بغداد کی فتح پر چراغاں اور احمدیوں کی اہم عہدوں پر بھرتی کی حقیقت (قسط اوّل)
یہ ایک عجیب فتح تھی جس میں کئی دہائیوں تک فاتح خود اپنی فتح کی تفصیلات چھپانے کی کوششیں کرتے رہے
1974ءمیں پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ نے دوسری آئینی ترمیم کے ذریعہ قانون اور آئین کی اغراض کے لیے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا انوکھا فیصلہ کیا۔اور اُس وقت سے اب تک جماعت احمدیہ کے مخالفین اس فیصلےکو اپنی عظیم الشان فتح قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک عجیب فتح تھی جس میں کئی دہائیوں تک فاتح خود اپنی فتح کی تفصیلات چھپانے کی کوششیں کرتے رہے یعنی اس مسئلہ پر قومی اسمبلی کی جو خصوصی کمیٹی قائم کی گئی تھی اور جس کمیٹی کی کارروائی کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی قیادت میں جماعت احمدیہ کے وفد نے اپنا موقِف پیش کیا تھا،اس کی روداد کو خفیہ رکھا گیا۔
جب ایک عدالتی حکم پر یہ کارروائی شائع کی گئی تو اس میں جماعت احمدیہ کا موقف جو کہ ایک محضرنا مہ اور اس کے ضمیموں کی صورت میں پیش کیا گیا تھا وہ شامل ہی نہیں کیا گیا۔دوسرے الفاظ میں قومی اسمبلی کی طرف سے صرف یک طرفہ موقف شائع کیا گیا۔اس کے بعد جماعت احمدیہ کی طرف سے اس پر ایک تبصرہ ’’خصوصی کمیٹی میں کیا گزری ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔اس کتاب میں اس کارروائی کی حقیقت، مخالفین جماعت کے دلائل اور ان کی طرف سے پیش کردہ حوالوں پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ اس کی اشاعت کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ان نکات کا کوئی جواب تو شائع نہیں کیا گیا لیکن قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کو شائع کرتے ہوئے اس کے دیباچہ میں اللہ وسایا صاحب نے اس کتاب کو تمسخر، پھبتیوں اور بد کلامیوں کا مجموعہ قرار دیا۔ اور لکھا کہ حاشیوں میں جو تبصرے کیے گئے ہیں وہ اس کتاب ’’خصوصی کمیٹی میں کیا گزری ‘‘کے مصنف کو منہ لگائے بغیر کیے گئے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ کسی وجہ سے اللہ وسایا صاحب اس کتاب میں اُٹھائے گئے نکات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتے۔
(قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ مرتبہ اللہ وسایا صاحب ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت صفحہ18و 19)
الاعتصام میں شائع ہونے والا مضمون
اب اتنے سالوں بعد ہفت روزہ الاعتصام میں ابو صہیب داؤد ارشد صاحب کا تحریر کردہ مضمون ’’کتاب خصوصی کمیٹی میں کیا گزری ؟ پر ایک نظر‘‘کے نام سے کئی قسطوں میں شائع ہونا شروع ہوا ہے۔اس رسالے کے سرورق پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ رسالہ اہلحدیث فرقہ کا ترجمان ہے۔اس مضمون کی دس اقساط شائع ہو چکی ہیں۔ مضامین کے اس سلسلہ کے آغاز میں داؤد ارشد صاحب لکھتے ہیں:’’کتاب میں موصوف نے جی بھر کے اپنے دل کے بخارات نکالے ہیں، چنانچہ پوری قومی اسمبلی اور ان میں شامل دیگر افراد کی توہین و تذلیل میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔حالانکہ تاریخ کی یہ امانت اب شائع ہو چکی ہے جس کو پڑھ کر تقابلِ ادیان کا طالب علم بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ قومی اسمبلی کی بحث میں کیا ہوا تھا ؟
ڈاکٹر مرزا سلطان کی مکمل کتاب کا جواب تو اس مقالہ میں ممکن نہیں البتہ ہم چند مغالطات کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی مبتدی کے لئے یہ کتاب باعث تشویش نہ ہو کیونکہ موصوف نے تاریخ کے عنوان پر حقائق کو مسخ کیا ہے اور اپنے عقائد و نظریات کی غلط تعبیر کی ہے اور بسا اوقات ان کے انکار پر ہی اصرار کیا ہے۔
