کیا احمدیوں کے مقدس مقامات اور کلمہ مختلف ہے؟ کیا امت مسلمہ نے صرف مسیح کی آمد ثانی کے بعد گمراہ ہونا تھا؟ (قسط دوم)
اس صورت حال میں جبکہ عالم اسلام میں اتنے اندرونی اختلافات موجود ہیں تو کس طرح ان اندرونی جھگڑوں کا فیصلہ ہونا تھا؟
اسی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو حکم اور عدل بنا کر مبعوث کرنا تھا۔
مناسب ہوتا اگر دائود ارشد صاحب 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی پر اپنے نظریات کا اظہار کرتے یا پھر کتاب ’’ قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں کیا گذری‘‘ میں اُٹھائے گئے نکات اور سوالات کی طرف توجہ فرماتے لیکن ان کی تحریر کے آغاز سے ہی یہ تاثر ملنا شروع ہوجاتا ہے کہ وہ کسی وجہ سے اس موضوع سے گریز کر رہے ہیں۔اور وہ بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگا کر پڑھنے والوں کے ذہن کو جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ خود اپنے ہی بنائے ہوئے جال میں پھنستے گئے۔
مقدس مقامات کا احترام
محمد دائود ارشد صاحب ایک ایسا اعتراض ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت قائم کی اور اس کے لیے دعا کی اور میں مدینہ کی حرمت قائم کرتا ہوں ۔جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت قائم کی …
اس کے بر عکس ایک قادیانی کی ارادت مندی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس سے وابستہ افراد و خاندان اور مقامات سے ہے ۔فکر و نظر اور محبت کے محور مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ دینی و دنیوی لحاظ سے اتفاق و اتحاد مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔‘‘
(الاعتصام 28؍مئی تا 3؍جون2021ءصفحہ10)
اس اعتراض کا مطلب واضح ہے۔جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا تعلق ہے یا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بلند مقام کا تعلق ہے تو اللہ کے فضل سے احمدی سب سے زیادہ عرفان کے ساتھ ان کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں۔لیکن ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگ جس ہستی کو بھی مقدس سمجھتے ہیں اس سے اور اس کی پیدائش یا رہائش کے مقام سےعقیدت رکھتے ہیں ۔ اور یہ رویہ صرف احمدیوں تک محدود نہیں ۔
مسلمانوں کے تمام فرقے بہت سی شخصیات سے عقیدت رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت نہیں رکھتے ۔مسلمانوں کے اکثر فرقے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ دوسرے مقامات سے عقیدت رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مکہ اور مدینہ کا احترام نہیں کرتے۔
مثال کے طور پریہ روایت بھی بیان کی گئی ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو خانہ کعبہ کی زیارت کا شوق تھا۔ اسی حالت میں آپ نے ایک کشف ملاحظہ فرمایا :’’تمام عالم، فرشتے، جن سب کی سب مخلوق نماز میں مشغول ہیں اور سجدہ آپ کی طرف کر رہے ہیں۔حضرت اس کیفیت کو دیکھ کرمتوجہ ہوئے۔توجہ میں ظاہر ہوا ۔کعبہ معظمہ آپ کی ملاقات کے لیے آیا ہے اور آپ کے وجود با جود کو گھیرے ہوئے ہے۔اس لیے نماز پڑھنے والوں کا سجدہ آپ کی طرف ہوتا ہے۔اسی اثناء میں الہام ہوا کہ تم ہمیشہ کعبہ کے مشتاق تھے۔ہم نے کعبہ کو تمہاری زیارت کے لیے بھیج دیا ہے۔اور تمہاری خانقاہ کی زمین کو بھی کعبہ کا رتبہ دے دیا ہے۔جو نور کعبہ میں تھا اس نور کو اس جگہ امانت کر دیا ہے ۔ اس کے بعد کعبہ شریف نے خانقاہ مبارک میں حلول کیا۔‘‘
(حدیقیہ محمودہ ترجمہ روضہ قیومیہ از ابو الفیض کمال الدین سرہندی مطبع بلید پریس فرید کوٹ پنجاب صفحہ 68)
