الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
رام بھجدت صاحب کون تھے؟
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 15؍اپریل 2013ء کی اشاعت میں آریہ دھرم کے سرگرم عہدیدار اور حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ہندوؤں کے وکیل رام بھجدت کا تفصیلی تعارف کروایا گیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف جب عیسائی مشنری ڈاکٹر مارٹن کلارک کی طرف سے اقدامِ قتل کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تو اگرچہ عیسائی مخالفین نے یہ مقدمہ دائر کیا تھا لیکن آریہ مخالفین نے مفت قانونی مدد فراہم کی اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے بھی گواہی دی اور سکھ سپاہیوں نے بھی جھوٹے گواہ کو اُکسایا کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف دی گئی گواہی پر قائم رہے۔ لیکن جب اس گواہ عبدالحمید کو پادریوں کی تحویل سے نکال کر پولیس نے اپنی تحویل میں لیا تو اُس نے اقرار کیا کہ عیسائیوں نے اُسے جھوٹ بولنے پر اکسایا تھا۔ اس طرح ساری سازش ناکام ہو گئی اور مقدمہ خارج کر دیا گیا۔
اس واقعہ سے کچھ عرصہ قبل یعنی نومبر 1895ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی عظیم تصنیف ’’ست بچن‘‘ شائع فرمائی تھی جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ حضرت باوا نانکؒ مسلمان تھے۔ 1896ء کے آخری دنوں میں لاہور میں جلسہ مذاہب عالم منعقد ہوا اور اس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا مضمون’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوشخبریوں کے مطابق سب مضامین سے بالا رہا اور غیروں نے اس کی عظمت کا برملا اعتراف کیا۔ یہ تمام مذاہب پر اتمام حجت تھی۔ اس کے بعد عبد اللہ آتھم صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے چیلنج دیا گیا کہ وہ قسم کھالیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے بعد ان کے دل پر ہیبت نہیں طاری ہوئی اور انہوں نے رجوع نہیں کیا لیکن وہ اس کی ہمت نہیں کرسکے اور 27؍جولائی 1896ء کو اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ اس نشان کے پورا ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب ’’انجام آتھم‘‘ شائع فرمائی جو کہ جنوری 1897ء میں شائع ہوئی۔ 6؍مارچ1897ء کو حضرت مسیح موعودؑ کی بیان کردہ پیشگوئی کی چھ سالہ مدت کے اندر پنڈت لیکھرام خداتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنا اور قتل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے یہ نشان مخالفین کے غیظ و غضب اور حسد میں اضافہ کر رہے تھے چنانچہ انہوں نے اگست 1897ء میں مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت یہ جھوٹا مقدمہ قائم کیا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اُس وقت یہ اعلان کیا کہ اب انگریز حکومت اور حضرت مسیح موعودؑ کے درمیان جنگ شروع ہو گئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے رسالہ میں لکھا: ’’حضرات! فریق جنگ ایک تو سچے اور مُردوں کو زندہ کرنے والے حضرت مسیح بن مریم (علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام) کے پیرو عیسائی گورنمنٹ ہے جو بواسطہ اپنے پیروکار ہنری مارٹن کلارک میدان جنگ میں اتری تھی۔ دوسرا فریق جھوٹا اور خونی مسیح … اور وہ بڑی جمیعت اور ٹھاٹھ کے ساتھ پنجاب کے اکثر شہروں لاہور گجرات جہلم وغیرہ سے آکر گورنمنٹ اور دیگر عیسائیوں کے مقابلہ کے لیے بٹالہ میں جمع ہوئے تھے …۔‘‘
