1974ء میں اسمبلی کی کارروائی کے دوران غلط حوالے کس نے پیش کیے؟ اہل حدیث نے جہاد کو کیوں حرام قرار دیا؟
رسالہ ’’الاعتصام‘‘میں جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے اعتراضات کے مدلل جوابات
آئین کا یہ آرٹیکل اس باب کا حصہ ہے جس کے آغاز میں ہی یہ الفاظ درج ہیں کہ’’مملکت کوئی قانون ایسا وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے گا اس خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا۔‘‘
جیسا کہ گذشتہ دو اقساط میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ اہل حدیث احباب کے ترجمان رسالہ الاعتصام میں کئی اقساط میں ایک مضمون شائع ہو رہا ہے۔ اس مضمون میں کتاب ’’ خصوصی کمیٹی میں کیا گزری ‘‘پر تبصرہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔اور عنوان کے نیچے جلی حروف میں لکھا ہے ’’1974 کی قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلے پر بحث کے تناظر میں بعض مغالطات کا جواب‘‘۔لیکن جوں جوں کوئی پڑھنے والا اس مضمون کو پڑھتا جاتا ہے تو یہ تاثر مضبوط ہوتا جاتا ہے کہ اس مضمون میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں ہونے والی بحث کے ذکر سے گریز کیا جا رہا ہے۔اور اسی طرح جس کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے مضامین کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا تھا ، اس کا ذکر بھی کبھی کبھی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کتاب پر تبصرہ کیا جائے گا تو قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں ہونے والی کارروائی کے ذکر کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔
اس کی بجائے ہر صفحہ پر احمدیوں کو کوسنے اور برا بھلا کہنے کا سلسلہ متواتر جاری ہے۔دوسری قسط کے آغاز پر بھی مضمون نگار نے زیر بحث موضوع کی طرف توجہ کرنے کی بجائے احمدیوں کو برا بھلا کہنے کی مشق دوبارہ شروع کی۔انہیں یہ اعتراض تھا کہ اس کتاب میں یہ لکھا گیا ہے کہ 1974ء میں سپیشل کمیٹی کی کارروائی میں سوال و جواب کے دوران اٹارنی جنرل صاحب اور ممبران قومی اسمبلی اپنے ہی مقرر کردہ موضوع سے گریز کر کے غیر متعلقہ باتوں میں وقت ضائع کرتے رہے۔ مناسب ہوتا اگر مضمون نگار یہ ثابت کر نے کی کوشش کرتے کہ یہ الزام غلط ہے کہ سپیشل کمیٹی نے سوال و جواب کے مرحلے پر غیر متعلقہ باتوں میں وقت ضائع کیا ۔ لیکن بجائے اس کے کہ دائود ارشد صاحب اس طرف توجہ فرماتے انہوں نے خود بھی غیر متعلقہ الزام تراشی کا راستہ اختیار کیا ۔
تقابلی جائزہ کس طرح ہوگا؟
انہوں نے دوسری قسط کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔
’’قادیانی تحقیق کریں ‘‘اس نصیحت کے بعد انہوں نے ان الفاظ میں دل کی بھڑاس نکالنی شروع کی:’’آپ اس معیار پر اسلام اور قادیانیت کا تقابلی مطالعہ کریں ، محض کسی کی اندھی تقلید میں اپنا ایمان برباد نہ کریں کھلے دل و دماغ اور تعصب کے بغیر حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی عادت حسنہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ محض رٹی رٹائی فرسودہ دلیلوں سے ناکارہ استدلال کی خصلتِ سیّئہ کو ترک کر دیں ۔