مضمون نگار کے مطابق چونکہ احمدیوں کی وابستگی اور عقیدت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام یعنی قادیان سے بھی ہے اس لیے ان کے ساتھ کسی قسم کا دینی یا دنیاوی اتحاد ناممکن ہے۔ اوپر درج کیا جانےوالا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی کے ان پیروکاروں کے نزدیک تو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کا مقام خانہ کعبہ جتنا تھا۔اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پھر اہل حدیث احباب کے نزدیک حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پیروکاروں کے ساتھ بھی کسی قسم کا دینی یا دنیاوی اتحاد نہیں ہو سکتا۔ اگر ان کا فلسفہ قبول کیا جائے تو پھر امت مسلمہ میں انتشار اور باہمی تکفیر کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔
اب اس طرح کی ایک اور مثال پیش ہے۔شیعہ احباب کی روایات کے مطابق کربلا کا مقام بھی حرم کا ہے بلکہ حرم اور خانہ کعبہ سے بھی افضل ہے۔ یہ روایات ملاحظہ ہوں :’’کیا زیارت حسین کی اتنی فضیلت ہے ؟ آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اگر میں تمہیں اس زیارت کی فضیلت بتا دوں اور ان کی قبر کی فضیلت بتا دوں تو تم حج چھوڑ دو ۔ اور تم میں سے کوئی بھی حج نہ کرے۔تیرے لیے افسو س، کیا تجھے معلوم نہیں اللہ نے مکہ کو حرم بنانے سے پہلے کربلا کو امن والا بابرکت حرم حسین کی قبر کی وجہ سے بنایا …
کعبہ کی زمین نے کہا: میرے مثل کون ہے ۔ اللہ نے اپنا گھر میری پشت پر بنایا اور میری طرف لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اور مجھے اللہ کا حرم اور جائے امن بنایا گیا تو اللہ نے اس کی طرف وحی کی کہ تو رک اور ٹھہر جا میری عزت اور جلال کی قسم جو فضیلت میں نے کربلا کی زمین کو دی ہے وہ فضیلت میں نے کسی بھی زمین کو نہیں دی اور جو فضیلت زمین کے کسی اور ٹکڑے کو دی ہے اس کی نسبت کربلا سے ایسی ہے جس طرح سمندر میں سوئی ڈبو کر نکال لی جائے۔‘‘
(کامل الزیارات تالیف ابو القاسم جعفر بن محمد مترجم سید اقرار حسین زیدی پبلشر ولایت مشن پبلیکیشنز مئی 2011ءصفحہ594و595)
اس حوالے سے صاف ظاہر ہے کہ شیعہ روایات میں کربلا کی زمین کو خانہ کعبہ سے بھی بہت افضل قرار دیا گیا ہے۔ بلاشبہ احمدی قادیان کو ایک مقدس مقام سمجھتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں پیدا ہوئے اور اسی مقام پر آپؑ رہائش پذیر رہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں کہیں پر قادیان کی ان الفاظ میں فضیلت بیان نہیں کی گئی جن الفاظ میں ان حوالوں میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ اور کربلا کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ہماری دائود ارشد صاحب سے درخواست ہے کہ وہ وضاحت فرمائیں کہ کیا ان کے نزدیک جو احباب ان مقامات کے لیے یہ بلند مقام بیان کرتے ہیں ، ان سے ان کا کوئی دینی اور دنیاوی اتحاد ممکن ہے؟
اسی طرح دائود ارشد صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کیونکہ قادیانیوں کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور ان سے وابستہ افراد سے عقیدت ہے اس لیے ہم ان سے کوئی دنیاوی اور دینی اتحاد نہیں پیدا کر سکتے۔بظاہر اس کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے خلفاء کے علاوہ اور کسی سے عقیدت کا تعلق ہے تو اس سے مضمون نگار اور ان کے ہمنوا احباب کا کوئی تعلق ممکن ہی نہیں ہے۔
احمدیت کی دشمنی کا نتیجہ دہشت گردی
