سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 6)
استغفار کی کثرت
لوگ گناہ کر تے ہیںاور پھر جرأت کر تے ہیں اور خدا کا خوف ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہو تا اور ایسے سنگدل ہو جاتےہیں کہ کبھی ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا نہیںہو تا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے موردنہ بن جائیں۔ایک دفعہ کاذکرہے میں نے ایک شخص سے ذکر کیا کہ تم تو بہ واستغفار کیا کرو اور نیکی میں تر قی کرو اس نے مجھے جواب دے دیا کہ کیا آپ مجھے گندا جا نتے ہیں ۔ کیا میں گناہ گار ہوں کہ آپ مجھے نیکی اور تقویٰ اور استغفار کے لیےکہتے ہیںمیں یہ بات سن کر حیران ہو گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے اتنا ناواقف ہے اور اس کے جلال سے اتنا بے خبر ہے کہ اسے اتنی بھی نہیں سمجھ کہ اس بادشاہ سے انسان کو کیسا خائف رہنا چاہیے دنیا وی بادشاہوں کے مقربین کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی خدمت وخوشامدکے باوجود بھی ان سے یہی عرض کر تے رہتے ہیں کہ اگر کچھ قصور ہو گیا ہو تو عفو فر ما ئیں۔بے شک بہت سے لوگ حتی المقدور نیکی کا خیال رکھتے ہیں مگر پھر بھی انسان سے خطا کا ہو جانا کچھ تعجب کی بات نہیں۔رسول کریم ؐکو دیکھو کیسی معرفت تھی،کیسی احتیاط تھی،کس طرح خدا تعالیٰ سے خائف رہتے تھے اور باوجود اس کے کہ تمام انسانوں سے زیادہ آپؐ کا مل تھے اور ہر قسم کے گناہوں سے آپؐ پا ک تھے۔خود اللہ تعالیٰ آپ کا محافظ ونگہبان تھا مگر باوجود اس تقدیس اور پا کیزگی کے یہ حال تھا کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے خائف رہتے نیکی پر نیکی کرتے، اعلیٰ سے اعلیٰ اعمال بجالا تے،ہر وقت عبادت الٰہیہ میں مشغول رہتے مگر باوجود اس کے ڈرتے اور بہت ڈرتے۔اپنی طرف سے جس قدر ممکن ہے احتیاط کر تے مگر خدا تعالیٰ کے غناء کی طرف نظر فر ما تے اور اس کے جلال کو دیکھتے تو اس بارگاہ صمدیت میں اپنے سب اعمال سےدستبر دار ہو جا تے اور استغفار کر تے اور جب موقع ہو تا تو بہ کرتے۔حضرت ابوہریرہؓ فر ما تے ہیں
سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ وَاللہِ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً
(بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبی ﷺ)
میں نے آنحضرت ﷺ کو فر ماتے سنا ہے کہ خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیا دہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی کمزوریوں سے عفو کی درخواست کر تا ہوں اور اس کی طرف جھک جا تا ہوں۔
رسول کریم ؐ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گناہوں سے پاک تھے نہ صرف اس لیےکہ انبیا ء کی جماعت مَعْصُوْم عَنِ الْاِثْمِ وَالْجُرْمِ ہو تی ہے بلکہ اس لیےبھی کہ انبیاء میں سے بھی آپؐ سب کے سر دار اور سب سے افضل تھے ۔ آپؐ کا اس طرح استغفار اور تو بہ کر نا بتا تا ہے کہ خشیت الٰہی آپؐ پر اس قدر غالب تھی کہ آپؐ اس کے جلال کو دیکھ کر بے اختیار اس کے حضور میں گر جا تے کہ انسان سے کمزوری ہو جا نی ممکن ہے تُو مجھ پر اپنا فضل ہی کر۔وہاں تو یہ خشیت تھی اور یہاں یہ حال ہے کہ ہم لوگ ہزاروں قسم کے گناہ کرکے بھی استغفارو تو بہ میں کو تا ہی کر تے ہیں
