حضور انور کے ساتھ ملاقاتیورپ (رپورٹس)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ جرمنی کی (آن لائن) ملاقات

ابھی تک جو میں نے ریسرچ کی ہے یا کروائی ہے ہمارے مختلف احمدی جواس فیلڈ کے سپیشلسٹ ہیں ان سے بھی پتہ کروایا ہے، انہوں نے بھی ریسرچ کی ہے، پڑھے لکھے لوگوں نے، ڈاکٹروں نے، امریکہ سے لے کر یہاں تک تو ساروں کا یہ خیال ہے کہ (ویکسین) کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 28؍اگست 2021ء کو مجلس اطفال الاحمدیہ جرمنی کے ممبران سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضور انور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ 1000 سے زائد اطفال نے اس آن لائن ملاقات میں Maimarkclub ، Mannheim سے شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کے بعد ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ کو حضور انور سے براہ راست چند سوالات پوچھنے کا موقع ملا ۔

خدام الاحمدیہ جرمنی کی گزشتہ آن لائن ملاقات کے دوران بارش ہوتی رہی تھی، جس کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایاکہ ان (اطفال) کو آج ہا ل میں بٹھایا ہو اہے، بارش کا ایک تجربہ جو آپ نےخدام کے ساتھ کر لیا ہے ۔ ویسے تو یہ بھی ماشاء اللہ مجاہد ہیں، آج کل (خطبات جمعہ میں) بدری صحابہ کا ذکر ہو رہا ہے، تو وہاں آندھی بھی آئی ہوگی، بارش بھی ہو گئی لیکن وہ 13 یا 14 سال کے لڑکے ہی تھے ناں جو وہاں قائم بھی رہے۔ تو فکر نہ کرو، یہ ہمارے اطفال بھی سارے ماشاء اللہ مجاہد ہی ہیں۔ لیکن اچھا ہوا ہے ان کو اندر بٹھا دیا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ بارش میں جا کے بٹھا دو۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ پیارے حضور جرمنی میں بارہ سال سے بڑے بچوں کو کورونا ویکسین لگوانے کی اجازت ہے۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لگوانا چاہیے لیکن کچھ کہتے ہیں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تو آپ کی اس حوالے سے کیا ہدایت ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اچھی بات ہے۔ اگر گورنمنٹ لگاتی ہے تو لگا لینی چاہیے۔ کوئی حرج نہیں ہے۔ کیا حرج ہے، protection ہی ہے۔ ابھی تک جو میں نے ریسرچ کی ہے یا کروائی ہے ہمارے مختلف احمدی جواس فیلڈ کے سپیشلسٹ ہیں ان سے بھی پتہ کروایا ہے، انہوں نے بھی ریسرچ کی ہے، پڑھے لکھے لوگوں نے، ڈاکٹروں نے، امریکہ سے لے کر یہاں تک تو ساروں کا یہ خیال ہے کہ (ویکسین)کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جو لوگ بتاتے ہیں کہ یہ یہ نقصانات ہیں وہ ملینز میں کہیں ایک ہوتا ہے۔ کوئی اس طرح نہیں ہے کہ ہر ایک نارمل کیس میں اس طرح ہو جائے، رسک تو ہر جگہ ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اگر لگاتے ہیں تومیرا خیال ہے لگوا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

پھر ایک طفل نے سوال کیا کہ پیارے حضور آپ نئے پیدا ہونے والے بچوں کے نام کیسے منتخب کرتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے اس منصب پہ فائز کیا تو میں نے دیکھا کہ خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک فائل بنائی ہوئی تھی اس میں بچوں کے نام تھے اور وہ اس میں سے سلیکٹ کیا کرتے تھے۔ جو آتے تھے تو ان میں سے سلیکٹ کر کے بچوں کو بتا دیا کرتے تھے۔ پھر میں نے بھی اس کو جاری رکھا اور اس میں مزید نام بھی ایڈ(add)کروائے اس کو مزید update کیا، کچھ نئے نئے نام میرے ذہن میں آئے وہ بھی بیچ میں رکھے تو ایک فائل بنا لی ہے۔ جب میں خود کرتا ہوں تو اس فائل کو دیکھ کے پھر بچوں کے نام رکھ دیتا ہوں اور بتا دیتا ہوں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو ماں باپ کے نام ہیں زیادہ ان سے ملتے جلتے نام ہی ہوں ۔لیکن بعض دفعہ دوسرے نام بھی رکھے جاتے ہیں۔