یہاں پر قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اپنے عقیدے کے مطابق حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور امام مہدی کا ظہور ہونا ہے۔دائود ارشد صاحب وضاحت فرمائیں کہ ان کے ظہور کے بعد اگر کوئی مسلمان ان مقدس ہستیوں سے عقیدت رکھے گا تو کیا ان کے نزدیک یہ اتنا بڑا جرم ہوگا کہ اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے؟ میرا مشورہ ہے کہ فاضل مضمون نگار کچھ وقت نکال کر حضرت شیخ فریدالدین عطار کی تصنیف کردہ تذکرۃ الاولیاء اور سیر الاولیاء کا مطالعہ کریں۔بیسیوں اولیائے کرام کو عقیدت کا محور قرار دیا گیا ہے ۔ کیا دائود ارشد صاحب کے نزدیک اس قسم کے خیالات رکھنے والے بھی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اور شیعہ احباب کا یہ عقیدہ معروف ہے کہ تمام ائمہ اہل بیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیاء سے افضل ہیں اور ان کی اطاعت فرض ہے ۔ کیا دائود ارشد صاحب کے نزدیک شیعہ احباب سے بھی کسی قسم کا دنیاوی اور دینی اتحاد نہیں ہو سکتا ؟
احمدیت کی دشمنی میں جب اس قسم کی سوچ کو پروان چڑھایا گیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیا یہ دشمنی صرف جماعت احمدیہ تک محدود رہی؟ اس سوچ کو پروان چڑھایا گیا کہ اگر کوئی مکہ اور مدینہ کے علاوہ کسی جگہ سے عقیدت رکھے تو یہ کفر ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں پاکستان کے دہشت گردوں نے بہت سے بزرگوں کے مزاروں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور ان کے احترام اور خدمات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے مزاروں پر بھی حملے کیے گئے۔2005ءاور 2017ءکے درمیان پاکستان میں 16؍مزاروں اور خانقاہوں پر حملے کیے گئے۔اور اس طرح پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔یہاں تک کہ ملک میں ستر ہزار معصوم شہریوں کا خون بے دردی سے بہایا گیا۔کیا ان حقائق سے انکار کیا جا سکتا ہے؟
(Barelvi Political Activism and Religious Mobilization in Pakistan: The Case of Tehreek-e-Labaik Pakistan (TLP) byAbdul Basit. )
کیا احمدیوں کا کلمہ مختلف ہے؟
اس کے بعد دائود ارشد صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کی کہ نعوذُ باللہ احمدیوں کا کلمہ باقی مسلمانوں سے مختلف ہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب احمدیوں کا کلمہ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُالرَّسُوْلُ اللّٰہ نہیں ہے تو ہم انہیں کس طرح مسلمان تسلیم کر لیں۔
اس لیے مضمون نگار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی تقریر کا یہ اقتباس پیش کیا :’’غیر احمدی مسلمان ہم پر مختلف اعتراض کرتے ہیں، وہ ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ ان کا کلمہ اور ہے ۔ معنوی لحاظ سے ان کا یہ اعتراض درست ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارا کلمہ اور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا کلمہ اور ہے۔‘‘
(الاعتصام 28؍مئی تا 3؍جون 2021ء صفحہ11)
اوّل تو لفظ ’’ معنوی ‘‘ ہی یہ واضح کر دیتا ہے کہ یہاں یہ ذکر نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ جو کلمہ طیبہ پڑھتی ہے اس کے الفاظ باقی مسلمانوں کے کلمہ طیبہ سے مختلف ہیں۔ لیکن ملاحظہ فرمائیں مضمون نگار نے کس دیدہ دلیری سے حق کو پوشیدہ رکھنے کے لیے نصف حوالہ درج کیا ہے۔اس کے بعد اس تقریر کے الفاظ یہ ہیں:’’لفظی لحاظ سے نہیں کیونکہ لفظی لحاظ سے ہمارا کلمہ وہی ہے جو دوسرے مسلمانوں کا ہے۔لیکن معنوی لحاظ سے ان سے ہمارا بڑا اختلاف ہے ایک غیر احمدی لاالہ الاللہ کہنے کے باوجود ایک قبر پر جا کر سجدہ کر لیتا ہے۔اور سمجھتا ہے کہ اس کا ایسا کرنا لا الہ الا اللہ کے خلاف نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قبر پر سجدہ کرنا تو کجا اپنی تدبیر پر توکل کرنا بھی لاالہ الا اللہ کے خلاف ہے ۔‘‘