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔
موت کا خیال
آنحضرت ﷺموت سے کسی وقت غافل نہ رہتے اور خشیت الٰہی آپؐ پر اس قدر غالب تھی کہ ہر روز یہ یقین کرکے سو تے کہ شاید آج ہی موت آجاوے اور آج ہی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو نا پڑے اور اس لیےآپؐ ایک ایسے مسافر کی طرح رہتے تھے جسے خیال ہو تا ہے کہ ریل اب چلی کہ چلی ۔ وہ کبھی اپنے آپ کو ایسے کام میں نہیں پھنسا تا کہ جسے چھوڑ نا مشکل ہو۔آپ ؐ بھی ہر وقت اپنے محبوب کے پاس جا نے کے لیےتیار رہتے اور جو دم گزرتا اسے اس کے فضل کا نتیجہ سمجھتے اور موت کو یاد رکھتے۔حذیفہ بن الیمان ؓ فرماتے ہیں
کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسلَّمَ اِذَ اَخَذَ مَضْجَعَہٗ مِنَ اللَّیْلِ وَضَعَ یَدَہٗ تَحْتَ خَدِّہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَللّٰھُم بِا سْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا وَاذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَحْیَا نَا بَعْدَ مَا اَمَا تَنَا وَاِلَِیْہِ النُّشُوْرُ (بخا ری کتاب الدعوات باب وضع الید تحت الخد الیمن)
رسول کریم ؐ کی عادت تھی کہ جب آپؐ اپنے بستر پر لیٹتے اپنےرخسا ر کے نیچے اپنا ہا تھ رکھتے اور فر ما تے اے میرےمولا ! میرا مر نا اور جینا تیرے ہی نام پر ہو اور جب سو کر اٹھتے تو فرماتے شکر ہے میرے رب کا جس نے ہمیں زندہ کیا مارنے کے بعد۔ اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جا نا ہے۔اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ ہر را ت جب بستر پر جا تے تو اپنی طرف سے حساب ختم کر جا تے اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتے کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو تب بھی تیرے ہی نام پر میری زندگی ہو اور جب اٹھتے تو خدا تعالیٰ کے احسان پر حمد کر تے کہ میں تو اپنی طرف سے دنیا سے علیحدہ ہو چکا تھا تیرا ہی فضل ہوا کہ تو نے پھر مجھے زندہ کیا اورمیری عمر میں بر کت دی۔
ایک اَور مثال
جس طرح مذکورہ بالا دعا سے معلوم ہو تا ہے کہ رسول کریمؐ ہر وقت موت کو یاد رکھتے تھے اسی طرح مذکورہ ذیل دعا بھی اس بات پر شاہد ہے کہ آپؐ اپنی زندگی کی ہر گھڑی کو آخری گھڑی جانتے تھے اور جب آپؐ سونے لگتے تو اپنے رب سے اپنے معاملہ کا فیصلہ کرلیتے اور گو یا ہر ایک تغیر کے لیےتیار ہو جاتے۔چنانچہ براء بن عازبؓ کی روایت ہے کہ
کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اِذَا اوٰی اِلی فِرَاشِہٖ نَامَ عَلٰی شِقِّہِ الْاَ یْمَنِ ثُمَّ قَالَ اللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَوَجَّھْتُ وَجْھِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَاَلْجاْتُ ظَھْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَھْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَاَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی اَرْسَلْتَ (بخا ری کتاب الدعوات باب النوم علی الشق الایمن )
