جلسہ سالانہ یوکے 2021ء کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ چند مبارک لمحات (قسط دوم۔ آخری)
بعض سائنسدانوں کے نزدیک یہ وبا 2022ء تک جاری رہے گی۔ واللہ اعلم۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ یہ جلد ختم ہوجائے۔
عامر سفیر: حضور میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ جن اجلاسات میں حضور انور بنفس نفیس شامل تھے ان میں نظم پڑھنے والے عموماً نوجوان تھے بنسبت ان اجلاسات کے جن میں حضور انور موجود نہیں تھے وہ احباب عموماً بڑی عمر کے تھے اور پرانے نظمیں پڑھنے والے تھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:اس بار میں نے نوجوانوں کو ان اجلاسات کے لیے منتخب کیا جن میں مَیں موجود تھا۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ ایک ہی مصرع کو ایک سے زیادہ مرتبہ نہ دہرانا۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ طریقہ کار پسند نہیں آیا۔ لیکن اس کے باوجود مردوں اور عورتوں کی طرف میں نے پرانے نظم پڑھنے والوں کی جگہ نوجوانوں کو لیا تھا۔
عامر سفیر: حضور اِس مرتبہ منیرعودہ صاحب کو بھی کافی لمبے عرصے کےبعد قصیدہ پڑھنے کا موقع ملا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:ہاں۔ اس نے قصیدہ پڑھنے کے بعد کیا محسوس کیا اور اس کے کیا جذبات تھے؟
عامر سفیر: حضور! انہوں نے بتایا کہ انہیں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ گویا ان کا دل پھٹنے لگا ہے اور وہ حضور انور کی موجودگی میں بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ منیر عودہ صاحب نے بتایا کہ جب وہ سٹیج پر تھے تو ان کے لیے ان جذبات کا بیان بھی ناممکن ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:منیر عودہ نے بہت اچھا قصیدہ پڑھا تھا۔
عامر سفیر: حضور! عرصہ دراز کےبعد مولانا فیروز عالم صاحب کی اذان سن کر بہت سے لوگ جذباتی ہو گئے تھے۔ ان کو بالکل ایسا محسوس ہونے لگا کہ حالات معمول کی طرف جا رہے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: تم نے گذشتہ جمعہ پر نہیں دیکھا؟ میں نے فیروز عالم صاحب کو مسجد مبارک میں اذان دینے کے لیے کہا تھا۔ میں نے اس لیے انہیں اذان دینے دی کیونکہ بہت سے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ ان کی اذان سن کر وہ بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ اس لیے میں نے انہیں دوبارہ اذان دینے دی تا لوگ ایک دفعہ پھر خوش ہو جائیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:میری نواسی (یسریٰ ڈاہری) نے بھی نظم کی شکل میں جلسے کے بارے میں اپنے جذبات لکھے ہیں۔
عامر سفیر: حضور اگر اجازت ہو تو ہم اس نظم کو شائع کرنا چاہیں گے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:(چونکہ نظم لجنہ Blog پر پہلے ہی شائع ہو چکی ہے) لہٰذا لجنہ کے پاس اس کا copyright ہے۔ صدر لجنہ سے پوچھ لو اگر وہ اجازت دے دیں تو شائع کر لو۔
عامر سفیر:حضور! اب جبکہ احبابِ جماعت نے جلسے پر حضور انور کے دیدار کی توفیق حاصل کی ہے۔ مستقبل میں وہ حضور انور کا دیدار کس طرح کر پائیں گے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:اب دوبارہ virtual ملاقاتیں شروع ہو رہی ہیں۔ ابھی گذشتہ ہفتہ اور اتوار کو ہی دو virtual ملاقاتیں ہوئی ہیں بشمول ڈنمارک کے خدام کے۔ تو اب This Week With Huzurدوبارہ سے شروع ہو جائے گا۔ لوگ بڑی بے تابی سے پروگرام کا انتظار کرتے ہیں۔ تو اب یہ دوبارہ شروع ہوگا تو اس کے ذریعے سے لوگ مجھے دیکھ سکیں گے اور رابطہ بھی قائم رکھ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہم نے خدا کا بھی شکر ادا کیا ہے اور میں نے بھی تمام کارکنان کا اپنے خطبہ میں شکریہ ادا کیا ہے اور اب ہم اگلی تقریب کی جانب بڑھیں گے۔
عامر سفیر: پیارے حضور یہ ہم سب کے لیے ایک سبق ہے۔ ہم اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں اور ایک ہی جگہ ٹھہر جا تے ہیں جبکہ حضور انور ہمیں ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ ہمیں آگے قدم بڑھانا چاہیے اور ایک ہی جگہ نہیں ٹھہر جانا چاہیے۔
