خدا ہر ایک صفت میں مخلوق سے الگ ہے
مجھے منجملہ اَور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا تھا کہ ہے کرشن رودّر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے۔ سو مَیں کرشن سے محبت کرتا ہوں کیونکہ مَیں اس کا مظہر ہوں۔ اور اس جگہ ایک اَور راز درمیان میں ہے کہ جو صفات کرشن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں ( یعنی پاپ کا نشٹ کرنے والا اور غریبوں کی دلجوئی کرنے والا اور ان کو پالنے والا) یہی صفات مسیح موعود کے ہیں۔ پس گویا روحانیت کے رو سے کرشن اور مسیح موعود ایک ہی ہیں ۔ صرف قومی اصطلاح میں تغایر ہے۔ اب میں بحیثیت کرشن ہونے کے آریہ صاحبوں کو اُن کی چند غلطیوں پر تنبیہ کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک تو وہی ہے جس کا ذکر میں پہلے بھی کر آیا ہوں کہ یہ طریق اور یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ روحوں اور ذرات عالم کو جن کو پر کرتی یا پرما نو بھی کہتے ہیں غیر مخلوق اور اَنادی سمجھا جائے ۔ غیر مخلوق بجز اس پر میشر کے کوئی بھی نہیں جو کسی دوسرے کے سہارے سے زندہ نہیں۔ لیکن وہ چیزیں جو کسی دوسرے کے سہارے سے زندہ ہیں وہ غیر مخلوق نہیں ہوسکتیں۔ کیا روحوں کے گن خود بخود ہیں اُن کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ؟ اگر یہی صحیح ہے تو روحوں کا جسموں میں داخل ہونا بھی خود بخود ہوسکتا ہے اور ذرات کا اکٹھے ہونا اور متفرق ہونا بھی خود بخود ہوسکتا ہے۔ اس طریق سے پرمیشر کا وجود ماننے کے لئے کوئی عقلی دلیل آپ کے ہاتھ میں نہیں رہے گی ۔ کیونکہ اگر عقل اِس بات کو قبول کرسکتی ہے کہ تمام ارواح مع اپنے تمام گُنوں کے جو اُن کے اندر پائے جاتے ہیں خود بخود ہیں تو اس دوسری بات کو بھی بہت خوشی سے قبول کرلے گی کہ روحوں اور اجسام کا باہم اتصال یا انفصال بھی خود بخود ہے اور جب کہ خود بخود ہونے کی بھی راہ کھلی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک راہ کھلی رکھی جاوے اور دوسری بند کی جاوے ۔ یہ طریق کسی منطق سے سدھ نہیں ہوسکتا ۔پھر اس غلطی نے ایک اَور غلطی میں آریہ صاحبوں کو پھنسا دیا ہے جس میں ان کا خود نقصان ہے جیسا کہ پہلی غلطی میں پرمیشر کا نقصان ہے۔ اور وہ یہ کہ آریہ صاحبوں نے مکتی کومیعادی ٹھہرا دیا ہے اور تنا سخ ہمیشہ کے لئے گلے کا ہار قرار دیا گیا ہے جس سے کبھی نجات نہیں ۔ یہ بخل اور تنگ دلی خدائے رحیم و کریم کی طرف منسوب کرنا عقل سلیم تجویز نہیں کرسکتی۔ جس حالت میں پرمیشر کو ابدی نجات دینے کی قدرت تھی اور وہ سرب شکتی مان تھا تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ایسا بخل اُس نے کیوں کیا کہ اپنی قدرت کے فیض سے بند و ں کو محروم رکھا۔ اور پھر یہ اعتراض اور بھی مضبوط ہوتا ہے جبکہ دیکھا جاتا ہے کہ جن روحوں کو ایک طول طویل عذاب میں ڈالا ہے اور ہمیشہ کے لئے جُو نیں بھگتنے کی مصیبت اُن کی قسمت میں لکھ دی ہے وہ روحیں پرمیشور کی مخلوق بھی نہیں ہیں۔ اس کا جواب آریہ صاحبوں کی طرف سے یہ سنا گیا ہے کہ پرمیشور ہمیشہ کی مکتی دینے پر قادر تو تھا، سرب شکتی مان جو ہوا لیکن میعادی مکتی اس وجہ سے تجویز کی گئی کہ تا سلسلہ تناسخ کا ٹوٹ نہ جائے ۔ کیونکہ جس حالت میں روحیں ایک تعداد مقررہ کے اندر ہیں اور اس سے زیادہ نہیں ہوسکتیں۔ پس ایسی صورت میں اگر دائمی مکتی ہوتی تو جُونوں کا سلسلہ قائم نہیں رہ سکتا تھا ۔ کیونکہ جو روح نجات ابدی پاکر مکتی خانہ میں گئی وہ تو گویا پرمیشور کے ہاتھ سے گئی اور اس روز مرہ کے خرچ کا آخری نتیجہ ضرور یہ ہونا تھا کہ ایک دن ایک روح بھی جُونوں میں ڈالنے کے لئے پرمیشور کے ہاتھ میں نہ رہتی اور کسی دن یہ شغل تمام ہوکر پرمیشور معطل ہوکر بیٹھ جاتا۔ پس ان مجبوریوں کی وجہ سے پرمیشور نے یہ انتظام کیا کہ مکتی کو ایک حد تک محدود رکھا۔ اور پھر اسی جگہ ایک اور اعتراض ہوتا تھا کہ پرمیشر بے گناہوں کو جو ایک دفعہ مکتی پاچکے ا ور گناہوں سے صاف ہوچکے پھر مکتی خانہ سے کیوں باربار نکالتا ہے۔ اس اعتراض کو پرمیشر نے اس طرح دفعہ کیا کہ ہر ایک شخص جس کو مکتی خانہ میں داخل کیا ایک گناہ اُس کے ذمہ رکھ لیا۔ اُسی گناہ کی سزا میں آخر کار ہر ایک روح مکتی خانہ سے نکالی جاتی ہے۔
یہ ہیں اصول آریہ صاحبوں کے۔ اب انصاف کرنا چاہئے کہ جو شخص ان مجبوریوں میں پھنسا ہؤا ہے اُس کو پرمیشر کیونکر کہہ سکتے ہیں۔ بڑا افسوس ہے کہ آریہ صاحبوں نے ایک صاف مسئلہ خالقیت باری تعالیٰ سے انکار کرکے اپنے تئیں بڑی مشکلات میں ڈال لیا اور پرمیشر کے کاموں کو اپنے نفس کے کاموں پر قیاس کرکے اُس کی توہین بھی کی اور یہ نہ سوچا کہ خدا ہر ایک صفت میں مخلوق سے الگ ہے اور مخلوق کے پیمانہ صفات سے خدا کو ناپنا یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کو اہل مناظرہ قیاس مع الفارق کہتے ہیں۔ اور یہ کہنا کہ نیستی سے ہستی نہیں ہوسکتی یہ تو مخلوق کے کاموں کی نسبت عقل کا ایک ناقص تجربہ ہے۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ229تا 231)