اسلام کی پیش کردہ توحیدِ خالص
(تقریر بر موقع جلسہ سالانہ یوكے 2021ء)
’’توحید ہمارے پروردگار کو سب سے زیادہ پیاری ہے‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۔ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔
اردو ترجمہ:تُو کہہ دے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ بے احتیاج ہے۔ نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور اُس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا۔
آج میری تقریر کا موضوع ہے۔ ’’اسلام کی پیش کردہ توحید خالص‘‘
سا معین کرام ! چند الفاظ پر مشتمل یہ موضوع معارف کا ایک قلزمِ بیکراں ہے۔اس میں مذہب اسلام کی ایک ایسی خوبی کا بیان ہے جو اس کو ادیان عالم کے مقابل پر بے مثال برتری عطا کرتی ہے۔ اس دقیق اورپر معارف موضوع کا تقاضا ہے کہ ہم ہمہ تن گوش ہو کر اس کو سنیں اور اسلام کی اس خوبی کو پوری گہرائی میں جاکر اپنے دلوں میں جگہ دیں۔
سا معین کرام! الله کا تصور دنیا کے سب مذاہب میں کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے خواہ کسی بالا ہستی کی صورت میں ہو یا کسی بت وغیرہ کی شکل میں۔لیکن مذہب اسلام کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں الله تعالیٰ کی ذات اور صفات کا ایسا جامع اور تسلی بخش بیان ملتا ہے جو دلوں کو حقیقی اطمینان اور کامل عرفان عطا کرتا ہے۔
توحید باری تعا لیٰ کا ثبوت
توحیدِ خالص کے ذکر سے سارا قرآن مجید بھرا پڑا ہے۔ خدا کی ہستی کے زبردست شواہد پیش کرنے کے ساتھ قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی کامل اور خالص توحید کو نہایت واضح الفاظ میں پیش کیا ہے۔اس سلسلے میں بطور مثال صرف پانچ آیات پر مشتمل اکیلی سورت اخلاص میں (جس کی تلاوت ابتدا میں کی گئی ہے )۔نہایت صفائی اور جامعیت کے ساتھ اس مسٔلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
سورت اخلاص کے آغاز ميں قُل کا لفظ رکھ کر اس اہم عقیدے کا ذکرکیا گیا ہےکہ خدا کے متعلق جو قطعی اور یقینی بات ہے وُہ یہی ہے کہ اللّٰهُ اَحَدْاُس کی ذات ایسی ہے کہ ہر رنگ میں اور ہر طرح اپنے وجود میں ایک ہی ہے۔ نہ وہ کسی کی ابتدائی کڑی ہے اور نہ آخری۔ نہ کسی کے مشابہ ہے اور نہ کوئی اس کے مشابہ۔
اس نکتۂ معرفت کی وضاحت کرتے ہوئےحضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں:’’عربی زبان میں دو الفاظ ’’ایک‘‘ کا مفہوم ادا کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ایک وَاحِدْکا لفظ اور دوسرا اَحَدْ ہے۔
…واحد وہ عدد کہلاتا ہے جس سے آگے اورعدد چلتے ہیں یعنی دو۔ تین۔ چار۔لیکن اَحَدْ کا لفظ عربی میں اُس وقت بولاجاتا ہے جب دوسرے عدد کا ذہن میں کوئی مفہوم ہی پیدا نہ ہو۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 524)
پھر ’’اَحَدْ اور وَاحِدْ کے الفاظ جو الله تعالیٰ کی ذات کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان میں ایک فرق یہ ہے کہ جب الله تعالیٰ کے لئے احد کا لفظ استعمال ہوتو وہ الله تعالیٰ کی ذات کی وحدانیت بیان کرتا ہے۔دوسری کسی ذات کا خیال بھی دل میں نہیں آتا۔ اور جب الله تعالیٰ کے لئے واحد کا لفظ استعمال کیا جائےتو وہاں صفات کی وحدانیت مراد ہوتی ہے یعنی وہ اپنی صفات میں کامل ہے اور اس کے سوا کوئی اور وجود نہیں جو صفات کے لحاظ سے کامل ہو۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 525)
ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام
اللہ تعالیٰ نے امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت خاتم النبیینﷺ کی کامل متابعت کی برکت سے اسلامی تعلیمات کا بے مثال عرفان عطا فرمایا تھا۔ اسلام کی پیش کردہ توحیدِ خالص کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو پُرمعرفت ارشادات بیان فرمائے ہیں ان میں سے چند ایک بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔
آپؑ فرماتے ہیں:’’توحید ہمارے پروردگار کو سب سے زیادہ پیاری ہے‘‘(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16صفحہ 256)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ؐہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اُس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اُس کی تاثیرِقدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہوچکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا ‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 115)