آپ کے بڑے بڑے فضلاء اور ائمہ کا علم بھی محدود ہے اور وہ اپنے دائرے اور حلقے سے نکل کر تحقیق کے عادی ہی نہیں۔ جو بات ایک ناخواندہ مرزائی کرتا ہے ، وہی ان کے بڑے بڑے سند یافتہ کہتے ہیں ۔اسلامی ممالک میں آپ نشر کفر کی اجازت طلب کرتے ہیں اور پوری دنیا میں شور مچایا ہوا ہے کہ ہماری آزادی رائے پر پہرے لگا دیے گئے ہیں۔کبھی آپ نے اپنے ضمیر کو بھی جھنجوڑا ہے کہ میں خالی الذہن ہو کر تحقیق و جستجو کروں کہ حق و باطل کے اس معرکے میں اللہ اور رسول کس طرف ہیں۔ اپنے بارے میں جواب یقیناََ نفی میں ملے گا کیونکہ اس ٹولے میں جانچ پڑتال کی عادت ہی نہیں ۔ اگر یہ لوگ مرزا کی کتب رٹنے کی بجائے ان کے مندرجات پر اپنی صلاحیتیں صرف کرتے تو ان پر واضح ہوتا کہ قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کے علاوہ 99 فیصد حوالے بھی غلط ہیں۔‘‘
(الاعتصام 4؍تا 10؍جون 2021ء صفحہ17)
جیسا کہ اوپر درج حوالے سے ظاہر ہے کہ مضمون نگار احمدیوں کو یہ نصیحت کر ر ہے ہیں کہ وہ اپنے عقائد کا تقابلی جائزہ لیں ۔بہت خوب !ہم اس نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’’ تقابلی جائزہ ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ تقابل کا مطلب ہے دو چیزوں کا مقابلہ یا موازنہ کرنا۔ جب دو مسالک یا عقائد کا مقابلہ اور موازنہ کیا جائے گا تو دونوں عقیدوں سے وابستہ لوگ اپنے اپنے عقائد کے حق میں دلائل پیش کریں گے۔اور ہر سننے والا اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کرے گا کہ کس کے دلائل وزنی ہیں ۔جماعت احمدیہ کے مخالفین کو اب خیال آیا ہے کہ تقابلی جائزہ ضروری ہے جب کہ انہوں نے اصرار کر کر کے اس کے راستے خود بند کر دیے ہیں یعنی احمدیوں پر تبلیغ اور اپنے عقائد اور نظریات کے حق میں دلائل پر قانونی پابندی لگوائی ہے۔اور یہ پابندی جنرل ضیاء صاحب کے مارشل لاء کے دوران آرڈیننس 20 کی صورت میں لگائی گئی تھی اور اب تک یہ پابندی دفعہ 298-Cکی صورت میں تعزیرات پاکستان کا حصہ ہے۔ اور اس کی رو سے کوئی بھی احمدی اپنے عقیدےکی تبلیغ نہیں کر سکتا اور اگر کرے تو اسے تین سال قید کی اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اگر احمدیوں کے دلائل بودے اور ان کے حوالے غلط تھے تو مخالفین سلسلہ کو احمدیوں کے دلائل سے خوف زدہ ہو کر ان پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس ہونی چاہیے تھی۔ بلکہ انہیں تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر احمدیوں کو بحث پر آمادہ کرنا چاہیے تھا تاکہ پوری دنیا پر ظاہر ہو جائے کہ ان کے دلائل کتنے کمزور ہیں ۔ اب تقابلی جائزہ کیسے ہوگا ؟ پاکستان میں جماعت احمدیہ کا ایک مخالف تو احمدیت کے خلاف ہر طرح کی زہرفشانی کر سکتا ہے لیکن ایک احمدی اس کے سامنے اپنے عقائد کے حق میں دلائل نہیں دے سکتا ۔ اس طرح تو کوئی تقابلی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ بہتر ہوگا کہ اگر دائود ارشد صاحب حکومت کو یہ تجویز پیش کریں کہ احمدیوں کی تبلیغ پر ہر قسم کی پابندی ہٹا لینی چاہیے تاکہ وہ تقابلی جائزہ لے کر اپنے عقائد کے متعلق آزادانہ رائے قائم کر سکیں ۔خاکسار انہیں تسلی دلاتا ہے کہ احمدی اس تجویز کی بھرپور حمایت کریں گے۔
نشر عقائد کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں آپ نشر کفر کی اجازت طلب کرتے ہیں اور پوری دنیا میں شور مچایا ہوا ہے کہ ہماری آزادی رائے پر پہرے لگا دیے گئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں یہ خیال سمایا ہوا ہے کہ کسی اسلامی ملک میں اسلام کے علاوہ یا یوں کہنا چاہیے کہ جن عقائد کو آپ عین اسلام سمجھ بیٹھے ہیں اس کے علاوہ، کسی اور عقیدے کو نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور احمدی کیسا ظلم کر رہے ہیں کہ اپنے عقائد کے اظہار کی اجازت طلب کر رہے ہیں اور جب یہ اجازت نہیں ملتی تو دنیا میں شور مچا دیتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے ۔