پھر حضورِ انور نے اس طفل سے پوچھا کہ اس کا نام کس نے رکھا ہے تو اس نے بتایا کہ حضور انور نے۔ اس پر حضور انور نے پھر استفسار فرمایا کہ جاذب کا کیا مطلب ہوتا ہے تو اس طفل نے جواب دیا کہ جذب کرنے والا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہاں absorb کرنے والا۔ بس اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرو، اللہ کے رسول کی محبت کو جذب کرو اور نیکیاں بجا لاؤ تب ہی تمہارے نام کا صحیح پتہ لگے گا۔

ایک طفل نے حضور انور سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مقصد پوچھا تو حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا کہ اس کی عبادت کرو اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمہیں عبادت کاطریقہ بتایا۔ اور بتایا کہ میں نے انسان کو پیدا کیا یا تمہیں پیدا کیا ہے، تمہیں بہت ساری صفات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سارے جانور بنائے ہیں، مخلوق بنائی ہے۔ انسان بھی تو ایک جانوروں میں سے ایک جانور ہے لیکن اس کو سوشل animal کہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو بھی (مخلوقات) بنائی ہیں سب سے اشرف، سب سے بہتر جو مخلوق بنائی وہ انسان کو بنایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی، دماغ دیا، سوچ دی جس سے وہ نئی نئی ایجادیں بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے دیکھ لو تم لوگ آجکل کبھی جہازوں کی ایجادیں کرتے ہو، کبھی نئی نئی قسموں کی کاریں ایجادکرتے ہو، کبھی کمپیوٹر کی ایجادیں کرتے ہو، نئے فونوں کی ایجادیں کرتے ہو، نئے نئے Appsنکال لیتے ہو، نئی نئی گیمز نکال لیتے ہو یہ ساری ایجادیں اللہ تعالیٰ نے دماغ دیا ہے اس لیے کرتے ہو۔ تو اللہ میاں نے کہا کہ جب تمہیں میں نے سب سے بہترین بنایا ہے تو میری شکر گزاری بھی کرو۔ شکر ادا کرو میرا کہ میں نے تمہیں سب سے بہتر بنایا اور تمہیں دماغ دیا جس سے تم مختلف قسم کے کام کر سکتے ہو اور جو باقی مخلوق ہے اس کو اپنے انڈر (under)کر سکتے ہو، اپنے ماتحت کر سکتے ہو۔ اور اس لیے شکر گزاری کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تم میری عبادت کرو، میرا شکر ادا کرو اور شکر ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف جو نبی بھیجے ان میں ہرزمانے میں مختلف عبادتوں کے طریقے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھیجا تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعہ سے ہمیں نمازوں کا حکم دیا اور پہلے فرمایا کہ پانچ نمازیں، وہ لمبی حدیث ہے کہ پہلے کتنی تھیں اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوتی ہوتی پانچ ہو گئیں لیکن بہرحال پانچ نمازیں ہم پر فرض کر دیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنیں اور جب ہم اللہ کے شکر گزار بنیں گے تو اللہ فرماتا ہے کہ ایک تو تمہیں میں نے جو عقل اور سمجھ دی تھی اور ایک خوبصورت انسان بنایا تھا اور اپنی مخلوق میں سب سے بڑھ کے بنایا تھا اس کی شکرگزاری کے طور پر جب تم میری عبادت کرتے ہو، میرے حکموں کو مانتے ہو تو میں تم پہ اَور بھی فضل کروں گا اَور بھی تمہیں نوازوں گا۔ اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی دیتا ہے، دوسرے لوگ بھی جب محنت کرتے ہیں، کام کرتے ہیں چاہے وہ اللہ کی عبادت نہ بھی کریں ان کو بھی اللہ میاں دیتا ہے لیکن ایک احمدی مسلمان کو، ایک حقیقی مسلمان کو جو صحیح اللہ تعالیٰ کو ماننے والا ہے اس کو اللہ تعالیٰ عبادت کا rewardبھی دیتا ہے کہ وہ دنیاوی چیزوں میں بھی اس کو بڑھاتا ہے اور اس کو دین اور روحانیت میں بھی بڑھاتا ہے اور عبادت کی وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ تعلق میں بھی اس کو بڑھاتا ہے۔ پھر اس کا اللہ سے ایک خاص تعلق اور پیار پیدا ہو جاتا ہے اور وہ پھر ہر بات اللہ کے کہنے کے مطابق کرتا ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی جو ہے یہ تو عارضی زندگی ہے۔ تم زیادہ سے زیادہ ستر اسّی نوّے سو سال زندہ رہ لو گے۔ اکثریت اتنی ہی ہوتی ہے ناں۔ اس کے بعد جو ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے وہاں تمہیں پھر اس عبادت کرنے کا reward بھی دوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ ایک نیک آدمی کو جو اس کی عبادت کرنے والا ہے اس دنیا میں بھی نوازتا ہے، سب کچھ دیتا ہے اور جو شکر گزاری کرنے کی وجہ سے اور عبادت کرنے کی وجہ سے اس کو پھر اگلے جہان میں بھی نوازتا ہے جبکہ باقیوں کو نہیں ملے گا۔ اس لیے ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔

پھر ایک طفل نے سوا ل کیا کہ جو ہم صدقہ دیتے ہیں اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ تم صدقہ دیتے ہو تو کم از کم دوسروں کا تو فائدہ ہوتا ہے ناں۔ ہمیں کچھ دوسروں کا بھی فائدہ سوچنا چاہیے کہ نہیں؟ صرف اپنا ہی فائدہ دیکھنا ہے کہ دوسروں کا بھی دیکھنا ہے؟ (طفل نے عرض کیا کہ دوسروں کا بھی دیکھنا ہے۔) ایک غریب آدمی ہے تم بیٹھے برگر(burger)کھا رہے ہو Nando’sکھا رہے ہو۔ فش اینڈ چپس (Fish and Chips)کھا رہے ہو اور دوسرا بیچارہ لڑکا ایک تمہاری عمر کا بھوکابیٹھا ہے۔ اس نے صبح ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا اور کھانے کو بھی کچھ نہیں ہے اور اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑے بھی نہیں ہیں اور تم اگر اس کو پیسے دیتے ہو کہ تم کپڑے اچھے پہن لو اور کھانا کھا لو تو اس کا فائدہ ہوگا ناں۔ ٹھیک ہے ناں وہ تمہیں شکریہ ادا کرے گا ناں تمہارا۔ اور جب شکریہ تمہارا ادا کرے گا تمہیں خوشی ہو گی کہ نہیں ہو گی؟ (طفل نے جواب دیا کہ ہوگی) تو ایک تو تمہیں فائدہ یہ ہو گیا کہ تمہیں صدقہ دینے سے خوشی پہنچی۔ دوسرا اور بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تم نے غریب کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں بھی تمہیں اس کی جزا دوں گا، reward دوں گا۔ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے سے خوش ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم نیکی کرو گے تو میں تمہیں نیکی کا بدلہ دس گنا بلکہ سات سو گنا تک اور اس سے بھی زیادہ دیتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ بھی تمہیں نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے۔ تمہاری اس نیکی کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ تم نے پانچ یورو کسی پر صدقے کے خرچ کیے تو اللہ تعالیٰ تمہیں پانچ سو یورو دے دے یا سو یورو دے دے یا اللہ تعالیٰ تمہاری کوئی اَور خواہش پوری کر دے، اللہ تعالیٰ تمہارے سے خوش ہوجائے، تمہیں اور نیکیاں کرنے کی توفیق دے۔

پھر ایک نیکی سے دوسری نیکی بچے دیتی جاتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے۔ تو یہ بھی فائدہ ہے۔ ایک تو تم نے اس بندے کو خوش کیا، اس کی دعائیں لیں، اس کی دعاؤں سے تمہیں فائدہ پہنچے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ خوش ہوا۔ اللہ تعالیٰ خود بھی تمہیں بہت زیادہ reward دے گا تو اور پھر تمہیں خود اپنے دل کو بھی سکون ملے گا کہ میں نے کسی غریب آدمی کی مدد کی تو صدقہ کے فائدے تو ہو گئے ناںکہ نہیں ہوئے۔ (طفل نے عرض کیا کہ ہوگئے) تو فرمایا کہ بس پھر جا کے دیا کرو صدقہ۔