(اشا عۃ السنہ نمبر8 جلد18 ص254,253)
ہندوؤں میں سے آریہ سماج نے اس سازش میں بھرپور حصہ لیا۔ اس واقعہ سے قبل لیکھرام کے بارے میں پیشگوئی پوری ہوئی تھی اورلیکھرام کی پیشگوئی پورا ہونے کے بعد وہ پوری طرح حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت پر کمربستہ ہو چکے تھے۔ انہوں نے اس مقدمہ کے لیے مفت وکیل مہیا کیا۔ یہ وکیل رام بھجدت صاحب تھے۔
رام بھجدت صاحب آریہ سماج کے سرگرم عہدیدار تھے۔ ان کی پیدائش 1867ء میں ہوئی تھی۔ ان کا تعلق ضلع گورداسپور کے ایک برہمن خاندان سے تھا۔ انہوں نے ایف سی کالج سے B.A کیا تھا۔ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ وہ اس مقدمہ کی حقیقت سے بے خبر تھے۔
اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس مقدمہ کے دوران رام بھجدت صاحب کا کیا کردار تھا؟ سب سے اہم تو یہ بات ہے کہ رام بھجدت صاحب دیگر سرگرم ممبران آریہ سماج کی طرح عیسائیت کے بھی مخالف تھے لیکن انہوں نے اس مقدمہ کی پیروی مفت کی تھی جس کا اقرار ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے عدالت کے سامنے کیا تھا۔
20؍ اگست 1897ء کو عدالت میں عبدالحمید نے اقرار کیا کہ اس کا سابقہ بیان غلط تھا اور اس نے حضرت مسیح موعودؑ پر جھوٹا الزام لگایا تھا تو اس کے بعد جب ڈاکٹر ہنر ی مارٹن کلارک کا بیان ہوا تو حضرت مسیح موعودؑ کے وکیل کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’’ہم ڈاکٹر مشنری ہیں۔ ہم نے اپنے وکیل کا سفر خرچ اور محنتانہ نہیں دیا۔ ہم کو یاد نہیںکہ آیا ہم نے رام بھجدت کو وکیل مقرر کیا یا وہ از خود آیا۔ ہم لوگ ایک شخص جو سب کا دشمن ہے کے بارے میں مل کر کارروائی کرتے ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ ۔ روحانی خزائن جلد 13ص272)
یہ امر قابل حیرت ہے کہ اس مرحلہ پر ہنری مارٹن کلارک صاحب کو یہ بھی یاد نہیں آ رہا تھا کہ رام بھجدت صاحب کو وکیل کس طرح مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تقرری کے پس منظر میں سازش تھی جس کے حالات اس وقت ان کے لیے بیان کرنا ممکن نہیں تھا ۔
مقدمہ کے دوران رام بھجدت صاحب مارٹن کلارک صاحب کے وکیل کا کردار ادا کرتے رہے۔ عبدالحمید کا بیان تو بہر حال جھوٹا تھا اور عموماً جھوٹے بیان میں نقص بھی ہوتے ہیں۔ رام بھجدت صاحب کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح اس بیان کو اس طرح کا بنایا جائے کہ عدالت اس پر یقین کر لے ۔ اس لیے جب وہ عبد الحمید کو انارکلی میں ملے تو انہوں نے اس کا بیان سن کر اس سے کہا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی اَور آدمی بھی تھا؟ جب تک کسی اور آدمی کا ذکر نہ ہو عدالت باور نہیں کرے گی کیونکہ تم کوئی پرندہ تو نہیں تھے کہ مار کر اُڑ جاتے۔ اس نشاندہی پر مارٹن کلارک کے ساتھیوں عبدالرحیم، پریمداس اور وارث دین وغیرہ نے عبد الحمید کو سکھایا کہ تم قطب الدین کا نام لینا۔ یہ تینوں عیسائی تھے۔ قطب الدین صاحب امرتسر کے احمدی تھے اور اس جھوٹ کو گھڑنے والوں کا اعتماد اتنا بڑھ چکا تھا کہ وارث دین نے ایک پنسل سے قطب الدین صاحب کا نام اور پتہ عبدالحمید کی ہتھیلی پر لکھ دیا تا کہ اسے یاد رہے اور جب عبد الحمید نے عدالت میں اپنے جھوٹ کا اقرار کیا تو یہ نشاندہی کی کہ وہ پنسل جس سے اس کی ہتھیلی پر لکھا گیا تھااس وقت وکیل رام بھجدت کے ہاتھ میں ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رام بھجدت صاحب پوری طرح اس سازش میں شامل تھے۔