ہماری درخواست ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20کی طرف توجہ کی جائے۔اس میں لکھا ہے کہ قانون امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا۔اگر اس پر یہ نکتہ اُٹھایا جائے کہ یہ آزادی تو قانون کے تابع دی گئی ہے اور ہم نے قانون بنا کر احمدیوں سے ان کا یہ حق چھین لیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ آئین کا یہ آرٹیکل اس باب کا حصہ ہے جس کے آغاز میں ہی یہ الفاظ درج ہیں کہ’’مملکت کوئی قانون ایسا وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے گا اس خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کے بنیادی حق کو کم کرنے کا قانون بنانا غیر آئینی ہے۔کیا پاکستان میں عیسائیت یا ہندو مت یا سکھ مذہب کی تبلیغ پر کوئی قانونی پابندی ہے۔ان مذاہب کی تبلیغ پر کوئی پابندی موجود نہیں ہے۔یہ اہتمام صرف جماعت احمدیہ کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ قانون بنایا گیا ہے کہ کوئی احمدی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتا۔
غلط حوالے کس نے پیش کیے تھے؟
اور رہی بات غلط حوالوں کی تو اس کا فیصلہ تو بہت آسان ہے۔چونکہ ساری بحث 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی پر ہو رہی ہے۔اور اس کارروائی کے دوران جماعت احمدیہ کے وفد نے بہت سے حوالے پیش کیے تھے اور ممبران اسمبلی نے بھی اپنے سوالات اور تقاریر میں بہت سے حوالے پیش کیے تھے۔ ہمیں خوشی ہے کہ دائود ارشد صاحب نے بہت معین دعویٰ پیش کر دیا ہے کہ احمدیوں کے پیش کردہ 99 فیصد حوالے غلط ہوتے ہیں۔ہم بہت ممنون ہوں گے اگر دائود ارشد صاحب ان حوالوں کی فہرست شائع فرمائیں جو کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے محضرنامہ میں یا محضرنامہ کے ضمیموں میں یا سوال و جواب کے دوران پیش کیے گئے تھے۔ اور یہ نشاندہی بھی فرمادیں کہ ان میں سے کون سے 99 فیصد حوالے غلط ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ کتاب ’’ خصوصی کمیٹی میں کیا گذری ‘‘ میں ثبوتوں سمیت ان حوالوں کی تفصیلات پیش کی جا چکی ہیں جو کہ اس کارروائی کے دوران جماعت احمدیہ کے مخالفین نے پیش کیے اور وہ غلط نکلے۔اور اس کمیٹی کی کارروائی کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ان غلط حوالوں کی نشاندہی فرمائی تھی اور اس کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب اور جماعت احمدیہ کے مخالف ممبران کے ہاتھوں میں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں تھا۔ہم اس شرمندگی کا ثبوت اور اعتراف اسی کمیٹی کی کارروائی سے پیش کرتے ہیں۔
7؍اگست 1974ء کو ابھی سوال و جواب کو شروع ہوئے دو روز ہی ہوئے تھے کہ سپیکر قومی اسمبلی جو اس سپیشل کمیٹی کی صدارت کر رہے تھے ممبران اسمبلی کے پیش کردہ غلط حوالوں سے اتنا تنگ آ چکے تھے کہ انہوں نے ممبران اسمبلی کو مخاطب کرکے کہا:’’ اگر حوالہ جات کا آپ نے پوچھنا ہے تو
We should not cut a sorry figure before members of the delegation
these members should be here up to 6.00
[ترجمہ: ہمیں وفد کے ممبران کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے اور یہ ممبر چھ بجے یہاں پہنچ جائیں گے۔]
اگر آپ نے اپنا work دکھانا ہے تو یہ نہیں ایک حوالہ تلاش کرتے ہی آدھا گھنٹہ لگ جائے ۔