عامر سفیر: میں حضورِ انور کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں اور جزاکم اللہ احسن الجزاء کہنا چاہتا ہوں کہ ایک خطاب کے دوران جب حضور انور نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تمام مترجمین کے لے ایک طبی اصطلاح کی انگریزی میں وضاحت فرمائی کہ وہ مرض گاؤٹ یا شیاٹیکا کہلاتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:میں نے پہلے گاؤٹ کہا تھا پھر شیاٹیکا کہا۔ میرے خیال میں اسے شیاٹیکا ہی کہتے ہیں یعنی لنگڑی کا درد یا عِرق النساء ہے۔
عامر سفیر: حضور خاکسار یہاں اپنے جذبات کو بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس مرتبہ جلسے پر مجھے حضورِ انور کے خطابات کا معمول سے زیادہ ترجمہ کرنا پڑا کیونکہ مکرم امام صاحب کے پاس بطور افسر جلسہ گاہ اضافی ذمہ داریاں تھیں۔ حضور میں امید کرتا ہوں کہ میں نے حضور انور کو مایوس نہیں کیا ہو گا لیکن میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ میں ترجمہ کیسے کر پاتا ہوں تو میں انہیں اتنا کہتا ہوں کہ یہ صرف حضورِ انور کی ٹریننگ تھی جس نے مجھے کسی چیز کے قابل بنایا اور حضور انور نے مجھے الفاظ سکھائے اور میری تربیت کی جبکہ میں اردو بالکل نہیں جانتا تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:جب لوگ تم سے پوچھیں کہ کس طرح ترجمہ کرتے ہو، تو انہیں کہا کرو جس طرح وکیل اعلیٰ نے تمہیں ’’یاد کیا‘‘ اسی طرح ہم نے ایک دوسرے کو ’’یاد کیا‘‘ اور اس طرح تم نے اردو سیکھ لی۔
تم عام طور پر مجھے انگریزی میں لکھتے ہو اور مَیں تمہیں اردو میں جواب دیتا ہوں۔ اس سے میری انگریزی بہتر ہوتی ہے لیکن میں تمہیں اردو میں جواب دیتا رہوں گا تا کہ تمہاری اردو اچھی ہو۔ عام طور پر جب تم مجھے میری تقریروں کا ترجمہ فائنل کر کےبھیجتے ہو تو میں اس کے مختلف حصوں کو چیک کرتا ہوں نہ کہ لفظ بلفظ کیونکہ سارا کچھ چیک کرنا ممکن نہیں۔ اسے اردو میں جستہ جستہ مطالعہ کرنا کہتے ہیں یعنی کہیں کہیں سے پڑھنا۔ میں اس کے کچھ حصوں کو چیک کرتا ہوں اور باقی چھوڑ دیتا ہوں اور اس پر بھروسہ کرتا ہوں کہ تم نے ترجمہ صحیح کیا ہو گا۔ تم نے عابد کے تراجم دیکھے ہیں؟
(نوٹ: اس موقع پر حضورِ انور نے ازراہِ تفنّن خاکسار کے ساتھ پیش آمدہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خاکسار جب محترم چودھری حمید اللہ صاحب (مرحوم) وکیلِ اعلیٰ تحریکِ جدید کے زیرِ نگرانی اردو سیکھنے کے لیے پاکستان گیا تو ایک شام پیغام ملا کہ ’’محترم وکیلِ اعلیٰ صاحب یاد فرما رہے ہیں۔ ‘‘ خاکسار چونکہ اس محاورے کو نہ سمجھتا تھا کہ اس کا مطلب ’’وکیل اعلیٰ صاحب بلا رہے ہیں ‘‘ ہے اس لیے ’’جزاک اللہ ‘‘ کہا اور کمرے میں ہی رہا۔ چند منٹ بعد وہی کارندہ یہی پیغام لے کر آیا۔ خاکسار نے پھر جزاک اللہ کہا اور کمرے میں بیٹھا رہا۔ یہی پیغام جب تیسری مرتبہ خاکسار کو ملا تو خاکسار کو بڑی خوشی ہوئی کہ وکیلِ اعلیٰ صاحب مجھ سے کتنی شفقت کا سلوک رکھتے ہیں کہ مجھے اس قدر یاد کر رہے ہیں۔ جب چوتھی دفعہ وہ دوست یہ پیغام لے کر آئے تو انہوں نے وضاحت کی کہ ’’وکیلِ اعلیٰ صاحب آپ کو دفتر میں بلا رہے ہیں ‘‘۔ اس پر خاکسار وکیلِ اعلیٰ صاحب کے پاس حاضر ہو گیا۔ حضورِ انور اس لطیفے سے بہت محظوظ ہوئے۔ اس جگہ بھی حضورِ انور کی مراد یہ ہے کہ اردو تراجم کے لیے خاکسار کی محترم وکیلِ اعلیٰ صاحب اور پھر سب سے بڑھ کر ازراہِ شفقت حضورِ انور نے تربیت کی ہےاور اللہ کے فضل سے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے)
عامر سفیر:جی حضور میں نے انہیں پڑھا ہے اور اکثر جب میں ان کے تراجم کو دیکھتا ہوں جو انہوں نے پریس ریلیز کے لیے کیے ہوتے ہیں جن میں حضور انور کے اردو خطابات میں سے اقتباسات کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہوتا ہے جو بہت معیاری ہوتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ گویا میرے ترجمے سے کہیں عمدہ ترجمہ ہے!
