمان کم ہیں یا زیادہ، جلسہ پر آنے والے مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں اور ان کی ہمیں حتی الوسع پوری خدمت کرنی چاہیے۔ مہمان نوازی ایک ایسا خلق ہے جو انبیاء اور ان کی جماعتوں کا ایک خاص وصف ہے۔ پس دینی جماعت ہونے کے لحاظ سے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہمارے اندر مہمان نوازی کی صفت ایک خاص رنگ رکھتی ہو اور یہ جو وصف ہے یہ اَور نمایاں ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی جب زیادہ مہمان آنے شروع ہو گئے تو آپؐ صحابہ میں مہمان بانٹ دیا کرتے تھے اور صحابہ بڑی خوشی سے مہمانوں کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور جب صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہمانوں سے ان کی رات گزرنے اور صحابہ کی مہمان نوازی کے بارے میں پوچھتے تھے، حال احوال پوچھتے تھے، خدمت کا حال پوچھتے تھے تو ہر ایک کا یہی جواب ہوتا تھا کہ ہم نے ایسی خدمت کرنے والے میزبان نہیں دیکھے جنہوں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 357 حدیث 15644 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس یہ اسوہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی وجہ سے صحابہ نے ہمارے سامنے اور ہمارے لیے قائم فرمایا اور اس زمانے میں جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے تو آپ علیہ السلام نے بھی ہمیں اس نمونے پر چلنے کی تلقین فرمائی جس کے نمونے صحابہؓ نے قائم فرمائے تھے۔
ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے افراد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سَبّ و شَتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے یعنی مہمان اگر سخت الفاظ استعمال کرے اور سختی سے پیش آئے، رویہ ٹھیک نہ ہو تو تب بھی اسے گوارا کرو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ 91)
گو یہاں آپؑ نے غیر مہمانوں کے بارے میں یہ نصیحت فرمائی تھی لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مہمان کوئی بھی ہو، احمدی مہمان بھی ہو تب بھی ایک میزبان کا کام ہے کہ عمدہ اخلاق سے کام لیا جائے اور سختی کا جواب سختی سے نہ دیں ۔ اپنے ہوں یا غیر،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی کے ہمیں غیر معمولی نمونے ملتے ہیں۔ اپنوں سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غیر معمولی مہمان نوازی کا اظہار فرمایا ہے اور کیوں نہ ہو۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی وہ اعلیٰ اخلاق قائم فرمانے تھے جس سے اسلام کی خوبصورت تصویر ہمارے سامنے آئے اور وہ ہم دنیا کو پیش کر سکیں۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ لاہور سے قادیان آیا۔ مجھے حضرت صاحبؑ نے مسجد مبارک میں بٹھایا جو اس وقت تک ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ ابھی بھی چھوٹی مسجد ہے لیکن اس وقت بہت ہی چھوٹی تھی، ایک کمرے کے برابر۔ پھر فرمایا آپ بیٹھیے۔ میں آپ کے لیے کھانا لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپؑ اندر تشریف لے گئے۔ مفتی صاحبؓ کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے لیکن چند منٹ کے بعد جب کھڑکی کھلی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے میرے لیے کھانا لائے ہیں۔ ایک ٹرے میں کھانا رکھ کر میرے لیے کھانا لے کے آئے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا آپ کھانا کھائیے مَیں پانی لاتا ہوں۔ مفتی صاحبؓ کہتے ہیں کہ بے اختیار رقت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرتؑ ہمارے مقتدا اور پیشوا ہو کر ہمارے لیے یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہیے۔