(کتاب البریہ: روحانی خزائن جلد13ص263)
اسی بیان میں عبد الحمید نے عدالت کے سوال پر کہا:
’’وکیل نے کہا تھا جو سوال ملزم کی طرف سے وکیل کرے۔ اس کا جواب اُلٹا دینا۔ میں یہ بات سچ اور ایمان سے کہتا ہوں کہ وکیل رام بھجدت نے مجھ کو حسب مذکورہ بالا کہا تھا۔‘‘
(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 271-269)
بہرحال رام بھجدت صاحب آریہ سماج کے ایک نمایاں لیڈر تھے اور اس واقعہ کے بعد بھی رہے۔ وہ سیاسی طور پر آل انڈیا نیشنل کانگرس کے ممبر تھے اور ملکی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں بھی نمایاں حصہ لیتے رہے۔ وہ قادیان میں ہونے والے آریہ سماج کے مذہبی جلسوں میں شرکت کے لیے قادیان بھی آتے تھے۔
(الحکم 10دسمبر 1907ء)
1905ء میں ان کی شادی سرلا دیوی سے ہوئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ رام بھجدت صاحب کی بیگم سرلا دیوی بنگال سے تعلق رکھتی تھیں اور اپنی والدہ کی طرف سے ان کا تعلق بنگال کے مشہور ٹیگور خاندان سے تھا۔ سرلا دیوی کی والدہ نوبیل انعام یافتہ شاعر رابندرا ناتھ ٹیگور کی بہن تھیں۔ ٹیگور خاندان برہمو سماج میں ایک نمایا ں مقام رکھتا تھا۔
آریہ سماج کا جماعت احمدیہ سے براہ راست واسطہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے چند ماہ قبل دسمبر 1907ء میں بھی پڑا۔ آریہ سماج کی طرف سے ایک اشتہار شائع کیا گیا کہ لاہور میں ایک مذہبی جلسہ منعقد ہو گا جس میں تمام مذاہب سے وابستہ مقررین اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں گے اور جو کچھ کہا جائے گا تہذیب کے ساتھ کہا جائے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں بھی یہ اشتہار بھجوایا گیا اور بہت انکسار سے خطوط بھی لکھے گئے کہ ہم آپ کے درشن کے مشتاق ہیں۔ مکرم ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب نے بھی بڑے زور سے عرض کی کہ اب آریوں میں کافی تبدیلی پیدا ہو گئی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ عادت کا بدلنا مشکل ہے ان کی قلموں سے بجز گند کے کچھ نہیں نکل سکتا۔ وہ آنحضرتﷺکی توہین سے باز نہیں آئیں گے اور قرآن شریف کا ذکر ہتک کے ساتھ کریں گے۔ مگر مکرم ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب نے پھر عرض کی کہ اب وہ زمانہ گزر گیا ہے اور اب ان کے اندر بہت تبدیلی پائی جاتی ہے۔لیکن یہ سب کچھ ملمع سازی تھی۔ کانفرنس کے آخری روز آریوں نے اپنا لیکچر رکھا اور اس میں تمام انبیاء بالخصوص حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شان میں بد ترین گستاخی سے کام لے کر بدعہدی کی بدترین مثال قائم کی۔ یہ خیال کہ شاید آریہ سماج نے اپنی سابقہ طرز کی کچھ اصلاح کی ہو کس لیے پیدا ہوا تھا؟ اس کی بابت حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’میں ان کے خطوں کو پڑھنے سے جو سراسر نرمی سے لکھے گئے تھے بہت خوش ہوا اور دل میں خیال کیا کہ اگرچہ آریہ صاحبوں کی حالت جس قدر آج تک تجربہ میں آ چکی ہے وہ یہی ہے کہ بجز اپنے وید اور اس کے چار رشیوں کے باقی تمام انبیاء علیہم السلام کو نہایت سخت گالیاں دیتے اور طرح طرح کی توہین کرتے ہیں اور اس طرح پر کروڑہا مسلمانوں کے دل دکھاتے ہیں۔ لیکن کیا تعجب کہ اب ایک تازہ تنبیہ کی و جہ سے جو ان کے بعض افراد کی شوخیوں کی نسبت ضرورتاً گورنمنٹ کی طرف سے عمل میں آئی ہے ان کے دل قدرے درست ہوگئے ہوں اور اس تنبیہ سے کسی قدر انہوں نے سبق حاصل کر لیا ہو اور صلح پسندی کی خواہش ظاہر کی ہو۔ مگر پیچھے سے معلوم ہوا کہ یہ خیال ہمارا سراسر غلط تھا۔‘‘
(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 11،10)
اس کا پس منظر یہ تھا کہ اس سے قبل ماضی قریب میں پنجاب میں خاص طور پر اہم سیاسی واقعات رونما ہوئے تھے۔ پنڈت رام بھجدت صاحب کا یہ نظریہ تھا کہ ملک میں بہت سی تنظیمیں مثلاً کانگرس وغیرہ ہیں جو کہ تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کے لیے ہیں اور کئی تنظیمیں مثلاً انجمن حمایت اسلام وغیرہ ہیں جو کہ مسلمانوں کے حقوق کی نگہداشت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی تنظیمیں نہیں ہیں جو کہ ہندوؤں کی تنظیمیں ہوں۔ 1906ء میں انہوں نے اس مقصد کے لیے Hindu Shayak Sabha نام کی تنظیم بنائی اور اپنی بیوی کے ساتھ بہت سے شہروں کا دورہ کیا اور ملتان، جھنگ، لائلپور اور سیالکوٹ میں بھی اس سبھا کی شاخیں قائم کیں۔ پھر دسمبر 1906ء میں انہوں نے پنجاب کے ہندو سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لیے پنجاب ہندو سبھا کی تنظیم قائم کی۔ اس کے بعد پنجاب میں سیاسی ہلچل کا آغاز ہو گیا۔
1907ء کے آغاز میں پنجاب کے شہری اور دیہاتی علاقوں میں حکومت کے خلاف جلسے، جلوس اور احتجاج شروع ہوگئے۔ پنجاب حکومت نے Land Alienation Act of 1900 میں تبدیلیوں کا فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں زرعی زمین کے حقوق ملکیت غیر زمیندار مالکان کومنتقل ہونے تھے۔ اس کے نتیجہ میں مہاجنوں اور قرض دینے والوں کے لیے یہ مشکل ہو جانا تھا کہ وہ اپنے مقروض افراد کی زمینوں پر قابض ہو سکیں۔ یہ طبقہ شہری علاقوں میں احتجاج کر رہا تھا اور دیہاتی علاقوں میں اس لیے احتجا ج شروع ہو رہے تھے کیونکہ حکومت باری دوآب نہر کے آبیانہ میں اضافہ کر رہی تھی اور چناب کے نئے آباد کیے جانے والے دیہات کے بارے میں نئے قوانین وضع کیے جارہے تھے۔ اس وقت کانگرس کے لیڈر، پنجاب کے ہندو لیڈر اور خاص طور پر آریہ سماج سے وابستہ نمایاں لیڈر اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ رام بھجدت صاحب بھی اس وقت کی سیاسی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لے رہے تھے۔ فروری 1907ء میں لائلپور اور لاہور میں بیک وقت بڑے بڑے جلسے ہوئے۔ رام بھجدت صاحب نے لاہور کے جلسے میں تقریر کی اور ایک اور مشہور آریہ سماجی لیڈر لاجپت رائے صاحب نے لائلپور آریہ سماج میں ہونے والے جلسہ سے خطاب کیا۔ اس احتجاج کو روکنے کے لیے پنجاب حکومت کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ حکومت نے اس وقت کے مشہور جریدے ’’پنجابی‘‘ کے ایڈیٹر اور مالک کو گرفتار کرلیا۔ لیکن اس کے نتیجہ میں یہ احتجاج اَور شدید ہوگیا۔ مارچ اور اپریل میں یہ احتجاج زور پکڑتا گیا۔ نمایاں آریہ لیڈر اس تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ پنجاب حکومت نے ہندوستان کی مرکزی حکومت سے خاص اقدامات کی اجازت حاصل کی۔ مشہور آریہ لیڈر لاجپت رائے صاحب اور اجیت سنگھ صاحب کو گرفتار کر کے برما بھجوادیا گیا۔ بڑے پیمانے پر مقدمات قائم کیے گئے۔ کئی مقامات پر فوج طلب کرلی گئی۔ گورنر Ibbetson نے افسران کو ہدایات دیں کہ آریہ سماج کی سرگرمیاں مشکوک ہو گئی ہیں، ان کو مزید سرکاری ملازمتوں میں لینے میں احتیاط کی جائے اور اگر ان کی وفاداری پر شک ہو تو ان کو ملازمت سے برطرف کر دیا جائے۔