(مشعل راہ جلد دوئم ، صفحہ17)
یہ بات واضح ہے کہ مضمون نگار نے آدھی بات لکھ کر بد دیانتی سے غلط الزام لگانے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ اگر دائود ارشد صاحب کو اس اقتباس میں بیان کردہ پر معرفت نکتہ سے اختلاف ہے تو ہمت کر کے الاعتصام میں اپنا یہ اعلان شائع کروادیں کہ میرے نزدیک قبر پر سجدہ کرنا لا الہ الا اللہ کے اعلان کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
اگراحمدیوں کا کلمہ مختلف ہے تو پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مخالفین احمدیوں کی مساجد سے کلمہ طیبہ مٹانے کے لیے ہاتھ پائوں کیوں مارتے رہتے ہیں؟
کیا امت مسلمہ نےصرف مسیح موعود کی آمد کے بعد گمراہ ہونا تھا؟
اس کے بعد مضمون نگار نے اس مضمون کی پہلی قسط میں پہلے یہ بحث چھیڑی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کا ایک گروہ ہمیشہ ہدایت پر قائم ہوگا۔اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مجددین بھیجتا رہاہے تاکہ دین کی تجدید ہو اور لوگ وساوس اور غلط عقائد سے نجات پائیں۔اور ظاہر ہے کہ مہدی و مسیح کی آمد کے بعد وہی گروہ ہدایت پر ہو گا جو مسیح و مہدی کا پیروکار ہو گا۔
لیکن اس کے بعد وہ یہ عجیب نظریہ پیش کرتے ہیں کہ امت مسلمہ میں گمراہی صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ثانی کے بعد آئے گی اور اس سے پہلے یہ امت خیر القرون یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہترین تین صدیوں کے بعد سے لے کر ہدایت پر ہی رہے گی ۔ دائود ارشد صاحب لکھتے ہیں:’’3۔ امت مرحومہ خیرالقرون سے لے کرزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام تک ہدایت پر رہے گی ۔
4۔امت مرحومہ میں گمراہی نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے گی۔‘‘
(الاعتصام 28؍مئی تا 3؍جون 2021ء صفحہ14)
اوّل تو یہ نظریہ ویسے ہی خلاف عقل ہے کیونکہ انبیاء اور مامورین اسی وقت مبعوث ہوتے ہیں جب گمراہی پھیل رہی ہو ۔ اگر تمام امت ہدایت پر قائم تھی تو پھر ایک نبی کی بعثت کی کیا ضرورت تھی ؟ دوسرے عقل اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے قبل تو امت ہدایت پر تھی ان میں گمراہی نہیں پھیلی لیکن ان کی بعثت کے بعد بجائے اس کے کہ امت کی حالت پہلے سے بہتر ہوتی ، امت گمراہ ہو گئی۔ اگر یہ نظریہ قبول کیا جائے تو اس سے نعوذُ باللہ ایک نبی کی بعثت عبث بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ دائود ارشد صاحب یہ دعویٰ پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی نظریہ کی تائید فرمائی تھی ۔ اور دلیل کے طور پر وہ حضرت مسیح موعود کی تصنیف تریاق القلوب کا یہ حوالہ پیش کرتے ہیں:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی دو حدیں مقرر کر دی ہیں اور فرما دیا ہے کہ وہ امت ضلالت سے محفوظ ہے جس کے اوّل میں میرا وجود اور آخر میں مسیح موعود ہے، یعنی ایک طرف وجود با جود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیوار روئین ہے اور دوسری طرف وجود با برکت مسیح موعود کی دیوار دشمن کش ہے ۔‘‘
(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 478)
اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ امت مسلمہ کبھی عیسائیوں کی طرح مکمل طور پر گمراہی کا شکار نہیں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس امت کی اصلاح کے لیے مسیح موعود کو مبعوث کرے گا۔لیکن اس اقتباس سے یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جا سکتا کہ ان دو زمانوں کے درمیان امت مسلمہ میں کسی قسم کی گمراہی نہیں پھیلے گی ۔ اگر مضمون نگار روحانی خزائن کے اسی صفحہ کو مکمل طور پر پڑھ لیتے تو اس غلط نتیجے پر نہ پہنچتے ۔ کیونکہ اسی صفحہ پر یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اس سیاہ دَور میں ہوئی ہے جب دنیا حقیقی اور روحانی انسانوں سے خالی ہو چکی تھی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی صفحے پر تحریر فرماتے ہیں :’’سو یہ زمانہ جو آخر الزمان ہے۔ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو حضرت آدم علیہ السلام کے قدم پر پیدا کیا جو یہی راقم ہے اور اس کا نام بھی آدم رکھا ۔ جیسا کہ مندرجہ بالا الہامات سے ظاہر ہے ۔ اور پہلے آدم کی طرح خدا نے اس آدم کو بھی زمین کے حقیقی انسانوں سے خالی ہونے کے وقت میں اپنے دونوںہاتھ جلالی اور جمالی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح پھونکی ۔ کیونکہ دنیا میں کوئی روحانی انسان موجود نہ تھا جس سے یہ آدم روحانی تولّد پاتا۔‘‘
(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15 صفحہ477تا 478)
حیرت ہے کہ یہ رسالہ اہل حدیث کا ترجمان کہلاتا ہے اور اس میں ایسا دعویٰ شائع کیا گیا ہے جو صریحاًاحادیث نبویہؐ کے خلاف ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں باربار یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ آپؐ کے مبارک زمانے کے بعد ابتدائی صدیوں کےگذرنے کے بعد امت مسلمہ پر فتنوں اور حقیقی اسلام سے بھٹکنے کا دور آئے گا ۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں ، پھر جو ان کے بعد والے پھر جو ان کے بعد والے ہیں…پھر ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو بن بلائے گواہی دینے کو آن موجود ہوں گے اور امانت میں خیانت کریں گے ، ان کا کوئی بھروسہ نہیں کرے گا اور نذر اور منت مانیں گے لیکن اسے پورا نہیں کریں گے ۔ خوب کھا پی کر موٹے بنیں گے ۔‘‘
( صحیح بخاری کتاب الرقاق )
اور احادیث میں بیان کیا گیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور مسیح ؑکی آمد سے قبل کی فیج اعوج کی صدیاں آئیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ان زمانوں کے درمیان ایک کج رو جماعت پیدا ہو گی۔ اس زمانے کے لوگ میرے میں سے نہیں ہوں گے اور نہ میں ان میں سے ہوں ۔‘‘
(مرقاۃ المفاتیح اردو شرح مشکوۃ المصابیح للامام محمد بن عبد اللہ الخطیب تبریزی مترجم رائو ندیم جلد یاز دہم ناشر مکتبہ رحمانیہ صفحہ 726)
ملاحظہ فرمائیں کہ الاعتصام کے مضمون نگار نے ایسا غلط دعویٰ پیش کیا ہے جو سراسر احادیث نبویہؐ کے خلاف ہے ۔اور اس بنا پر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ پر اعتراض کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دائود ارشد صاحب اپنے مضمون میں تسلیم کر تے ہیں کہ مہدی اور مسیح کا ظہور ایک ہی زمانے میں ہو گا ۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ احادیث میں یہ پیشگوئی پائی جاتی ہے کہ مہدی کا ظہور گمراہی اور ظلمت کے دَور میں ہو گا۔جیسا کہ کتاب الفتن کی یہ احادیث معروف ہیں:
’’حضرت مہدی علیہ السلام نہیں نکلیں گے یہاں تک کہ تاریکی نہ پھیل جائے۔‘‘
’’حضرت مہدی علیہ السلام نہیں نکلیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے کھلم کھلا کفر نہ ہونے لگے ۔‘‘
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مہدی علیہ السلام نہیں نکلیں گے یہاں تک کہ تم ایک دوسرے کے منہ پر تھوکنے نہ لگو۔‘‘