پھر آپؑ نے بیان فرمایا:’’ہمارے نبیﷺ اظہار سچائی کے لیے ایک مجدد ِاعظم تھے جو گم گَشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبیﷺ کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپؐ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا‘‘
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 206)
حقیقی توحید کی وضاحت فرماتے ہوئے فرمایا:’’توحید صرف اِس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے، یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے، ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔ بُت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں اور اُن پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بُت ہے‘‘
پھر آپؑ نہایت عارفانہ انداز میں توحیدِ خالص کا بیان اس طرح فرماتے ہیں:’’یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس، یا اپنی تدبیر اور مکر وفریب ہو، منزّہ سمجھنا اور اُس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی مُعِز اور مُذِلْ خیال نہ کرنا۔کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا۔ خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی مددگار نہ ہو۔ اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اُسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلّل اُسی سے خاص کرنا۔اپنی امیدیں اُسی سے خاص کرنا۔ اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا۔پس کوئی توحید بغیر اِن تین قسم کی تخصیص کے، کامل نہیں ہو سکتی۔
وہ تین باتیں کون سی ہیں:
اوّل ذات کے لحاظ سے توحید۔ یعنی یہ کہ اُس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا۔اور تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا۔
دوم صفات کے لحاظ سے توحید۔یعنی یہ کہ ربوبیت اورالوہیت کی صفات بجزذات ِباری کسی میں قرار نہ دینااور جو بظاہر ربّ الانواع یا فیض رسان نظر آتے ہیں یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا۔
تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید۔ یعنی محبت وغیرہ شِعار ِعبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننااور اسی میں کھوئے جانا‘‘۔
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 349۔350)
سامعین کرام! جیسا کہ ذکر ہو چکا ہےتوحیدِ باری تعالیٰ کا مضمون بہت گہرا اور عمیق ہے۔اس پر گہرے تدبر اور غوروفکرکی ضرورت ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہميں بار بار عارف باللہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پر حکمت ارشادات کی طرف جانا ہو گا۔ چند مزید ارشادات پیش کرتا ہوں جن سے توحید ِحقیقی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بصیرت افروز روشنی پڑتی ہے۔سماعت فرمايئے! آپؑ فرماتے ہیں:’’توحید صرف یہی نہیں ہے کہ الگ رہ کر خدا کو ایک جاننا۔… بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ عملی رنگ میں یعنی محبت کے کامل جوش سے اپنی ہستی کو محو کرکے خداکی وحدت کو اپنے پر وارد کر لینا، یہی کامل توحید ہے جو مدارِ نجات ہے جس کو اہلُ اللہ پاتے ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21 صفحہ64)
دلی محبت سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اے نادانو! جب تک خدا کی ہستی پر یقین کامل نہ ہو اُس کی توحید پر کیونکر یقین ہو سکے۔ پس یقیناًسمجھو کہ توحیدِ یقینی محض نبی کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے دہریوں اور بد مذہبوں کو ہزار ہا آسمانی نشان دکھلا کر خدا تعالیٰ کے وجودکا قائل کر دیا …بات یہی سچ ہے کہ جب تک زندہ خدا کی زندہ طاقتیں انسان مشاہدہ نہیں کرتا، شیطان اُس کے دل میں سے نہیں نکلتا اور نہ سچی توحید اُس کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ یقینی طور پر خداکی ہستی کا قائل ہو سکتا ہے۔ اور یہ پاک اور کامل توحید صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے ملتی ہے۔‘‘
(حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ121)
توحیدِ خالص کی پر معارف تشریح