زیر بحث کتاب میں بیان شدہ مغالطات کا خلاصہ یہ ہے :
1۔ اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار پر الزام کہ انہوں نے غیر متعلقہ باتیں کیں۔
2۔ اٹارنی جنرل نے غلط حوالے دیئے۔
3۔کلمہ گو کو غیر مسلم قرار نہیں دیا جا سکتا
4۔ اپنے مسلمہ عقائد و افکار سے بڑی ڈھٹائی سے انکار کیا۔
5۔ مرزا کی مزعومہ اسلامی خدمات پیش کیں۔
6۔ امت مرحومہ پر زوال انکار مرزا سے ہے
7۔ من گھڑت روایت کی بھرمار اور علما امت پر افترا۔‘‘
(الاعتصام 28؍مئی تا 3؍جون 2021ء صفحہ9)
پڑھنے والے یہ توقع کر رہے ہوں گے کہ اس مضمون میں ان امور پر تبصرہ کیا جائے گا اور داؤد ارشد صاحب اس کتاب میں درج دلائل کا رد کریں گے۔ لیکن افسوس مضمون نگار نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ اسی راستہ پر چلنا شروع کر دیا جس پر 1974ء میں سپیشل کمیٹی کے اراکین نے چلنا شروع کیا تھا اور ملک کو موجودہ حالات تک پہنچا دیا۔
بغداد کی فتح پر چراغاں
انہوں نے یہ پرانا الزام دہرایا کہ مرزائیت انگریزوں کا پروردہ ٹولا ہے۔ اور اپنی طرف سے اس کی یہ دلیل پیش کی کہ برصغیر میں برطانوی دَورِ حکومت میں قادیانی اس کے خاصے قریب تھے اور ان کا شمار جی حضوریوں کی فہرست میں سب سے بلند مقام پر ہوتا تھا، حتیٰ کہ چیف جسٹس محمد منیر وغیرہ نے قطعی طور پر لکھا ہے کہ’’جب جنگ عظیم اوّل میں [جس میں ترکوں کو شکست ہوئی تھی] بغداد میں 1918ء میں انگریزوں کا قبضہ ہوگیا اور قادیان میں اس فتح پر جشن مسرت منایا گیا تو مسلمانوں میں شدید برہمی پیدا ہوئی اور احمدی انگریزوں کے پٹھو سمجھے جانے لگے۔‘‘
مضمون نگار نے صحیح لکھا ہے کہ 1953ء کے فسادات پر بننے والی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ جب 1918ء میں اتحادی افواج نے بغداد پر قبضہ کیا تو قادیان میں چراغاں کیا گیا اور اس کے نتیجے میں احمدیوں کے خلاف جذبات بھڑک اُٹھے۔لیکن اس کا کوئی ثبوت درج نہیں کیا گیا۔بہرحال اس الزام کا تاریخی جائزہ تو لینا چاہیے کہ 1918ء میں قادیان میں بغداد میں ترکوں کی شکست پر چراغاں کیوں کیا گیا ؟
واضح رہے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل بغداد اور کئی عرب ممالک ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے ماتحت تھے۔اس جنگ کے دوران جب سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی تو یہ ممالک اس سلطنت سے علیحدہ ہو گئے۔ تاریخی حقائق کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ ایک بناوٹی الزام ہے۔ کیونکہ اگر ہم بالفرض یہ مان بھی لیں کہ 1918ء میں کسی روز قادیان میں چراغاں کیا گیا تھا تو وہ بہر حال بغداد کی فتح پر نہیں ہو سکتا کیونکہ اتحادی افواج 11؍مارچ 1917ء کو ہی بغدادپر قابض ہو چکی تھیں۔تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ احمدیوں کو ایک ڈیڑھ سال بعد خیال آیا کہ چلو اَب چراغاں کر کے اس قبضے کا جشن مناتے ہیں۔
بغدا د کی فتح اور اہل حدیث
اس طرح یہ الزام کہ1918ء میں قادیان میں بغداد کی فتح پر چراغاں کیا گیا تھا درست نہیں ہو سکتا۔ لیکن بارہا اس بات کا تجربہ ہوا ہے کہ جب جماعت احمدیہ کے مخالفین میں سے کوئی اس قسم کا غلط الزام جماعت احمدیہ پر لگا رہا ہو تو اس کا مقصد صرف احمدیوں پر ایک الزام لگانا نہیں ہوتا بلکہ ایک اَور مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ماضی میں اپنے کسی فعل پر پردہ ڈالا جائے۔