The change of edition, or print at Rabwah or Qadian is no excuse; or
say
[ترجمہ: یہ کوئی عذر نہیں کہ ایڈیشن مختلف ہے یا یہ ربوہ میں یا قادیان میں شائع ہوئی تھی یا یہ کہ آپ کہیں:]
کہ یہ ریفرنس نہیں ہے، غلط دیا یا یہ کتاب ہی Exist نہیں کرتی۔‘‘
(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ء صفحہ 424 و 425)
ملاحظہ فرمائیں کہ اس شخص کا اظہار مایوسی ہے جو اس کمیٹی کی صدارت کر رہا تھا اور وہ خود کہہ رہا ہے کہ اب ہمیں وفد کے ممبران کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔اور وہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ شرمندہ اس لیے ہونا پڑ رہا ہے کیونکہ غلط حوالے پیش کیے جا رہے ہیں بلکہ ایسی کتابوں کے حوالے پیش کیے جا رہے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات میں وہی پرانےگھسے پٹے اعتراضات پیش کیے جا رہے تھے اور وہ بھی غلط حوالوں کے ساتھ اور آغاز ہی سے ممبران اسمبلی کے سوالات کا وہ حشر ہو چکا تھا کہ ایک ممبر عبد الحمید جتوئی صاحب نے کہا :’’سر!دوسری عرض یہ ہے کہ آج ہمیں دیکھ کر ایک چیز کا تعجب ہوا ۔وہ یہ ہے کہ جو سوال اٹارنی جنرل پوچھتے ہیں ان سے وہ پہلے ہی لکھا ہوا ان کے پاس موجود ہے۔تو میرا اندازہ ہے کہ سوالات leak outہوئے ہیں۔‘‘
اس مرحلےتک کچھ رپورٹر ہال میں موجود تھے لیکن جب سپیکر قومی اسمبلی نے دیکھا کہ اس کارروائی کی حقیقت کا بھانڈا پھوٹ رہا ہے تو انہوں نے کہا :
’’The rest should not be reported. Reporters should leave the hall
[ترجمہ: باقی کی رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے ۔رپورٹر ہال سے نکل جائیں]
آپ بھی چلے جائیں ۔ آپ بھی بند کر دیں ۔‘‘
(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ءصفحہ426و427)
7؍اگست کو تو سپیکر صاحب یہ اظہار بیچارگی کر رہے تھے اور یہ کوششیں کر رہے تھے کہ یہ سب کچھ پریس میں رپورٹ نہ آجائے ۔ مگر کیا اگلے روز بھی یہ صورت حال بہتر ہوئی؟ کارروائی کے مطالعے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگلے روز بھی اٹارنی جنرل صاحب یہ اعتراف کرنے پر مجبور تھے کہ ابھی تک سوالات کی اسی طرح درگت بن رہی ہے۔وجہ یہ تھی کہ ممبران اسمبلی جماعت احمدیہ کے مخالفین کی شائع کردہ کتب اور پمفلٹس سے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے حوالے پیش کر کے اعتراض کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جب جماعت کے لٹریچر سے چیک کیا جاتا تو یہ حوالے غلط ثابت ہو جاتے۔ چنانچہ اس روز اٹارنی جنرل صاحب ممبران اسمبلی کے سامنے یہ شکوہ کر رہے تھے :
Sir, I will respectfully submit that explanations are different; you may or may not accept but I request the honorable members not to supply me loose balls to score boundaries
[ترجمہ: جناب! میں احترام سے کہنا چاہتا ہوں کہ وضاحتیں تو مختلف ہیں ۔ آپ چاہیں تو ان سے اتفاق کریں اور اگر چاہیں تو ان سے اتفاق نہ کریں لیکن میں معزز ممبران سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ مجھے ایسی خراب گیندیں نہ مہیا کریں جن پر چوکے اور چھکے لگیں۔]
اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب کا یہ دکھڑا سنا تو سپیکر صاحب نے بھی ان کی تائید ان الفاظ میں کی :
’’Yes, that I have also felt‘‘
[ترجمہ : ہاں یہ تو میں نے بھی محسوس کیا ہے ۔]
’’حوالہ جات یعنی یہ حوالہ جات جو کتابچوں سے لکھے ہوئے ہیں یا پمفلٹ سے لکھے ہوئے ہیں ، اس کی بجائے ان کی اپنی کتاب کا ہو‘‘