سامعین کرام! خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ مذہبِ اسلام کی جان ہے۔اسلام کی پیش کردہ توحیدِ خالص کا گہرا علم اور فہم و اِدراک جو خدائے علیم و خبیراور معلمِ کُل جہان نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمایا وہ ہمارے لیےعظیم راہ نما ہے۔آئیے آپ کی زبان ِمبارک سےایک بار پھر اسلام کی پیش کردہ توحید ِخالص کا مفہوم جانتے ہیں۔آپؑ فرماتے ہيں:’’خدا نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کوئی اس کا بیٹا ہے۔کیونکہ وہ غنی بالذّات ہے۔ اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی۔یہ توحیدہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدارِ ایمان ہے‘‘
(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 155)
پھر حضرت مسیح پاک ؑنے حقیقی توحیدکو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ’’وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں۔اور اُس تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے‘‘
(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 311)
توحید کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:’’توحید اس کا نام نہیں کہ صرف زبان سے کلمہ شہادت کہہ لیا۔ بلکہ توحید کے یہ معنی ہیں کہ عظمت ِالٰہی بخوبی دل میں بیٹھ جاوے اور اس کے آگے کسی دوسری شئے کی عظمت دل میں جگہ نہ پکڑے۔ ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون کا مرجع اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو سمجھا جاوے اور ہر ایک امر میں اُسی پر بھروسہ کیا جاوے کسی غیر اللہ پر کسی قسم کی نظر اور توکُّل ہرگز نہ رہے اور خدا تعالیٰ کی ذات میں اور صفات میں کسی قسم کا شرک جائز نہ رکھا جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد 3صفحہ 230، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی آمد کا مقصد کیا تھا۔ آپؑ کے اپنے الفاظ میں سنیئے:’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306۔307)
حضرت مصلح موعود ؓکے ارشادات
علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے والے وجودحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر کبیر میں اسلام کی پیش کردہ توحید ِخالص کو مختلف جہات سے خوب واضح فرمایا ہے۔ چند نِکات معرفت پیش کرتا ہوں۔
قرآن مجید کے متعلق آپؓ فرماتے ہیں :’’ توحید کا ایسا واضح بیان کسی دوسری کتاب میں نہیں‘‘(تفسیر کبیرجلد دہم صفحہ 517)
پھر فرمایا:’’سب انبیا ؑکا مشترکہ مشن اشاعتِ توحید تھا خواہ وہ نبی کسی ملک میں پیدا ہوا ہو۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 506)
مزید فرمایا:’’حقیقت یہی ہے کہ توحید مذہب کی جان ہے۔ اگر کوئی شخص توحید کو اچھی طرح سمجھ لے تو مذہب کا بہت سا حصہ اُس پر روشن ہو جاتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 383)
’’اسلام کے سوا کوئی مذہب دنیا میں ہے ہی نہیں جو توحیدِکامل کوپیش کرتا ہو!‘‘(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 395)
’’ہر نبی دنیا میں توحید کے قیام کے لئے مبعوث ہوتا ہے لیکن رسول کریمﷺنے جس رنگ میں توحید کو قائم کیا ہےاور جو جذبۂ غیرت الله تعالیٰ کی توحید کے متعلق آپ کے اندر پایا جاتا تھا اس کی مثال کسی نبی میں ہمیں نظر نہیں آتی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ340)
’’توحید کا عقیدہ اس دنیا کی آبادی کی بنیاد ہے‘‘(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 518)
یہ ایک پر معارف ارشاد ہے جو غوروفکر کے لائق ہے۔
توحید ِخالص کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ کے پُر معارف فقرات جن میں دقیق نِکاتِ حکمت و دانش بیان ہوئے ہیں۔ان میں سے چنداور فقرات بطور نمونہ پیش کرتا ہوں جو پوری توجہ سے گہرے غوروفکر کے متقاضی ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:
٭…مسلمانوں میں اخوت توحید کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
٭…توحیدِ کامل کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔
٭…توحید ِباری تعالیٰ کے نکتہ پر ہی تمام مذاہب کا اتحاد ممکن ہے۔(تفسیر کبیر جلد 7)
پھر آپؓ فرماتے ہیں:
٭…توحید مذہب کی جان ہے۔
٭…توحید رحمانیت کا منبع ہے۔
٭…توحیدِکامل کا نتیجہ توکّلِ کامل ہوتا ہے۔
٭…پہلے توحید کو سمجھنا چاہئے اس کے بعد دعائےکامل پیدا ہو گی۔
٭…کامل توحید والے کو صرف خدا تعالیٰ پر توکّل کرنا چاہئے۔