اس تجربے کی بنا پر خاکسار کو یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ جائزہ لیں کہ جب 1917ء میں اتحادی افواج بغداد پر قبضہ کر رہی تھیں تو اس وقت ہندوستان میں اہل حدیث احباب کا کیا رد عمل تھا اور ان کی کیا سرگرمیاں منظر عام پر آ رہی تھیں۔ کیا یہ گروہ برطانوی حکومت کے خلاف عَلم جہاد بلند کر رہا تھا یا معاملہ اس کے بر عکس تھا۔اس غرض کے لیے اہل حدیث احباب کے مشہور رسالے ’’اہلحدیث ‘‘ کا جائزہ لیا گیا کیونکہ اس کے مدیر جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب تھے۔چنانچہ ان سرگرمیوں کا اندازہ 2؍مارچ 1917ء کو شائع ہونے والے اہلِحدیث کے شمارے سے ہو گیا۔ اس شمارے میں شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ ہو۔ اس خبر کا عنوان یہ تھا :
’’وفدِ اہلحدیث گورنمنٹ کے حضور‘‘
یہ عنوان کافی دلچسپ تھا۔ جب نیچے درج خبر پڑھی تو اس میں لکھا ہوا تھا :’’ضرورت محسوس ہوئی کہ گورنمنٹ کی خدمت میں اہلحدیث وفد حاضر ہو کر عرض معروض کرے تا کہ کسی قسم کی بد گمانی اگر ہو تو دور ہو جائے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل اصحاب کا وفد 2 فروری کو 11 بجے دن کے مسٹر فرنچ ایڈشنل سیکریٹری گورنمنٹ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔‘‘
اس وفد میں کون کون شامل تھا؟ اس میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب، مولوی ثنا ءا اللہ امرتسری صاحب اور مولوی دائود غزنوی صاحب بھی شامل تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وفد میں جماعت احمدیہ کے چوٹی کے مخالفین شامل تھے۔ اس وفد نے برطانوی حکومت کی خدمت میںکیا عرض معروض کی ؟ اس کے متعلق اہلحدیث کی اس خبر میں لکھا ہے:’’صاحب بہادر بڑی خوش خلقی سے ملے۔دو گھنٹے ہر ایک سے بخندہ پیشانی گفتگو کرتے رہے۔ جو جس نے عرض کیا سنا اور جواب دیا۔
مختلف مضامین پر بحث ہوتی رہی۔ وفد کی زیادہ توجہ تین باتوں پر تھی۔
(اول) فرقہ اہلحدیث بحیثیت فرقہ گورنمنٹ کا وفادار ہے۔‘‘
(اہلحدیث 2؍جون، نمبر 17 جلد 14 صفحہ 11)
سوچنے کی بات ہے کہ احمدیوں پر یہ اعتراض ہے کہ جب اتحادی فوجوں نے سلطنت عثمانیہ کی افواج کو شکست دے کر بغداد پر قبضہ کیا تو قادیان میں چراغاں کیا گیا۔اور یہ اعتراض اہلحدیث احباب کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب برطانوی افواج ترک افواج کو شکست دے کر بغداد پر قبضہ کرنے کے قریب پہنچ رہی تھیں تو اس وقت اہلحدیث احباب برطانوی افسران کے حضور حاضر ہو کر عرض معروض کر کے اپنی وفاداری کا یقین دلا رہے تھے۔گویا اپنے ماضی کے اس گوشے پر پردہ ڈالنے کے لیے احمدیوں پر الزام لگانے کا مجرب نسخہ استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہلحدیث احباب کا یہ اظہار وفاداری صرف زبانی عرض معروض تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ اسی جریدے نے برطانوی حکومت کی یہ عملی خدمت بھی سرانجام دی کہ انہی فرنچ صاحب ایڈیشنل سیکرٹری پنجاب کی طرف سے ’’ اہلحدیث‘‘ میں یہ نمایاں اعلان شائع کیا گیا۔اس کا عنوان یہ تھا ’’سپاہ تحفظ ہند میں بھرتی ہونے والوں کے لئے گورنمنٹ آف انڈیا کا اعلان۔‘‘اس میں یہ تحریک کی گئی تھی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ رضا کار کے طور پر برطانوی فوج میں بھرتی ہوں۔
(اہلحدیث 11؍مئی 1917؍ نمبر27 جلد 14 صفحہ10)