(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ءصفحہ 548تا 549)
اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا یہ کارروائی زیر بحث موضوع کے بارے میں چلائی جا رہی تھی یا ممبران محض غیر متعلقہ سوالات کر کے وقت ضائع کر رہے تھے۔ اس بارے میں ایک ممبر سردار محمد خان صاحب کا یہ اعتراف ملاحظہ ہو ۔ انہوں نے کہا :
I want to bring it to the notice of this honorable house, that the main question I should say, before the special committee or the assembly is as to what is the status of the person who does not believe in the finality of the prophethood. That question or that point is still untouched
(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ءصفحہ 504)
ترجمہ : میں معزز ایوان کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس سپیشل کمیٹی یا اسمبلی کے سامنے اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں تسلیم کرتا ، اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ اور اس سوال پر اب تک کوئی بات ہی نہیں کی گئی ۔
خود سپیکر اسمبلی اعتراف کر رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین غلط حوالے پیش کر رہے ہیں اور اس وجہ سے شرمندگی اُٹھانی پڑ رہی ہے ۔ سوال کرنے والا اٹارنی جنرل شکوہ کر رہا ہے کہ آپ لوگ مجھے خراب سوالات مہیا کر رہے ہیں اور اس کے جواب میں چوکے اور چھکے پڑ رہے ہیں اور ممبر اسمبلی خود یہ اعتراف کر رہا ہے کہ زیر بحث موضوع پر کوئی سوالات نہیں کیے جا رہے۔ان حقائق کی موجودگی میں اس کارروائی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ ہماری دائود ارشد صاحب سے درخواست ہے کہ وہ خود اپنے ضمیر کو جھنجوڑ کر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
مضامین کے اس سلسلےکی تیسری قسط میں دائود ارشد صاحب مخالفین سلسلہ احمدیہ کے پسندیدہ موضوع یعنی مسئلہ جہاد کی طرف رخ کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:’’با لفاظ دیگر یہ کفار کے شعائر میں سے ہے کہ وہ دین میں حک و ضافہ کرتے ہیں ، پھر اس افتراء کو اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ۔مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کے پیروکار ہمیشہ یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ اسلام کے علاوہ ہمارا کوئی دین نہیں ، ہم قرآن کے کسی حکم کو تو کیا کسی لفظ کے بھی منسوخ ہونے کے قائل نہیں !مگر عملاََ دیکھیے وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ
’’ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود جانتا ہے ، اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطعا ََ حرام ہے‘‘
(ضمیمہ رسالہ جہاد صفحہ6، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 28)
دیکھیے قرآن کے حکم جہاد کو حرام کہا ہے ، پھر اس پر مرزا کی چالاکی دیکھیے کہ
’کیوں بھولتے ہو یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر ‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ27،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 78)
کوئی ہے قادیانی جو اپنے اکابر سے سوال کرے کہ ’’یضع‘‘ بمعنی حرام لغت کی کس کتاب میں لکھا ہے ؟ مرزا سلطان احمد خلط مبحث کرتے ہوئے اس کی شروط کو لے بیٹھا (خصوصی کمیٹی میں کیا گذری صفحہ385تا391)حالانکہ اقسام جہاد اور اس کی شروط کا مکر کون ہے!اختلاف تو جہاد کے حرام اور حلال میں ہے ۔ لہذا اس کے حرام ہونے یعنی قرآن کے حکم کو معطل قرار دینے کی دلیل عطا کریں ۔‘‘