جب وائسرائے نے دیہات کے بارے میں مجوزہ قوانین کو ویٹو کر دیا تو دیہات میں چلنے والی مہم ختم ہوگئی کیونکہ ان کا مطالبہ پورا ہوگیا تھا۔ دوسری طرف پنجاب کے شہروں میں چلنے والی مہم حکومت کے سخت رویہ کے باعث ڈگمگا گئی۔ جو آریہ لیڈر اس تحریک کی قیادت میں پیش پیش تھے ، ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلنے لگی۔ اب ان آریہ لیڈروں نے جلدی سے فیصلہ کیا کہ پنجاب کے گورنر سے مل کر اپنی نیازمندی اور وفاداری کا یقین دلایا جائے۔ چنانچہ آریہ لیڈر لالہ ہنس راج صاحب کی قیادت میں ایک وفد پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنرDenzil Ibbetson سے ملا اور ان کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ بحیثیت ایک تنظیم کے آریہ سماج کا ان فسادات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن گورنر نے وفاداریوں کی ان یقین دہانیوں کے جواب میں سردمہری کا رویہ دکھایا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ اعلانیہ طور پر ان احتجاجی تحریکوں سے اپنی لاتعلقی ظاہر کریں۔ چنانچہ آریہ سماج کے ایک گروہ نے حکومت سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور ایک گروہ نے قرارداد پاس کر کے یہ اعلان کیا کہ آریہ سماج ایک غیر سیاسی تنظیم ہے۔ بہت سے ہندو حلقوں نے گرفتار ہونے والے آریہ لیڈروں کی علی الاعلان مذمت شروع کر دی۔ اب یہ آریہ لیڈرہر طرف سے اپنوں اور غیروں کی ملامت کا نشانہ بن رہے تھے۔ان کی سب شوخیاں رخصت ہو چکی تھیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب آریہ سماج سے وابستہ لیڈربہت تہذیب کا مظاہرہ کر رہے تھے اور یہ یقین دلا رہے تھے کہ ان کے لاہور کے جلسے میں کوئی تہذیب سے گری ہوئی بات نہیں ہوگی اور حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بھی بہت عاجزی سے خط لکھ رہے تھے کہ ہم آپ کے درشن کے مشتاق ہیں۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں بہت سے احباب کو یہ امید ہو چلی تھی کہ اب آریہ سماج تہذیب کا مظاہرہ کرے گی۔ لیکن دسمبر 1907ء کے آغاز میں ہونے والے جلسہ میں آریہ سماج کی طرف سے سابقہ بد تہذیبی کا مظاہرہ کیوں ہوا؟ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ حکومت نے اپنا رویہ تبدیل کر کے آریہ سماج پر کچھ شفقت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ستمبر میں حکومت نے راولپنڈی جیل میں موجود آریہ سماجی قیدیوں کو رہا کر دیا۔ 18 نومبر کو برما بھجوائے گئے لالہ لاجپت رائے اور اجیت سنگھ صاحب رہا ہو کر اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ اب آریہ سماج کے لیڈروں کی جان میں جان آ رہی تھی۔ نومبر1907ء کے آخری دنوں میں آریہ سماج کے لیڈروں کا ایک وفد ایک مرتبہ پھر گورنر سے ملا اور وفاداری کی یقین دہانی کرائی۔ اس مرتبہ گورنر صاحب ان سے نرمی سے ملے اور یقین دلایا کہ کچھ لوگوں کے فسادات میں ملوث ہونے کی وجہ سے پوری قوم پر شک نہیں کیا جائے گا۔ گورنر صاحب کے ذرا پچکارنے کی دیر تھی کہ آریہ سماج کے کرتادھرتا پھر اپنی پرانی خصلت پر واپس آگئے۔