٭…خالص توحید پر قائم ہونے والا انسان جنّت میں داخل ہو جا تا ہے۔
٭…توحید کا نقش قدرت کی ہرچیز میں رکھا ہوا ہے۔
(تفسیر کبیر جلد 10)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعدد خطابات اور خطبات جمعہ میں توحید ِخالص کے مضمون کو بہت کھول کھول کر بیان فرمایا ہے۔ اس کا ایک نمونہ پیش کرتا ہوں۔ ایک خطبہ جمعہ میں آپ فرماتے ہیں :’’حضرت محمد مصطفیٰ صلی ا للہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خالص توحید کے قیام کے لئے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا۔اور بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے ایسے انتظامات فرمادئيے کہ آپ ؐ کے دل کو صاف، پاک اور مصفّٰی بنا دیا۔ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اندر اپنی محبت اور شرک سے نفرت کا بیج بو دیا۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’خدائے واحد کی محبت کا ایک جوش تھا جس نے آپ ؐ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون چھین لیا تھا۔ اگر کوئی تڑپ تھی تو صرف ایک کہ کسی طرح دنیا ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جائے، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننےلگ جائے۔ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے آپؐ کو تکلیفیں بھی برداشت کرناپڑیں، سختیاں بھی جھیلنی پڑیں۔لیکن یہ سختیاں، یہ تکلیفیں آپؐ کو ایک خدا کی عبادت اور خدائےواحد کا پیغام پہنچانے سے نہ روک سکیں۔‘‘
آپ مزید فرماتے ہیں:’’پھر آپؐ کی جوانی کا زمانہ دیکھیں کس طرح ایک غار میں جاکر ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ آپؐ غار حرا میں کئی کئی دن گزارتے۔ علیحدگی میں اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتے، اس کی عبادت کرتے۔یہ دیکھ کر آپؐ کے ہم قوم بھی کہنےلگ گئے عَشِقَ مُحمدٌ رَبَّہ کہ محمد(ﷺ) تو اپنے رب کا عاشق ہو گیا ہے۔
پھر زمانہ ٔنبوت شروع ہوا تو آپؐ کے چچا نے جب کفار کے خوف سے آپؐ کو اللہ تعالیٰ کے پیغام کے اظہار سے روکنے کی کوشش کی تو اس عاشقِ صادق نے کیا خوبصورت جواب دیاِ، کہ اے میرے چچا ! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں طرف چاند بھی لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا۔یہاں تک کہ خدا اس کو پورا کردےیا خود مَیں اس میں ہلاک ہو جاؤں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍فروری 2005ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے الفاظ میں یوں فرمایا ہے:’’بلال بن رباح، امیہ بن خلف کے ایک حبشی غلام تھے امیہ اُن کو دوپہر کے وقت جبکہ اوپر سے آگ برستی تھی اور مکہ کا پتھریلا میدان بھٹی کی طرح تپتا تھاباہر لے جاتا اور ننگا کرکے زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گرم پتھر ان کے سینے پر رکھ کر کہتا: لات اور عزّیٰ کی پرستش کر اور محمد سے علیحدہ ہو جا، ورنہ اسی طرح عذاب دے کر ماردوں گا۔ بلالؓ زیادہ عربی نہیں جانتے تھے۔ بس صرف اتنا کہتے :اَحد اَحد یعنی اللہ ایک ہے۔ اور یہ جواب سن کر امیہ اور تیز ہوجاتااور ان کے گلے میں رسہ ڈال کر انہیں شریر لڑکوں کے حوالہ کر دیتااور وہ ان کو مکہ کے پتھریلے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے ان کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر ان کی زبان پر سوائے اَحد اَحدکے کوئی اور لفظ نہ آتا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ان پر یہ جَو روستم دیکھا تو ایک بڑی قیمت پر خرید کر انہیں آزاد کر دیا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ 140)
اور یوں یہ پروانۂ توحید خوشی خوشی توحید باری تعالیٰ کے عظیم ترین علمبردار کی غلامی میں آکر سیدنا بلالؓ بن گیا!
رسول پاکؐ کی حیات مبارکہ میں
توحيدِ خالص کے ایمان افروز نظارے
حضرات ! ہمارےپیارے آقا حضرت خاتم الانبیاءؐ کی مقدس زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جس میں تعلق باللہ اور توحید کے حوالے سے روح پر ورنظارے جگمگاتے نظر آتےہیں۔ آپ کی مبارک زندگی میں توحید خالص کی محبت اور غیرت کے حوالے سے بھی ایسے ایسے نمونے نظر آتے ہیں جو دلوں کو رسول پاکؐ کی محبت سے کناروں تک بھر دیتے ہیں۔ آئیےذرا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں جاکررسول مقبولؐ کے نقوشِ پاسےاپنےدلوں اور آنکھوں کومنور کرنے کی سعادت حاصل کریں!
