ایک طالع مند، طالع کی یاد میں
مجھے نہیں معلوم کہ طالع کہاں پیدا ہوا۔ کب پیدا ہوا۔ کب تعلیم سے فارغ ہوا۔ کب وقف کیا۔ اس لیے ان سطور میں طالع کا سوانحی خاکہ پیش نہ کرسکوں گا۔
جو بات مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ سید طالع احمد، 24؍اگست 2021ء کو شہید ہوگیا۔
میں طالع کو جس قدر بھی جانتا ہوں، اس وجہ سے جانتا ہوں کہ وہ ایم ٹی اے میں کام کرنے والا ایک ساتھی تھا۔ بہت محنت، بہت خلوص سے، بے لوث خدمت کرنے والا ایک بہت ہی پیارا نوجوان۔ مگر اس کے باوجود میں اسے بہت کم جان پایا۔
مگر آج جب اس کی شہادت کی خبر آئی، تو طبیعت ایسی بے قرار ہوئی کہ جی چاہا کہ جو کچھ اس کے بارے میں معلوم ہے، تھوڑا ہی سہی، اسے تحریر کر دوں۔
سو یہ ٹوٹی پھوٹی تحریر میرے ایک عظیم رفیقِ کار جو راہِ مولا میں قربان ہوگیا کے لیے میری پہلی آخری سلامی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا جب انتقال ہوا، ان دنوں بہت سے چہرے مسجد فضل میں نظر آئے جو میرے لیے نئے تھے۔ ان میں ایک ایسا بچہ بھی تھا جو ابھی نوجوانی کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ گھنگریالے بال۔ گندم گوں، صاف رنگت۔ درمیانہ قد۔ اور چہرے پر شدید رنج و غم کے آثار۔مجھے یہ بچہ جب بھی نظر آیا، ایسا محسوس ہوا کہ اس عمر میں اس سانحہ کی شدت کا اندازہ جنہیں ہوا ہوگا، یہ ان میں سے ایک ہے۔
2009ء میں خاکسار نے اسلام کے اقتصادی نظام پر پروگرام بنانا تھا۔ اس میں سید ہاشم احمد صاحب کا انٹرویو بھی ریکارڈ کرنا تھا۔ تب جہاں یہ معلوم ہوا کہ سید ہاشم احمد صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ کی اولاد میں سے ہونے کے باعث خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا حصہ ہیں، وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ 2003ء کا وہ غم زدہ بچہ ہاشم صاحب کا صاحبزادہ ہے۔ مگر یہ تعارف بھی واجبی سا ہوا اور یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ اس نوجوان کا نام طالع احمد ہے۔
یہ تعارف شاید اس وقت کے لیے محفوظ کر دیا گیا تھا جب وہ ایم ٹی اے میں آئے اور ہم رفیقِ کار بنیں اور ساتھ کام کریں۔ یہ ساتھ کام کرنے کا دورانیہ مختصر ہی سہی مگر مجھے فخر ہے کہ مجھے اس میں طالع کو جاننے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ قریب رہ کر کام کرنے والے اس کے بارے میں تفصیل سے لکھ سکیں گے۔ میں تو محض چند یادیں جو اَب ایک اثاثہ بن گئی ہیں، عام کرنا چاہتا ہوں۔