لاہور میں ہونے والے اس جلسہ کے معاً بعد بہت سے نمایاں آ ریہ لیڈر دسمبر کے آخر میں سورت میں ہونے والے کانگرس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے گئے۔ پنجاب کی طرف سے شامل ہونے والے مندوبین میں رام بھجدت صاحب بھی شامل تھے اور ان کے ساتھ لالہ مرلی دھر صاحب بھی تھےجن کا حضرت مسیح موعودؑ سے مباحثہ ہوا تھا اور اس حوالے سے ہی حضرت مسیح موعودؑ نے ’’سرمہ چشم ِآریہ‘‘ تحریر فرمائی تھی۔ یہ واقعات 1907ء کے آخر کے ہیں اور 26 مئی 1908ء کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا وصال ہوگیا۔ آپؑ اپنی مبارک زندگی کے آخری دنوں میں ’’پیغام صلح‘‘ تحریر فرما رہے تھے جس میں ہندوستان کے تمام مذاہب کو یہ دعوت دی گئی تھی کہ وہ تمام بانیان مذاہب کا احترام کریں۔ ہندو بھی آنحضرتﷺکا پورا احترام کریں اور مسلمانوں کو اگرچہ گائے کا گوشت کھانے کی اجازت ہے لیکن وہ بھی ہندوؤں کے جذبات کا احترام کر کے گائے کا گوشت کھانا چھوڑ سکتے ہیں۔ ابھی یہ لیکچر پڑھا نہیں گیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا وصال ہو گیا۔ 21 جون 1908ء کو یونیورسٹی ہال لاہور میں خوا جہ کمال الدین صاحب نے یہ لیکچر پڑھ کر سنایا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس لیکچر میں شرکت کی دعوت بہت سے ایسے معززین کی طرف سے دی گئی تھی جن کا جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں تھا۔ ان میں اس وقت پنجاب مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری سرمیاںمحمد شفیع صاحب اور سرمیاں فضل حسین صاحب بھی شامل تھے جو پنجاب کے وزیر اور ہندوستان کی مرکزی حکومت میں وائسرائے کونسل کے ممبر بھی رہے۔ انہوں نے قادیان آکر 14 ستمبر 1907ء کو حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات بھی کی تھی اور لاہور میں 15 مئی 1908ء کوبھی حضورؑ سے ملاقات کی تھی۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ630,283)
21 جون 1908ء کو لاہور میں جلسہ کی صدارت رائے پرتول چندر صاحب جج چیف کورٹ پنجاب نے کی۔ انہوں نے صدارتی کلمات میں کہا: ’’میں اس عزت کا جو مجھے اتنے بڑے مجمع میں صدر بنا کر دی گئی ہے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جب پہلے مجھے پریذیڈنٹ بننے کی درخواست کی گئی تو میں نے اپنے آفیشل تعلقات کی وجہ سے تامل کیا۔ مگر پھر میں نے اس خیال سے اس امر کو منظور کرلیا کہ ہندو مسلمانوں میں باہمی اتفاق اور مودت کا ہونا تمام ملک کی بہتری اور بہبودی کا موجب اور گورنمنٹ کے واسطے باعث ِ برکات ہے … اور اس معاملہ پر روشنی ڈالنے اور تحریک کرنے کے واسطے قادیان کے ولی سے بہتر اَور کوئی آدمی نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘
مجمع میں بہت سی ہندو اور مسلمان معزز ہستیاں موجود تھیں۔ جب لیکچر پڑھا گیا تو مجمع پر اس کا ایک خاص اثر تھا۔ بہت سے احباب کا خیال تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی تجویز کے مطابق موقع پر موجود ہندو اور مسلمان صلح نامہ پر دستخط کریں اور باقی ملک ان کی پیروی کرے۔ کچھ احباب کا یہ خیال تھا کہ یہ بہت اچھی تجویز ہے اور ابھی فریقین کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اس بارے میں تجاویز پر غور کر کے صلح نامہ تیار کریں۔ حاضرین میں رام بھجدت صاحب بھی موجود تھے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے ماضی سے بالکل مختلف رویہ کا مظاہرہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق لیکچر کے بعد چونکہ صدر جلسہ بوجہ علالت طبع جانے والے تھے تو چوہدری رام بھجدت صاحب کھڑے ہوئے اور بڑے جوشیلے اور موثر الفاظ میں صدر جلسہ اور پبلک سے درخواست کی کہ یہ مفید اور بابرکت جلسہ جاری رہنا چاہیے۔ صدر ِجلسہ اگر جاتے ہیں تو آپ کی بجائے اپنا جانشین بنا جائیں۔ چنانچہ جناب شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویئر ہاؤس لاہور نے رائے نرائن داس صاحب کو صدر جلسہ ہونے کی رائے پیش کی جس کی تائید ہو کر منظور ہوا۔ سرفضل حسین صاحب نے بھی یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر جلسہ جاری رکھا جائے تو طرفین کی طرف سے قول و اقرار بلکہ معاہدہ ہونے کی امید ہے۔ مگر پھر اکثر احباب نے یہ رائے دی کہ اس مرحلہ پر پبلک میں یہ تجویز پیش کر کے پھر کسی موقع پر مناسب جلسہ کیا جائے۔ اس پر رام بھجدت صاحب نے پھر کھڑے ہوکر بڑے زور سے اس بات کی اپیل کی کہ اس وقت اس نیک کام کی تحریک دلوں میں پیدا ہو رہی ہے اور لیکچر کا اثر دلوں پر نمایاں ہے اور خاص جوش اس امر کا پایا جاتا ہے لہٰذا جلسہ جاری رہنا چاہیے۔ اس مرحلہ پر سرمحمد شفیع صاحب نے تقریر میں کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ جلسہ کسی دوسرے وقت پر ملتوی کردینا چاہیے کیونکہ اس وقت جب کہ طبائع متاثر ہو رہی ہیںاور سوچنے اور غور کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس میں کلام نہیں کہ جو پیغام اس وقت پڑھا گیا ہے اصول کے لحاظ سے نہایت ضروری ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ اس کی تکمیل اسی جلسہ میں کی جائے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جلسہ یہیں ختم کیا جائے اور پبلک کو اس کے متعلق غور و فکر کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس کے بعد مکرم خواجہ کمال الدین صاحب نے جلسہ برخاست کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح اس قسم کا معاہدہ کرنے کا نادر موقع ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے جاتا رہتا۔
(الحکم 10جولائی1908ء صفحہ1تا3)
اگست 1908ء میں رام بھجدت صاحب کچھ ماہ کے لیے انگلستان چلے گئے اور واپسی پر انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ ریاست جموں کشمیر میں گورنر کے عہدے کے لیے درخواست دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب کے چیف سیکرٹری سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر مہارا جہ نے ان کے بارے میں جاننے کے لیے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا تو پنجاب حکومت کا کیا جواب ہو گا؟
(Political Agitators in India P. 97)
اس دَور میں بھی آریہ سماج کی طرف سے شدھی کی مہم چلائی جا رہی تھی۔ ہر سال شدھی کی کانفرنس ہوتی تھی۔ ایک موقع پر پنجاب اور یو پی میں چلنے والی شدھی کی مہم میں رابطہ پیدا کرنے کے لیے الہ آباد میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ رام بھجدت صاحب نے بھی اس میں تقریر کی اور اس کانفرنس کے نتیجہ میں آل انڈیا شدھی سبھا کو جون 1911ء میں با قاعدہ رجسٹر کرایا گیا۔ رام بھجدت صاحب شدھی تحریک کے ایک نمایاں لیڈر تھے۔