اس کے بعد قادیان میں فرضی چراغاں پرا عتراض کرنا ایک بے معنی بات ہے۔رہی بات بغداد پر قبضہ کی تو اس یہ عرب ممالک میں اتحادی افواج کی مہم کا ایک حصہ تھا۔اور یہ ساری مہم مقامی عرب قبائل اور عرب سرداروں کی مدد سے چلائی جارہی تھی۔ اس میں شریف مکہ کا خاندان بھی شامل تھا۔کیا یہ تمام عرب قبائل اور سردار احمدی تھے۔ نہیں۔ ان میں سے بھاری اکثریت سنی فرقہ سے تعلق رکھتی تھی۔اس کے علاوہ جن برطانوی افواج نے بغداد پر قبضہ کیا ان میں ایک بڑی تعداد ہندوستان سے بھرتی کیے گئے تھے۔اور ہندوستان سے بھرتی کیے گئے فوجیوں میں خاطر خواہ فوجی مسلمان تھے۔ان میں احمدیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔بھاری اکثریت انہی مسالک سے تعلق رکھتی تھی جن کے مولوی صاحبان آج احمدیوں پر یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ انہوں نے بغداد پر قبضہ ہونے کی خوشی میں چراغاں کیا تھا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قبضہ انہی مسالک کے لوگوں کی مدد سے کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پران برطانوی افواج میں شامل Egyptian Expeditionary Force میں ایک تہائی مسلمان تھے۔سلطنت عثمانیہ کے فوجی افسران نے کافی کوشش کی کہ برطانوی افواج میں شامل مسلمانوں کو اپنے افسران سے بغاوت پر مجبور کیا جا ئے لیکن اس میں انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔اور جب ہندوستان کے مسلمانوں کی بھرپور وفاداری اور جان نثاری کے نتیجہ میں برطانوی افواج نے سلطنت عثمانیہ کو شکست دے دی تو اس کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں نے تحریک خلافت کا آغاز کیا۔
(https://www.wilsonquarterly.com/quarterly/fall-2014-the-great-wars/forgotten-soldiers-india-in-great-war/)
ان حقائق کی موجودگی میں یہ اعتراض کہ اس موقع پر قادیان میں کوئی فرضی چراغاں ہوا تھا نا قابل فہم ہے۔
برطانوی حکومت کا ایڈووکیٹ کون تھا؟
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ رسالہ الاعتصام اہل حدیث احباب کا ترجمان ہے۔اس لیے ایک سوال قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ تھا تو کیا اس وقت بھی اہل حدیث کے ترجمان رسائل یہ الزام جماعت احمدیہ اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر لگا رہے تھے کہ ان لوگوں سے بچ کر رہو یہ لوگ انگریز حکمرانوں کے قریب ہیں اور ان کی جی حضوری کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک زندگی کے دوران مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب آپ کے اشد ترین دشمن تھے۔اور مولوی صاحب کا رسالہ اشاعۃ السنہ تو گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کے لیے وقف تھا۔اور یہ اس وقت اہلِ حدیث احباب کا سب سے مشہور رسالہ سمجھا جاتا تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اہل حدیث فرقہ کے نمایاں قائدین میں شمار ہوتے تھے۔خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے بعد کے سالوں میں کسی اور جریدے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں اتنا زور نہیں لگایا ہو گا جتنا مولوی صاحب کے رسالے نے لگایا تھا۔ اگر اس الزام میں کچھ بھی حقیقت ہے تو یقینی طور پر اس وقت اشاعۃ السنہ میں بھی یہی الزام بڑی شد و مد سے لگایا گیا ہوگا۔
جب ہم نے ان سالوں میں شائع ہونے والے اشاعۃ السنہ کے شماروں کا جائزہ لیا تو اس میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی یہ تحریر ملی۔اس تحریر میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں یہ گستاخانہ عبارت تحریر کرتے ہیں:’’اور ایسی دھمکیوں اور تخویفات مجرمانہ کی نظر سے جو گورنمنٹ اس کے لئے رسہ تیار کر رہی ہے۔(چنانچہ اسی کے دلال و حواری)مشہور کر رہے ہیں۔وہ جلد اس کے گلے میں نہ ڈال دے۔مگر اس احمق کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ یہ گورنمنٹ کرم سنگھ کی طرح بیوقوف نہیں ہے کہ وہ اس کو اس کی جھوٹی خوشامد سے اپنا خیر خواہ سمجھ لے گی اور اس کو بری کر دے گی۔