فرما تے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر جا کر لیٹتےتو اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے پھر فرماتے اے میرے رب میں اپنی جان تیرے سپرد کر تا ہوں اپنی سب توجہ تیری ہی طرف پھیرتا ہوں۔میں اپنا معاملہ تیرے ہاتھوں میں دیتا ہوں۔اور اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں۔تجھ سے نفع کا امیدوار ہوں۔تیری بڑا ئی اور استغنا سے خائف بھی ہوں تیرے غضب سے بچنے کے لیےکو ئی پناہ کی جگہ نہیں اور نہ کوئی نجات کا مقام ہے مگر یہی کہ تجھ ہی سے نجات وپناہ طلب کی جا ئے ۔ میں اس کتاب پر جو تو نے نازل کی ہے اور اس رسول ؐ پر جو تو نے بھیجا ہے ایمان لا تا ہوں۔
لوگ اپنی دو کان کو بند کر تے وقت اس کا حساب کر لیتے ہیں مگر خدا سے جو حساب ہے اسے صاف نہیں کرتے مگر کیسا برگزیدہ وہ انسان تھا جو صبح سے شام تک خدا کے فرا ئض کے ادا کر نے میں لگا رہتا اور خود ہی انہیں ادا نہ کر تا بلکہ ہزاروں کی نگرانی بھی سا تھ ہی کر تا تھا کہ وہ بھی اپنے فرائض کو ادا کر تے ہیںیا نہیں مگر رات کو سونے سے پہلے اپنی تمام کو ششوں اور عبادتوں سے آنکھ بند کر کے عاجزانہ اپنے مولیٰ کے حضور میں اس طرح حساب صاف کرنے کے لیےکھڑا ہو جا تا کہ گو یا اس نے کو ئی خدمت کی ہی نہیں اور اس وقت تک نہ سو تا جب تک اپنی جان کو پو رے طور سے خدا کے سپرد کرکے دنیا ومافیھا سے بر اءت نہ ظاہر کرلیتا اور خدا کے ہا تھ میں اپنا ہا تھ نہ دے لیتا۔
لطیفہ :-اس دعا سے ایک عجیب نکتہ معلوم ہو تا ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم ؐ کو اپنی نبوت پر اس قدر یقین کامل تھا کہ آپؐ عین تنہا ئی میں ہر رو ز سو تے وقت خدا کے سامنے اقرار فرماتے کہ مجھےاپنی نبوت پر ایمان ہے اور اسی طرح قرآن شریف پر بھی ایمان ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ ؐ اپنی تعلیم کو لوگوں کے لیےہی قابل عمل نہیں جانتے تھے بلکہ سب سے پہلے اپنے نفس کو کہتے تھے کہ یہ حکم خدا کا آیا ہے اور اس کا رسول یوں کہتا ہے کہ اس پر ایمان لا۔اس لیےتو آپؐ فر ما تے ہیں کہ
اٰمَنْتُ بِکِتَا بِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلَتَ۔
آپؐ ابتلا ؤں اور عذابوں سے پناہ مانگتے رہتے
بعض لوگوں کی عا دت ہو تی ہے وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو فتنوں میں ڈالتے ہیں اور اس طرح اپنے نفس کا امتحان کر تے ہیں مگر یہ لوگ بعض دفعہ ان فتنوں میں ایسے گرتے ہیں کہ پھر سنبھلنے کی طا قت نہیںرہتی اور بجا ئے تر قی کر نے کے ان کا قدم نیچے ہی نیچے چلا جا تا ہے کچھ آدمی ایسے ہو تے ہیں جو خود بڑے بڑے کام طلب کر تے ہیں کہ ہمیں اگر ایسی مصیبت کا موقع ملے تو ہم یوں کریں اور یوں کریں اور اس طرح دین کی خدمت کریں لیکن رسول کریمؐ کی نسبت اس کے خلاف ہے۔آپؐ کبھی پسند نہ فرما تے تھے کہ کو ئی انسان خدا تعالیٰ سے ابتلاؤں کی خواہش کرے کیونکہ کو ئی کیا جانتا ہے کہ کل کیا ہو گا۔ممکن ہے کہ خد اکی غیرت اسے تباہ کر دے۔
ممکن ہے کہ ا س کے اپنے اعمال کی کمزوری اس کے آگے آجائے۔ممکن ہے کہ شیطان اس کے دل پر تسلط پا کر اسے خراب کر دے اور یہ گمراہ ہو جا ئے چنانچہ آپؐ خودبھی بجائے ابتلاؤں کی آرزو کر نے کے ان سے بچنے کی دعا کرتے تھے۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَعَوَّذُ مِنْ جَھْدِ الْبَلَآءِ وَدَرْکِ الشَّقَآءِ وَسُوْءِ القَضَآ ءِ وَشَمَا تَۃِ الْاَعْدَآ ءِ ( بخا ری کتاب الدعوات باب التعوّ ذ من جھد البلاء)