(Arya Dharm Hindu Consciousness in 19th Century Punjab, by Kenneth W. Jones, published by University Of California Press, 1976 p307)
رام بھجدت صاحب شدھی تحریک میں نمایاں حصہ لے رہے تھے۔صرف 1910ء اور 1912ء کے درمیان انہوں نے ضلع گورداسپور میں ڈوم نسل سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ افراد کو شدھ کیا تھا۔ وہ شدھی سبھا کے صدر بھی رہے۔
(Religion, Caste & Politics in India By Christophe Jaffrelot p 93,151)
رام بھجدت صاحب صحافتی دنیا میں بھی سرگرم تھے اور لاہور سے ایک جریدہ ’’ہندوستان‘‘ نکالتے تھے۔ جب ہندوستان میں تحریک خلافت شروع ہوئی تو پورے ہندوستان میں سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ رام بھجدت صاحب نہ صرف آریہ سماج کے سرگرم رکن تھے بلکہ شدھی تحریک کے سر کردہ راہنما بھی تھے لیکن پھر بھی یہ حیران کن بات ہے کہ تحریک ِخلافت میں ان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ بلکہ جب جنوری 1919ء میں تحریک خلافت کا ایک وفد وائسرائے سے ملا تو اس وفد میں گاندھی جی کے علاوہ رام بھجدت صاحب بھی شامل تھے۔ اس وفد کے دیگر اراکین میں علی برادران، ڈاکٹر انصاری، ابوالکلام آزاد صاحب، سیف الدین کچلو صاحب، مولانا عبدالباری فرنگی محل صاحب بھی شامل تھے ۔
(K.K. Aziz, The Indian Khilafat Movement (1915-1933) A Documentary Record, p64-71)
رام بھجدت صاحب کے گاندھی جی سے قریبی تعلقات تھے۔ جب انہیں1919ء میں سیاسی سرگرمیوں کے باعث گرفتار کیا گیا تو گاندھی جی ان کے اہل ِ خاندان سے ملنے آئے تھے اور ان کے گھر میں مہمان رہے تھے۔ جب جلیانوالہ باغ کے سانحے سے قبل پنجاب میں سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر پہنچا تو اس وقت ہمیں رام بھجدت صاحب لاہور میں سیاسی طور پر صف ِ اول میں سرگرم نظر آتے ہیں۔جب 10؍اپریل 1919ء کو لاہور میں ہنگامے شروع ہو رہے تھے اس وقت ایک موقع پر رام بھجدت صاحب نے ایک انگریز افسر Broadwayکے کہنے پر مجمع کو منتشر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی تھی اور اس روز لاہور میں پولیس نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں کئی لوگ مارے گئے تھے۔ اس کے بعد کے دنوں میں بھی سیاسی بے چینی بڑھتی رہی تھی اور بادشاہی مسجد میں ایک عام جلسہ ہوا تھا جس میں پہلے خلیفہ شجاع الدین صاحب نے تقریر کی تھی اور گاندھی جی کا پیغام پڑھ کر سنایا تھا اور پھر اس کے بعد رام بھجدت صاحب نے خطاب کیا تھا۔ 14؍اپریل کو جب کہ امرتسر میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہو چکا تھا رام بھجدت صاحب کو گرفتار کر لیا گیا ۔
(The Amritsar Massacre: The Untold Story of One Fateful Day By Nick Lloyd p 91-96)
اس کے بعد بھی رام بھجدت صاحب کانگرس کے پلیٹ فارم پر ہندوستان کی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔1924ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں ان کے بیٹے دیپک چوہدری صاحب کی شادی گاندھی جی کی پوتی رادھا سے ہوئی ۔ پنجاب میں اب بھی ان کی سالگرہ کی تقریب منائی جاتی ہے۔
………٭………٭………٭………