کچھ سات آٹھ برس پہلے وہ بچہ (جو بھرپور جوان ہو چکاتھا) جماعتی دفاتر میں نظر آنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک ہوتی۔ بہت محبت اور تپاک سے ملتا۔ ہمیشہ پرجوش اور پرولولہ ترنگ میں ادھر سے ادھر چلا جاتا۔ کبھی کبھی اپنی دُھن میں مست بھی لگتا۔ مگر جو وصف ذہن پر نقش ہوجانے والا تھا، وہ اس کی سادگی اور اس کا وقار تھا۔ سادہ لباس جس میں صفائی کے علاوہ کچھ بھی ملحوظ نہ رکھا ہوتا۔ پیروں میں ہمیشہ وہ جوتے جو سکول میں ورزش کے لیے پہنے جاتے ہیں۔اورکبھی کبھی ان جوتوں کی ایڑیاں بٹھا کر بھی پہنے ہوئےطالع اپنے کام میں مگن نظر آتا۔
طالع نے زندگی وقف کی تو اس کی تقرری شعبہ نیوز، ایم ٹی اے میں ہوئی۔ اس حوالہ سے بھی کچھ زیادہ واسطہ اس سے نہ رہا۔ مگر پھر اچانک طالع نےایک ڈاکومنٹری پروگرام تیار کیا۔ پروگرام کا عنوان تھا
The White Birds of Hartlepool
پروگرام بنا چکا تو اسے چلانے سے پہلے مجھ سے رائے چاہی۔ میں نے پروگرام دیکھا اور تہِ دل سے اس کی تعریف کی۔ سب جانتے ہیں کہ یہ بہت ہی عمدہ پروگرام تھا جو طالع نے اپنے نانا اور نانی کی ہارٹلے پول میں تبلیغی مساعی کے لیے ذاتی کوششوں اور ان کے قابلِ رشک ثمرات پر بنایا تھا۔
میں نے تعریف بھی کی اور دو ایک باتوں کی نشاندہی بھی کہ شاید یوں بہتر ہوسکے۔ طالع نے میری رائے کو بہت محبت سے قبول کیا اور اس کے مطابق تبدیلی کر لی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ ایک دن میں فخرسے بتاؤں گا کہ طالع جیسے بڑے آدمی نے مجھ سے ناصرف میری ناچیز رائے مانگی، بلکہ اس ناچیز رائے کو قابلِ قبول بھی سمجھا۔ میں نے تو دو ایک باتیں صرف اس کے اصرار پر بتادی تھیں، اور ساتھ یہ بھی کہ پروگرام ان دو ایک باتوں سمیت بھی بھلا چنگا ہے۔ مگر یہ طالع کا بڑا پن تھا۔ آج اس کا بڑا پن سب دنیا پر ثابت ہوگیا۔
یہ پروگرام ایم ٹی اے پر چلا اور کیا ہی خوب پذیرائی پائی۔ پھر کیا تھا! طالع نے ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا پروگرام بنانا شروع کردیا۔ یوں طالع سے واقفیت بڑھی اور اس کی شخصیت کے دل موہ لینے والے پہلو دیکھنے کو ملے۔
پھر ایک وقت آیا کہ ہم مسجد فضل میں ملاقات کے انتظار میں بیٹھے ہوتے اور طالع اپنے کاندھے پر ایک بڑا سا نیلے رنگ کا بیگ اٹھائے ہوئے داخل ہوتا۔ ہمیں معلوم ہوجاتا کہ اس روز حضور سے کسی وزیر، سفیر، دانشور یا صحافی کی ملاقات ہے۔ اور طالع اس کی فلمنگ کر کے اسے جماعتی خبروں میں شامل کرنے والا ہے۔یوں ایم ٹی اے کی جماعتی خبروں کو چار چاند لگ گئے۔ طالع کے اس نیلے بیگ میں کیمرہ، ٹرائپوڈ، مائک، لائٹ اور وہ سارے لوازمات ہوتے جواس ایک لمحے کی فلمنگ کے لیے درکار ہوتے۔
پھر یہ نیلا بیگ طالع کی شخصیت کا ایک اٹوٹ حصہ بن گیا۔ میری طالع سے آخری ملاقات جب ہوئی، تب بھی طالع اپنے کاندھے پر اس بڑے سے بیگ کو اٹھائے ہوئے انٹرویو کرنے کی جگہ تلاش کررہا تھا۔ مگر اس آخری ملاقات کی طرف بعد میں آتے ہیں۔