(کتاب الفتن باب آخر من علامات المہدی فی خروجہ مرتبہ نعیم بن حماد مترجم ابو بکر البغدادی ناشر العلم ٹرسٹ اپریل 2015ءصفحہ348و349)
اور خود اہل حدیث کے علماء یہ تسلیم کرتے آئے ہیں کہ امت مسلمہ میں فتنوں کا دَور مسیح موعود ؑکی آمد سے قبل ظاہر ہو چکا ہے۔جیسا کہ نو رالحسن خان صاحب تحریر کرتے ہیں:’’ستر برس کی ابتداء بعثت سے ہے انتہاء موت معاویہ رضی اللہ عنہ پر ہے معاویہ کے بعد فتنہ دعاۃ ضلال کا کھڑا ہوا یعنی جو اب تک موجود ہے رات دن بڑھتا رہتا ہے ستر برس کے معنے یہ ہیں کہ حالت مذکور سے ہمیں ڈرایا ہے …جس دن سے اس امت میں یہ فتنے واقعہ ہوئے پھر یہ امت یہ ملت نہ سنبھلی اس کی غربت اسلام کی کمیابی روز افزوں ہوتی گئی یہاں تک کہ اب اسلام کا صرف نام قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران۔ علماء اس امت کے بد تر ان کے ہیں جو نیچے آسمان کے ہیں انہیں سے فتنے نکلتے ہیں انہیں کے اندر پھر کر جاتے ہیں ۔‘‘
(اقتراب الساعۃ مصنفہ نورالحسن خان طبع مفید عام آگرہ 1301 ہجری صفحہ 12)
یہ ایک حوالہ واضح کر دیتا ہے کہ خود اہل حدیث کے علماء اس بات کا اقرار کرتے چلے آئے ہیں کہ احادیث میں یہ پیشگوئیاں بیان ہوئی ہیں کہ مسیح موعود کی آمد سے قبل امت مسلمہ میں فتنے پھیل جائیں گے اور مسلمان راہ راست کو ترک کردیں گے۔اور اس صورت حال کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو مبعوث کرے گا۔ لیکن اس کے باوجود اب صرف احمدیت کی دشمنی میں الاعتصام کے یہ مضمون نگار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ پیشگوئیوں کا انکار کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ صاحب اپنے مضمون کی اس قسط کا اختتام اس الزام پر کرتے ہیں:’’قادیانی حضرات ہماری معروضات کو ٹھنڈے دل سے غصہ تھوک کر اور غیر جانب دار ہو کر ملاحظہ کریں کہ آپ لوگ قرآن و حدیث کی غلط تعبیر کر کے امت مرحومہ سے کٹ چکے ہیں۔‘‘
(الاعتصام 28؍مئی تا 3؍جون 2021ء صفحہ14)
اوپر درج کیے گئے حوالوں سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ احمدیت کی دشمنی میں ان صاحب نے خود احادیث نبویہؐ کی پیشگوئیوں کا انکار کیا ہے۔جب کہ جماعت احمدیہ کا موقف قرآن اور احادیث صحیحہ کے عین مطابق ہے۔
اگر مضمون نگار کو اس موقف پر اصرار ہے کہ مسیح کی آمد سے قبل امت مسلمہ نے مکمل طور پر ہدایت پر قائم رہنا تھا اور گمراہی کا دور مسیح موعود کی آمد کے بعد شروع ہونا تھا تو پھر یہ واضح فرمائیں کہ ان کے نزدیک کیا تمام امت مسلمہ نے ہدایت پر قائم ہونا تھا ؟ یا کسی ایک مخصوص فرقے نے ہدایت پر قائم رہنا تھا۔ کیونکہ شیعہ اور سنی تو ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے رہے ہیں بلکہ سنیوں نے شیعہ حضرات کو ختم نبوت کا منکر بھی قرار دیا ہے۔دیوبندیوں کے نزدیک بریلوی شرک کے مرتکب ہوتے ہیں اور بریلویوں کے نزدیک دیوبندی گستاخ رسول ہیں۔دائود ارشد صاحب واضح فرمائیں کہ کیا اہل حدیث کے نزدیک اہل قرآن ہدایت پر قائم ہیں۔ اور سب جانتے ہیں کہ اس دَور میں شدت پسند گروہوں نے مسلمانوں کو ہی واجب القتل قرار دیا ہے۔ یہ سب تفصیلات کتاب ’’ قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں کیا گذری ؟‘‘ میں حوالوں سمیت بیان ہو چکی ہیں۔ اس لیے یہ سب تفصیلات یہاں دہرائی نہیں جائیں گی۔اس صورت حال میں جبکہ عالم اسلام میں اتنے اندرونی اختلافات موجود ہیں تو کس طرح ان اندرونی جھگڑوں کا فیصلہ ہونا تھا؟ اسی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو حکم اور عدل بنا کر مبعوث کرنا تھا۔
٭…(جاری ہے)…٭