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:عابد نے رواں ترجمہ کرنا بھی سیکھ لیا ہے جب میں اسے لکھواتا ہوں۔ وہ اچھا ترجمہ کر لیتا ہے۔
عامر سفیر: حضور میں نے بھی اس کا ذاتی طور پہ مشاہدہ کیا ہے جبکہ شروع میں حضورِ انور نے مجھے بہت سے ایسے مبارک مواقع عطا فرمائے کہ میں عابد کے ہمراہ حضور انور کے ساتھ ملاقات کے لیے آتا تھا اور میں نے خود دیکھا ہے کہ حضورِ انور نے عابد کی کس طرح تربیت فرمائی ہے۔
عامر سفیر: حضور کے نزدیک یہ عالمی وبا کب ختم ہو گی اور حالات کب معمول کی طرف لوٹیں گے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: مجھے نہیں معلوم تاہم بعض سائنسدانوں کے نزدیک یہ وبا 2022ء تک جاری رہے گی۔ واللہ اعلم۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ یہ جلد ختم ہوجائے۔
عامر سفیر: ہم نے حضور انور کی باریک بینی کو دیکھا ہے اور اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ حضورِ انور نے جماعت کے مختلف شعبہ جات میں بہت سے لوگوں کی اس طرح تربیت فرمائی ہے۔ حضور انور نے خاص طور پر نوجوانوں کے ساتھ گذشتہ پندرہ سالوں میں اتنا وقت گزارہ ہے۔ حضور انور نے ان کی تربیت کی، انہیں غلطیاں کرنے دیں، انہیں اپنے اندر بہتری پیدا کرنے کے مواقع فراہم کیے، ان کی راہ نمائی فرمائی اور قدم قدم پہ ان کے لیے دعائیں کیں۔ میں نے تو اس بات کا ذاتی طور پہ تجربہ کیا ہے کہ حضور انور نے میری اور بہت سے دیگر افراد کی بھی راہ نمائی فرمائی۔ حضور انورنے بہت سے نوجوان مربیان کی ٹریننگ کی جو اَب ذمہ داری والے عہدوں پر فائز ہیں۔ لیکن حضورِ انور کبھی بھی اپنے لیے تعریف قبول نہیں کرتے اور کسی بھی مقصد یا کامیابی کے حصول پر دوسروں کی ہی تعریف فرماتے ہیں !
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میں نے کیا کِیا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے کام ہیں! آج کل میں باقاعدگی سے جامعہ کی شاہد کلاس کے ساتھ مسجد میں بیٹھتا ہوں اور ان کی ذاتی طور پر تربیت کر رہا ہوں۔ انہوں نے میرے ساتھ اپنا کورس مکمل کر لیا ہے اور اب میں اگلی کلاس کو پڑھاؤں گا۔
عامر سفیر:حضورِ انور نے اس جامعہ کلاس کوہر ہفتے وقت دے کرکیا مشاہدہ فرمایا ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:مجھے اندازہ ہوا ہے کہ جامعہ میں انہیں کتنی زیادہ تعلیم مہیا کی جا رہی ہے۔
عامر سفیر:حضور انور کی اجازت کے ساتھ میں اسلام آباد کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ بہت سے لوگوں نے ایم ٹی اے نیوزپرپیارے آقا کو بچوں کے پارک کا افتتاح کرتے ہوئے دیکھا۔ حضورِ انور، ساتھ ہی لوگوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ آیا جب وہ اسلام آباد آئیں تو اپنے بچوں کو اس پارک میں لا سکتے ہیں یا نہیں؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:اگر مقامی رہائشی انہیں استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں تو وہ استعمال کر سکتے ہیں۔
عامر سفیر:حضورِ انور کے نزدیک کیا عنقریب شام کے وقت فیملی اور انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ ممکن ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:ابھی بھی بعض اوقات یوں ہوا ہے کہ باہر سے لوگ جن کو ویکسین کے دونوں ٹیکے لگ چکے ہیں مجھ سے یہاں ملاقات کرنے آئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے مجھ سے ذاتی طور پر ملاقات کی ہے۔ گو ابھی ملاقاتوں کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع نہیں ہوا تاہم اگر کسی نے مجھ سے اجازت مانگی ہے تو میں بعض اوقات لوگوں کو اجازت دے بھی دیتا ہوں کہ مجھ سے آکر ملاقات کر لیں اور وہ آئے بھی ہیں۔