گورنمنٹ کو خوب معلوم ہے اور گورنمنٹ اور مسلمانوں کے ایڈووکیٹ اشاعۃ السنہ نے گورنمنٹ کو بارہا جتا دیا ہوا ہےکہ یہ شخص درپردہ گورنمنٹ کا بد خواہ ہے اور یہ گورنمنٹ اور دیگر مخالفین مذہب کے حق میں اپنی کتاب آئینہ کمالات کے صفحہ 601 میں صاف کہہ چکا ہے کہ نا فرمان کا مال اور اس کی جان اس کے ملک سے خارج ہو کر خدا کے ملک میں داخل ہو جاتے ہیں۔پھر خدا تعالیٰ کو اختیار ہوتا ہے کہ اگر چاہے تو بلاواسطہ رسولوں کے ان کے مال کو تلف کرے۔اور ان کی جانوں کو معرض عدم میں پہنچا دے۔(یعنی ہلاک کرے) اور یا کسی رسول کے واسطے سے یہ تجلی قہری (ہلاکت) نازل کرے(یعنی انکو تلف کرادے) جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے جملہ مخالفین مذہب کے مال و جان کو گورنمنٹ خواہ ہو معصوم نہیں جانتا۔ اوران کو تلف کرنے کے فکر میں ہے۔دیر ہے تو صرف جمعیت و شوکت کی دیر ہے۔‘‘
(اشاعۃ السنہ نمبر 5 جلد 8 صفحہ 152)
اس حوالے سےتو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اہل حدیث برطانوی حکومت کو مخبریاں کر رہے تھے کہ یہ شخص حکومت کا دشمن ہے اور صرف جمعیت و شوکت جمع کر رہا ہے تا کہ گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کرے۔اور اہل حدیث کے لیڈر اپنے آپ کو گورنمنٹ کا وکیل قرار دیتے تھے۔اور گورنمنٹ کے حکام کے پاس جا کر کہتے تھے کہ اس شخص نے تو اپنی کتابوں میں برملا حکومت کے خلاف عزائم کا اظہار کیا ہے۔اور بڑے فخر سے اہل حدیث کا یہ رسالہ یہ اعلان کر رہا تھا کہ گورنمنٹ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گرفت کرنے کے لیے ایک رسہ تیار کر لیا ہے۔
اب اہلِ حدیث خود فیصلہ کر کے مشتہر کر دیں کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی صحیح ہے۔ اگر وہ الزام درست ہے جو کہ اب جماعت احمدیہ کے مخالفین آج کل لگاتے ہیں کہ نعوذباللہ بانی سلسلہ احمدیہ انگریزوں کے پروردہ اور ان کے ایجنٹ تھے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اُس دَور میں اہل حدیث کے لیڈر جھوٹ بول رہے تھے۔ اگر وہ الزام درست تھے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب لگا رہے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین اب جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہماری الاعتصام میں مضامین کے اس سلسلہ کو لکھنے والے صاحب سے درخواست ہے کہ وہ راہ نمائی فرمائیں کہ ان دونوں میں سے کون سی بات صحیح ہےتا کہ دنیا جان سکے کہ حقیقت میں کس نے جھوٹ بولا تھا۔
جب عدالت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مارٹن کلارک والے مقدمے میں بری کیا تو اس موقع پر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اس پر یہ تبصرہ کیا :’’ہر چند کادیانی اس مقدمہ میں الزام قتل سے بری کیا گیا ہے۔مگر مجسٹریٹ ضلع نے اس کے مشن کو اس سے چھین لیا۔اور اس کی نبوت کو ختم کر دیا۔‘‘
(اشاعۃ السنہ نمبر 9 جلد 18 صفحہ 257)
اس حوالے سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک زندگی کے دوران مخالفین سلسلہ اس بات پر خوشیاں منا رہے تھے کہ انگریز حکام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایسے اقدامات اُٹھا رہے ہیں جن کے نتیجے میں سلسلہ احمدیہ کی ترقی رک جائے گی۔اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ یہ پودا خدا کا لگایا ہوا تھا اس لیے کسی سلطنت کے حکام اس کی راہ میں روک نہیں بن سکتے تھے۔
احمدیوں کی اہم عہدوں پر فرضی بھرتی