رسولِ خداؐکی پشت پر گوشت کا ابھرا ہوا ایک ٹکڑا تھا۔ ابورمشہ کے والد نے نبی کریمؐ سے کہا کہ آپ کی پشت پر جو ابھار سا ہےمجھے دکھائیں۔ میں طبیب ہوں اس کو علاج سے دور کردوں گا۔ رسولِ خداﷺ نے یہ بات سن کر توحید کی بے پناہ غیرت سے فرمایا کہ اصل طبیب تو الله کی ذات ہے اس ٹکڑے کا طبیب بھی وہی ہے جس نے اسے پیدا کیاہے! (ابوداؤد)
رسول کریمؐ کی ہر بات کی تان توحید الٰہی اور عظمت باری کے بیان پر ختم ہوتی تھی۔ ایک بار آپ کی تیز رفتار اونٹنی ایک اعرابی کی اونٹنی کے مقابل میں پیچھے رہ گئی۔ اس موقع پر آپؐ نے کیا ہی عمدہ تبصرہ فرمایا کہ الله تعالی ہی ہے جو کسی چیز کو اونچا کرتا ہے اور کبھی نیچا بھی کرتا ہے۔ سب سے اونچی ذات خدا تعالیٰ کی ہے!(ابوداؤد)
سبحان اللہ !توحید خالص کا کیا ہی خوبصورت بیان ہے!
توحید باری تعالیٰ کے لیے رسول مقبولﷺ کی غیرت کا معراج غزوۂ احد کے اُس واقعہ میں نظر آتا ہے جب مسلمانوں کی عارضی پسپائی کے دوران آپؐ نے احد پہاڑ کے دامن میں ایک تنگ سی جگہ میں پناہ لی۔ ابو سفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا کہ ہم نے محمدﷺ کو مار دیا ہے۔ رسول پاکﷺ نے اس تعلّی کا کوئی جواب نہ دیا۔ یہی حکمت کا تقاضا تھا۔ اس پر ابو سفیان نے کہا ہم نے ابوبکر ؓ کو بھی ماردیا ہے۔ رسول پاکؐ نے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیا جائے۔ پھر ابو سفیان نے آواز دی کہ ہم نے عمر ؓ کو بھی مار دیا ہے۔ رسول پاک ؐنے اس پر بھی خاموش رہنے کا حکم دیا۔ اب کفار کو یقین ہوگیا کہ ہم نے میدان مار لیا ہے اس پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے خوشی میں نعرہ لگایا اُعلُ ھبل اُعْلُ ھبل کہ ہمارے بت ھبل کی شان بلند ہو !
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر وہی رسولِ خداﷺ جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکر کی موت کے اعلان پر اور عمر کی موت کے اعلان پر اپنے ساتھیوں کو خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے، اب جب کہ خدائے واحد کی عزّت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان سے بلند کیا گیا تو توحیدِ خالص کی غیرت سے آپ کی روح بیتاب ہوگئی اور آپؐ نے صحابہ سےفرمایا تم لوگ اس تعلّی کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے کہا یارسولَ اللہ! ہم کیا کہیں۔ فرمایا کہ تم کہو کہ اللّٰہ اعلیٰ واجل۔ اللّٰہ اعلیٰ واجل۔ کفار کو بتا دو کہ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ھبل کی شان بلند ہوئی ہے۔ سنو ! وحدہ لاشریک خداہی معزز ہے اور اسی کی شان بلند و بالا ہے۔
اس طرح آپﷺ نے اپنی جان کا خطرہ مول لیتے ہوئےتوحیدِ خالص کا نعرہ بلند فرمایا۔اس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا کفار کے لشکر پر اتنا گہرا اثر ہواکہ وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کرسکا!