(ماخوذ از ذکر حبیب۔ صفحہ327۔ مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ مطبوعہ قادیان)
ایک مرتبہ بستروں کی کمی ہو گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا بستر بھی مہمانوں کو دے دیا بلکہ گھر کے سارے بستر دے دیے اور خود ساری رات بغیر بستر کے تکلیف میں گزاری لیکن کسی کو احساس نہیں ہونے دیا کہ مجھے تکلیف ہے۔
(ماخوذ از اصحابِ احمد جلد چہارم صفحہ 180 روایت نمبر 76مطبوعہ ربوہ)
یہ ہے مہمان نوازی کے لیے اصل قربانی۔ بعض دفعہ بعض لوگ قربانی کر دیتے ہیں لیکن یہ جتا بھی دیتے ہیں کہ مجھے اس قربانی کی وجہ سے کتنی تکلیف ہوئی۔
ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لیے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمان کو آرام دیا جائے۔ فرمایا: مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا تو پتہ لگ جاتا تھا کیسی مہمان نوازی ہو رہی ہے۔ کھانا وافر ہے، کتنا ہے، ہر ایک کو ملا بھی ہے کہ نہیں لیکن فرمایا کہ جب سے بیماری کی وجہ سے مجھے پرہیزی کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا اور ساتھ ہی ایک اَور وجہ بھی بن گئی کہ مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کافی نہیں ہوتی تھی۔ مشکل ہوتا تھا کہ ایک جگہ بیٹھ کے سارے کھانا کھا لیں۔ مختلف جگہوں پر کھانا serveکیا جاتا ہو گا یا باری باری دیا جاتا ہو گا۔ اس لیے بمجبوری علیحدگی ہوئی۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 406)
پھر آپؑ نے لنگر خانے کے انچارج کو ایک مرتبہ فرمایا جبکہ بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے۔ دیکھو! بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو بعض کو نہیں۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاحترام جان کر خدمت کرو۔ پس میزبان کے لیے سب مہمان مہمان ہیں۔ کسی سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کرنا۔ یہ نہیں کہ فلاں عہدے دار ہے یا فلاں میرا واقف ہے تو اس کی زیادہ خدمت کروں، اس سے زیادہ بہتر سلوک کروں۔ سب کو مہمان سمجھ کر برابر خدمت کرو۔ ہر مہمان سے عزت و احترام کا سلوک رکھنا چاہیے۔ یہی مہمان نوازی کی جڑ ہے۔ آپؑ نے انہیں فرمایا کہ تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 226)
پس یہ وہ حسن ظن ہے جو آج بھی سب خدمت کرنے والوں پر ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت خدمت کرنے والے اس حسن ظن پر پورے اترنے والے ہیں اور جن میں کوئی کمی ہے وہ خود اپنے جائزے لیں اور دیکھیں کہ کس طرح وہ اپنی کمیاں دور کر سکتے ہیں اور کمی دور کر کے مہمان نوازی کے معیار کو بڑھا سکتے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ بعض شعبہ جات کے کارکنان کو بعض مہمانوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمارا کام ہے کہ خوش خلقی کو کبھی نہ چھوڑیں۔ اس کا مظاہرہ کریں۔ مہمان جو چاہے کہہ دے ہر کارکن نے اپنے پہ یہ فرض کر لینا ہے کہ اب اپنے اعلیٰ اخلاق ہی دکھانے ہیں۔ اس مرتبہ شاید محدود تعداد ہونے کی وجہ سے بعض دقتوں کا کارکنان کو سامنا نہ کرنا پڑے یا کارکنوں کا خیال ہو گا کہ نہیں کرنا پڑے گا لیکن کارکن جب بعض پابندیوں کی طرف مہمانوں کو توجہ دلائیں گے تو ہو سکتا ہے بعض مہمان برا بھی مان جائیں۔ جیسے ماسک پہن کے رکھنا ہے۔ اس طرف کارکنان توجہ دلائیں گے۔ فاصلہ دے کے رکھنا ہے اس طرف توجہ دلائیں گے۔ عام طور پر اس کی ہم پابندی نہیں کرتے۔ کھانا کھاتے ہوئے بعض پابندیوں کا خیال رکھنا ہے۔ لیکن سب باتیں سن کر بھی اگر کوئی سختی سے پیش آتا ہے اور ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتا تو لوگوں کی باتیں سن کر بھی پیار سے ہی اپنی بات مہمانوں کو سمجھائیں۔ عموماً مہمانوں کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ انہوں نے بعض پابندیوں کا خیال رکھنا ہے لیکن بعض لوگ طبعاً بعض باتوں کا جلد برا مان جاتے ہیں اور ایسے چند ایک ہی لوگ ہوتے ہیں جو مسائل پیدا کرتے ہیں اور اگر آگے سے کارکن کا رویہ بھی سخت ہو جائے تو پھر زیادہ بدمزگی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اس لیے اگر کسی نے سمجھانا بھی ہے کسی کو، کوئی درخواست بھی کرنی ہے، کوئی بات بھی کرنی ہے تو انتہائی صبر اور نرمی سے سمجھائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ مہمان کا احترام کرتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار و الضیف … حدیث 173)
مومن کی یہ نشانی ہے کہ مہمان کا احترام کرتا ہے۔ پس یہ مومنانہ خصوصیت ہر ایک میں پیدا ہونی چاہیے۔ بارش کی وجہ سے پارکنگ میں، حدیقة المہدی میں محدود تعداد میں پارکنگ ہو گی۔ بارش کی وجہ سے گو کہ گراؤنڈز تو ہیں لیکن بارش کی وجہ سے گیلی ہیں اور کاروں کے وہاں slip ہونے یا دھنسنے کا خطرہ ہے۔ اس لیے دوسری جگہ پارکنگ لی گئی ہے جہاں سے بسوں کے ذریعہ سے مہمانوں کو لایا جائے گا۔ یہاں ڈیوٹی والوں کو بڑے آرام اور پیار سے کاروں پہ آنے والوں کو سمجھانا ہو گا۔ بعض لوگ سیدھے آ جاتے ہیں اور پھر زور دیتے ہیں کہ ہم آ گئے ہیں تو ہمیں اندر آنے دیا جائے۔ بڑے پیار سے انہیں سمجھائیں اور مہمانوں کو بھی ڈیوٹی والوں کی بات کو سمجھنا چاہیے۔ آپس کے تعاون سے ہی کام میں آسانی اور روانی پیدا ہو سکتی ہے۔
پس دونوں طرف سے تعاون ہونا چاہیے۔ مہمان صرف میزبانوں سے امید نہ رکھیں کہ یہی ہماری خدمت پر مامور ہیں اور ہماری ہر بات سنیں اور اس پر عمل کریں بلکہ مہمانوں کو بھی جو قاعدہ قانون بنایا گیا ہے اس کی پابندی کرنی چاہیے تبھی کام صحیح رنگ میں اور روانی سے ہو سکتا ہے۔ مہمان بھی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اسلام نے جہاں میزبان کو مہمان کی عزت و احترام کرنے کی ہدایت کی ہے وہاں مہمانوں کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بحیثیت مہمان تمہاری بھی کچھ ذمہ داری ہے۔ اسلام نے واضح بتایا کہ تم مہمان بن کر جب کسی کے پاس جاؤ تو میزبان کی مصروفیات کا بھی خیال رکھو اور اس کے بلانے پر جاؤ یا بتا کر جاؤ۔ ایک طرف میزبان کو ہدایت کی کہ تم نے گھر آئے مہمان سے حسن سلوک کرنا ہے چاہے وہ جب بھی آئے۔ دوسری طرف مہمان کو کہا کہ کسی کے گھر جاؤ تو بتا کر جاؤ۔ اگر بغیر بتائے جاتے ہو اور گھر والا گھر کے اندر آنے سے منع کر دے تو بغیر کسی شکوے کے واپس آ جاؤ۔ جلسے کے مہمانوں پر عموماً یہ بات لاگو نہیں ہوتی لیکن اس سال جیسا کہ میں نے کہا خاص حالات کی وجہ سے ایک عمر کی حد بھی رکھی گئی ہے کہ اس عمر سے اس عمر تک کے لوگ آئیں ۔ کم از کم اور زیادہ سے زیادہ عمر کی حد رکھ دی اور پھر بعض دوسری شرائطِ صحت بھی ہیں، شرائط ہیں جو صحت سے متعلقہ ہیں وہ بھی رکھی گئی ہیں اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اصول بنایا گیا ہے اور اس لحاظ سے جماعتوں کو کہا گیا ہے کہ منتخب کر کے افراد کو، ان لوگوں کو بھیجیں جو یہ شرائط پوری کرتے ہیں۔ بعض جگہ ہو سکتا ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ اس انتخاب میں اونچ نیچ ہو گئی ہو اور بعض لوگوں کو شکوہ پیدا ہوا ہو۔ اسی طرح بعض لوگ نئے اس ملک میں آئے ہیں اور شرائط پوری نہیں کرتے لیکن زور یہ ہے کہ ہمیں ضرور جلسہ میں شامل کیا جائے۔ شاید بعض باہر سے آنے والے کوشش بھی کریں کہ اپنے کسی عزیز کے ساتھ آجائیں یا اپنے علاقے کی انتظامیہ سے ضد کریں کہ ہمیں شمولیت کا پاس دیا جائے تو ان کو خیال رکھنا چاہیے کہ اس طرح نظام کو توڑنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لیے یہ اصولی ہدایت فرما دی ہے اور بنیادی اخلاق کی راہنمائی کر دی اور حکم دے دیا کہ گھر والوں کی اجازت کے بغیر کسی کے گھر نہ جاؤ اور اگر کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جاؤ بغیر کسی شکوے کے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَاِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰی لَكُمْ (النور: 29)
اور اگر تمہیں کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ۔ تمہارے لیے یہ بات زیادہ پاکیزگی والی ہے۔ جلسہ پر آنا اور اس میں شامل ہونے کا ایک بہت بڑا مقصد تو اپنی اصلاح اور اپنے نفس کو پاک کرنا ہے۔ زبردستی شامل ہونے کی بجائے جو طریق مقرر کر دیا گیا ہے اس کی پابندی کرنا زیادہ پاکیزگی والی بات ہے۔ پس بعض لوگ جنہوں نے مجھے بھی پیچھے پڑ کر خط لکھے ہیں یا نظام کو بھی کہہ رہے ہیں وہ لوگ جو بھی انتظام مقرر کر دیا گیا ہے اس کی پابندی کریں تو یہ زیادہ بہتر ہے اور برا بھی نہیں ماننا چاہیے۔ اس بات کا شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں اور ایسے حالات میں زیادہ تڑپ کر دعا ہوتی ہے اور ہو گی کہ اللہ تعالیٰ حالات جلد معمول پر لائے تا کہ بعض لوگ اپنی خواہش کے مطابق جلسہ میں آزادی سے شامل ہو سکیں۔ قرآنی احکام پر عمل کرنے کے لیے صحابہ کا بھی عجیب طریق تھا۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں سالوں لوگوں کے گھروں میں مختلف وقتوں میں بے وقت صرف اس لیے جاتا رہا کہ کوئی مجھے کہے کہ یہ وقت نہیں ہے۔ اندر آنا منع ہے۔ ہم نہیں مل سکتے ۔گھر میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ملاقات نہیں ہو سکتی۔ واپس چلے جاؤ اور کہتے ہیں کہ میری یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے اس طرح کہے تو میں قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کر کے ثواب کمانے والا بن جاؤں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں کسی کے گھر گیا ہوں اور آگے سے مجھے معذرت کر دی گئی ہو۔
(تفسیر الدر المنثور جلد 6 صفحہ 175-176 دار الفکر بیروت 2011ء)
تو دونوں فریق میزبان بھی اور مہمان بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے فرائض پورے کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ عمومی اخلاق کے اپنانے اور قرآن کریم کی ہدایت پر شوق اور جذبے سے عمل کرنے کے ضمن میں مَیں نے یہ بات بتائی اور ایک اصولی ہدایت دی ہے لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ اپنی بات منوانے کے لیے کہہ دیتے ہیں یا کہہ دیں گے کہ پھر انتظامیہ کو بھی انکار نہیں کرنا چاہیے۔ عمومی حالات میں انتظامیہ انکار نہیں کرتی اور نہ کرنا چاہیے۔ اگر کرے تو یقیناً مہمانوں کا حق ادا نہیں کرے گی اور اس تعلیم کے خلاف کرے گی جو اسلام کی تعلیم ہے اور جس کی تعلیم پر عمل کرنے پر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاص زور دیا ہے اور اپنے عمل سے مثالیں قائم کی ہیں کہ بےوقت رات گئے مہمان آئے تو اس وقت بھی ان کی مہمان نوازی کا احترام فرمایا۔لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ جلسہ جن حالات میں ہو رہا ہے یہ خاص حالات ہیں اس میں مجبوراً مہمانوں کو شمولیت سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اس لیے بغیر کسی شکوے کے اس پر عمل کر لیا جائے لیکن ساتھ ہی میں ان لوگوں کو یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جن کو دعوت نامہ اور اجازت نامے ملے ہیں کہ سوائے اشد مجبوری کے ضرور جلسہ میں شامل ہوں ورنہ ان کے نہ شامل ہونے سے ان لوگوں کی حق تلفی ہو گی جن کو اجازت نامے نہیں دیے گئے۔ موسم کی خرابی کو عذر نہ بنائیں۔