اس کے بعد مضمون نگار نے سلسلہ احمدیہ کے مخالفین کے ایک اور پسندیدہ موضوع کی طرف رخ کیا۔ اور وہ موضوع یہ تھا کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کی ذات کو نشانہ بنایا جائے۔ یہ اعتراض مضمون نگار کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے:’’چوہدری ظفر اللہ (پاکستانی وزیر خارجہ ) اور اس جیسے دیگر گماشتوں کی پالیسیوں نے بھی عوامی حلقے میں جلتی کا کام کیا۔
ہوا یوں کہ وزارت خارجہ کی سیٹ قادیانیوں کی ایک باندی ہو کر رہ گئی۔جس علاقے میں کوئی مرزائی افسر ہوتا، وہاں قادیانی دندناتے پھرتے، حتیٰ کہ سرکاری ملازمتوں اور کالجوں و یونیورسٹیوں میں داخلے بھی ترجیحی بنیادوں پر ہونے لگے۔اس کے بر عکس کسی عالم دین نے خطبہ جمعہ میں شریفانہ طریقے سے بھی ختم نبوت وغیرہ مسائل پر روشنی ڈالی تو اسے دھر لیا جاتا۔‘‘
اب ہم اس بارے میں حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔اس حوالے کے اندر ہی تضاد پایا جاتا ہے۔اعتراض یہ ہے کہ جب چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تو وزارتِ خارجہ قادیانیوں کی باندی بن کر رہ گئی۔ حتیٰ کہ سرکاری ملازمتوں میں بھی قادیانیوں کو ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کیا جانے لگا۔اگر وزیر خارجہ یہ ظلم کر رہے تھے تو احمدیوں کو وزارتِ خارجہ میں بڑی تعداد میں بھرتی ہونا چاہیے تھا۔لیکن اس کے بعد ذکر کیا گیا ہے کہ مختلف علاقوں میں احمدی سرکاری افسر مقرر ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں علاقائی سرکاری افسران کو وزارت خارجہ نہیں بلکہ اس صوبے کی حکومت مقرر کرتی ہے۔ اور سب سے زیادہ احمدی صوبہ پنجاب میں آباد تھے۔اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ گواہ ہے کہ اس وقت پنجاب کی حکومت خود رشوتیں دے کر اور دوسرے غیر قانونی ذرائع استعمال کر کے جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کو بھڑکا رہی تھی اور خود وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ صاحب اس کام میں سب سے پیش پیش تھے۔
یہ شور 1953ء کے فسادات کے دوران اور اس سے قبل بھی مچایا جا رہا تھا کہ احمدیوں کو دھڑا دھڑ کلیدی اسامیوں پر بھرتی کیا جا رہا ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ کسی احمدی کو کلیدی اسامی پر مقرر کیا جائے۔اور جب تحقیقاتی عدالت میں الزام پیش کیا گیا تو عدالت نے سوال کیا کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کے علاوہ اور کون سا احمدی کسی کلیدی اسامی پر مقرر ہے تو اتنے سال یہ بے بنیاد الزام لگانے کے با وجود مخالفین جماعت کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا کہ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کے علاوہ اور کوئی احمدی کسی کلیدی اسامی پر کام نہیں کر رہا۔ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے:’’کیونکہ چودھری ظفر اللہ خان کے سوا کوئی احمدی کسی کلیدی عہدے پر فائز نہیں ہے۔‘‘
اور عدالت نے جماعت اسلامی کے ایک لیڈر امین احسن اصلاحی صاحب سے یہ سوال کیا کہ وہ کسی اور احمدی کا نام لیں جو کہ کسی کلیدی عہدے پر فائز ہو تو انہوں نے جو جواب دیا اس کے بارے میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے:’’ مولانا امین احسن اصلاحی سے سوال کیا گیا کہ جب احمدیوں کو کلیدی عہدوں سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو ان سے کون سے دوسرے عہدے مراد ہیں۔ تو وہ کسی ایسے عہدے کا نام نہ لے سکے جس پر کوئی احمدی فائز ہو۔‘‘
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953صفحہ262)