یہاں طالع کی ایک بہت خوبصورت یاد بیان کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے وہ موقع بڑی اچھی طرح یاد ہے جب طالع بڑی محبت سے خود چل کر مجھے تلاش کرتا ہوا آیا۔ یہ 2018ء کے موسمِ گرما کے ایک خوبصورت دن کی بات ہے۔ ہفت روزہ الحکم کے خلافت نمبر میں حضرت صاحب کے وہ قیمتی ارشادات شائع کیے گئے تھے جو حضور انور نے خلیفہ منتخب ہونے کے فوراً بعد اپنے ذاتی تاثرات کے بارہ میں ارشاد فرمائےتھے۔ خاکسار نے تو صرف وہ قیمتی الفاظ قلم بند کر کے الحکم کو دے دیے تھے۔ مگر طالع جس محبت سے مجھے ملا، وہ بیان کرنا کم از کم تحریر میں تو ممکن نہیں۔
اس کے پورے وجود سے خلافتِ احمدیہ کی محبت ٹپک رہی تھی۔ اس کے ہر جملے، ہر خاموش وقفے، ہر حرکت، ہر سکون سے وہ وارفتگی چھلک رہی تھی جو کسی چھوٹے بچے میں تب دیکھنے کو ملتی ہے جب اسے اس کی سب سے پسندیدہ چیز مل جائے اور اسے اپنی خوشی کا اظہار تک نہ کرنا آتا ہو۔
پھر جب بھی الحکم میں ایسا کوئی مضمون شائع ہوتا جس میں خاکسار کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک الفاظ کو قلم بند کرنے کی توفیق ملی ہوتی، طالع کا میسج سب سے پہلے آتا۔ آج اس کے messages میں سے گزرا ہوں تو اکثر جمعہ کے روز، خطبہ کے بعد بھیجے گئے ہیں، کہ اسی روز اور اسی وقت الحکم کا تازہ شمارہ آن لائن شائع ہوتا ہے۔
طالع نے جو پروگرام بھی بنایا، اس پروگرام کا ہر لفظ حضرت صاحب کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا۔
جب طالع نے Four Days Without a Shepherd کے عنوان سے پروگرام بنایا اور اپنے بڑے پن میں مجھ سے میری ناچیز رائے مانگی، تو مجھے اس میں 2003ء کا وہ غمزدہ بچہ نظر آیا جو ان چار دنوں میں صدمے سے بوکھلایا پھرتا تھا۔ پروگرام کی ترتیب میں اس کا وہ خوف اور پھر وہ امن جو بعد میں نصیب ہوا دونوں دھڑکتے محسوس ہوتے تھے۔
تاریخی اعتبار سے کسی بات کی تصدیق کرنا ہوتی، تو طالع کا فون آتا۔ میں احمدیہ آرکائیو کے ریکارڈ سے جو بھی پیش کرسکتا پیش کردیتا۔ طالع کی شکرگزاری کا اظہار آج یاد آتا ہے تو شرمندگی ہوتی ہے۔تب بھی ہوتی تھی، آج بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا کہ طالع کس منزل کا راہی ہے تو ہم جہاں تہاں سے کھود کراور کھوج کر اسے مزید مواد مہیا کرتے۔
یہاں طالع کی ایک اور بات یاد آگئی۔ جب بھی اس نے مواد کی ضرورت کا اظہار کیا، تو مہیا ہوجانے پر ہمیشہ بتایا کہ فلاں بات تو مجھے معلوم تھی مگر فلاں فلاں بات تو میرے علم میں نہ تھی۔ یہ صاف گوئی اس بات کا ثبوت تھی کہ طالع نہ صرف علم کا متلاشی تھا بلکہ اسے زندگی میں بہت ساعلم اپنی اس صاف گوئی کے باعث حاصل ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ طالع بہت جلد جماعتی روایات اور جماعتی تاریخ سے خود کو ہر اس ذریعے سے متعارف کرواتا چلا گیا، جو اسے میسر آیا۔ کوئی ذریعہ اسے دسترس سے باہر لگتا، تو اس کے حصول کے لیے جہاں جا سکتا، جاتا۔