موسم کی خرابی کی بات ہوئی ہے تو شاملین کو یاد رکھنا چاہیے کہ ربوہ یا قادیان میں سردیوںکے دنوں میں کھلے میں جلسے منعقد ہوتے ہیں۔ ربوہ میں تو اب پابندیوں کی وجہ سے نہیں ہوتے۔ سالوں سے نہیں ہوئے لیکن ہوا کرتے تھے اور جب سردیوںمیں جلسہ ہوتا تھا تو پھر لوگ بارش کی صورت میں بھی آرام سے بیٹھ کر کسی نہ کسی ذریعہ سے اپنے آپ کو ڈھانک کر جلسہ سنتے تھے۔ یہاں جب اسلام آباد میں جلسے ہوتے تھے تو بارش کی وجہ سے جلسہ گاہ کی مارکی کے باوجود بھی بہت براحال ہو جاتا تھا۔ نیچے بیٹھنے کے لیے صرف گھاس رکھا جاتا تھا۔ نیچے باقاعدہ کوئی فرش نہیں بنایا جاتا تھا جس طرح اب لکڑی کا بنایا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک جلسہ میں مَیں شامل ہوا تو بارش کی وجہ سے جلسہ گاہ کے اندر بھی کچھ حصہ میں پانی آ گیا اور زمین گیلی ہو گئی۔ کناروں پر تو پانی کھڑا تھا اور جو لوگ کناروں پہ کھڑے ہو کے نماز پڑھتے تھے ان کے گھٹنے اور ماتھے پانی میں ہوتے تھے یا کیچڑ میں ہوتے تھے۔ خود میرے ساتھ بھی اسی طرح ہوا اور سجدے سے سر اٹھا کر پہلے ماتھا صاف کرنا پڑتا تھا کہ آنکھوں میں پانی یا کیچڑ نہ آجائے یا گھاس پھوس لگا ہوتا تھا لیکن سب لوگ مَیں نے دیکھا ہے ایک جذبے سے جلسہ میں شامل ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب بھی یہ جذبہ ہے اور کہنا چاہیے کہ احمدیوں کی تقریباً اکثریت میں یہ جذبہ موجود ہے لیکن بعض ذرا نازک مزاج بھی ہوتے ہیں یا حالات کی وجہ سے اب زمانے کی دوری کی وجہ سے نازک مزاجی آ گئی ہے ان کے لیے میں کہہ رہا ہوں کہ اگر ان کو آنے کا اجازت نامہ ملا ہے تو وہ ضرور شامل ہوں۔ کسی قسم کا عذر نہ بنائیں۔ پھر یہ بھی ہے جیساکہ پہلے بھی میں نے کہا کہ بعض لوگ عادتاً لڑنے والے ہوتے ہیں، بعض عادتاً شکوہ کرنے والے بھی ہیں اور انتظامیہ پر نکتہ چینی کریں گے کہ یہ انتظام اس طرح ہونا چاہیے تھا اس طرح کیوں نہیں ہوا؟ یا نہ آنے کا بہانہ پیش کریں گے کہ اس وجہ سے ہم نہیں آئے تو بہرحال ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ آج بھی اور کل بھی اور پرسوں بھی جن لوگوں کو دعوت نامے ملے ہیں یا کہنا چاہیے جن لوگوں کو اجازت نامے ملے ہیں وہ ضرور شامل ہوں۔
بعض انتظامی باتیں بھی کر دوں کہ کھانے کی مارکی میں انتظامیہ نے کھانا لیتے ہوئے اور کھانا کھاتے ہوئے جو فاصلہ رکھنے کی طرف توجہ دلانے کا انتظام کیا ہوا ہے اس کی پابندی کریں۔ جگہ جگہ یہ لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ فاصلہ رکھیں لیکن بعض لوگوں کو جو بھی ہدایت لگائی جائے اسے پڑھنے کی عادت نہیں ہے، اس طرف توجہ نہیں کرتے اور پھر یہ بھی آجکل عام حالات میں بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ بعض فاصلہ کا خیال بھی نہیں رکھتے۔ اس لیے کھانے کے وقت بھی اور کھانا لیتے ہوئے بھی اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ فاصلہ رکھنا ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے تو مجبوری ہے کہ ماسک اتارنا پڑتا ہے لیکن کھانا لیتے وقت جب لائن میں ہوں تو ماسک پہن کر رکھیں۔ اسی طرح ڈیوٹی والے کارکنان بھی اس بات کو لازمی بنائیں، یقینی بنائیں کہ ماسک پہن کر ہر وقت رکھنا ہے اور کارکنوں نے اگر ماسک پہننے میں کوئی ڈھیل دکھائی، کمی کی یا پابندی کا خیال نہ رکھا تو پھر مہمان بھی عمل نہیں کریں گے۔ اس لیے ڈیوٹی والے بھی اور مہمان بھی اس بات کو لازمی بنائیں کہ انہوں نے ماسک پہن کر رکھنا ہے چاہے وہ پارکنگ ہے یا غسل خانے ہیں یا راستوں پہ چلنا ہے، جلسہ گاہ ہے یا کھانے کی مارکی ہے۔ جلسہ گاہ میں بھی ماسک پہن کر بیٹھنا ہے۔ ہاں انتظامیہ چیک کرنے کے لیے بعض دفعہ ماسک اتار کر چہرہ دکھانے کا کہے تو پھر اس بارے میںان سےتعاون کریں۔ اسی طرح اگر انتظامیہ کے زیر انتظام کسی تقریر کے دوران کوئی نعرہ لگتا ہے تو اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ نعرہ لگاتے ہوئے یا اس کا جواب دیتے ہوئے کسی کا ماسک نہ اترے۔ بعض بے احتیاطی کر جاتے ہیں۔ اس دفعہ یہ ایک بالکل نئی بات ہے اس لیے بہت احتیاط سے اور توجہ سے اس بات کا خیال رکھنا ہوگا۔ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بھی اور دوسروں کو بچانے کے لیے بھی ناک اور منہ دونوں ڈھانکنے ضروری ہیں۔ پھر گیٹ میں اندر داخل ہوتے ہوئے دونوں طرح کی چیکنگ ہو گی۔ ایمز کارڈ بھی چیک ہو گا اور شاید ویکسینیشن کا کارڈ اور دوسرا اجازت نامہ بھی دیکھیں، اس کو بھی چیک کریں۔ اس لیے اس لحاظ سے بھی چیک کرنے والوں کی تسلی کروائیں اور کسی قسم کا ایسا اظہار نہ کریں کہ اتنی چیکنگ آپ کو بُری لگی ہے۔ یہ سب احتیاطیں شامل ہونے والوں کے مفاد کے لیے کی جا رہی ہیں۔
پھر ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تھوڑی تعداد اور ان سب احتیاطوں کی وجہ سے سیکیورٹی کے لحاظ سے relax نہ ہو جائیں۔اس بارے میں ڈیوٹی کے کارکنان کو بھی اور شامل ہونے والوں کو بھی مکمل طور پر محتاط رہنا چاہیے جیسا کہ پہلے بھی ہدایات ملتی تھیں اور رہتے تھے۔
پھر کھانے کے بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ دوپہر کو تو کھانا ان شاءاللہ کھانے کی مارکی میں دیا جائےگا اور وہاں ان باتوں کا خیال رکھیں جو میں نے بتائی ہیں لیکن رات کا کھانا پیک کر کے دیے جانے کا ان کا پروگرام ہے۔ اپنے گھروں میں لے کر جا سکتے ہیں۔ کوشش تو کی جائے گی کہ جتنی جلدی تقسیم ہوسکے کی جائے لیکن اگر کچھ وقت لگ جائے تو پریشان نہ ہوں۔ اسی طرح جلسہ سننے کے بارے میں بھی جو عمومی ہدایت ہر سال ہوتی ہے وہ دوہرا دیتا ہوں کہ جلسہ سنیں اور ایک دوسرے کو لمبے عرصہ کے بعد ملنے کی وجہ سے اِدھر اُدھر بیٹھ کر عزیزوں سے یا دوستوں سے باتوں میں مصروف نہ ہو جائیں کیونکہ جلسہ کے لیے آئے ہیں تو جلسہ ہی سنیں۔ اس وبا کی وجہ سے بعض لوگ بہت سے ایسے ہوں گے بلکہ کہنا چاہیے جو قریبی بھی ہوں گے ایک دوسرے کے دوست بھی ہوں گے اور مختلف شہروں میں رہنے کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ کے بعد مل رہے ہوں گے کیونکہ اس عرصہ میں جماعتی طور پر بھی کوئی فنکشن نہیں ہوئے۔ اس لیے لمبے عرصہ کے بعد یہ ملنا انہیں جلسہ کے پروگرام سننے سے محروم نہ کر دے یا دعاؤں کی طرف توجہ رکھنے سے محروم نہ کر دے۔ جلسہ پر آئے ہیں تو اس سے بھر پور استفادہ کریں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلسہ کے ایام میں ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک نکتہ بیان فرمایا۔ کہتے ہیں کہ مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جلسہ کے ایام میں ذکر الٰہی کرو اور جب مجالس میں بیٹھے ہوں تو وہاں ذکر الٰہی ہونا چاہیے۔ اس کا فائدہ خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ
اُذْکُرُوا اللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ۔