(الاعتصام11؍تا17؍جون2021ءصفحہ14تا15)
سب سے پہلے تو اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیشہ اسی حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ اسلام میں جہاد بلکہ جہاد بالسیف یعنی قتال کا حکم ہمیشہ سے ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انتہائی درجہ کے مظالم برداشت کرنے کے بعد اپنے دفاع میں قتال کی اجازت دی گئی ہے۔جس کتاب کا حوالہ دائود ارشد صاحب نے دیا ہے اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :’’ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اُٹھائی وہ اس وقت اُٹھائی گئی کہ جب جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئےآخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں۔خدا بڑا کریم اوررحیم اور حلیم ہےاور بڑا برداشت کرنے والا ہے۔لیکن آخر کار راست بازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے ۔ مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تو وہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد،روحانی خزائن جلد17صفحہ13)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:’’قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اُٹھاؤاور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچواور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہیں تھا ۔‘‘
(ستارہ قیصریہ،روحانی خزائن جلد15صفحہ120تا121)
اور جس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو قتال کی اجازت دی گئی اس کے الفاظ ہی اس بات کو واضح کردیتے ہیں کہ کن لوگوں کو اجازت دی گئی ہے۔سورت الحج کی آیت 40 و 41 کے الفاظ یہ ہیں:
اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ ۣ۔ الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ …
اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے۔ اور یقیناً اللہ اُنکی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
(یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔…
یہ آیت ہی اس بات کو واضح کر دیتی ہے کہ ابتدا ہی سے قتال کی اجازت صرف ان لوگوں کو دی گئی تھی جن پر جنگ مسلط کی گئی تھی اور انہیں مظالم کا نشانہ بنایا گیا تھا اور محض مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا تھا۔اور یہی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائی تھی۔یہ کوئی نیا حکم نہیں ہے ۔ اور نہ ہی کسی قرآنی حکم کو منسوخ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مصلحت نے یہی تقاضا کیا تھا کہ مسیح موعود کے زمانے میں ایسے حالات پیدا ہوں کہ قتال کی جو شرائط سورت الحج میں بیان کی گئی ہیں وہ پوری نہ ہوتی ہوں اور مسلمان آزادی سے اپنے دین کی تبلیغ کر سکیں۔
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ جہاد اور اس کی شروط کا مکر کون ہے!اختلاف تو جہاد کے حرام اور حلال میں ہے۔لہٰذا اس کے حرام ہونے یعنی قرآن کے حکم کو معطل قرار دینے کی دلیل عنایت عطا کریں ۔اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ ہر اسلامی حکم کی شروط اور آداب بیان کیے گئے ہیں۔اگر ان کو خاطر میں لائے بغیر ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ نا جائز ہوگا۔ مثال کے طور پر زکوٰۃ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے لیکن اگر کوئی حکومت کسی ایسے غریب سے زکوٰۃ وصول کرے جو کہ صاحب نصاب ہی نہ ہو تو یہ نا جائز ہوگا اور یہ حکومت ایک حرام کا م کی مرتکب ہو گی ۔ شکار کرنا جائز ہے اور قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے۔لیکن اس کی بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں مثال کے طورپر سورت المائدہ آیت 97میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ صَیۡدُ الۡبَرِّ مَا دُمۡتُمۡ حُرُمًا
یعنی اور تم پر خشکی کا شکار ا س وقت تک حرام قرار دیا گیا ہے جب تم احرام باندھے ہوئے ہو۔ملاحظہ فرمائیں شکار کرنا جائز ہے لیکن اگر اس کی شروط کا خیال نہ رکھا جائے اور حالت احرام میں خشکی پر شکار کیا جائے تو قرآن کریم اسی جائز کام کو حرام قرار دیتا ہے۔
جہادکو اہل حدیث نے حرام قرار دیا
معلوم ہوتا ہے کہ شاید دائود ارشد صاحب اپنے فرقے کے لٹریچر سے واقف نہیں۔یہ نظریہ کہ ہندوستان میں برطانوی عہد کے دوران جہاد کی شرائط پوری نہیں ہوتیں اس لیے جہاد کے نام پر لڑائی کرنا ناجائز اور حرام ہے ، خود اہل حدیث فرقے کے لوگوں نے ہی پیش کیا تھا۔ اور اس وقت پیش کیا تھا جب ابھی جماعت احمدیہ کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا ۔
اس کی تفصیلات یہ ہیں کہ 1886ءمیں اہل حدیث کے مشہور لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے ایک رسالہ ’’الاقتصاد فی مسایل الجہاد ‘‘ شائع کروایا اور اس کی اشاعت سے قبل نامی گرامی علماء کی تائید بھی حاصل کی۔ اس کے سرورق پر فخریہ طور پر یہ لکھوایا
’’پنجاب کے نامور و ہر دلعزیز گورنر سر چارلس ایچیسن صاحب بہادر کے سی ایس سی آئی وغیرہ نے اپنے نام نامی سے اس کا ڈیڈیکیٹ ہونا منظور فرمایا ‘‘
اس مشہور تحریر کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:’’ان دونوں قسم کے جہاد کے لئے مذہب اسلام میں ایسے شروط اور مواقع مقرر ہیں جن سے سر موئے بھی تجاوز کرنے سے جہاد (ملکی ہو یا مذہبی ) جہاد نہیں رہتا بلکہ فتنہ و فساد کہلاتا ہے۔‘‘
(اشاعۃ السنہ جلد 9 نمبر 9صفحہ261)
کتنا واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر شرائط پوری نہ ہوں تو جہاد نہیں بلکہ فتنہ و فساد کہلائے گا اور ظاہر ہے کہ فتنہ اسلام میں حرام ہے۔
’’جو مخالفین اسلام کسی کے مذہب سے تعرض کرنا جائز نہ سمجھیں اور اس امر کو خواہ بمتقاضائے مداہنت خواہ بہدایت مذہب خواہ بحکم عقل و اصول سلطنت بہت برا سمجھیں (جیسا کہ برٹش گورنمنٹ کا حال و چال ہے) ان سے مذہبی جہاد کرنا ہر گز جائز نہیں۔‘‘
(اشاعۃ السنہ جلد 9 نمبر 9صفحہ275)
’’مذہب اسلام میں اہل حرب کفار سے بھی دوستی و عہد جائز ہے اور عہد والوں سے لڑنا حرام ہے اور جس ملک پر کفار متسلط ہو جائیں اس کے وہ مالک ہو جاتے ہیں اور کافروں کے ملک میں با امن رہ کر یا امن جتا کر ان سے لڑنا یا غدر کرنا حرام ہے۔‘‘
(اشاعۃ السنہ جلد 9 نمبر 9صفحہ310)
نہایت اختصار سے یہ حوالے درج کیے گئے ہیں کہ اہل حدیث احباب نے اس وقت انگریز حکومت کے خلاف جنگ کو فساد ، فتنہ نا جائز اور حرام قرار دیا تھا جب ابھی جماعت احمدیہ کا قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا۔ان حقائق کی موجودگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اعتراض کہ انہوں نے اس وقت مذہب کے نام پر قتال کو حرام کیوں قرار دیا ایک بےمعنی اعتراض ہے۔اور یہ اعتراض تو خود اہل حدیث احباب پر ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