عامر سفیر:حضور میں نے اسلام آباد آکر ایک نئی چیز نوٹ کی ہے کہ یہاں سڑکوں کو نام دیے گئے ہیں مثلاً تاج دین روڈ، مجیدہ روڈ، حلمي الشافعي روڈ، مصطفیٰ ثابت روڈ، رضا سٹریٹ، محمود ایوینیو اور صدر ایوینیو وغیرہ۔ حضور ان ناموں کا انتخاب کیسے کیا گیاتھا؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:یہ تمام وہ افراد ہیں جو اسلام آباد میں ایک لمبا عرصہ قبل رہاکرتے تھے یا جن کی اسلام آباد کے لیے بہت خدمات ہیں۔ ان لوگوں کی ایک فہرست تیار کی گئی تھی جو ایک خاص معیار پر پورا اترتے تھے۔ پھر میں نے خود نام چنے، تب یہ نام یادگار کے طور پر طے پائے۔ میں نے مختلف لوگوں کا انتخاب کیا جن میں کچھ عرب اور چند دوسرے احباب بھی شامل ہیں۔
عامر سفیر: حضور، میں نے کچھ دیگر تبدیلیوں کے بارے میں سنا ہے جو عنقریب واقع ہوں گی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:مجلس خدام الاحمدیہ ایک چھوٹی سی ٹک شاپ بنا رہی ہے۔ یہ شروع میں ہی کونے پر جو عمارت موجود ہے اس میں ہو گی جہاں پر صرف کچھ ہلکی پھلکی کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ مہیا ہوں گی۔ بس یہی ہے۔ کسی وقت ایک بُک شاپ بھی کھل جائے گی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:تمہاری بیگم کا کیا حال ہے؟ اس کا حال ہی میں حمل ضائع ہو گیا تھا۔ کیا وہ اس صدمہ سے باہر آ گئی ہے؟
عامر سفیر:حضورانور کی دعاؤں سے اب اس کی طبیعت بہت بہتر ہے، الحمدللہ۔ گو اسے ابھی کچھ تکلیف تو ہے لیکن صورت حال پہلے سے بہتر ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:اسے صندلین دو۔ یہ ایک دیسی نسخہ ہے۔ اسے یہ مستقل دو۔ اسی طرح حمل کے دوران لگاتار caulophyllum 200x دو۔ اللہ تعالیٰ اسے شفا عطا کرے۔
عامر سفیر:حضور انور کی اجازت سے ایک ہلکا پھلکا واقعہ بتانا چاہتا ہوں۔ میرے سات سالہ بیٹے نے 20 پینس کے ایک سکے کو نگل لیا تھا۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ وہ ازخود ہی نکل جائے گا۔ اگر چند دن تک نہ نکلا تو ممکن ہے کہ انہیں اینڈوسکوپی یا کسی قسم کا آپریشن کرنا پڑے۔ حضورِ انور سے دعا کی درخواست ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ سات سال کی عمر میں اس بات پر مصر تھا کہ میں حضورِ انور کی خدمت میں خط لکھوں یہاں تک کہ جب ہم ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پہنچے تو وہ یہی کہتا جا رہا تھا ’’کیا آپ نے حضور انور کی خدمت میں دعا کے لیے لکھ دیا ہے؟ ‘‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:جب میں چھوٹا بچہ تھا تو میں نے ایک انگور کی شکل جیسا لوہے کا گول ٹکڑا منہ میں ڈالا اور اسے نگل لیا۔ شکر ہے کہ سانس بند نہیں ہوا اور نہ ہی وہ میرے گلے میں پھنسا بلکہ سیدھا میرے معدے میں چلا گیا۔ والد صاحب نے ہر ممکنہ کوشش کی کہ وہ کسی طرح نکل آئے۔ مجھے الٹا سیدھا کیا۔ قے کرنے کو کہا تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا وہ نکلا بھی ہے کہ نہیں۔ اب اس واقعہ کو 60 سال یا شاید 65 سال گزر چکے ہیں۔ یہ ربوہ میں میرے بچپن کی بات ہے۔ امید ہے کہ وہ چھوٹا سا ٹکڑا اب وہاں موجود نہیں ہو گا۔
٭…٭…٭
نوٹ: اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک سے استفادہ کیجیے:
SPECIAL FEATURE: Blessed personal moments with Huzur after Jalsa Salana UK 2021
(اردو ترجمہ: انصر بلال انور۔جرمنی، بشکریہ ریویو آف ریلیجنز)