اسی سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ الزام محض ایک بے بنیاد افسانہ تھا۔ الزام لگانے والوں کو اس کا موقع دیا گیا کہ وہ اس کی کوئی ایک مثال پیش کریں لیکن ان کے پاس پیش کرنے کے لیے ایک مثال بھی موجود نہیں تھی۔
اب اس الزام کا تجزیہ کرتے ہیں کہ اس وقت یہ حالات ہو گئے تھے کہ اگر کوئی مولوی صاحب کسی خطبہ جمعہ میں شریفانہ طرز پر ختم نبوت کا ذکر بھی کر دیتے تو انہیں گرفتار کر لیا جاتا۔
مضمون نگار نے خود تحقیقاتی عدالت کا حوالہ پیش کیا ہے، اس لیے ہم بھی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کی روشنی میں اس الزام کو پرکھیں گے۔ تحقیقاتی عدالت میں یہ ثابت ہوا تھا کہ اس وقت پنجاب میں یہ حالات ہو چکے تھے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین علی الاعلان احمدیوں کو قتل کرنے کی ترغیب دے رہے تھے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی تھی۔اس نام نہاد ’’ شریفانہ طرز‘‘ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
پاکستان بننے کے بعد شبیر عثمانی صاحب کا تحریر کیا ہوا رسالہ ’’الشہاب‘‘ دوبارہ شائع کیا گیا۔اس میں احمدیوں کو واجب القتل قرار دیا گیا تھا۔ اور احراری مقررین اپنے جلسوں میں بار بار اس کے اشتعال انگیز حوالے پڑھنے لگے۔یہاں تک کہ اپریل 1950ء میں کمپنی باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ ہوا جس میں تمام مقررین نے یہ اپیل کی کہ لوگ ’’الشہاب‘‘ خرید کر پڑھیں۔پولیس افسران نے حکومت کو مطلع کیا کہ اس کے نتیجے میں لوگ مشتعل ہو کر احمدیوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے۔وزارت داخلہ پاکستان نے بھی رائے دی کہ اس رسالے کو ضبط کر لیا جائے لیکن پنجاب حکومت کے افسران نے اس کو ضبط کرنے سے انکار کر دیا۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953صفحہ18و19)
اور ان سالوں کے دوران کس قسم کی شریفانہ تقاریر کی جا رہی تھیں اس کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1952ءمیں صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین نے ایک سرکلر جاری کیا کہ جو حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کا گلا کاٹے گا وہ جنت میں جائے گا۔ اور راولپنڈی میں ایک جلسہ میں نعرے لگائے گئے کہ ظفر اللہ خان کو قتل کیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ہی احمدیوں کی املاک اور جانوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ ہیں اس شریفانہ طرز عمل کے کچھ نمونے جس کا ذکر اتنے فخر سے رسالہ الاعتصام میں کیا جارہا ہے۔مضمون نگار تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں یہ تفصیلات پڑھ کر اپنی تسلی فرما سکتے ہیں۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953صفحہ50)
اور علماء یہ مہم مفت میں نہیں چلا رہے تھے۔انہیں اُس وقت کی حکومت پنجاب سرکاری فنڈز سے رشوت مہیا کر رہی تھی۔ چنانچہ اس غرض کے لیے ایک ’’ محکمہ اسلامیات ‘‘بنایا گیا۔ اور جو چوٹی کے علماء جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک چلا رہے تھے انہیں اس محکمہ سے فنڈز مہیا کیے گئے۔اس کی تفصیلات ناموں سمیت تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں شامل ہیں۔
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953صفحہ88)
ان دو الزامات کے بارے میں نہایت اختصار سے یہ چند حقائق پیش کیے گئے ہیں۔اگر مضمون نگار کو ان کے بارے میں مزید تفصیلات سننے کا حوصلہ ہوا تو ہم نہایت انکسار سے مزید خدمت کے لیے حاضر ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ اقساط میں لگائے گئے دیگر الزامات پر تبصرہ کیا جائے گا۔
٭…٭(جاری ہے)٭…٭