رسول کریم ؐ ہمیشہ خدا سے پناہ مانگتے تھے کہ مجھ پر کو ئی ایسی مصیبت نہ آئے جو میری طا قت سے بڑھ کرہوکو ئی ایسا کام نہ پیش آجائے کہ جس کا نتیجہ ہلاکت ہو۔اور کو ئی خدا کا فیصلہ ایسا نہ ہو کہ جس کو میں نا پسند کروں اور کوئی ایسا فعل سر زد نہ ہو کہ جس سے میرےدشمنوں کو خوشی کا موقع ملے۔اس دعا سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؐ کے دل میں کیسی خشیتِ الٰہی تھی اور آپؐ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میںکیسا کمزور جانتے اور کبھی اپنی بڑائی کے لیےاور اپنے ایمان کے اظہار کے لیےکسی بڑے کام یا ابتلا ءکی آرزو نہ فر ما تے اور یہی حقیقی ایمان ہے جس کی اقتدا کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔
لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنۃٌ (الاحزاب :22)
رسول کریم ﷺ کی ایک اَوردعا بھی ہے جو آپؐ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے طلب فرماتے۔ اس سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کے دل میں کس قدر خوف الٰہی تھا ۔ ابو موسٰیؓ فرماتے ہیں آپؐ ہمیشہ دعا فر ما تے تھے کہ
اَللّٰھُمَّ اغفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ وَجَھْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ھَزْلِیْ وَجِدِّیْ وَخَطَایَایَ وَعَمْدِیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ (بخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ اللھم اغفرلی ما قدمت واخرت)
اے اللہ ! میرے اعمال کے نتائج بد سے مجھے محفوظ رکھ اور میری خطاؤں کے نتا ئج سے بھی۔میں اگر اپنی ناواقفیت کی وجہ سے کو ئی کام جو کر نا ہو نہ کروں یا کو ئی کام جس حد تک منا سب تھا اس سے زیاد ہ کر بیٹھوں اور جسے تو میری نسبت زیادہ جانتا ہے تو اس کے نتا ئج سے بھی مجھے محفوظ رکھ۔اے اللہ اگر کوئی بات میں بے دھیان کہہ بیٹھوں یا متانت سے کہوں،غلطی سے کہوں یا جان کر کہوں اور یہ سب کچھ مجھ میں ممکن ہے پس تو ان میں سے اگر کسی فعل کا نتیجہ بد نکلتا ہو تو اس سے مجھے محفوظ رکھیو۔
حضرت عائشہ ؓ رسول کریم ؐ کی ایک اَور دعا بھی بیان فر ما تی ہیں اور وہ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ جو ایمان وخشیت رسول کریم ﷺ میں تھی اس کی نظیر کسی اور انسان میںنہیں مل سکتی۔انسان دعا اس سے مانگتا ہے جس پر یقین ہو کہ یہ کچھ کر سکتا ہے۔ایک موحّد جو بتوں کی بے کسی سے واقف ہے کبھی کسی بت کے آگے جا کر ہا تھ نہیں پھیلا ئے گا کیونکہ اسے یقین ہے کہ یہ بت کچھ نہیں کر سکتے لیکن ایک بت پرست ان کے آگے بھی ہاتھ جوڑ کر اپنا حال دل کہہ سناتا ہے کیونکہ اسے ایمان ہے کہ یہ بت بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ایک ذریعہ ہیں۔فقیر بھی اس بات کو دیکھ لیتے ہیں کہ فلاں شخص دے گا یا نہیں اور جس پر انہیں یقین ہو کہ کچھ دے گا اس سے جا کر طلب کر تے ہیں۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ آدمی اس سے کچھ مانگتا ہے جس پر اسے ایمان ہو کہ اس سے ملے گا۔