طالع کی علم حاصل کرنے کی تڑپ کے ذکر میں ایک بات عرض کرتا چلوں۔ ایک مرتبہ ایک ٹیکسٹ میں طالع نے کسی معاملے کا ذکر کیا۔ میں نےجواب میں اسے لکھا کہ حضرت صاحب نے ایک شعر مجھے بارہا سنایا ہے۔
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
ساتھ ہی میں نے لکھا کہ
’’?Shall I translate if for the Englishman‘‘
(یاد رہے کہ طالع انگلستان میں پیدا ہوا اور بڑا ہوا تھا۔ انگریزی اس کی پہلی زبان تھی۔ یہ جملہ میں نے اس کی سہولت کے لیے مذاق سے لکھا)
طالع نے جواب میں پورے شعر کا ترجمہ بالکل درست لکھا۔ ساتھ ہی اگلا ٹیکسٹ آیا:
’’Just a guess from a humble Englishman‘‘
میں نے اس کے میسج ابھی کھولے اور وہاں سے درج کیے ہیںتا کہ طالع کی یہ بات اسی کے الفاظ میں درج کروں، ہربات کے ساتھ طالع کی کھلکھلاہٹوں کی emojis دیکھ کر دل پر عجیب کیفیت گزرگئی ہے۔ طالع!اللہ ہمیشہ تمہیں ہنستا، کھلکھلاتا رکھے۔
بعض مواقع پر طالع نے کہا کہ جو تاریخی شواہد میں نے اسے پیش کیے ہیں، انہیں انٹرویو کی شکل میں پروگرام کے لیے ریکارڈ کروادوں۔ میں جہاں تک ٹال سکتا تھا، ٹالا۔ یہ تک کہہ کر گویا ڈرایا بھی کہ انگریزی میری زبان نہیں۔ میرا انٹرویو تمہارے پروگرام کے معیارکو گرا نہ دے۔ مگر وہ اپنی بات کا پکا نکلتا۔ وہ جیت جاتا۔میں اس کی ایک دلیل کے آگے ہمیشہ ہار جاتا کہ ’’جو بات ہے وہ حضور کے بارے میں ہے۔ وہ اچھی ہی ریکارڈ ہوگی۔‘‘
میں اس کے اصرار پر بیٹھ جاتا اور وہ اپنا نیلا بیگ کھول کر کیمرہ وغیرہ نکالتا اور ریکارڈنگ کرلیتا۔ اس بات کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ مجھے اس کا ایسی ریکارڈنگز کا طریقہ کار بہت پسند تھا۔
طالع ہمیشہ پورے پروگرام کا خاکہ بھیجتا جس میں نشاندہی کی ہوتی کہ کہاں کون کیا بات بیان کرچکا ہوگا، اور کہاں مجھ سے کیا سوال کیا جائے گا اور پھر یہ بھی کہ اس سوال کا کس طرز پر جواب درکار ہے تا کہ میرے بعد جو صاحب بات بیان کریں گے، وہ بات بھی برمحل رہے۔
میں اس کی اس خوبی کو اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت خیال کرتا رہا۔ مگر درحقیقت یہ اس کی خلافت ہی سے محبت تھی کہ اس نے ہر پہلو سے ہر بات کا بخوبی جائزہ لیا ہوتا۔وہ چاہتا تھا کہ خلافت سے متعلق جو بات ہو، وہ اس عظیم الشان منصب کے شایانِ شان ہو۔اللہ نے عشق میں ڈوبی اس خواہش کا ہمیشہ بھرم رکھا اور اس کے بنائے ہوئے ہر پروگرام نے قبولِ عام کی سند حاصل کی۔
This Week With Huzoor نامی پروگرام سے کون واقف نہیں؟ یہ پروگرام اِس وقت بلا شک و شبہ ایم ٹی اے کا مقبول ترین پروگرام ہے۔ اس پروگرام کی تیاری طالع کی زندگی کی محبوب ترین مصروفیت تھی۔ اس پروگرام کے نام کی طرح طالع کا پورا ہفتہ بھی اسی پروگرام کے گرد گھومتا۔ساتھ دیگر مصروفیات بھی جاری رہتیں، مگر اس کی زندگی کا محور یہی پروگرام تھا۔