توحیدِ خالص کی خاطر غیرت کا یہ نمونہ تاریخ عالَم میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں توحید الٰہی کی یہی محبت اور اس کے لیے غیرت کا شاندار نمونہ اس واقعہ میں ملتا ہے کہ ایک بار آپ کو شدید سردرد کی شکایت ہوئی۔ ہر ممکن علاج کیا گیا لیکن آرام نہ آسکا۔ ایک ماہر حکیم کو دور سے بلایا گیا۔ وہ آیا اور دیکھ کر کہنے لگا کہ کوئی فکر نہ کریں دو دن میں آرام کر دوں گا۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے یہ مشرکانہ بات سنی تو فرمایا کہ میں اس حکیم سے ہر گز کوئی علاج نہیں کروانا چاہتا۔ کیا وہ اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے؟ جس قدر رقم علاج کے لیے اس سے طے کی گئی تھی اس سے زیادہ دے دی اور اسے واپس بھجوا دیا۔ فرمایا: اصل شافیٔ مطلَق ہمارا خدا ہے!
سامعین کرام ! اسلام کے ذریعہ دنیا میں توحید ِ خالص کا قیام ہوا۔خلافت راشدہ کے بعدگمراہی اور ضلالت کا ایک لمبا دور آیا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ذریعہ توحیدِ خالص کا ازسرِنو قیام ہوا جو خلافت احمدیہ کے سایہ میں روز بروز وسیع تر ہوتا جارہا ہے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام میں ملتا ہے۔ چند اشعار سماعت فرمائیں۔
توحیدِ خالص کے پاکیزہ اثرات کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
کہتے ہیں تثلیث کو اب اہلِ دانش اَلْوِدَاع
پھر ہوئے ہیں چشمۂ توحید پر از جاں نِثار
آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا
دِل ہمارے ساتھ ہیں گو مُنہ کریں بک بک ہزار
مجھ کو خود اس نے دیا ہے چشمۂ توحیدِ پاک
تا لگاوے از سرِ نو، باغِ دیں میں لالہ زار
سامعین کرام! اسلام کی پیش کردہ توحید خالص کے بارے میں چند امور پیش کرنے کے بعد تقریرکے آخر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد پیش کرنا چاہتا ہوں جو ہم سب کو بہت ہی غور سے سن کرحرزِ جان بنانا ضروری ہے۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ فرمایا تھا کہ
خُذُوْا التَوْحِیْدَ التوحیدَ یَااَبْنَاءَ الفارس۔
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1صفحہ267)
یعنی اے ابنائے فارس! توحید کو مضبوطی سے پکڑو۔ ابنائے فارس سے مراد صرف آپ کا خاندان ہی نہیں ہے بلکہ تمام جماعت روحانی لحاظ سے ابنائے فارس کے ماتحت آتی ہے اور یہ حکم تمام جماعت کے لیے ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ مصیبت کے وقت انسان کسی خاص چیز کو پکڑتا ہے۔ فرمایا کہ تم مصائب کے وقت توحید کو پکڑ لیا کرو کہ اس کے اندر باقی تمام چیزیں ہیں۔ پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ماٹو کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍ اگست 1936ءمطبوعہ خطبات محمود جلد17 صفحہ 570تا 571)
سامعین کرام! قیام توحیدکے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا پر اپنی تقریر کا اختتام کرتا ہوں۔
آپؑ فرماتے ہیں:’’بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ اے قادر خدا ! اے اپنے بندوں کے رہنما۔ جیسا تو نے اس زمانہ کو صنائع جدیدہ کے ظہور و بروز کا زمانہ ٹھہرایا ہے ایسا ہی قرآن کریم کے حقائق و معارف ان غافل قوموں پر ظاہر کر اور اب اس زمانہ کو اپنی طرف اور اپنی کتاب کی طرف اور اپنی توحید کی طرف کھینچ لے۔ کفر اور شرک بہت بڑھ گیا اور اسلام کم ہوگیا۔ اب اے کریم! مشرق اور مغرب میں توحید کی ایک ہوا چلا اور آسمان پر جذب کا ایک نشان ظاہر کر۔ اے رحیم! تیرے رحم کے ہم سخت محتاج ہیں۔ اے ہادی! تیری ہدایتوں کی ہمیں شدید حاجت ہے۔ مبارک وہ دن جس میں تیرے انوار ظاہر ہوں۔ کیا نیک ہے وہ گھڑی جس میں تیری فتح کا نقارہ بجے۔ توکّلنا علیک و لا حول و لا قوّۃ الّا بک و انت العلیّ العظیم۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5صفحہ 213تا214،حاشیہ در حاشیہ)
وآخر دعواناان الحمد للّٰہ رب العالمینَ