رسول کریمؐ کا ہر وقت خدا سے امداد طلب کر نا ،نصرت کی درخواست کر نا اور اٹھتے بیٹھتے اسی کےکواڑ کھٹکھٹا نا،اسی سے حاجت روائی چاہنا کیا اس بے مثل یقین اور ایمان کو ظا ہر نہیں کر تا جو آپؐ کو خدا پر تھا۔اور کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ آپؐ کا دل یا د الٰہی اور خشیت ایزدی سے ایسا معمور و آبا د تھا کہ تو جہ الی المخلوق کااس میں کو ئی خانہ خالی ہی نہ تھا۔اگر یہ بات کسی اور انسان میں بھی پا ئی جا تی تھی اور اگر کو ئی اور شخص بھی آپؐ کے برابر یا آپؐ کے قریب بھی ایمان رکھتا تھا اور خدا کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا تو اس کے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھر نے میںبھی خشیتِ الٰہی کے یہ آثار پا ئے جانے ضروری ہیں مگرمیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ زمین کےہر گو شہ میں چراغ لےکر گھوم جاؤ،تاریخوں کی ورق گردانی کرو،مختلف مذاہب کے مقتداؤں کے جیون چرتر،سوانح عمریاں اور با یو گرافیاں پڑھ جاؤ مگر ایسا کامل نمونہ کسی انسان میں نہ پاؤ گے۔اور وہ خوف خدا جو رسول کریم ﷺ کے ہر ایک قول سے ظاہر ہو تا ہے اور وہ حزم و احتیاط جو آپؐ کے ہر ایک فعل سے ٹپکتی ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے انسان کی زندگی میں پا یا جا نا محال ہے۔وہ دعا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یہ ہے۔
اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَزَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِالنَّا رِ وَعَذَابِ النَّا رِوَمِنْ فِتْنَۃ الْغِنٰی وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَآعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ اللَّھُمَّ اَغْسِلْ عَنِّیْ خَطَا یَایَ بِمَآ ءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَا یَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْاَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَبَا عِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَا یَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ (بخا ری کتاب الدعوات باب التعوذ من الماثم و المغرم )
اے میرے رب ! میں تجھ سے سستی اور شدید بڑھا پے اور گناہوں اور قرضہ اور قبر کے فتنہ اورقبرکے عذاب اور دوزخ کے فتنہ اور اس کے عذاب اور دولت کے فتنہ کے نقصانوں سے پناہ مانگتا ہوں اور اسی طرح میں غربت کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے اللہ میری خطاؤں کو مجھ سے برف اور اولوں کے پا نی کے سا تھ دھو دے اور میرے دل کو ایسا صاف کر دے کہ جیسے تو نے سفید کپڑے کو میل سے صاف کر دیا ہے اور مجھ میں اور گناہوں میں اتنا فاصلہ حائل کر دے جتنا تو نے مشرق و مغرب میں رکھا ہے۔
اے وہ انسان جسے رسول کریم ﷺ سے عداوت ہے تو بھی ذرا اس دعا کو غور سے پڑھا کر اور دیکھ کہ وہ گناہوں سے کس قدر متنفر تھے۔و ہ بدیوں سے کس قدر بیزار تھے۔وہ کمزوریوں سے کس طرح بری تھے۔وہ عیبوں سے کس قدر پا ک تھے اور ان کا دل خشیت الٰہی سے کیسا پر تھا
فَتَدَ بَّرْ وَاھْتَدِ بِھُدُ اہُ۔
(باقی آئندہ)