طالع جہاں چلا گیا ہے، وہاں اس کے نامہ اعمال میں یہ پروگرام کیا ہی شاندار اندراج ہوگا۔ لاکھوں احمدی اس پروگرام کو بے حد محبت سے دیکھتے ہیں، اور دیکھتے رہیں گے۔ حضرت صاحب کی محبت میں۔مگر ساتھ ہی رہتی دنیا تک اس عاشق کو بھی یاد رکھا جائے گا جو اس پروگرام کی تیاری میں اپنے شب و روز بڑی جانفشانی سے وقف رکھتا۔ طالع! اللہ تمہیں بہت جزادے۔
طالع ایک بڑا ہی زبردست واقفِ زندگی تھا۔ میں نے طالع سے بہت کچھ سیکھا۔ اسے اپنے گھر سے سائیکل پر بیت الفتوح آتے دیکھا۔ تو سیکھا۔ اسے جمعہ کی شام ایم ٹی اے کے ساتھیوں کے ساتھ فٹ بال پر بھی پورے جذبے سے جاتے دیکھا۔ تو سیکھا۔ اسے نیلا بیگ اٹھائے حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشاد فرمودہ گنج ہائے گراں مایہ سمیٹتے دیکھا۔ تو سیکھا۔ ان موتیوں کو پروگرام کی ڈور میں پروتے ہوئے احتیاط اور غور و فکر کرتے دیکھا۔تو سیکھا۔
مگر طالع نے ایک بظاہر چھوٹی سی بات ایسی کی کہ اس میں بہت سے سبق تھے۔
طالع کو جماعتی طور پر جو فلیٹ رہائش کے لیے دیا گیا تھا، وہ اس کے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو جانے کے بعد ایک اور صاحب کے حصے میں آیا۔ طالع مجھے بیت الفتوح میں ملا تو کہنے لگا کہ سنا ہے وہ فلیٹ فلاں صاحب کو الاٹ ہوا ہے۔تب تک میں نے وہ فلیٹ دیکھا نہ تھا۔ طالع نے اس فلیٹ کی بےحد تعریف کی۔ طالع نے بتایا کہ اسے اور اس کی اہلیہ اور بچے کو وہ فلیٹ بہت کافی تھا۔ کشادہ بھی تھا۔ ایک نئے جوڑے کے لیے تو رہنے کے لیے بہت ہی اعلیٰ جگہ ہے۔ یہ بھی کہ اسے یا اس کے اہلِ خانہ کو وہاں کبھی کوئی تنگی نہیں ہوئی۔ یوں میرے ذہن میں اس فلیٹ کی ایک تصویر بن گئی۔اس کے بیان سے میرے تخیل میں ایک بہت بڑا luxury apartment کا نقشہ تیار ہوگیا۔
کچھ ہی روز بعد مجھے اسی بلڈنگ میں اسی طرز کا فلیٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میں صرف اتنا عرض کر دیتا ہوں کہ مجھے طالع کی فراخیٔ نظر، کشادگیٔ فکر اور دریا دلی پر رشک آیا۔ اس کے بیان اور فلیٹ کو ساتھ ساتھ رکھا تو میں نے طالع سےسیکھا کہ ہم جن چیزوں کی تمنا کرتے ہیں، ان کا تعلق ہمارے قلب و نظر سے ہوتا ہے۔ مکان کی مکانیت کا ظاہری حجم کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ایک واقفِ زندگی کےمکان کو گھر تو جذبے اور محبتیں بنایا کرتی ہیں۔
طالع سے میری مختصر سی ملاقاتوں میں مجھے طالع سے سیکھنے کو مل جاتا رہا۔ جو دوست اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارا کرتے، وہ یقیناً طالع کی خوبصورت شخصیت کے بارے میں تفصیل سے لکھ سکیں گے۔
طالع سے میری آخری ملاقات بیت الفتوح میں ہوئی۔ کسی ریکارڈنگ کے لیے ہم نے وقت طے کررکھا تھا۔ اس نے فراخ دلی سے پیش کش کررکھی تھی کہ وہ فارنہم آکر ریکارڈنگ کرلے گا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے بیت الفتوح آنا ہوتا ہی ہے تو وہیں ریکارڈ کرلیں گے۔