کہ اگر تم ذکر الٰہی کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہارا ذکر کرنا شروع کر دے گا۔ اب اس بندے جیسا خوش قسمت کون ہے جس کو اپنا آقا یاد رکھے، جس کا ذکر خدا تعالیٰ کرے۔
(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 4 صفحہ 258)
پس ان دنوں میں ذکر الٰہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید کھینچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس لیے ان دنوں میں خاص طور پر ذکر الٰہی پر زور دیں اور دنیا میں پھیلے ہوئے احمدی جہاں اکٹھے ہو کرجلسہ سن رہے ہیں یا گھر والوں کے ساتھ مل کر جلسہ سن رہے ہیں تو وہ بھی ذکر الٰہی پر توجہ دیں تا کہ زیادہ سے زیادہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے والے ہوں۔ اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنے والے ہوں اور دنیا کی آفات سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے بچنے والے ہوں۔
پس اس جلسے کے ماحول سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کریں، علمی اور تربیتی تقاریر سن کر بھی اور دعاؤں کی طرف توجہ رکھ کر بھی۔ اس مرتبہ تو تھوڑی تعداد ہونے کی وجہ سے ہر ایک کے لیے کرسی پر بیٹھنے کا انتظام ہے اس لیے لمبا عرصہ بیٹھنے کا بھی کوئی عذر نہیں ہے۔ ویسے بھی جلسے کا ایک سیشن کوئی اتنا لمبا نہیں ہوتا۔ عموماً دو اڑھائی گھنٹے کا یا حد تین گھنٹے یا اس کے قریب کا ہو جاتا ہے تو اس لیے اگر زمین پر بھی بیٹھنا پڑے تو بیٹھنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس میں آخر میں پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں۔ میں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔ میں اس بات پرراضی نہیں ہوتا۔ میں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلّف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا ہی یہی اقتضاء ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو۔ جو بات ہو خدا کے واسطے ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 398-399)
پھر فرمایا ’’مسلمانوں میں اِدبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے ورنہ اس قدر کانفرنسیں اورانجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لَسَّان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اورتقریریں کرتے، شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں۔ وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزل ہی کی طرف جاتی ہے۔ بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے۔‘‘
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 401)
بہرحال ایک بات تو یہ ہے کہ ہر تقریر کو سنیں۔ یہ نہ دیکھیں کہ مقرر اچھا ہے، اس کی تقریر سننی ہے کس کی نہیں سننی۔ ہر تقریر جلسہ میں بیٹھ کے سننی چاہیے اور پورے اخلاص اور توجہ سے سننی چاہیے اور یہ اخلاص تبھی حاصل ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی تڑپ ہے ۔ اور جب یہ تڑپ ہو گی تو یہی وہ حالت ہے جب ہماری حالتیں سنور سکتی ہیں ۔ ہماری نسلوں کو بھی سنوار سکتی ہیں اور ان کو صحیح رستوں پر ڈال سکتی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک جو اس جلسہ میں شامل ہو رہا ہے یا سن رہا ہے اپنے اندر خالص اخلاص و وفا پیدا کرنے والا بن جائے۔ اور موسم کے لیے بھی ان دنوں میں دعا کریں کہ موسم ہمارے کسی پروگرام میں روک نہ بنے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے ہمارے حق میں کر دے۔
(الفضل انٹرنیشنل 27 اگست 2021ء صفحہ 5تا8)