پھر ایک دوسرے طفل نے سوال کیا کہ جب ہم مشکل میں ہوتے ہیں تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سزا دے رہا ہے یا ایک امتحان لے رہا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ تم مشکل میں ہو تو اگر تو تم نے کوئی برائی کی ہے اور اس برائی کی وجہ سے مشکل میں گرفتار ہوئے ہو تو ظاہر ہے پتہ لگ گیا ناں کہ سزا ہی مل رہی ہو گی۔ اگر کوئی برائی نہیں کی اور ویسے ہی بعض مشکلات کھڑی ہو گئیں رستے میں، تکلیفیں سامنے آ گئیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے۔ نبی تو اللہ تعالیٰ کے بہت پیارے ہوتے ہیں ناں۔ ان کو بھی ابتلا آتے ہیں، مشکلات آتی ہیں۔ وہ بیمار بھی ہوتے ہیں، ان کو مشکلات بھی آتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کےسب سے زیادہ پیارے تھے۔ ان کو بھی مشکلات رستے میں آتی تھیں ۔ ان کے پاس بھی ایسا وقت آیا ناں جب ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا۔ جنگ کے دنوں میں ان کو بھی ایسا وقت آیا جب انہوں نے پیٹ پہ پتھر باندھے ہوئے تھے۔ تو ان سے زیادہ پیارا اللہ تعالیٰ کو کون تھا۔ ان کو بھی مشکلات میں ڈال دیا۔ پھر جنگ کی مشکلات ہوئیں۔ کئی کئی دن کے فاقے ہوتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں ہمارے گھر میں کئی کئی دن آگ نہیں جلتی تھی۔ کئی کئی دن آگ نہیں جلتی تھی۔ کبھی کھانا آ جاتا تھا اور سرکے میں ڈبو کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روٹی کھاتے تھے تو کہتے تھے کتنا اچھا اعلیٰ کھانا ہے۔ تمہارے گھر ایک وقت تمہیں کھانا نہ ملے تم کہتے ہو ہم کس مشکل میں پھنس گئے۔ یہ مشکلات ہوتی ہیں۔ کبھی کسی صحابی کو پتہ لگا کہ کئی دن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فاقے سے ہیں تو ان کو دعوت کرتے تھے۔ لے جاتے تھے۔ اگر تمہارے لیے یہی مشکلات ہیں ،اگر تمہیں آج اماں برگر کھانے کے لیے پیسے نہ دیں، اباپیسے نہ دیں یا سکول جانے کے لیے پاکٹ منی نہ دیں یا بخار میں مبتلا ہو گئے تو تم کہتے ہو ہم کس مشکل میں پڑ گئے۔ تمہارے لیے تو یہی مشکلات ہیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ بڑے سخت گرم تھے، کہ جتنا مجھے تیز بخار ہوتا ہے اور مَیں بیمار ہوتا ہوں، جتنی مشکل میں ہوتا ہوں اگر تم لوگوں کو ہو تو تم برداشت نہیں کر سکتے۔ تو مشکلات جو ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر انسان برداشت کرتا ہے، نیکیاں کر رہا ہے اور کوئی برائی نہیں کر رہا، اگر تم سمجھتے ہو تم نے کوئی برائی نہیں کی، تم نیکی کرنے والے ہو، تم نمازیں پڑھنے والے ہو، اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہو، لوگوں کے حق ادا کرنے والے ہو، کسی سے لڑائی نہیں کرتے، جھگڑا نہیں کرتے، کسی کا حق نہیں مارتے، پھر رستے میں جو مشکلات آتی ہیں، ابتلا آتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہیں۔ اللہ تعالیٰ مزید دیکھتا ہے کہ تم برداشت کر سکتے ہو کہ نہیں اور جب برداشت کرتے ہو پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہو۔ اور پھر بھی یہی کہتے ہو کہ ہم راضی ہیں اسی میں جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ انعامات دیتا ہے اور انعامات سے نوازتا چلا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھر انسان کو پتہ لگ جاتا ہےاس مشکل کے بعد جب آسانیاں پیدا ہوتی ہیں تو تب پتہ لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سے امتحان لے رہا تھا لیکن اس مشکل میں منہ سے تم لوگ ایسے الفاظ نکالنے شروع کر دو جن میں ناشکری کے الفاظ ہوں یا شکوہ ہو اللہ تعالیٰ سے تو پھر وہ مشکلات لمبی ہوتی چلی جاتی ہیں اور ہو سکتا ہے وہ ابتلا، امتحان جو ہے وہ تمہارے لیے سزا کا باعث بھی بن جائے اگر تم شکرگزاری نہیں کر رہے۔ اس لیے ہر حال میں شکرگزاری کرو، اللہ کی عبادت کرو، بندوں کے حق ادا کرو تو اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں reward دیتا ہے اور جزا دیتا ہے، انعام دیتا ہے اور پھر انسان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ مَیں جس مشکل میں سے گزر رہا تھا وہ مشکل میری سزا نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان تھا۔

ایک طفل نے سوال پوچھا کہ بچپن میں آپ کی کیا فیورٹ ڈش (favourite dish)تھی جو آپ کی والدہ بناتی تھیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ ہم نے کبھی نخرے کیے ہی نہیں تمہاری طرح کے۔ جو گھر میں کھانا پک جاتا ہے، دال پکی ہے تو دال کھا لی۔ گوشت پکا ہے تو گوشت کھا لیا۔ آلو گوشت پکا ہے تو آلو گوشت کھا لیا۔ کریلے پکے تو کریلے کھا لیے۔ کدو پکے تو کدو کھا لیے۔ یہ آجکل کے تم لوگوں کے نخرے ہیں ہمارا کوئی ایسا نخرہ نہیں ہوتا تھا۔ اماں ابا کہتے تھے یہ کھانا پکا ہوا ہے بچے کھانا کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو بس۔ ٹھیک ہے۔ یہ نخرے چھوڑ دو۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ جب کوئی دوست یا کوئی بچہ میرے ساتھ بری باتیں کرنا شروع ہو جائے پھر میں کیا کروں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ للہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ایسے لوگوں سے بچ کے رہو۔ اول تو دوست ایسے بناؤ جو اچھے ہوں، جو اچھی باتیں کرنے والے ہوں اور پڑھائی کی باتیں کرنے والے ہوں یا اچھی اچھی نیک باتیں کرنے والے ہوں۔ جنرل نالج کی باتیں کرنے والے ہوں جس سے علم بھی بڑھے اور ویسے اللہ تعالیٰ کی باتیں اور نیک باتیں کرنے والے ہوں ایسے دوست بنانے چاہئیں اور اگر کہیں ایسے لوگ ہیں جن کا تمہیں پتہ نہیں، سکول میں تمہارے ایسے لڑکے ہیں جو بری باتیں کرنے لگ جائیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے ایسی مجلس، ایسی جگہوں سے اٹھ کے چلے جاؤ۔ کہہ دو میں ایسی بری باتیں نہیں سن سکتا اس لیے میں جا رہا ہوں ’السلام علیکم‘۔ جب تم اچھی باتیں کرو گے دوبارہ تمہارے درمیان میں آجاؤں گا ۔یہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ایسا موقع جب آئے تو اس مجلس سے اٹھ کے چلے جایا کرو، اس جگہ سے اٹھ کے چلے جایا کرو اور ان سے کہو کہ تم چونکہ بری باتیں کر رہے ہو اس لیے میں یہاں بیٹھ نہیں سکتا۔ اور کہو جب اچھی باتیں کرو گے تو میں تمہارے پاس دوبارہ آجاؤں گا۔ ہاں مجھے ان گندی باتوں سے نفرت ہے اور میں ان باتوں کو نہیں سن سکتا اس لیے میں جا رہا ہوں۔ ’السلام علیکم‘۔ اور میں دعا کرتا ہوں تم لوگ بھی اچھی باتیں کیا کرو اور پھر ان لوگوں کے لیے دعا بھی کرو کہ وہ بھی نیک لوگ ہو جائیں۔ دوستوں کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے کہ اچھے نیک لوگ ہوں۔

پھر ایک طفل نے حضور انور سے پوچھا کہ وہ اپنے غصہ پر کیسے قابو پائے؟

حضورِ انور نے فرمایا کہ جب تمہیں غصہ آئے تو ٹھنڈا پانی پی لیا کرو اور بیٹھ جایا کرو تاکہ تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو اور کم ہو جائے۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کیاکرو کہ وہ تمہارے غصہ کو دور کردے اور اس طرح تم پُر سکون ہو جاؤ گے۔ تمہیں غصہ آئے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی شروع کر دیا کرو۔

اس ملاقا ت کے اختتام پر صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے حضورِ انور سے دعا کی درخواست کی کہ ہماری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ دن لے کر آئے کہ ہم پہلے کی طرح حضرت صاحب کو جرمنی میں بھی اور خود آ کے بھی حضور سے براہ راست بھی ملاقات کر سکیں۔

حضور انور نے فرمایا انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ کرے۔ اللہ کرے وہ دن آئیں، جلدی آئیں اور دعا بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کے بھی حق ادا کرو، بندوں کے ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اطفال الاحمدیہ کی بھی، خدام الاحمدیہ کی بھی تربیت کرنے کی توفیق دے ۔ نیک راستوں پہ چلنے والے ہوں، نیکیوں پہ قائم رہنے والے ہوں۔ اللہ حافظ وناصر ہو۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button