خیر! میں بیت الفتوح اپنے دفتر پہنچا اور طالع کو مطلع کردیا کہ میں حاضر ہوں۔ طالع اپنا نیلا بیگ کاندھے پر اٹھائے ہمارے دفتر میں آگیا۔ کبھی اس کونے کو دیکھا، کبھی دوسرے کونے کو۔ پھر کہنے لگا کہ آج سب سٹوڈیو مصروف ہیں۔ مجھے معلوم نہیں تھاورنہ کسی اور دن ریکارڈنگ رکھ لیتا۔
میں نے پوچھا آفتاب خان لائبریری کے بارے میں کیا خیال ہے؟ طالع فوراً لائبریری کی چابی لینے بیت الفتوح انتظامیہ کے پاس چلا گیا۔
کچھ دیر بعد مایوس لوٹا اور بتایا کہ Covid کی پابندیوں کے باعث لائبریری تو بند ہے اور چابی دینے میں انتظامیہ کوانقباض ہے۔ تو ہم یہیں کسی کونے میں کر لیتے ہیں۔
طالع کو اپنے پروگرام کے لیے کی جانے والی یہ ریکارڈنگ سمجھوتے کی نذر ہوتی محسوس ہوئی۔ اسے لگا کہ فلمنگ کامعیار ویسا نہ ہوسکے گا جیسا وہ چاہتا تھا۔ میں نے کہا ایک اور کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔
ہم انتظامیہ کے پاس گئے اور اس شخصی ضمانت کے ساتھ لائبریری کھولے جانے کی درخواست کی کہ ہم اسے اسی حالت میں چھوڑیں گے، جس میں اسے پائیں گے۔ اور حفاظت کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔
یوں جب چابی مل گئی تو طالع کے چہرے پر آنے والی خوشی میری نظروں کے سامنے اِس وقت بھی کئی رنگ بکھیر رہی ہے۔مگر اس بات میں طالع کی شخصیت کا ایک اورقابلِ تقلید پہلو سامنے آتا ہے۔
اسے اپنے پروگرام کے احسن ترین رنگ میں بنائے جانے کی شدید تمنا ہوتی۔ مگر جہاں اسے لگا کہ نظامِ جماعت کی کوئی لکیر کھنچی ہے، وہاں طالع نے بلا تامل اپنے قدم روک لیے۔
پھرجب جائز کوشش سے کام ہوگیا تو جو وعدہ میں نے اور طالع نے مل کر انتظامیہ سے کیا تھا، اسے وفا بھی ہم نے مل کر ہی کیا۔ مگراس میں بھی طالع کاخاص اہتمام نظر آیا۔
جب ہمیں چابی مل گئی تو ہم نے ریکارڈنگ آفتاب خان لائبریری میں کی۔ یہ ریکارڈنگ طالع کی اس ڈاکومنٹری کے لیےتھی جو وہ حضرت سر ظفراللہ خان صاحبؓ پر تیار کررہا تھا۔
یہ ڈاکومنٹری کئی سال سے زیر تکمیل ہے۔ پہلے جن صاحب کے سپرد اس کی ذمہ داری تھی، وہ پوری نیک نیتی سے اس کے لیے بہت سا مواد یکجا کرتے رہے۔ مواد تو بیش بہا تھا ہی، مگر اس میں بہت سا وقت جو لگ گیا وہ بھی کم بیش بہا نہ تھا۔
پھر جب یہ کام طالع کے سپرد ہوا، تو میں نے اس سے مذاق میں کہا کہ خدا کرے کہ ہم اس ڈاکومنٹری کو اپنی زندگی میں پورا ہوتا دیکھ لیں۔
طالع نے میرے اس مذاق کا جواب اپنے مخصوص اوربھرپور قہقہے سے دیا۔
طالع! تم اس روز کس بات پر ہنسے تھے؟
میں تو اسے مذاق کے جواب میں مذاق سمجھا تھا۔ تم تو سنجیدہ نکلے! تم اس کام کو آخری مراحل میں پہنچا کراسے اپنی زندگی میں دیکھے بغیر چلتے بنے۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی؟
آج تمہارے نام آخری text message لکھتا ہوں۔ مگر موبائل پر نہیں۔ یہیں پر۔
’’طالع! تمہیں ہر اس چیز سے محبت تھی جو کسی بھی طرح حضرت صاحب سے منسوب ہوتی ہو۔ محسوس تو ہوتا تھا کہ کسی بھی ایسی چیز کے لیے تم اپنی جان بھی دے سکتے ہو۔ مگر تم تو کمال کے آدمی نکلے۔ غانا کی سرزمین پر جا کر تم نے سوچا کہ میں اس سرزمین کو کیا پیش کروں جہاں کبھی حضرت خلیفۃ المسیح نے اپنے مبارک قدم رکھے تھے اور بہت سا کٹھن وقت گزارا تھا۔
’’تم نے اپنی جان اس سرزمین کے حوالے کردی۔ اس سرزمین کی مٹی کو اپنے خون سے گل رنگ کردیا۔
اور کیا لکھوں؟ تمہاری جان راہِ مولا میں نکلی ہے۔ میں کچھ ایسا نہیں کہنا چاہتا جس میں نوحے کی بو آتی ہو۔ کسی شاعر کا ایک شعر لکھ کر اجازت چاہتا ہوں:
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں
خدا نہ کرد کہ میں تیرا مرثیہ لکھوں
’’ترجمہ تو humble Englishman کر ہی لے گا‘‘
(پس نوشت: آج اس میسج کے ساتھ کوئی emoji نہ بھیجنے پر معذرت۔ مجھے کوئی ایسی ملی ہی نہیں جو میرے جذبات کی عکاسی کرتی ہو)
نوٹ از مصنف:
خاکسار نے یہ مضمون سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا جوجواب موصول ہوا، وہ طالع کی زندگی کا عنوان ہے۔ فرمایا:
’’ابتدا ہی سے میرے ساتھ ہونے والی کلاسوں میں شامل ہونے والوں میں سے تھا۔ جو عہد باندھا تھا۔ نبھا گیا۔ اور حق ادا کردیا‘‘
٭…٭…٭
اس تحریر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک سے استفادہ کیجیے:
اس تحریری تعارف کا شکریہ ۔ جب سے خبر آئی ہے اک رنج کا عالم سوشل میڈیا پر نظر آ رہا تھا اب اسکی وجہ آپ کے مضمون سے مزید واضح ہو گئی ہے۔ یہ سب ڈاکیومنٹریز شہید کے اخلاص اور پروفیشنلزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اللہ انکے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر عطا کرے۔ آمین۔
انا لله وانا اليه راجعون ۔ گلشن مسیح کا یہ خوبرو جوان عین عالم شباب میں اپنے پیاروں کو داغ مفارقت دے گیا، مگر شہادت کا عظیم رتبہ پاکر امر ہو گیا۔یہ مختصر مضمون اس نوجوان میں پائی جانے والی خوبیوں ، اطاعت اور خلافت سے محبت کی مثالوں سے معطر ہے۔ مولاکریم انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس کی رعنائیاں نصیب فرمائے۔ اعلیٰ علّیّین میں بسیرا نصیب ہو۔ خدا تعالیٰ تمام پسماندگان کو یہ سانحہ عظیم ہمت و حوصلے سے برداشت کرنے کی توفیق بخشے اور صبر جمیل عطا فرمائے۔ اور خلافت احمدیہ کو ہمیشہ ایسے سلطان نصیر عطا فرماتا رہے۔
اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
اللہ تعالٰی ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس عظیم قربانی کی لاج رکھنے اور اپنا عہد وفا اسی شان سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین